کاشفی

محفلین
غزل
پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی

روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز

پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز

نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز

رنگ ہے جن میں مگر بوے وفا کچھ بھی نہیں
ایسے پھولوں سے نہ گھر اپنا سجانا ہرگز

رخ سے پردے کو اُٹھایا تو بہت خوب کیا
پردہء شرم کو دل سے نہ اٹھانا ہرگز

تم کو قدرت نے جو بخشا ہے حیا کا زیور
مول اسکا نہیں قارون کا خزانہ ہرگز
 

فاتح

لائبریرین
غزل
پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی

روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز

پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز

نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز

رنگ ہے جن میں مگر بوے وفا کچھ بھی نہیں
ایسے پھولوں سے نہ گھر اپنا سجانا ہرگز

رخ سے پردے کو اُٹھایا تو بہت خوب کیا
پردہء شرم کو دل سے نہ اٹھانا ہرگز

تم کو قدرت نے جو بخشا ہے حیا کا زیور
مول اسکا نہیں قارون کا خزانہ ہرگز
اس نظم کا نام ہے "پھول مالا" اور اس کے مزید کچھ اشعار ملے ہیں جن کی ترتیب یوں ہے:
پھول مالا
1916
روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہر گز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہر گز

نام رکھا ہے نمائش کا ترقی و رفارم
تم اس انداز کے دھوکے میں نہ آنا ہر گز

نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہر گز

رنگ و روغن تمھیں یورپ کا مبارک لیکن
قوم کا نقش نہ چہرے سے مٹانا ہر گز

رخ سے پردے کو اُٹھایا تو بہت خوب کیا
پردۂ شرم کو دل سے نہ اٹھانا ہر گز

تم کو قدرت نے جو بخشا ہے حیا کا زیور
مول اسکا نہیں قاروں کا خزانہ ہر گز

دل تمھارا ہے وفاؤں کی پرستش کے لیے
اس محبت کے شوالے کو نہ ڈھانا ہر گز

رنگ ہے جن میں مگر بوئے وفا کچھ بھی نہیں
ایسے پھولوں سے نہ گھر اپنا سجانا ہر گز
۔۔۔

اپنے بچوں کی خبر قوم کے مردوں کو نہیں
یہ ہیں معصوم، انھیں بھول نا جانا ہر گز

کاغذی پھول ولایت کے دکھا کر ان کو
دیس کے باغ سے نفرت نہ دلانا ہر گز

نغمۂ قوم کی لَے جس میں سما ہی نہ سکے
راگ ایسا کوئی ان کو نہ سکھانا ہر گز

پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہر گز

گو بزرگوں میں تمھارے نہ ہو اس وقت کا رنگ
ان ضعیفوں کو نہ ہنس ہنس کے رلانا ہر گز

ہو گا پرلے جو گرا آنکھ سے ان کی آنسو *
بچپنے سے نہ یہ طوفان اٹھانا ہر گز

ہم تمھیں بھول گئے، اس کی سزا پاتے ہیں
تم ذرا اپنے تئیں بھول نہ جانا ہر گز

کس کے دل میں ہے وفا، کس کی زباں میں تاثیر
نہ سنا ہے نہ سنو گی یہ فسانا ہر گز

*پرلے معنی قیامت​
 
آخری تدوین:
Top