الف نظامی

لائبریرین
روشن خیالی اور جدیدیت کی تاریخ
مولانا ڈاکٹر اکرام اللہ جان قاسمی
روشن خیالی اور جدیدیت کی تاریخ
سرسید احمد خان اپنے عقائد ونظریات کی روشنی میں​

علم وعمل‘ زہد وتقویٰ اور تصوف وروحانیت کے عظیم امام حضرت حسن بصری (ابو سعید بن یسار متوفی ۱۱۰ھ) بصرہ کی جامع مسجد میں قرآن‘ حدیث اور فقہ کا درس دیا کرتے تھے‘ ایک دن گناہ کبیرہ کے مرتکب کی حیثیت پر بحث چھڑ گئی‘ آپ نے جمہورعلماء کا مسلک بیان کیا کہ: گناہ کبیرہ کا مرتکب اگرچہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضگی کے ایک بڑے دروازے میں داخل ہوجاتاہے‘ مگر اس ارتکاب سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوکر کافر نہیں بن جاتا اور بدستور مسلمان رہتاہے۔
اس پر آپ کے ایک شاگرد واصل بن عطاء (متوفی ۱۳۱ھ) نے اختلاف کیا اور کہا کہ: گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ مؤمن ہے اور نہ کافر۔اس نے ”منزلة بین المنزلتین“ (کفر اور اسلام کے درمیان ایک درجہ) کا عقیدہ اختراع کیااور حضرت حسن بصری کی مجلس سے اٹھ کر اسی بصرہ کی جامع مسجد میں الگ ایک ستون کے ساتھ اپنا درسی حلقہ قائم کیا۔ حضرت حسن بصری نے اس موقع پر فرمایا ”اعتزل عنا“ واصل ہم سے جدا ہوگیا۔ یہ بظاہر ایک چھوٹا ساجملہ ہے اور بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ ایک فرد اپنے استاد سے جدا ہوا‘ مگر حقیقت میں واصل نے فرقہٴ معتزلہ کی بنیاد رکھی اور وہ جمہور علماء حق کے جادہٴ مستقیم سے جدا ہوگیا تھا۔
معتزلہ فرقہ نے دینی عقائد واحکام کے لئے عقل کو معیار قرار دیا یعنی جس بات کو عقل تسلیم کرلے وہ درست ہے اور جسے عقل ٹھکرادے‘ وہ غلط ہے۔ معتزلہ کے عقائد میں سے ایک بات یہ تھی کہ صفاتِ باری تعالیٰ عین ذات ہیں اور ان کا الگ کوئی تشخص نہیں‘ مگر جادہٴ حق پر قائم ماتریدیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ صفاتِ باری تعالیٰ نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات۔ نیز ان کا عقیدہ تھا کہ قرآن کریم محدَث اور مخلوق ہے‘ جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم قدیم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ ازل سے قائم ہے‘ فقہ کے مشہور امام احمد بن حنبل کو معتزلہ کے انہی عقائد کی مخالفت میں قید با مشقت میں رکھا گیا تھا اور عباسی خلیفہ معتصم باللہ نے آپ کو اپنے سامنے کوڑے لگوائے تھے‘ مگر آپ انتہائی استقامت کے ساتھ اپنے حق موقف پر ڈٹے رہے تھے۔
معتزلہ کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ انسان کبھی خدا کو نہیں دیکھ سکتا‘ نہ قیامت کے دن اور نہ قیامت کے بعد۔ ان کا یہ عقیدہ قرآنی آیت ”وجوہ یومئذ ناظرة الی ربہا ناظرة“ کے بالکل خلاف تھا۔ نیز ان کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال خیر وشر کا خود خالق ہے‘ نیز اس بات پر زور دیتے تھے کہ خدا پر واجب ہے کہ وہ صرف بندوں کی بھلائی پر مبنی کام انجام دے‘ ان کے علاوہ بھی ان کے اور بہت سے باطل نظریات تھے۔
امام ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری (متوفی ۳۳۰) بمقام بصرہ ۲۷۰ھ میں پیدا ہوئے‘ ابتداً آپ معتزلہ کے امام ابو علی جبائی کے پیروکار اور شاگرد خاص تھے‘ آپ کو جبائی اکثر اپنی جگہ مناظروں کے لئے بھیجا کرتے تھے‘ امام اشعری چالیس سال تک معتزلی عقائد پر قائم رہے‘ اور یہ طویل عرصہ معتزلہ کے ایک زبردست داعی کی حیثیت سے گزارا‘ مگر ایک رات ان کو خواب میں آنحضرت ا کی زیارت ہوئی‘ آپ ا نے فرمایا:
