ام اویس
محفلین
سید ابوالاعلٰی مودودی رحمہ الله
جدے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے جس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت غزوات اور سرایہ ہوئے ۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقام دیکھے اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے ۔ اسی افسوسناک صورت ِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا ۔ کاش سعودی حکومت اس معاملہ میں اعتدال کی روش اختیار کرے ، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے ۔
تاریخِ اسلام کے اہم ترین مقامات جن کو ہم سیرت نبی صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہدِ تاریخ میں پڑھتے ہیں اور جن کے دیکھنے کی ہمیں مدت سے تمنا تھی ان میں سے کسی بھی جگہ کوئی کتبہ لگا ہوا نہ پایا ۔
۲۷ جولائی ۱۹۵۶ء کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے اور اگلے روز تقریبا مغرب کے وقت وہاں پہنچے ۔ راستے میں بدر سے گزر ہوا ، لیکن حج کے زمانے میں انسان کچھ اس طرح قواعد ضوابط سے بندھا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں جانا اور کہیں ٹہرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا اس لیے دلی تمنا کے باوجود وہاں ٹہرنا ممکن نہ ہوا ۔
مجھے امام ابن تیمیہ رحمہ الله کی جن باتوں سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا سفر مسجد بنوی میں نماز پڑھنے کے لیے تو جائز بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں مگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے مزار مبارک کی زیارت کا اگر کوئی قصد کرے تو اس کو ناجائز ٹہراتے ہیں میرے نزدیک یہ چیز کسی مسلمان کے بس میں نہیں کہ وہ حجاز جانے کے بعد مدینے کا قصد نہ کرے اور مدینے کا قصد کرتے وقت مزار پاک کی زیارت کی تمنا اور خواہش سے اپنے دل کو خالی رکھے ۔
صرف مسجد نبوی کو مقصود سفر بنانا انتہائی ذہنی تحفظ کے باوجود بھی ممکن نہیں ہے ، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں صرف یہ مسجد ہوتی اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا مزار مبارک نہ ہوتا تو کم ہی کوئی شخص وہاں جاتا ۔ آخر فضیلتیں تو مسجد اقصٰی کی بھی بہت ہیں ، مگر وہاں کتنے لوگ جاتے ہیں ؟ اصل جاذبیت ہی مدینے میں یہ ہے کہ وہ آن حضور صلی الله علیہ وسلم کا شہر ہے ۔ وہاں آں حضور صلی الله علیہ وسلم کے آثار موجود ہیں اور خود آں حضور کا مزار مبارک بھی ہے ۔
جس حدیث سے امام ابن تیمیہ نے استدلال کیا ہے اس کا مطلب بھی وہ نہیں جو انہوں نے سمجھا ۔ بلاشبہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے سفر جائز نہیں ۔ لامحالہ اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں ۔ یا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا میں “کوئی سفر جائز نہیں سوائے ان تین مسجدوں کے “اور یا پھر یہ مطلب ہوگا کہ
تین مسجدوں مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی یہ خصوصیت نہیں کہ اس میں نماز پڑھنے کے لیے آدمی سفر کرے
اگر پہلے معنٰی لیے جائیں تو مدینہ کیا معنی دنیا میں کسی جگہ بھی سفر کرکے جانا جائز نہیں رہتا خواہ وہ کسی غرض کے لیے ہو اور ظاہر ہے کہ اس معنٰی کا کوئی قائل نہیں ۔ خود امام ابن تیمیہ بھی اس کے قائل نہیں ۔
اور اگر دوسرے معنی کو اختیار کیا جائے اور وہی صحیح ہے تو حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے ، غیر مساجد سے نہیں ۔ اور منشا صرف یہ ہے کہ مسجد نبوی ، مسجد حرام اور مسجد اقصٰی تو ایسی مسجدیں ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے آدمی ان کی طرف سفر کرے ، لیکن دنیا کی کوئی اور مسجد یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ محض اس میں نماز پڑھنے کی خاطر آدمی سفر کرکے وہاں جائے ۔ لیکن اس کو خوامخواہ زیارت قبر رسول پر لے جا کر چسپاں کر دینا کسی دلیل سے بھی صحیح نہیں ۔
مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں حاضری دی اور نبی صلی الله علیہ وسلم اور شیخین کے مزارات کی زیارت کی ۔ یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد الحرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں ۔ مسجد حرام میں محبت پر عظمت وہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے ۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں ۔ لیکن حرم نبوی صلی الله علیہ وسلم میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے اور یہ وہ محبت ہے جس کو آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے خود ہی جزو ایمان فرمایا ہے
مسجد نبوی اب جدید توسیع کے بعد بہت شاندار اور نہایت خوبصورت بن گئی ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر میں شروع ہی سے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تمام توسیعوں کے نشان الگ رہیں ۔ اصل مسجد جو حضور صلی الله علیہ وسلم نے بنائی تھی اس کے نشانات الگ ہیں اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کتنی تھی ۔
