روشنی !

روشنی !

سرخ جیکٹ میں ملبوس لال ٹوپی پہنے چینی نقوش والی وہ معصوم بچی اچانک ہی تو اسکی نگاہوں کے سامنے آ گئی تھی جو روشن چراغوں کے درمیان بیٹھی ایسی لگ رہی تھی جیسے " روشنی "

روشنی ہاں یہی ہمارے آنگن کی روشنی بن سکتی ہے احمر دل ہی دل میں میں فیصلہ کر چکا تھا ......
کبھی کبھی زندگی آپ کو خوب نوازتی ہے لیکن کوئی ایک کمی ایسی ہوتی ہے جس کی کسک دوسری تمام خوشیوں کو کھا جاتی ہے
ایسا ہی کچھ احمر اور صفیہ کے ساتھ بھی ہوا تھا اس خوبصورت اور نوجوان جوڑے کے پاس کیا کچھ نہیں تھا دو اعلی خاندانوں کا ملاپ دولت جنکے گھر کی لونڈی تھی اور دو محبت کرنے والے دل محبت نے جنکی زندگی کو اپنے خوبصورت دائرے میں لے رکھا تھا

سبھی کچھ تو تھا

مگر

یہ مگر بھی عجیب ہے کسی بھی جملے کے آخر میں لگا دیجئے نتیجے کو صفر کر دیتا ہے یہ ایک چھوٹا سا مگر

احمر اور صوفی کی زندگی کا " مگر " وہ تھا جب ڈاکٹر نے کہا

" آپ ماں نہیں بن سکتیں "

صوفی کو ایسا لگا جیسے اسکی زندگی میں کسی نے فل سٹاپ لگا دیا ہو

ماں نہیں بن سکتی

میں ماں نہیں بن سکتی

مگر کیوں

اس مگر اور کیوں کا بھی عجیب رشتہ یہ کیوں کبھی بھی اس مگر کے سوال کا جواب نہیں ہو سکتا جب بھی مگر اور کیوں ملتے ہیں تو تشنگی جنم لیتی ہے

ماں چھوٹا سا لفظ جو ایک عورت کی تکمیل کر دیتا ہے اور تکمیل کس عورت کی خواہش نہیں اور صوفی بھی تو ایک عورت تھی
صوفیہ ابراہیم سن لو میں نے تم سے شدید محبت کی ہے میں دوسری شادی نہیں کرونگا
احمر کا انداز دو ٹوک اور واضح تھا جب بھی وہ صوفیہ کہتا تو صوفی سمجھ جاتی کہ اب احمر کا فیصلہ تبدیل ہونا ممکن نہیں

میں نے تو صرف یہ سوچا تھا کہ تمہیں اولاد کی خوشی نصیب ہو سکے صوفی نے نم آنکھوں اور دکھے ہوئے دل سے سوچا ...

کبھی کبھی آپ کا مال آپکی دولت آپ کا خاندان آپ کا علم آپ کی سمجھ کچھ بھی تو کام نہیں آتا جب آپ کی قسمت آپ کے ساتھ نہ ہو

ایک دن احمر گھر لوٹا تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ تھی
صوفی صوفی

کیا ہے کیوں شور کر رہے
ادھر تو آؤ تم سے کچھ بات کرنی ہے
لگتا تھا احمر کوئی فیصلہ کر کے آیا ہے

نہیں نہیں میں کسی دوسرے کے بچے کو نہیں پال سکتی صوفی نے روتے ہوے کہا
کیوں نہیں آخر کیوں نہیں

دیکھو ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں اور اسی طرح ہم زندگی کی یہ اہم خوشی حاصل کر سکتے ہیں
کتنے ہی دن گزر گئے سوچیں سوچیں مزید سوچیں

اور پھر فیصلہ

ٹھیک ہے ہم بچہ اڈاپٹ کرینگے صوفی نے فیصلہ کیا

سرخ جیکٹ میں ملبوس لال ٹوپی پہنے چینی نقوش والی وہ معصوم بچی اچانک ہی تو اسکی نگاہوں کے سامنے آ گئی تھی جو روشن چراغوں کے درمیان بیٹھی ایسی لگ رہی تھی جیسے " روشنی "

روشنی ہاں یہی ہمارے آنگن کی روشنی بن سکتی ہے احمر دل ہی دل میں میں فیصلہ کر چکا تھا ......
چلڈرن ہوم کے انچارج سے جب صوفی اور احمر نے بات کی تو اسکی آنکھوں میں اداسی اور ہونٹوں پر عجیب سی مسکان نمودار ہوئی

سوری آپ یہ بچی اڈاپٹ نہیں کر سکتے

کیوں صوفی اور احمر نے ایک ساتھ حیرانگی سے پوچھا

دیکھئے ایسی کوئی بات نہیں کہ آپ لوگوں میں کوئی خرابی ہے
تو
مسلہ بچی کے ساتھ ہے

کیا
کیامسلہ ہے
احمر نے بیتابی سے پوچھا

یہ بچی کینسر پیشنٹ ہے

کک کیا

صوفی کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو گئے
اور احمر ضبط کر رہا تھا

پھر احمر کی آنکھوں میں عزم نمودار ہوا

کوئی بات نہیں ہم یہ بچی اڈاپٹ کرینگے یہ ہماری " روشنی " ہے
چاہے کچھ بھی ہو ہم ضرور یہ بچی اڈاپٹ کرینگے

