رہنما کیسا ہونا چاہیے ہے ۔

جہانزیب

محفلین
پاکستان میں موجودہ حالات پر عوام کی طرف سے جیسا اختجاج ہونا چاہیے ہے، ویسا کچھ نظر نہیں آ رہا ہے ۔ حالانکہ جتنے عوامی پول ہیں سب میں ایک بات صاف ہے کہ عوام میں مشرف کی مقبولیت نہیں ہے ۔ اگر مشرف جیسا نا مقبول حکمران ایک انتہائی نا معقول اور غیر مقبول فیصلہ کرتا ہے تو عوام باہر کیوں نہیں نکلتے ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ روٹی روزی کے مسائل ہی اتنے ہیں کہ عام آدمی کو اُن سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمارے پاس تیسری دنیا کے ممالک میں وینزویلا کی مثال موجود ہے، جہاں عوام نے شاویز (جو کہ امریکیوں کے بقول انتہائی غیر مقبول ہے) کو فوج کی طرف سے ہٹائے جانے کے بعد اختجاج کر کے فوج کو واپس جانے پر مجبور کر دیا تھا ۔
میرے خیال میں پاکستان میں ایسا صرف نام نہاد سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ہے، جو کہ اتنی تر نوالہ و ہم پیالہ ہیں کہ ایک کو شہ دے دو کہ اقتدار میں حصہ داری ہو گی، تو اُن کا سب اختجاج ختم۔ اور اختجاج اگر ہے بھی صرف اسی لئے کہ اس ذریعہ سے حکومت میں حصہ ڈالا جائے ۔ دوسرے الفاظ میں ہماری سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اصولی کی بجائے حکمرانی کے لئے زیادہ ہوتی ہے ۔
آپ کا کیا خیال ہے، ایک رہنما کیسا ہونا چاہیے ہے؟ میرے خیال میں ایک رہنما میں کوئی زیادہ نہیں صرف چند خوبیاں ہونی چاہیے ہیں، جو عموماً سیاسی اشتہارات میں لکھی ہوتی ہیں ۔
دیانت، مطلب جس کو کوئی ذاتی لالچ نہیں ہو ۔
با اصول، جس کے پاس ایک لائحہ عمل موجود ہو، اور حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں وہ اِس سے پیچھے نہ ہٹے ۔
بالغ نظری، جِس کی حالات پر اچھی نظر ہو۔

میرے خیال میں یہ تین بنیادی چیزیں لازمی ہیں، اس کے علاوہ باقی بہت سی ضمنی باتیں بھی ہو سکتی ہیں ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ جہانزیب۔
میرے ذہن میں ایک شخصیت تو عمران خان کی ہے۔ اگر اسے عوامی سیاست کرنی آجائے تو اس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا۔
ایک اور امکان خوداعتزاز احسن کے بحالی جمہوریت تحریک کی قیادت سنبھال لینے کا ہے لیکن اعتزاز احسن پیپلز پارٹی اور بے نظیر سے وفادار ہے۔ بے نظیر اور دوسری پیپلز پارٹی کی قیادت کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ پارٹی کارکنوں کی قربانیوں کا ثمر اٹھانے آگے آجاتے ہیں۔
جہاں تک مذہبی جماعتیں ہیں تو وہ بھی اس وقت ملکی سیاست میں اتنا ہی مکروہ کردار ادا کر رہی ہیں جتنا کہ پیپلزپارٹی ادا کر رہی ہے۔ فضل الرحمن کی واحد ترجیح نگران سیٹ اپ میں اہمیت حاصل کرنا باقی رہ گیا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اعتزاز احسن اور جاوید ہاشمی کے پاس وقت اور موقع تھا لیکن لیڈر پرستی کا بھلا ہو کہ یہ بھی کام سے گئے
 
