روحانی اقوال


بد نگاہی کے جسم پر اثرات
نگاہیں جس جگہ جاتی ہیں وہیں جمتی ہیں۔ پھر ان کا اچھا اور برا اثر اعصاب و دماغ اور ہارمونز پر پڑتا ہے۔ شہوت کی نگاہ سے دیکھنے سے ہارمونزی سسٹم کے اندر خرابی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ ان نگاہوں کا اثر زہریلی رطوبت کا باعث بن جاتا ہے
جدید فرنگی تہذیب کی یہ سوچ ہے کہ دیکھنے سے کیا ہوتا ہے صرف دیکھا ہی تو ہے یہ کون سا غلط کام کیا ہے تو کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اچانک اگر شیر سامنے آجائے تو آدمی صرف دیکھ لے تو صرف دیکھنے سے جان پر کیا بنتی ہے۔ سبزہ اور پھول صرف دیکھے جاتے ہیں تو پھر ان کے دیکھنے سے دل مسرور اور مطمئن کیوں ہوتا ہے۔
زخمی اور لہولہان کو صرف دیکھتے ہی تو ہیں لیکن پریشان‘ غمگین اور بعض بے ہوش ہوجاتے ہیں‘ آخر کیوں؟
الغرض نگاہیں جس جگہ جاتی ہیں وہیں جمتی ہیں۔ پھر ان کا اچھا اور برا اثر اعصاب و دماغ اور ہارمونز پر پڑتا ہے۔ شہوت کی نگاہ سے دیکھنے سے ہارمونزی سسٹم کے اندر خرابی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ ان نگاہوں کا اثر زہریلی رطوبت کا باعث بن جاتا ہے اور ہارمونزی گلینڈر ایسی تیز اور خلاف جسم زہریلی رطوبتیں خارج کرتے ہیں جس سے تمام جسم درہم برہم ہوجاتا ہے اور آدمی بے شمار امراض وعلل میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
واقعی تجربات کے لحاظ سے یہ بات واضح ہے کہ نگاہوں کی حفاظت نہ کرنے سے انسان ڈپریشن‘بے چینی اور مایوسی کا شکار ہوتا ہے جس کا علاج ناممکن ہے کیونکہ نگاہیں انسان کے خیالات اور جذبات کو منتشر کرتی ہیں ایسی خطرناک پوزیشن سے بچنے کیلئے صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
بعض لوگوں کے تجربات بتاتے ہیں کہ صرف تین دن نگاہوں کو شہوانی آور محرکات‘ خوبصورت چہروں اورعمارتوں میں لگائیں تو صرف تین دن کے بعد جسم میں درد‘ بے چینی‘ تکان‘ دماغ بوجھل بوجھل اور جسم کے عضلات کھینچے جاتے ہیں اگر اس کیفیت کو دور کرنے کیلئے سکون آور ادویات بھی استعمال کی جائیں تو کچھ وقت کیلئے سکون اور پھر وہی کیفیت۔ آخر اس کا علاج نگاہوں کی حفاظت ہے۔
بہرحال مردوں اور عورتوں کو عفت اور پاک دامنی حاصل کرنے کیلئے بہترین علاج اپنی نظروں کو جھکانا ہے خاص طور پر اس معاشرے اور گندے ماحول میں بے شرمی اور بے حیائی اس قدر عام ہے کہ نظروں کو محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس سے بچنے کیلئے ظاہری و عملی شکل تو یہی ہے جو قرآن نے ہمیں بتائی کہ چلتے پھرتے اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور دل کے اندر اللہ کا خوف ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے جس قدر اللہ تعالیٰ کا خوف زیادہ ہوگا اتنا ہی حرام چیزوں سے بچنا آسان ہوگا۔ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے۔
بدنظری کے طبی نقصانات
ایک بدنظری سے کئی مرض پیدا ہوجاتے ہیں اگرچہ ایک سیکنڈ کی بدنظری ہو دل کو ضعف ہوجاتا ہے۔ فوراً کشمکش شروع ہوجاتی ہے کہ نہیں؟ کبھی ادھر دیکھتا ہے کبھی ادھر دیکھ رہا ہے کوئی دیکھ تو نہیں رہا اس کشمکش سے قلب میں ضعف پیدا ہوتا ہے اور گندے خیالات سے مثانے کے غدود متورم ہوجاتے ہیں جس سے اس کو بار بار پیشاب آنے لگتا ہے اور اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں جس سے دماغ کمزور اور نسیان پیدا ہوجاتا ہے۔ ہرعصیان سبب نسیان ہے اللہ تعالیٰ کی ہر نافرمانی سے قوت دماغ اور حافظہ کمزور ہوجاتا ہے۔ بھول کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے اور اس کا علم بھی ضائع ہوجاتا ہے اور گردے بھی کمزور ہوجاتے ہیں سارے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ زلزلے میں کیا ہوتا ہے جب کہیں زلزلہ آتا ہے تو عمارت کمزور ہوجاتی ہے یا نہیں؟ گناہ نفس و شیطان کی طرف سے زلزلہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو گناہ سے بچاتے ہیں۔ اچانک نظر پڑی اور فوراً ہٹالی تو بھی دل میں زلزلہ آتا ہے جھٹکا لگتا ہے مگر گناہ کرنے کے زلزلے پر لعنت برستی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے جھٹکے لگتے ہیں.
 