”اے ابو الحسن! میری احادیث کی تائید کرو‘ اس لئے کہ وہ صحیح ہیں“۔ (الغزالی‘ شبلی نعمانی ص:۷۲)
چنانچہ امام ابوالحسن نے بصرہ کی جامع مسجد میں لوگوں کے سامنے فرقہٴ معتزلہ کے بڑے بڑے عقائد گنوا کر ان سے برأت کا اعلان فرمایا اور فرمایا کہ: آج میں اعتزال کے بوسیدہ عقائد کویوں اتار کے پھینکتاہوں جیسے میری یہ عباء (چغہ)۔ اور آپ نے واقعی عباء اتار کر پھینک دی۔ اس کے بعد اشعری مذہب کی بنیاد رکھی۔آپ نے معتزلہ کی رد میں کتابیں لکھیں اور مناظرے کئے او ر ان کے مذہب کو اہل سنت کی کثیر تعداد نے اپنایا۔
جیسے پہلے کہا گیاکہ معتزلہ کے ہاں دینی عقائد واحکام میں عقل کو معیار قرار دیا گیا تھا جو بات سمجھ میں آتی‘ قبول کی جاتی اور جو عقل میں نہ آتی رد کردی جاتی۔ اس چیز کو روشن خیالی کہا جاتاہے۔روشن خیالوں کا سارا زور اس پر خرچ ہوجاتاہے کہ دینی عقائد واعمال کو عقل کے ترازو میں پیش کردیں‘ ورنہ کوئی توجیہ اپنی طرف سے کرکے اصل حکم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ روشن خیالی کے نام پر تاریک ضمیری‘ ضمیر فروشی اور جمہور علماء کی راہ سے انحراف ہردور میں چلتا رہا۔ تا آنکہ برصغیر میں انگریزوں کا دور آیا‘ پھر انگریز کی کاسہ لیسی اور تلوے چانٹے کے لئے بے ضمیروں کی ایک لمبی فہرست سامنے آئی۔ ان میں سے کبھی مرزا غلام قادیانی کی صورت میں کسی نے جہاد کا انکار کیا اور اس کے لئے جھوٹی نبوت کا سہارا لے کر انجام کار بیت الخلاء میں مرنے کا اعزاز ساتھ لے گیا‘ اور کبھی غلام پرویز اور سر سید احمد خان کی صورت میں معجزات‘ جنت‘ دوزخ اور فرشتوں کے منکرین پیدا ہوئے اور انگریزوں سے خوب خوب دادِ شجاعت لے کر دنیاوی مفاد حاصل کئے اور اپنی آخرت کو تباہ وبرباد کرگئے۔ ہم نے غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز پر الگ طور پر قلم آزمائی کرکے اہلِ ایمان کے سامنے ان کے دجل وفریب کو طشت ازبام کیا ہے‘ البتہ سرسید احمد خان کو زیر نظر سطور میں خصوصی طور پر ہدفِ تنقید بنایاہے۔ مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ موجودہ دور کے ان معتزلہ کے افکار ونظریات کو پہچان کر اپنے ایمان وعمل کو ان کی فریب کاری سے بچائیں اور جو سادہ لوح مسلمان ان کے شکنجہ میں آچکے ہیں ان کے بارے میں فکر مند ہوکر ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ ذیل میں سرسید احمد خان کا تعارف اور اس کے عقائد ونظریات کو مختصر الفاظ میں طشت ازبام کیا جاتاہے۔

سرسید احمد خان کا تعارف
سرسید احمد خان کے آباؤ واجداد کشمیر کے باشندگان تھے۔ شاہ عالم ثانی (پیدائش ۱۱۷۳ھ/۱۷۵۹ء) دہلی کے تخت پر ۴۵ سال براجماں رہا۔ اس کے دور میں دہلی کے علماء وفضلاء کا بادشاہ سے اختلاف ہوا اور جو علماء کلیدی عہدوں پر فائز تھے‘ انہوں نے استعفیٰ دے کر کنارہ کشی اختیار کرلی۔ دوسری طرف انہی ایام میں کشمیر میں قحط پڑا‘ سرسید کے خاندان کے بڑوں نے جب اس دوران دہلی کے ان اعلیٰ عہدوں اور مناصب کو خالی پایا تو اپنے آبائی وطن کشمیر کو خیر باد کہہ کر عازمِ دہلی ہوئے۔اعلیٰ ملازمتوں کے حصول کے لئے جو جتن کئے جاتے ہیں اور جو ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں‘ وہ تمام سرسید کے بزرگوں نے روا رکھے اور ان مناصب پر فائز ہوئے۔ سرسید دہلی میں ۱۸۱۷ء میں سید متقی کے گھر میں پیدا ہوا‘سن بلوغت کو پہنچا تو عام ابتدائی مروجہ علوم میں شدبد حاصل کرچکا تھا۔ مولانا مخصوص اللہ اور مولانا مملوک علی سے کچھ ابتدائی مذہبی علوم کی تحصیل کی‘ پھر سریانی اور عبرانی زبانوں کے سیکھنے میں مصروف ہوکر کچھ ابتدائی کامیابی حاصل کی اور علامہ بننے کے زعم میں پادریوں کے ساتھ مناظرے شروع کئے‘ جس میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ روشن خیالی کے اس امام نے روشن مستقبل کے خواب دیکھناشروع کئے تو ایک سہل طریقہ یعنی پیری مریدی کی طرف متوجہ ہوئے‘لیکن اس میدان میں جن اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کے فقدان کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔پھر محکمہٴ مال کی ملازمت اختیار کر لی اور ملازمت کے کچھ مراحل طے کرنے کے بعد مختاری کا امتحان پاس کرکے ۱۸۵۷ء تک جج کے عہدہ پر فائز رہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی دل کھول کر مدد کی‘ انگریزوں کو اپنے اور اپنے احباب ورشتہ داروں کے گھروں میں پناہ دے کر سفید فاموں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے میں خوب شہرت حاصل کی۔ عین ممکن تھا کہ اگر سرسید اور اس کے اعوان وانصار انگریزوں کی مدد نہ کرتے تو انگریز ۱۸۵۷ء ہی میں ہندوستان چھوڑ کر واپس برطانیہ چلے جاتے۔کہا جاتاہے کہ انگریز کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع اس لئے نہیں ملا کہ وہاں ان کو کوئی سرسید ہاتھ نہیں آیا تھا۔
سرسید کو جدید دنیا کے روشن خیال نئے دور کا مجدّد اور مسلمانوں کی ترقی کا راہنما سمجھتے ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کے برصغیر میں واردہونے سے قبل یہاں پر تعلیم کا ایک بے مثل نظام رائج تھا۔ دینی مدارس کا جال پھیلا ہوا تھا۔ انہی مدارس کے فارغ التحصیل علماء نہ صرف مساجد ومدارس کا نظام سنبھالے ہوئے تھے‘ بلکہ سیاست اور نظامِ حکومت کا زمام بھی انہی کے ہاتھوں میں تھا‘ انگریزوں نے اس اسلامی نظامِ تعلیم کی بساط لپیٹنے کے لئے سرسید کی خدمات حاصل کیں‘ سرسید نے یورپ جاکر وہاں کے نظامِ تعلیم کا بغور مطالعہ کیا اور واپس آکر علی گڑھ میں محمڈن اورینٹیل کالج کی بنیاد رکھی‘ جہاں پر قدیم وجدید کے امتزاج سے نصابات رائج کئے۔ بعد میں اس کالج کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا‘ جو آج بھی قائم ہے۔ مسلمان چونکہ انگریز اور اس کی تعلیم سے متنفر تھے اور کسی صورت اس کو قبول نہیں کرپارہے تھے‘ لہذا دینی مدارس کے بالمقابل‘ سرسید اپنے وضع کردہ نصاب تعلیم کی صورت میں مسلمانوں کو مغربی تہذیب وتمدن کی طرف راغب کرہے تھے‘ دوسری طرف انگریزوں نے دینی مدارس کی بساط لپیٹنے کے لئے دینی مدارس کے اوقاف کو ضبط کیا‘ نصاب اور نظام تعلیم پر طرح طرح کے اعتراضات کرنے لگے اور اس کو فرسودہ اور دقیانوسی قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کی ملازمتوں پر پابندی لگادی گئی۔ دوسری طرف انگریزی نظام تعلیم کی سرپرستی اور دلجوئی کی گئی‘ جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ دینی مدارس معدوم ہوتے گئے اور لارڈمیکالے کا نظام تعلیم رائج ہوتا گیا جس کا خلاصہ لارڈمیکالے نے یہ بیان کیا تھا کہ:
ہم نے ہندوستان میں اپنے نظام تعلیم کے ذریعہ ایسی پود تیار کرنی ہے جو شکل وصورت کے لحاظ سے ہندوستانی ہو‘ مگر دل ودماغ اور جذبات واحساسات کے لحاظ سے انگریز ہو“۔
سرسید نے انگریزوں کا آلہٴ کار بن کر مسلمانوں میں ان کے لئے ذہنی وقلبی لحاظ سے ماحول بنانے کی کوشش کی تو سرسید کو ان خدمات کے صلہ میں انگریزوں نے مختلف خطابات اور اعزازات سے نوازا‘ چنانچہ اسے خان بہادر (Sir) شاہی مشیر(K.B)انڈیا کا امن جج (K.C) قانون کا ڈاکٹر (L.L.D) جیسے خطابات اور ڈگریوں سے نوازا اور دوپشتوں تک دو سو روپے پنشن سے بھی سرفراز کیا۔ سرسید نے دنیاوی اعزازات تو حاصل کرلئے‘ مگر وہ یہ بھول گیا تھا کہ:
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
رسول اکرم ا کا ارشاد گرامی ہے: ”الکفر ملة واحدة“ تمام کفر ایک ہی ملت ہے۔
اس حدیث مبارکہ کے تناظر میں جب ہم باطل فرقوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور میں‘ ان میں باہمی مماثلت اور باطل افکار پر اتفاق نظر آتاہے‘ چنانچہ مرزائیوں کے فرقہٴ ضالہ کی تاریخ احمدیت میں مرقوم ہے کہ سر سید نے مرزا غلام احمد قادیانی جہنم مکانی کی بڑی معاونت کی ہے اور ان کی کتابوں کو بہت سراہا ہے۔ قادیان کے جھوٹے نبی نے کہا ہے کہ سرسید تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے:
۱:․․․ ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معمول کے مطابق ان کا باپ تھا۔ (واضح رہے کہ عیسائیوں کے ایک فرقے کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ مریم علیہا السلام کے یوسف نامی ایک شخص سے تعلقات تھے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی سے قبل پیدا ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
۲:․․․دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے ان کے درجات بلند کرنا مراد ہے۔
۳:․․․تیسرے یہ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد ا کو روح مع الجسد معراج نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف ان کی روح کو معراج ہوئی ہے۔
تاریخی واقعات اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان عیار ومکار‘ انگریزوں کے خود کاشتہ پودے تھے‘ ان دونوں سے انہوں نے وہ کام لئے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ان دونوں کو سفید فام دشمنانِ اسلام نے یہ خدمت سونپی تھی کہ دین اسلام میں اپنے باطل نظریات اور خرافات کے ذریعہ شگاف ڈال کر اہلِ اسلام کو ذہنی اور مذہبی جنگ میں جھونک دیں‘ تاکہ وہ بے فکر ہوکر ہندوستان پر حکومت کے مزے لوٹتے رہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سرسید نے بہت سارے مضامین‘ مقالات اور کتب تحریر کی ہیں‘ مگر سب سے ان کا مقصد اپنے غلط نظریے کی ترویج واشاعت ہے۔سرسید نے ایک کتاب ”خلق الانسان“ یعنی انسانی پیدائش سے متعلق لکھی ہے‘ جس میں ڈارون کے اس نظریہ کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا پھر بتدریج انسان بنا‘ حالانکہ قرآن وسنت کی نصوص سے صراحةً ثابت ہے کہ انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔ سرسید ان صریح نصوص کا منکر ہے۔