گراونڈ رئیلٹی کو دیکھیں‌تو فی الوقت لیڈر بے نظیر ہی ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ہے۔ مقامی طور پر اس کی پارٹی کی جڑیں گاوں‌کی سطح تک ہے۔ اور بہترین پلانر ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ فوجی پروپیگنڈا ، متعصب اسٹیبلشمنٹ اور کچھ گندے انڈوں‌کی وجہ سے کرپشن کے الزامات ہیں۔ مگر یہ الزام صرف سیاسی عمل کے تسلسل سے ختم ہوجائیں گے۔ پاکستانیوں‌کو سیاسی عمل کے تسلسل اور شفاف ہونے پر زور دینا اور جدوجہد کرنی چاہیے۔ یقین کریں‌کچھ ہی عرصہ میں‌عوام کے احتساب سے سیاست کرپشن سے پاک ہوجائے گی اور حقیقی قیادت بھی ابھرے گی۔
سیاسی عمل کا تسلسل اور اس کا وقت کے ساتھ شفاف ہونا اصل میں‌ مسئلے کا حل ہے۔فی الوقت عوام کو جینئون قیادت کے لیےکام کرنا چاہیے چاہے نظریاتی طور پر ہم اس سے متفق نہ ہوں اور چاہے اس پر کرپشن کے الزام کا پروپیگنڈہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح سیاسی عمل کا تسلسل قائم ہوسکے گا۔
دوسرا مسئلہ اس عمل کا شفاف ہونا ہے۔ جاگیر دار اور فوجی ملی بگھت سے انتخابات انجییرڈ ہوتے ہیں اور اصل سیاسی لوگوں کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔عوام کو جاگیردارنہ اور فوجی ایجنٹوں‌پر نظر رکھنی پڑے گی اور ان کے خلاف مسلسل کام کرنا ہوگا۔
اگر یہ دو کام نہیں‌ہوںگے تو شاید حالات میں‌بہتری نہ ہو۔
 

فرضی

محفلین
ہمت بھائی شاید دو ادوار میں لوٹ کھسوٹ میں کوئی کثر باقی رہ گئی ہے بی بی سے۔۔۔۔۔۔ شاید اس دفعہ پوری ہوجائے۔۔ مجھے تو مشرف اور بی بی ایک ہی سکے کے دو رخ لگتے ہیں۔۔ دونوں امریکی غلام۔۔۔ بی بی بھی صرف امریکی ایجنڈے کو آگے لے جانے کے لیے آرہی ہے۔
 
ہمت بھائی شاید دو ادوار میں لوٹ کھسوٹ میں کوئی کثر باقی رہ گئی ہے بی بی سے۔۔۔۔۔۔ شاید اس دفعہ پوری ہوجائے۔۔ مجھے تو مشرف اور بی بی ایک ہی سکے کے دو رخ لگتے ہیں۔۔ دونوں امریکی غلام۔۔۔ بی بی بھی صرف امریکی ایجنڈے کو آگے لے جانے کے لیے آرہی ہے۔

تو یوں‌ کہیں‌کہ اپ کو امریکی ایجنڈے سے اختلاف ہے۔ مگر یہ ایجنڈا تو پاکستان کے ہر حکمران کا ایجنڈا ہے۔ اگر اپ کو امریکی ایجنڈے کے خلاف کام کرنا ہے تو پھر تو فوج اور جاگیرداری سسٹم کے خلاف ہی کام کرنا پڑے گا جو امریکی ایجنڈے کی پاکستان میں‌تکمیل کی محرک ہیں۔ فوج اور جاگیر دارانہ سسٹم کے خلاف کام کرنے کا ایک طریقہ تو تشدد اور جہاد بالسیف کا طریقہ ہے۔اس طریقہ جو کہ کچھ حالتوں میں‌افغانستان اور عراق میں جاری ہے کو اختیار کرنے سے پاکستان کا حشر بھی وہ ہی ہوسکتا ہے جو ان دو مذکورہ ممالک کا ہورہا ہے۔ پاکستان میں فساد پھیل سکتا ہے اور اس کا فائدہ خود امریکہ اٹھاسکتا ہے۔
دوسری صورت جہموری جدوجہد ہے۔ افہام و تہفیم کا طریقہ ہے۔بتدریج تبدیلی کا طریقہ ہے ۔ کمپرومائز کا طریقہ ہے۔ یہ استعمال کرنے کے لیے ایک اچھی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جس کی عوام میں‌شنوائی بھی ہو۔ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ملک کی بہتری اس میں‌ہے کہ بغیر کسی بڑے ڈیزاسٹر کے صورت حال وانڈ اپ ہوجائے۔
اس صورت میں‌ پی پی پی کے طرف دیکھنے کے بجائے کیا اور صورت ہے؟
 