امریکہ جانے کا مجرب وظیفہ​
اگر اپ چاہتے ہے امریکا کا ویزا امریکا کی نیشنلٹی کے ساتھ مل جائے تو پھر​
صبح دوپہر شام آئینے میں اپنا چہرہ دیکھے 41 روز تک​
اس ورد کو دل ہی دل میں دوہراتے رہیے کیا یہ چہرہ امریکا جانے کے قابل ہے​
اول و آخر 2 ،2 تھپڑ کے ساتھ​
اس وظیفے کی تاثیر کو مبنی بر جھوٹ نہ جانیئے​
ایک بندے نے اس کو جھوٹ سمجھا وہ پشاور پہنچ گیا​
ایک بندے نے وظیفہ بیچ میں چھوڑ دیا تو وہ گوادر پہنچ گیا۔​
ایان علی نے اس وظیفے کا مذاق اڑایا تو وہ اڈیالہ جیل پہنچ گئی۔​
اس وظیفے کی عام و خاص اجازت ہے​
منجانب​
(عبقری ریٹرن )​
 
مرشِدپرمریدکاحال پوشیدہ نہیں ہوتا
حضرتِ سیِّدُنا ابو عمر و بن عَلْوَان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں :''ایک مرتبہ میں کسی کام سے ''رَحْبَہ'' کے بازار میں گیا ۔ دیکھا کہ کچھ لوگ جنازہ اٹھائے جارہے ہیں ۔ میں نماز جنازہ کے ارادے سے ان کے ساتھ ہولیا ۔ تدفین کے بعدجب واپس ہوا توبِلاارادہ ایک حسین و جمیل عورت پر نظر پڑگئی اور میں اسے دیکھنے لگاپھر نادِم ہوکر'' اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن'' کہتے ہوئے نگاہ پھیر لی ۔اور اللہ رب ا لعزت جَلَّ جَلَالُہٗ سے اپنے اس فعل کی معافی چاہتے ہوئے گھر چلا آیا ۔
گھر پہنچا توبوڑھی خادمہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا :'' یہ آپ کا چہرہ سیاہ کیوں ہوگیا؟'' میں نے گھبراکر آئینہ دیکھا تو واقعی میرا چہر ہ سیاہ ہوچکا تھا ۔ میں سوچنے لگا کہ آخر ایسا کونسا گناہ سرزد ہوگیا جس کی نحوست سے مجھ پر یہ مصیبت آ پڑی؟۔ پھر خیال آیا کہ اس غیرعورت کو دیکھنے کی وجہ سے اس عذاب میں گرفتار ہوا ہوں ۔چنانچہ میں چالیس روز تک اللہ عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگتا رہا۔ پھر خیال آیا کہ مجھے اپنے مرشدِ کا مل حضرتِ سیِّدُناجنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہے۔ چنانچہ ،میں عروس البلاد ''بغداد شریف''کی جانب چل دیا۔ جب مرشدِ کامل کے آستانہ عالیہ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو شیخِ کامل حضر تِ سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی آواز سنائی دی :
''اے ابو عمر ! اندر آجاؤ تم نے ''رَحْبَہ ''میں گناہ کیا ،اور ہم یہاں بغداد میں تمہارے لئے استغفار کر رہے ہیں۔''