حوالہ ۔ ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، اگست ۲۰۱۸ء
جدے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے جس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت غزوات اور سرایہ ہوئے ۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقام دیکھے اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے ۔ اسی افسوسناک صورت ِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا ۔ کاش سعودی حکومت اس معاملہ میں اعتدال کی روش اختیار کرے ، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے ۔
تاریخِ اسلام کے اہم ترین مقامات جن کو ہم سیرت نبی صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہدِ تاریخ میں پڑھتے ہیں اور جن کے دیکھنے کی ہمیں مدت سے تمنا تھی ان میں سے کسی بھی جگہ کوئی کتبہ لگا ہوا نہ پایا ۔
۲۷ جولائی ۱۹۵۶ء کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے اور اگلے روز تقریبا مغرب کے وقت وہاں پہنچے ۔ راستے میں بدر سے گزر ہوا ، لیکن حج کے زمانے میں انسان کچھ اس طرح قواعد ضوابط سے بندھا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں جانا اور کہیں ٹہرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا اس لیے دلی تمنا کے باوجود وہاں ٹہرنا ممکن نہ ہوا ۔
مجھے امام ابن تیمیہ رحمہ الله کی جن باتوں سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا سفر مسجد بنوی میں نماز پڑھنے کے لیے تو جائز بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں مگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے مزار مبارک کی زیارت کا اگر کوئی قصد کرے تو اس کو ناجائز ٹہراتے ہیں میرے نزدیک یہ چیز کسی مسلمان کے بس میں نہیں کہ وہ حجاز جانے کے بعد مدینے کا قصد نہ کرے اور مدینے کا قصد کرتے وقت مزار پاک کی زیارت کی تمنا اور خواہش سے اپنے دل کو خالی رکھے ۔
صرف مسجد نبوی کو مقصود سفر بنانا انتہائی ذہنی تحفظ کے باوجود بھی ممکن نہیں ہے ، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں صرف یہ مسجد ہوتی اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا مزار مبارک نہ ہوتا تو کم ہی کوئی شخص وہاں جاتا ۔ آخر فضیلتیں تو مسجد اقصٰی کی بھی بہت ہیں ، مگر وہاں کتنے لوگ جاتے ہیں ؟ اصل جاذبیت ہی مدینے میں یہ ہے کہ وہ آن حضور صلی الله علیہ وسلم کا شہر ہے ۔ وہاں آں حضور صلی الله علیہ وسلم کے آثار موجود ہیں اور خود آں حضور کا مزار مبارک بھی ہے ۔
جس حدیث سے امام ابن تیمیہ نے استدلال کیا ہے اس کا مطلب بھی وہ نہیں جو انہوں نے سمجھا ۔ بلاشبہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے سفر جائز نہیں ۔ لامحالہ اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں ۔ یا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا میں “کوئی سفر جائز نہیں سوائے ان تین مسجدوں کے “اور یا پھر یہ مطلب ہوگا کہ
تین مسجدوں مسجدوں کے سوا کسی اور مسجد کی یہ خصوصیت نہیں کہ اس میں نماز پڑھنے کے لیے آدمی سفر کرے
اگر پہلے معنٰی لیے جائیں تو مدینہ کیا معنی دنیا میں کسی جگہ بھی سفر کرکے جانا جائز نہیں رہتا خواہ وہ کسی غرض کے لیے ہو اور ظاہر ہے کہ اس معنٰی کا کوئی قائل نہیں ۔ خود امام ابن تیمیہ بھی اس کے قائل نہیں ۔
اور اگر دوسرے معنی کو اختیار کیا جائے اور وہی صحیح ہے تو حدیث کا تعلق صرف مساجد سے ہے ، غیر مساجد سے نہیں ۔ اور منشا صرف یہ ہے کہ مسجد نبوی ، مسجد حرام اور مسجد اقصٰی تو ایسی مسجدیں ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے آدمی ان کی طرف سفر کرے ، لیکن دنیا کی کوئی اور مسجد یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ محض اس میں نماز پڑھنے کی خاطر آدمی سفر کرکے وہاں جائے ۔ لیکن اس کو خوامخواہ زیارت قبر رسول پر لے جا کر چسپاں کر دینا کسی دلیل سے بھی صحیح نہیں ۔
مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں حاضری دی اور نبی صلی الله علیہ وسلم اور شیخین کے مزارات کی زیارت کی ۔ یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد الحرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں ۔ مسجد حرام میں محبت پر عظمت وہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے ۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں ۔ لیکن حرم نبوی صلی الله علیہ وسلم میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے اور یہ وہ محبت ہے جس کو آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے خود ہی جزو ایمان فرمایا ہے
مسجد نبوی اب جدید توسیع کے بعد بہت شاندار اور نہایت خوبصورت بن گئی ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر میں شروع ہی سے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ تمام توسیعوں کے نشان الگ رہیں ۔ اصل مسجد جو حضور صلی الله علیہ وسلم نے بنائی تھی اس کے نشانات الگ ہیں اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کتنی تھی ۔
حوالہ ۔ ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، اگست ۲۰۱۸ء