پی پی کی طرف دیکھنے کی بجائے وکلا اور میڈیا کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے جو فی الحقیقت قربانیاں دے بھی رہے ہیں اور ہمارے حقوق کے لیے لڑ بھی رہے ہیں۔ بد دیانت اور نااہل لوگوں کی طرف دیکھنے اور پھر ان کی کرتوتوں کی وجہ سے بعد میں حددرجہ مایوس اور لاتعلق ہونے سے بچنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ابھی اے پی ڈی ایم بھی قائم ہے جس کا کم از کم موقف تو اصولی ہے ، عمران خان بھی ہے جس پر بد دیانتی یا امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کا کوئی الزام نہیں ہے تو پھر

کیوں اپنے گلے میں بی بی کا طوق پہنا جائے اور اسے امید کی کرن قرار دے کر گہری مایوسی کو اپنی تقدیر بنایا جائے ، اسی طرز عمل کی وجہ سے قوم حد درجہ مایوس اور لا تعلق ہو چکی ہے ۔ اس روش کو دفن کرنا ضروری ہے۔
 
پی پی کی طرف دیکھنے کی بجائے وکلا اور میڈیا کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے جو فی الحقیقت قربانیاں دے بھی رہے ہیں اور ہمارے حقوق کے لیے لڑ بھی رہے ہیں۔ بد دیانت اور نااہل لوگوں کی طرف دیکھنے اور پھر ان کی کرتوتوں کی وجہ سے بعد میں حددرجہ مایوس اور لاتعلق ہونے سے بچنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ابھی اے پی ڈی ایم بھی قائم ہے جس کا کم از کم موقف تو اصولی ہے ، عمران خان بھی ہے جس پر بد دیانتی یا امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کا کوئی الزام نہیں ہے تو پھر

کیوں اپنے گلے میں بی بی کا طوق پہنا جائے اور اسے امید کی کرن قرار دے کر گہری مایوسی کو اپنی تقدیر بنایا جائے ، اسی طرز عمل کی وجہ سے قوم حد درجہ مایوس اور لا تعلق ہو چکی ہے ۔ اس روش کو دفن کرنا ضروری ہے۔
یہی وہ نقطہ ہے جس کی طرف میں کئی دنوں سے توجہ دلارہاہوں‌کہ فوجی پروپیگنڈا مشین لوگوں‌کو سیاست دانوں‌سے متنفر کرکے سیاسی عمل سے لاتعلق کردیتا ہے۔ پھر عوام سیاسی کاز کے لیے میدان عمل میں‌نہیں‌اتے جیسا کہ اب نظر ارہا ہے۔
پہلے ہم کو فوجی ایجنٹ سیاسی تنظیمیں اور حقیقی سیاسی تنظیموں‌ میں تمیز کرنی پڑے گی پھر حقیقی سیاسی تنظیموں کا ساتھ دینا پڑے گا۔ سیاسی عمل کا تسلسل اور شفافیت ہو تو مایوسی دور ہوجائے گی۔
وکلا کی کوششیں‌اپنی جگہ مگر ان کی افادیت بھی جب ہی ہوگی جب وہ وسیع سیاسی جدوجہد کے پس منظر اور حمایت میں‌ہو۔ یہ بات طلبہ کے لیے بھی درست ہے۔
 