سرسید نے ایک کتاب ”اسباب بغاوت ہند“ کے نام سے لکھی ہے۔ ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف مسلح جد وجہد کرتے ہوئے علم جہاد بلند کیا تھا‘ سرسید کو اس سے بہت دکھ ہوا کہ انگریزوں کے خلاف مسلمان کیوں اٹھ کھڑے ہوئے‘ اس نے اس جہاد کو بغاوت کا نام دیا‘ اور بغاوت کے اسباب بیان کرکے ”اسباب بغاوت ہند“ نامی کتاب لکھی‘ جس میں مسلمانوں کو انگریز حکومت کے تابع فرمان رہنے کا مشورہ دیا۔ نیز مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ تمہاری کامیابی اس میں ہے کہ انگریزی زبان اور علوم سیکھو اور انگریزی تہذیب وتمدن کے رنگ میں رنگ جاؤ تاکہ فرق باقی نہ رہے اور دو ریاں ختم ہوں۔
سرسید کی طرف ایک کتاب ”آثار الصنا دید“ منسوب کی جاتی ہے جو دہلی کے اکابر‘ علماء اور امراء کے حالات اور ان کے مزارات کی نشاندہی پر مشتمل ہے۔ مولانا عبد الحق حقانی تحریر فرماتے ہیں کہ آثار الصنا دید سرسید کی تالیف نہیں ہے‘ بلکہ شاہ جہان آباد کے رہنے والے مرزا بخشی محمود نے ایک کتاب سیر المنازل لکھی تھی جو فارسی زبان میں تھی‘ آثار الصنا دید اسی کا اردو ترجمہ ہے جسے سرسید کی ذاتی تالیف کی شہرت دی گئی ہے۔

سرسید کی تفسیر القرآن
سرسید نے تفسیر القرآن کے نام سے پندرہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے جو درحقیقت تحریف القرآن ہے۔ اس کی چھ جلدیں سورہٴ فاتحہ سے لے کر سورہٴ اسراء تک سرسید کی زندگی ہی میں علی گڑھ کالج سے شائع ہوئیں‘ ساتویں جلد سورہٴ کہف سے سورہٴ طٰہٰ تک ان کی وفات کے بعد علی گڑھ بک ڈپو نے شائع کی۔ سرسید نے تفسیر القرآن کے لئے یہ معیار مقرر کیا کہ ان کی زندگی تک تاریخ اسلام کے تیرہ سو سال کے عرصہ میں توارث اور تواتر کے ساتھ نبی اکرم ا‘ صحابہ کرام‘ تابعین اور علماء واولیاء امت سے قرآن کریم کی جو تفسیر منقول چلی آرہی تھی سرسید نے‘ اس جادہٴ مستقیم کو چھوڑ کر اپنی محدود عقل اور بے علمی کا سہارا لیا اور ایک خانہ ساز تفسیر مرتب کی۔ بقول بعض علماء : قرآن کی وہ خود ساختہ تفسیر لکھی جس کی طرف نہ خدا کا ذہن گیا‘ نہ جبرائیل امین کا‘ نہ آخری پیغمبر ا کا‘ نہ صحابہ کا اور نہ تابعین کا۔ سرسید نے خود لکھا ہے کہ:
”میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہئے“۔ (تفسیر القرآن: ۱۹ ص:۲) چنانچہ سرسید نے اسلام کے متوارث ذوق اور نہج سے اتر کر خود قرآن پر غور کیا اور اپنے انگریز آقاؤں کو خوش کرنے کی خاطر اسلام کے نام پر اپنے ملحدانہ نظریات سے فرنگیانہ اسلام کی عمارت تیار کرنا شروع کی‘ جس میں نہ ملائکہ کے وجود کی گنجائش ہے‘ نہ ہی جنت ودوزخ کا کہیں نشان ہے اور نہ جنات اور ابلیس کے وجود کا اعتراف ہے اور معجزات وکرامات تو ان کے نزدیک مجنونہ باتیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی ہے۔ اور ہر دور میں جب باطل سراٹھاتاہے تو حق بھی اسے للکار تاہے۔ فارسی کا مشہورمقولہ ہے: ”ہر فرعونے راموسیٰ“ ہرفرعون کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی موسیٰ پیدا کردیتاہے۔ چنانچہ سرسید کے باطل نظریات کی سرکوبی کے لئے اللہ تعالیٰ نے علماء حق کو پیدا فرمایا۔ اس سلسلے میں سرسید کے غلط افکار ونظریات کو جس شخصیت نے سب سے زیادہ ہدف تنقید بناکر طشتِ ازبام کیا‘ وہ حضرت مولانا عبد الحق دہلوی  ہیں۔ آپ  ہندوستان کے ضلع انبار میں ۱۸۴۹ء کو پیدا ہوئے اور دہلی میں ۱۹۱۶ء کو وفات پائی۔آپ نے قرآن کریم کی تفسیر فتح المنان لکھی جو تفسیر حقانی کے نام سے مشہور ہے‘ اس تفسیر میں آپ نے قرآنی آیات کے اصلی مقاصد ومطالب کھول کربیان کئے اور اس کی ابتداء میں ایک طویل مقدمہ لکھ کر سرسید کے تمام لغویات کو کھول کر بیان کیا اور اس کی تردید مسکت جوابات کے ذریعہ کی۔