نہیں نہیں میں یہ نہیں کر سکتی اتنی بڑی ذمے داری اتنا بڑا امتحان
اس سے تو محرومی ہی اچھی ہے کسی کو پاکر کھو دینے سے کسی کی کمی کو برداشت کر لینا زیادہ آسان ہے

دیکھو صوفی اگر ہماری اپنی اولاد ہوتی اور اس کے ساتھ یہ سانحہ ہوتا تو تم کیا کرتیں بولو
کیا اسے چھوڑ دیتیں بتاو اگر یہ امتحان ہے تو امتحان ہی سہی

اور پھر " روشنی " انکی زندگی میں آ گئی ایسا لگا جیسے انکی زندگی روشن ہو گئی ہو
کبھی کبھی خوشیاں بھی غم کی چادر میں لپٹ کر ملتی ہیں
لوگوں نے باتیں بنائیں
ارے یہ کیا کیا

یہ بھی کوئی سمجھداری والی بات ہے

صوفی اور احمر کے خاندان والے کتنے ہی دن ناراض رہے
لیکی پھر " روشنی " کی روشنی نے پورے خاندان کو روشن کر دیا
وہ تھی ہی اتنی پیاری بچی معصوم تتلی کی طرح
یا اندھیری رات میں کسی جگنو کی طرح جو اپنی ننھی سی " روشنی " سے تاریک سیاہ رات کو منور کر دے .......

ایک رات جب روشنی صوفی اور احمر کے درمیان گھر کے لان میں لیٹی ہوئی تھی اور نیچے سبزے کی چادر اور اوپر آسمان پر چاند روشن تھا تو " روشنی " نے کہا
ماما بابا میرا کوئی بھائی کیوں نہیں
بیٹا آپ ہی اتنی اچھی ہو ہماری فیملی مکمل ہے
نہیں بابا بتائیں نہ میرا کوئی بھائی کیوں نہیں
صوفی کی آنکھیں نجانے کیوں گیلی ہو گئیں احمر بڑی دیر معصوم روشنی کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ........
پھر پتا نہیں کیوں روشنی کو یہ رٹ لگ گئی

تمہاری ماما ماں نہیں بن سکتیں
ایک دن صوفی جھنجلا کر چلا اٹھی
سنا تم نے تمہاری ماما ماں نہیں بن سکتیں
روشنی بیچاری سہم گئی

دولت پانی کی طرح بہانے کے باوجود روشنی مرجھا رہی تھی
اسکی دھیمی دھیمی لو دن با دن مدھم پڑ رہی تھی
اب زیادہ وقت نہیں ڈاکٹر نے کہا
اوہ اوہ میرے مالک آج احمر کا ضبط بھی جواب دے گیا تھا
لیکن اب صوفی کا حوصلہ بلند تھا
احمر ہم نے روشنی کے باقی وقت کو یادگار بنانا ہے
اگر یہ امتحان ہے تو ہم ضرور اس میں کامیاب ہونگے
پھر ہسپتال کے سفید بستر پر روشنی نے کافی دنوں کے بعد
صوفی سے پوچھا ماما بابا
آپ لوگ میرے بھائی کا نام کیا رکھو گے
تم ہی بتاؤ روشنی صوفی نے بھیگے ہوے لہجے میں پوچھا
" روشن " وہ روشن ہوگا نا .........
#****************************#***************#*************#******

آج روشنی کی سالگرہ تھی اور ایک سال گزرا تھا اسے بچھڑے ہوے روشنی کیا گئی زندگی میں
روشنی باقی نہیں رہی تھی ہاں
مگر
اسکی یادوں کے چند جگنو
صوفی اور احمر نے پھر کوئی بچہ اڈاپٹ نہیں کیا
ہاں اپ چلڈرن ہوم انہوں نے اپنی زیر کفالت لےلیا تھا
ننھے منھے معصوم ستاروں کے درمیان کیک کاٹتے ہوے
اچانک صوفی کی طبیعت خراب ہوائی ایسا لگا جیسے اسکا دم گھٹ رہا ہو
وہ تیزی سے واشروم کی طرف گئی اور پھر اسے اچانک ایک الٹی آئی
احمر پریشانی میں اسے ڈاکٹر کے پاس لیکر گیا
ٹیسٹ کروانے ہونگے ڈاکٹر نے فکرمند انداز میں کہا
اور پھر
جب وہ ٹیسٹ رپورٹس لینے گئے تو
لیڈی ڈاکٹر نے ان سے کہا
مبارک ہو
آپ کی وائف امید سے ہیں ......

#****************************#***************#*************#******

اوپر کہیں جنتوں میں روشنی مسکرا رہی تھی اپنی سرخ جیکٹ میں ملبوس لال ٹوپی پہنے ہوے
روشن چراغوں کے درمیان
اور احمر اور صوفی کی زندگی " روشن " ہونے والی تھی
وہ دونوں امتحان میں کامیاب اترے تھے

حسیب احمد حسیب
 

عثمان قادر

محفلین
بہت خوب ۔۔۔۔
بھائی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔
بہت ہی عمدہ اختتام کیا ۔۔۔
جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔۔۔۔
 
Top