جہانزیب

محفلین
گراونڈ رئیلٹی کو دیکھیں‌تو فی الوقت لیڈر بے نظیر ہی ہے۔ وہ بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ہے۔ مقامی طور پر اس کی پارٹی کی جڑیں گاوں‌کی سطح تک ہے۔ اور بہترین پلانر ہے۔
ہمت علی میں پاکستان میں پنجاب میں ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں، اور ہمارا گھر علاقائی سیاست میں ہمارے علاقے میں جانا پہچانا ہے ۔اور میرے خیال میں پاکستان میں گاؤں کی سطح تک کسی بھی سیاسی جماعت کی جڑیں نہیں ہیں، پنجاب میں یہ جڑیں برادری کی مرہون منت ہیں اور باقی علاقوں میں بھی میرا خیال ہے ایسا ہی ہے، تو ہماری سیاسی جماعتوں کا سارا زور الیکشن میں یا الیکشن کے بعد اُن برادریوں کے بڑوں کو اپنے ہاتھ میں کرنا ہوتا ہے، اور بشمول پیپلزپارٹی ساری جماعتیں، انہیں پر اپنا زور صرف کرتی ہیں۔
دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ بھی عوامی طرح کی سیاست ہے، لیکن اس کا عوام سے تعلق ہے ہی نہیں، پیپلز پارٹی سمیت ہر جماعت صرف چودہریوں کی بیٹھکوں میں سیاست کرتی ہے
 

جہانزیب

محفلین
ہمت علی بھائی، میں نے اوپر کہا تھا کہ اصولی سیاست، حکمرانی کے لئے سیاست نہیں۔ جب کہ بے نظیر حکمرانی کے لئے سیاست کر رہی ہے، اگر اصولوں کی سیاست کرتی تو جب پاکستان بھر کی تمام جماعتیں آمریت کے خلاف اکھٹی ہونے جا رہی تھیں، تو اصولاً بے نظیر کو اُن کا ساتھ دینا چاہیے تھا جو انہوں نے نہیں دیا، کیونکہ اُس میں اقتدار کی ضمانت نہیں تھی جو مشرف کے ذریعے بے نظیر کو حاصل ہو رہی تھی ۔
اور ویسے پیپلزپارٹی کا صرف نام پیپلز پارٹی ہے، بھرے سب کے سب اس میں بھی وڈیرے ہیں۔ ویسے بھی بی بی ڈرائنگ روم سیاست میں ماہر ہیں، اور وہ اپنی الیکشن مہم کامیابی سے چلا کر ہی گارنٹی لے کر پاکستان وارد ہوئی ہیں، ہاں اپنی اس امریکہ اور انگلینڈ یاتراؤں میں انہوں نے بہت سی ایسی باتیں کہی ہیں جو شائد پاکستان میں عوامی سطح پر قابل قبول نہیں ۔
 

اظہرالحق

محفلین
میرے خیال میں اس وقت کوئی بھی بندے کا پُتر (یا پُتری) لیڈر نہیں ، اور نہ کسی کو لیڈ (رہنمائی ) کرنی آتی ہے ، میرے خیال میں جیسا پرانے وقتوں میں ہوتا تھا کہ جب بادشاہ مر جاتا تھا اور کوئی اور بادشاہت کے قابل نہیں ہوتا تھا ، تو شہر کے دروازے سے سب سے پہلے داخل ہونے والے کو بادشاہ بنا دیا جاتا تھا ، ہمیں بھی ایسا ہی کچھ کرنا پڑے گا ۔ ۔ ۔ لیڈر ڈھونڈنے کے لئے

میرے خیال میں اس وقت وہ ہی صحیح راستے پر قوم کو لے جا سکتا ہے ، جو بازار میں بنا کسی محافظ کے گھوم سکتا ہو ۔۔ ۔جو عوام میں رہتا ہو ۔۔۔ اور لوگ اسکی بنا کسی حیل حجت کے عزت کرتے ہوں ۔ ۔ ۔جیسے انصار برنی ، ایدھی ۔ ۔ ۔وغیرہ مگر یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ ۔۔ ۔ اقتدار کا نشہ ۔ ۔ ۔ کہیں ۔ ۔ ۔ اسے کچھ سے کچھ نہ بنا دے ۔ ۔ ۔
 