خود سرسید کے پیرو کار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالی‘ مؤلف مسدس (وفات دسمبر ۱۹۱۴ء) تحریر فرماتے ہیں کہ:
” سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں“۔ (حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۱۸۴)
اس کے علاوہ مولانا محمد علی مراد آبادی نے ”البرہان علی تجہیل من قال بغیر علم فی القرآن“ میں سرسید کے غلط نظریات پر خوب پکڑ کی ہے‘ شیعہ مفسر ابوعمار علی رئیس سونی پت (وفات ۱۸۸۶ء) نے بھی سرسید کی رد میں تفسیر عمدة البیان لکھی جس نے شہرت اور مقبولیت پائی۔ نیز عبد اللہ یوسف علی نے اپنی انگریزی تفسیر قرآن میں لکھا ہے کہ سرسید کی تفسیر قرآن‘ علماء امت کے مسلمہ اصول ونظریات سے متصادم ہے۔

سرسید کے افکار ونظریات
۱-رفع کوہِ طور کا انکار
سرسید نے دین اسلام کو عقل کی ترازو میں تول کر مسلماتِ دین کا انکار کیا اور قرآن کریم میں جہاں معجزات یا مظاہر قدرت خداوندی کا ذکر ہے‘ اس کی تاویل فاسدہ کرکے من مانی تشریح کی ہے۔ چنانچہ پہلے پارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ:” یہود سے جب عہد وپیماں لیا جارہا تھا تو اس وقت کوہِ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لاکھڑا کردیا تھا“۔ جسے سارے مفسرین نے بیان کیا ہے‘ سرسید اس واقعہ کا انکار کرتاہے اور لکھتاہے:
”پہاڑ کو اٹھاکر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا‘ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے رہے تھے کہ وہ ان کے سروں پر گر پڑے گا“۔
سرسید نہ صرف آیت کی غلط تاویل کرتا ہے بلکہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ مفسرین کا مذاق بھی اڑاتاہے۔ وہ لکھتاہے:
”مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب وغریب واقعہ بنادیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر عجائباتِ دور ازکار کا ہونا مذہب کا فخر اور اس کی عمدگی سمجھتے تھے‘ اس لئے انہوں نے تفسیروں میں لغو اور بیہودہ عجائبات (یعنی معجزات) بھر دی ہیں‘ بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہِ سینا کو خدا ان کے سروں پر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتاہوں‘ یہ تمام خرافات اور لغو اور بیہودہ باتیں ہیں“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص۹۷تا۹۹)
آپ نے دیکھا کہ جو واقعہ سرکش یہود کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہے اور جس پر سارے مفسرین کا اتفاق ہے کہ کوہِ طور کو اٹھاکر یہود کے سروں پر لاکر کھڑا کیا گیا تھا‘ اسے سرسید لغو اور بیہودہ واقعہ قرار دیتاہے۔ پھر جس طرح کہ سرسید کا دعویٰ ہے کہ پہاڑ کو ان کے سروں پر لاکھڑا نہیں کیا گیا تھا‘ بلکہ وہ پہاڑ آتش فشانی کے سبب لرز رہا تھا اور یہود کو محسوس ہورہا تھا کہ گویا پہاڑ ان کے سروں پر گر پڑے گا۔ کوئی سر سید سے یہ پوچھے کہ آتش فشانی اور پہاڑ کے لرزنے کا بیان اس نے کس آیت اور کس حدیث کی بناء پر کیا ہے۔ اگر اس کے پاس کوئی نقلی ثبوت نہیں ہے اور یہ اس کی اپنی عقلی اختراع ہے تو جمہور مفسرین کے مقابلے میں ایسی عقل پر دس حرف۔ بریں عقل ودانش بباید گریست