ایک عارفہ کی معرفت بھری گفتگو
حضرتِ سیِّدُنا احمد بن محمد بن مَسْرُوق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت سیِّدُناذُوالنُّوْن مِصْرِی علیہ رحمۃ اللہ القوی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:ایک مرتبہ دورانِ سفر ایک عورت نے مجھ سے پوچھا: ''تمہاراتعلق کہاں سے ہے ؟ ' ' میں نے کہا : '' میں پردیسی ہوں۔'' بولی: ''افسوس ہے تم پر! اللہ ربُّ العزَّت کے ہوتے ہوئے بھی تمہیں اَجْنَبِیَّت محسوس ہورہی ہے،وہ پاک پرور دگار عَزَّوَجَلَّ تو کمزوروں اورغریبوں کا مُونِس ومددگار ہے ۔'' یہ سن کر میں رونے لگا ۔ اس نے کہا :'' تمہیں کون سی چیز رُلارہی ہے ؟ ' ' میں نے کہا: '' میرے زخمی دل پر مرہم رکھ دی گئی ہے، اب میں جلدی نجات پاجاؤں گا ۔'' کہا: ''اگر تو اپنی بات میں سچا ہے تو پھر رویا کیوں؟'' میں نے کہا:'' کیا سچا شخص روتانہیں؟'' کہا:''نہیں !کیونکہ آنسوبہہ جانے کے بعد دل کو سکون مل جاتاہے۔''
اُس کی اس بات نے مجھے تعجب میں ڈال دیا ۔پھر وہ کہنے لگی :'' تم اتنے حیران کیوں ہورہے ہو؟''میں نے کہا:''مجھے تمہاری باتوں سے بہت تعجب ہورہاہے۔'' کہا :''کیا تم اپنے زخم کو بھول گئے ؟''میں نے کہا:''نہیں، میں اپنے زخموں کو نہیں بھولا۔ تم مجھے کوئی ایسی بات بتاؤ جس کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے نفع دے۔'' کہا:''جو فائدہ تجھے حکماء کی باتیں سن کر ہوا کیا وہ تمہارے لئے کافی نہیں ؟''میں نے کہا :''نہیں ،میں ابھی نیک باتوں کی طلب سے بے نیاز نہیں ہوا۔ '' کہا:'' تو نے سچ کہا،پس اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے سچی محبت کر ، اس کا سچا عاشق بن جا۔کل بروزِ قیامت جب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو اپنی محبت کے جام پلائے گا تو پھر وہ کبھی بھی پیاس محسوس نہیں کریں گے ۔ '' میں رونے لگا اورمیرے سینے سے گُھٹی گُھُٹی سی آواز آنے لگی۔ پھر وہ عورت مجھے وہیں روتا چھوڑکر یہ کہتی ہوئی چلی گئی :'' اے میرے آ قا!تو کب تک مجھے ایسے گھر میں باقی رکھے گا جہاں میں کسی بھی ایسے شخص کو نہیں پاتی جو رونے میں میرا مددگار ثابت ہو۔ ''
(عُیُوْ نُ الْحِکَایَاتْ مصنف علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ)
 