ہمت علی میں پاکستان میں پنجاب میں ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں، اور ہمارا گھر علاقائی سیاست میں ہمارے علاقے میں جانا پہچانا ہے ۔اور میرے خیال میں پاکستان میں گاؤں کی سطح تک کسی بھی سیاسی جماعت کی جڑیں نہیں ہیں، پنجاب میں یہ جڑیں برادری کی مرہون منت ہیں اور باقی علاقوں میں بھی میرا خیال ہے ایسا ہی ہے، تو ہماری سیاسی جماعتوں کا سارا زور الیکشن میں یا الیکشن کے بعد اُن برادریوں کے بڑوں کو اپنے ہاتھ میں کرنا ہوتا ہے، اور بشمول پیپلزپارٹی ساری جماعتیں، انہیں پر اپنا زور صرف کرتی ہیں۔
دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ بھی عوامی طرح کی سیاست ہے، لیکن اس کا عوام سے تعلق ہے ہی نہیں، پیپلز پارٹی سمیت ہر جماعت صرف چودہریوں کی بیٹھکوں میں سیاست کرتی ہے

مسئلے کے سرے ملتے جارہے ہیں‌اور بہت اچھا ہے کہ یہ اپ لوگوں کی طرف سے ہی ارہے ہیں۔
میں‌نے ایک دوسرے تھریڈ میں عرض کی تھی کہ مسئلے فوج اور جاگیر دارنہ نظام کی پیداوار ہے۔ یہ دونوں‌قوتیں‌پاکستان کے عوام کے حقوق دبا کر بیٹھ گئی ہیں‌اور وسائل کی منصفانہ تقسیم میں‌بھی رکاوٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تمام ذرائع ہونے کے باوجود بھی غربت کا شکار ہے۔
یہ دونوں‌قوتیں‌نہ صرف متحد ہیں‌بلکہ اتنی سفاک ہیں‌کہ اپنے مفاد کی خاطر ملک کے دو ٹکڑے کرنے، اپنی ملک کی افواج و سائل کو سپر پاور کے حوالے کرنے اور ائینِ پاکستان کی بے حرمتی کر نے میں‌کوئی عار نہیں‌سمجھتیں۔
انھوں نے اپنے ایجنٹز ہر جگہ پلانٹ کیے ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں، نیوز ایجنسیوں، یونی ورسٹیوں ، طلبہ و وکلا تنظیمیں وغیرہ غرض ہر جگہ۔
یہ صورت حال کو اپنے خلاف ہونے سے پہلے ہی اس کو ایکسپلائٹ کرکے اپنے موافق کرتی رہتی ہیں۔

یعنی یہ سسٹم جو پاکستان میں‌ہے درحقیقت عوام کے خلاف ہے۔

اس سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ مگر یہ کرے گا کون۔ ان قوتوں‌ (فوج اور جاگیر دار) نے عوام کو تقسیم در تقسیم کرکے رکھا ہوا ہے۔ قومیتوں‌کی تقسیم، مسالک و مذاہب کی تقسیم، برادریوں‌کی تقسیم، طبقات کی تقسیم غرض تقسیم در تقسیم۔ اس طرح عوام کبھی بھی ایک مقصد کےلیے متحد نہیں‌ہوسکتے۔
لہذا عوام کو صورت حال سمجھنا پڑے گی۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کمپرومائز کرنی پڑے گی اور بتدریج تبدیلی کی طرف قدم اٹھانے پڑیں‌گیں۔ اس سیاسی پارٹی کو قبول کرناپڑے گا جو واقعی عوام میں‌ زیادہ مقبول ہے اور جس کے پاس کوئی تبدیلی کا ایجنڈا بھی ہے۔
سیاسی عمل کو تسلسل دینا پڑے گا تاکہ قیادت کا عوامی احتساب ہوتا رہے اور بہتری کی طرف صورت بنتی رہے۔