۲-بیت اللہ شریف اور سرسید
بیت اللہ شریف جسے عرف عام میں خانہ کعبہ کہتے ہیں‘ تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کا دھڑکتا ہوا دل اور ملت اسلامیہ کے اتحاد واتفاق کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس مقدس اور بابرکت گھر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکاً وہدی للعالمین“ (آل عمران:۹۶)
یعنی سب سے پہلا گھرجو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا ہے یہ وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ بابرکت ہے اور جہاں والوں کے لئے راہنما ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کو مسلمانوں کے لئے بابرکت اور ہدایت کا پہلا گھر ارشاد فرمایاہے۔
علامہ اقبال نے اسی کی تشریح میں فرمایا ہے:
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
دوسری جگہ مکہ مکرمہ کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”واذ جعلنا البیت مثابةً للناس وامناً“ (بقرہ:۱۲۵)
ترجمہ :․․․”اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے ایک مقام رجوع اور مقام امن قرار دیا“۔
ایک جگہ ارشاد ہے:

”فیہ آیات بینٰت مقام ابراہیم ومن دخلہ کان آمناً“ آل عمران:۹۸)
ترجمہ:․․․”اس میں کھلے ہوئے نشان ہیں جن میں سے ایک مقام ابراہیم ہے جو کوئی اس (مسجد حرام) میں داخل ہوتا ہے وہ امن سے ہو جاتاہے“۔
عظمت کعبہ کی بابت دوسری جگہ ارشاد ہے:

”جعل اللہ الکعبة البیت الحرام قیاماً للناس“ (المائدہ:۹۷)
ترجمہ:․․․” اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ گھر ہے بزرگی اور تعظیم والا‘ لوگوں کے لئے قیام کا باعث بنایاہے“ ۔
مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کو بابرکت‘ باعث ہدایت اور لوگوں کے لئے مقام رجوع ومقام امن اور قیام کا باعث فرمایا‘ ان آیات اور دوسری روایات کے باعث مسلمان اللہ تعالیٰ کے اس گھر کو باعث صد تکریم وتعظیم خیال کرتے ہیں اور اس کی حفاظت ونگہداشت کو ایمان کا جزء قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ کعبہ شریف دینی اور دنیاوی دونوں حیثیت سے قابل احترام ہے‘ کیونکہ کعبہ شریف تمام روئے زمین کے انسانوں کے حق میں اصلاحِ اخلاق‘ تکمیلِ روحانیت اور علوم وہدایت کا مرکزی نقطہ ہے۔ کعبہ شریف کا مبارک وجود کل عالم کے قیام اور بقاء کا باعث ہے‘ دنیا کی آبادی اس وقت تک ہے جب تک کعبہ اور اس کا احترام اور اکرام والے موجود ہیں۔
محدث کبیر حضرت شاہ ولی اللہ (متوفی ۱۱۷۶ھ/۱۷۶۳ء) فلسفہٴ اسلام سے متعلق اپنی لازوال تصنیف حجة اللہ البالغة میں ارقام فرماتے ہیں کہ چار چیزیں شعائر اللہ میں سے اعلیٰ درجہ کی ہیں۔۱- قرآن کریم‘ ۲- پیغمبر اسلام‘ ۳- کعبة اللہ‘ ۴- نماز۔
واضح رہے کہ کعبہ اسلام کا مرکز اور محور ہے اور اس کی تعظیم وہی کرے گا جس کا دل تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے:

”ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقویٰ القلوب“ ۔(الحج:۳۲)
یعنی جو بھی اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم وتکریم کرتاہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے“۔
اور مسلمانوں کو حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کریں ارشاد ہے:

”یا ایہا الذین آمنوا لاتحلوا شعائر اللہ“ (المائدہ:۲)
