روزنامہ دُنیا: ایک بلاگ نذیر ناجی کے نام!!

آج روزنامہ دُنیا نے ایک کالم نذیر ناجی کے نام سے چھاپا۔
جو کہ ایک روز قبل ہی ہم سب پر جعفر حسین صاب نے لکھا تھا۔
جعفر صاب کا بلاگ
نذیر ناجی صاب کا کالم
مطلب عنوان کے علاوہ ایک حرف تک تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
لگتا ہے اپریل فول باقاعدہ طور پر منایا جا رہا ہے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
نذیر ناجی صاحب نے ہی لکھا ہو گا، زیادہ امکان تو یہی ہے، تاہم ان کے لکھے پر یقین کرنا مشکل ہے، ہاں، لکھتے اچھا ہیں اور اگر نذیر ناجی صاحب نے اس عمر میں سرقہ کیا ہے تو اپنے ساتھ ظلم کیا ہے۔ :(
 

عثمان

محفلین
نذیر ناجی صاحب نے ہی لکھا ہو گا، زیادہ امکان تو یہی ہے، تاہم ان کے لکھے پر یقین کرنا مشکل ہے، ہاں، لکھتے اچھا ہیں اور اگر نذیر ناجی صاحب نے اس عمر میں سرقہ کیا ہے تو اپنے ساتھ ظلم کیا ہے۔ :(
جس نے پہلے لکھا اسی کا کالم ہے۔ امکان کا سوال کہاں؟
 

عثمان

محفلین
سمجھ نہیں آئی کہ نذیر ناجی نے یہ حرکت کیوں کی؟ اس قسم کا سرقہ تو بہت آسانی سے پکڑا جاسکتا ہے۔
شائد دوسرے حصے کی اشاعت کے آخر میں مصنف کا نام دے۔
 
جعفر حسین کا یہ بلاگ جب پہلی بار چهپا تها تو ٹیلی میڈیا کے ایک بزرجمہر نے اسے سچ جان کر اس کے کچھ مندراجات پر اپنے پروگرام میں بات بهی کی تهی۔

شاید یہ کسی نسبتاً مشہور کالم نگار کے کالم یا انداز کا satire نما ہے اور ان دنوں ٹویٹر پر اس کا کافی چرچا بهی رہا تها۔
 
آج بھی نعیم الحق صاب نے چوکا مارا ہے :) :) ۔۔

جعفر حسین کا یہ بلاگ جب پہلی بار چهپا تها تو ٹیلی میڈیا کے ایک بزرجمہر نے اسے سچ جان کر اس کے کچھ مندراجات پر اپنے پروگرام میں بات بهی کی تهی۔

شاید یہ کسی نسبتاً مشہور کالم نگار کے کالم یا انداز کا satire نما ہے اور ان دنوں ٹویٹر پر اس کا کافی چرچا بهی رہا تها۔
 

فرقان احمد

محفلین
نواز شریف سے لاکھ اختلافات سہی، تاہم، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر وہ اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کی خواہش میں اِس حد تک گِر سکتے ہیں؛ گمان غالب ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔۔۔ تاہم، نذیر ناجی اور اس قبیل کے دیگر صحافیوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھنا خاصا مشکل ہے۔ لگتا ہے، یہ کالم بھی اپریل فول کا ہی حصہ ہے۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
صاحب! کہنے کا مقصد یہی ہے کہ نواز شریف میں لاکھ برائیاں ہوں تاہم وہ اِس حد تک نہیں گر سکتے۔ البتہ، کالم لکھنے والے فرد کی کریڈی بیلٹی کا عالم یہ ہے کہ موصوف 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کے ساتھ ہی عسکریوں کی گرفت میں آ گئے تھے اور پھر نہ جانے کن شرائط پر چُھوٹے تھے۔۔۔ البتہ، ان کے لکھنے کا انداز کافی رواں ہے اور ان کے قلم میں اچھی خاصی جان ہے ۔۔۔
 

پہلے تو یہ ہے کہ یہ کالم ناجی چاچے کا ہے ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ جعفر حسین نے یہ بلاگ 35 پنکچر، اردو بازار کے بیلٹ پیپر، ایم آئی کے بریگیڈیئر، او جهوٹو چائنہ کا صدر تو آ ہی نہیں رہا وغیرہ وغیرہ جیسے الزامات رٹنے والوں کو زچ کرنے کے لیے لکها تها۔ ناجی چاچا یا پهر دنیا اخبار والوں نے اسے اب پڑها اور چهاپ دیا۔
اور تیسرا
گو نواز گو:p

صاحب! کہنے کا مقصد یہی ہے کہ نواز شریف میں لاکھ برائیاں ہوں تاہم وہ اِس حد تک نہیں گر سکتے۔ البتہ، کالم لکھنے والے فرد کی کریڈی بیلٹی کا عالم یہ ہے کہ موصوف 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کے ساتھ ہی عسکریوں کی گرفت میں آ گئے تھے اور پھر نہ جانے کن شرائط پر چُھوٹے تھے۔۔۔ البتہ، ان کے لکھنے کا انداز کافی رواں ہے اور ان کے قلم میں اچھی خاصی جان ہے ۔۔۔
کالم انجوائے کریں باقی دیاں گلاں سب کوڑ نیں۔
 
Top