پاکستان میں‌نظری طور کوئی کام نہیں‌ہوا جس کی وجہ سے عوام تیار ہوکہ سڑک پر نکل کر انقلابی اقدام اٹھاسکیں۔ عوام سڑکوں‌پر نہیں ائیں‌گی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں‌کا فوج نے بیڑہ غرق کردیا ہے۔
ایسا کوئی کام نہیں ہوا جیسا کہ ایران میں‌ ڈاکٹر علی شریعتی اور ایت اللہ منتظرمطہری وغیرہ نے کیا تھا۔ اس کھیت میں‌حل ہی نہیں‌چلا تو فصل کیسے ائے گی۔
پاکستانی عوام کو بہتر صورت حال کے لیے پہلے مرحلہ میں‌جہموریت کی بحالی کے لیے کام کرنا ہوگا۔
اور سب صورتیں تباہی کی طرف جاتی ہیں۔
 

اظہرالحق

محفلین
اظہر الحق بھائی، السلام علیکم!
کہاں تھے؟ آپ کو بہت یاد کیا۔ اب آتے جاتے رہئیے گا۔
والسلام


یاد کرنے کا شکریہ ، بس یار کچھ ناسازئی طبع نے مار رکھا اور کچھ غم روزگار نے ۔ ۔ ۔

اب کوشش کروں گا کہ باقاعدگی سے کچھ لکھ سکوں ۔ ۔ ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرے خیال میں اس وقت کوئی بھی بندے کا پُتر (یا پُتری) لیڈر نہیں ، اور نہ کسی کو لیڈ (رہنمائی ) کرنی آتی ہے ، میرے خیال میں جیسا پرانے وقتوں میں ہوتا تھا کہ جب بادشاہ مر جاتا تھا اور کوئی اور بادشاہت کے قابل نہیں ہوتا تھا ، تو شہر کے دروازے سے سب سے پہلے داخل ہونے والے کو بادشاہ بنا دیا جاتا تھا ، ہمیں بھی ایسا ہی کچھ کرنا پڑے گا ۔ ۔ ۔ لیڈر ڈھونڈنے کے لئے

میرے خیال میں اس وقت وہ ہی صحیح راستے پر قوم کو لے جا سکتا ہے ، جو بازار میں بنا کسی محافظ کے گھوم سکتا ہو ۔۔ ۔جو عوام میں رہتا ہو ۔۔۔ اور لوگ اسکی بنا کسی حیل حجت کے عزت کرتے ہوں ۔ ۔ ۔جیسے انصار برنی ، ایدھی ۔ ۔ ۔وغیرہ مگر یہ بھی ڈر لگتا ہے کہ ۔۔ ۔ اقتدار کا نشہ ۔ ۔ ۔ کہیں ۔ ۔ ۔ اسے کچھ سے کچھ نہ بنا دے ۔ ۔ ۔

اظہرالحق، سیاست سیاستدان ہی کر سکتا ہے۔ سوشل ورکر یا دانشور کتنے ہی نیک نیت کیوں نہ ہوں، ان میں سٹیس مین شپ نہیں ہو سکتی۔ سیاستدانوں کا تجربہ کئی دہائیوں پر مبنی ہوتا ہے، ایک عام آدمی ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔
 

اظہرالحق

محفلین
اظہرالحق، سیاست سیاستدان ہی کر سکتا ہے۔ سوشل ورکر یا دانشور کتنے ہی نیک نیت کیوں نہ ہوں، ان میں سٹیس مین شپ نہیں ہو سکتی۔ سیاستدانوں کا تجربہ کئی دہائیوں پر مبنی ہوتا ہے، ایک عام آدمی ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔

نبیل بالکل درست کہا ، سیاست دان واقعٰی ہی تجربہ کار ہوتے ہیں ۔۔ ۔

پچھلے دنوں کسی انڈین ٹی وی پر ایک چائے کی کمپنی کا اشتہار آ رہا تھا ، جس میں ایک سیاست دان کسی جوان سے (جو چائے پی رہا ہوتا ہے ) اس سے ووٹ مانگ رہا ہوتا ہے ، تو وہ اس سے انٹرویو کے اسٹائل میں سوال کرنا شروع کرتا ہے ، تو وہ اسے اپنا تجربہ اپنی حاکمیت بتاتا ہے ، مگر وہ جوان اس سے کہتا ہے کہ عوام کی خدمت کا کتنا تجربہ ہے ، آپ تو ووٹ کے وقت ہی نظر آ رہے ہو ، آپ کا تجربہ تو اس "پوسٹ" کے لئے کچھ نہیں ۔ ۔ تو نبیل سیاستدانوں کا مطلب ہوتا ہے صرف حکمرانی کرنے والا تو پھر تو غلط ہے ۔ ۔ اور اگر خدمت والا ہو تو ۔ ۔ ۔وہ ہی اصل سیاست دان ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ چوہوں کی طرح بِل میں رہنے والے سیاستدان کا چوغہ تو ضرور پہنتے ہیں مگر ۔ ۔ ۔ وہ مکر و فریب سے بھرے "سیاہ ست دان" ہیں سیاست دان نہیں ۔ ۔

خیر اللہ اس بکھری ہوئی قوم کو ایک رہبر دے تا کہ کچھ حالات بدلیں (آمین)
 

الف نظامی

لائبریرین
شکریہ جہانزیب۔
میرے ذہن میں ایک شخصیت تو عمران خان کی ہے۔ اگر اسے عوامی سیاست کرنی آجائے تو اس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا۔
ایک اور امکان خوداعتزاز احسن کے بحالی جمہوریت تحریک کی قیادت سنبھال لینے کا ہے لیکن اعتزاز احسن پیپلز پارٹی اور بے نظیر سے وفادار ہے۔ بے نظیر اور دوسری پیپلز پارٹی کی قیادت کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ پارٹی کارکنوں کی قربانیوں کا ثمر اٹھانے آگے آجاتے ہیں۔
جہاں تک مذہبی جماعتیں ہیں تو وہ بھی اس وقت ملکی سیاست میں اتنا ہی مکروہ کردار ادا کر رہی ہیں جتنا کہ پیپلزپارٹی ادا کر رہی ہے۔ فضل الرحمن کی واحد ترجیح نگران سیٹ اپ میں اہمیت حاصل کرنا باقی رہ گیا ہے۔
اعتزاز احسن ، جاوید ہاشمی ، عمران خان ، مسلم ن کے لوگ جو ابھی تک لوٹے نہیں بنائے جاسکے ، ان سب لوگوں کو اکٹھا ہو کر اصولی سیاست کرنے چاہیے۔
باقی رہے حضرت کڑوڑی مل تو ان سے نجات ہی بہر حل ہے۔
 