تررجمہ:․․․”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی مت کرو“۔
اس تمہید کے بعد اب ذرا کلیجہ تھام کر سرسید کی ہرزہ سرائی کعبة اللہ کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ نقل کفر کفر نباشد ۔ اپنی تفسیر القرآن کے نام پر وہ تحریف القرآن میں لکھتاہے:
”جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے․․․ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھر نے سے کیا ہوتا ہے‘ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۲۱۱و۲۵۱)
وہ مزید لکھتاہے:
”کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے․․․ نماز میں سمت قبلہ کوئی اصلی حکم مذہب اسلام کا نہیں ہے“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۱۵۷و۱۶۱)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ: خانہ کعبہ کے گرد طواف کے مقدس عمل کو سرسید ”سات دفعہ اس کے گرد پھرنا“ قرار دے رہاہے۔ گویا وہ طواف کے عبادت ہونے کا بھی قائل نہیں ہے‘ پھر خدا کے اس عظیم اور مقدس گھر کو انتہائی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ ”چوکھونٹا گھر“ کہہ رہا ہے‘ آگے تو خباثت کی انتہاء کردی ہے کہ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں‘ کیا وہ حاجی بن گئے؟ گویا سرسید کی نظر میں حاجی اور گدھے اور اونٹ برابر ہیں اور یہ کہ طواف کا کوئی ثواب اور فائدہ ہی نہیں ہے‘ اس سے آگے اس نے تمام عالم اسلام کے علماء اور مسلمانوں کے متفقہ عمل یعنی نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے خلاف یہ زہر افشانی کی ہے کہ یہ اسلام کا اصلی حکم نہیں ہے‘ میرے خیال میں قارئین کے لئے بھی زندگی میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ اسلام کا ”اصلی حکم“ کے الفاظ دیکھ اور سن رہے ہیں‘ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اسلام کے کچھ احکام نقلی‘ دونمبر اور بے فائدہ بھی ہیں‘ جدیدزمانے کے اس روشن خیال مسٹر کو قرآنی حکم کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسرے پارہ کے شروع میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایاہے: ”سیقول السفہاء الخ“ ”اب بہت سارے بیوقوف کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا؟“ اس آیت کی رو سے جو لوگ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نہیں مانتے وہ بیوقوف ہیں اور سرسید تمام بیوقوفوں کا سردار۔ دوسرا فتویٰ بھی سرسید کے خلاف‘ میں نہیں لگاتا بلکہ قرآن کریم لگاتاہے۔ آیت گذر گئی ”ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقویٰ القلوب“ (الحج:۳۲) یعنی جو بھی اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم وتکریم کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کی عزت وتکریم وہ لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں تقویٰ وپرہیزگاری ہوتی ہے اور جب سرسید اس مقدس مقام کی بے عزتی پرتلا ہوا ہے‘ واضح ہوگیا کہ اس کا دل تقویٰ وطہارت اور اخلاص سے خالی ہے اور جب اس کا دل ان اوصاف عالیہ سے خالی ہے تو اس کے منافق اور بے ضمیر ہونے میں کیا شک ہے؟ (جاری ہے)

اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, جمادی الاخریٰ۱۴۲۷ھ جولائی۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 6
 
Top