قتیل شفائی روشنی چاہیے صبا کے لیے

ام اویس

محفلین
روشنی چاہیے صبا کے لیے
پھول روشن کرو خدا کے لیے

عشق کی انتہا کِسے معلوم
جان کافی ہے ابتدا کے لیے

بے گناہی جو شرط ٹھہری ہے
ہم کو چُن لیجیے سزا کے لیے

پارسائی ہے بزدلی کا نام
حوصلہ چاہیے خطا کے لیے

ہر کسی پر قتیل کیوں آتا
دل تھا صرف ایک دلربا کے لیے
 
Top