ساجد

محفلین
سیاست سمیت کوئی بھی میدان عملی تجربے اور لگن کا تقاضا کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے سیاستدان اس میدان میں آنے سے پہلے دوسروں شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ مغرب میں تو ایسی مثالیں بہت ملتی ہیں۔ ہاں اگر بات کی جائے برصغیر کی سیاست کی تو اس کا مزاج باقی دنیا سے مختلف ہے۔ یہاں سیاست میں موروثیت کا مرض سب سے بڑی خامی ہے اور اس کی وجہ سے سیاست عوام کی خدمت کا ذریعہ بننے کی بجائے اپنی سیوا کروانے کا دوسرا نام ہے۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے جاگیردارانہ پس منظر ، بدمعاشی ، غنڈہ گردی اور قانون شکنی کا۔
سول سوسائٹی اور دانشور طبقہ عام طور پر متذکرہ بالا خوبیوں ( خامیوں ) کا حامل نہیں ہوتا ، اس لئیے وہ خود ہی سیاست سے دور رہتا ہے اور اگر کوئی بھولا بھٹکا اس طرف آ بھی نکلے تو عوام کہتے ہیں " جاؤ یار تم شریف آدمی ہو ، کیوں سیاست کے پھڈے میں پڑ گئے ہو" ۔ اس کو ووٹ تو کوئی کیا دے گا۔ گویا یہ بات طے ہے کہ سیاست بد معاشی کا ہی دوسرا نام ہے۔
ایک لحاظ سے نبیل کی بات ٹھیک ہے کہ سیاستدانوں کو دہائیوں کا تجربہ ہوتا ہے اور ان میں سٹیس مین شپ ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہ دونوں خوبیاں ان موروثی سیاستدانوں کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں میں ہوتی ہیں لیکن ان کو نہ تو عوام سپورٹ کرتی ہے اور نہ ہی موروثی سیاستدان کسی کو ابھرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ لوگ روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے پہ یقین رکھتے ہیں۔
اگر مجمع اکٹھا کر لینے کا نام سیاست ہے تو اس پیمانے سے سڑک کے کنارے سانڈے کا تیل بیچنے والا نیم حکیم یا بندر کا تماشہ دکھانے والا مداری بھی سیاستدان کہلانے کے حق دار ہیں۔
دراصل سیاست نام ہے اصول پرستی اور قانون کی پاسداری کا اور یہ دونوں باتیں ہمارے موجودہ سیاستدانوں میں مفقود ہیں اس لئیے ان کی حیثیت بھی بندر کا تماشہ دکھانے والے مداری سے زیادہ نہیں ۔ یہ اپنی لچھے دار باتوں سے مجمع تو اکٹھا کر لیتے ہیں لیکن نہ تو ان کے پاس کوئی نظریہ ہے نہ اصول۔ ان کا مطمع نظر ذاتی مفادات ہیں۔
میری رائے میں پاکستان کی سیاست جیسی چل رہی ہے اگلے 50 سال تک بھی اس میں تبدیلی نہیں آنے والی۔ کیوں کہ تبدیلی اس وقت آئے گی جب عوام میں اپنے حقوق و فرائض کا شعور بیدار ہو گا اور یہ شعور تعلیم کی ترقی کے بغیر آنا محال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز عوام کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دے رہے کیوں کہ پالیسیاں بنانے والے بھی تو سیاستدان ہیں اور ان کی اکثریت جاگیر دار طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
اگرچہ یہ بات نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ ثابت نہ ہو گی لیکن یہ سچ ہے کہ اگر سیاست میں مثبت اور تعمیری تبدیلی کی خواہش ہے تو سب سے پہلے جاگیرداری نظام کو ہر قیمت پر ختم کرنا پڑے گا اور ساتھ ہی تعلیم کے لئیے بھرپور جدو جہد کرنا ہو گی۔ یہ دھرتی بانجھ نہیں ہے ۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب وہاں جاگیرداری ختم کی گئی تو بہت رد عمل تو ہوا لیکن آخر کار وہاں کی حکومتوں نے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست کو جاگیرداروں کی لونڈی بننے سے بچا لیا۔
پاکستان میں بھی جہاں جہاں جاگیرداری نظام زمینوں کی تقسیم در تقسیم کے عمل سے اپنی موت آپ مر چکا ہے وہاں تعلیم اور روزگار کے حالات میں بہتری پیدا ہوئی ہے اور معاشرتی و طبقاتی تقسیم کی شدت میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔ لیکن ابھی بھی اس نظام کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اس کو ختم کرنے کے لئیے ہمیں وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہئیے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اعتزاز احسن ، جاوید ہاشمی ، عمران خان ، مسلم ن کے لوگ جو ابھی تک لوٹے نہیں بنائے جاسکے ، ان سب لوگوں کو اکٹھا ہو کر اصولی سیاست کرنے چاہیے۔
باقی رہے حضرت کڑوڑی مل تو ان سے نجات ہی بہر حل ہے۔
پیارے بھائی، مسئلہ تو یہی ہے کہ لیڈر پرستی میں‌ یہ لوگ اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی اپنی نظر میں ان کا اپنا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے
 
Top