bilal260

محفلین
امریکہ جانے کا مجرب وظیفہ​

اگر اپ چاہتے ہے امریکا کا ویزا امریکا کی نیشنلٹی کے ساتھ مل جائے تو پھر
صبح دوپہر شام آئینے میں اپنا چہرہ دیکھے 41 روز تک
اس ورد کو دل ہی دل میں دوہراتے رہیے کیا یہ چہرہ امریکا جانے کے قابل ہے
اول و آخر 2 ،2 تھپڑ کے ساتھ
اس وظیفے کی تاثیر کو مبنی بر جھوٹ نہ جانیئے
ایک بندے نے اس کو جھوٹ سمجھا وہ پشاور پہنچ گیا
ایک بندے نے وظیفہ بیچ میں چھوڑ دیا تو وہ گوادر پہنچ گیا۔
ایان علی نے اس وظیفے کا مذاق اڑایا تو وہ اڈیالہ جیل پہنچ گئی۔
اس وظیفے کی عام و خاص اجازت ہے
منجانب
(عبقری ریٹرن )​
اس مراسلے میں عبقری والوں کا بہت زبردست مذاق اڑایا گیاہے۔
ایسا آپ نے کیوں کیا؟
آپ کو اس کو لطیفوں کے سیکشن میں پوسٹ کرناچاہئے تھا۔
یہ اس کو آپ نے روحانی اقوال میں پوسٹ کیا ہے۔
کیا یہ شیطانی اقوال نہ ہوئے جیسا کہ اس تھریڈ کی شروع کی چند پوسٹ میں آپ نے ایک بندے کی اچھی خاصی اور بری طرح جھاڑ کر دی؟
آپ موضوع کے مطابق لکھے نہ کہ اِدھر اُدھر کی مارتے پھرے۔
 
اس مراسلے میں عبقری والوں کا بہت زبردست مذاق اڑایا گیاہے۔
ایسا آپ نے کیوں کیا؟
آپ کو اس کو لطیفوں کے سیکشن میں پوسٹ کرناچاہئے تھا۔
یہ اس کو آپ نے روحانی اقوال میں پوسٹ کیا ہے۔
کیا یہ شیطانی اقوال نہ ہوئے جیسا کہ اس تھریڈ کی شروع کی چند پوسٹ میں آپ نے ایک بندے کی اچھی خاصی اور بری طرح جھاڑ کر دی؟
آپ موضوع کے مطابق لکھے نہ کہ اِدھر اُدھر کی مارتے پھرے۔
سب سے پہلے تو میرے بھائی آپ کا میرے سارے کے سارے اقوال پڑھنے کا شکریہ کہ آپ جناب نے اتنی خواری کرکے پورے کے پورے کے اقوال پڑھے اس کے لیئے دوبارہ شکریہ
عبقری کا مذاق اس لیئے اڑایا گیا ہے کہ وہ بعض باتون مین مذاق اڑوانے کے قابل ہیں جیسے وظائف سے بجلی کے میٹر کو روک لینا وغیرہ
جہاں تک ادھر ادھر کی مارنے کی بات ہے تو حضور آپ کو کس بے وقوف نے مشورہ دیا ہے کہ آپ ادھر ادھر منہ مارتے ادھر آجاتے ہین ادھر نہ آیا کریں ادھر ادھر ہی مارتے رہین شکریہ
اور اہم بات یہ ہے کہ حکمت کی بات مؤمن کی گمشدہ میراث ہے پس جہاں سے ملے اس کو اٹھا لینا چاہیئے آپ کو میرا ادھر ادھر کا مشورہ یہ یہی ہے کہ آپ ادھر ادھر کی باتوں کو ادھر ادھر چھوڑ کر ادھر سے صرف حکمت کے گم شدہ موتی ہی تلاش کرین کیونکہ ادھر ادھر کی بہت ساری باتیں آپ کو ادھر ادھر مل ہی جاتی ہونگی۔
 
تصوف
تصوف کوئی غیر معمولی ہونا نہیں بلکہ تصوف نام ہے نارمل ہونے کا
بلکہ تصوف نام ہے اپنی بے محابہ حیوانی جبلت کو اعتدال مین لانے اور اللہ کے احکامات کے تحت حدود اللہ سے تجاوز نہ کرنے کا نام ہے۔
تصوف ظاہر اور باطن دونوں خطاؤں سے ذہنی اور بدنی طور پر بچنے کا نام ہے۔
اس لیئے جب مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ طریقت کیا ہے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ طریقت شریعت کی نیت ہے
از پروفیسر احمد رفیق اختر
 
آخری تدوین:
انسان تین چیزوں کا مجموعہ ہے
جسم
ذہن
روح
جسم کی مشینری کو چالو رکھنے کے لیئے ورزش ضروری ہے
ذہن کو لغویات اور لایعنی خیالات سے بچانے کے لیئے مطالعہ ضروری ہے
روح کو صحت مند اور ترقی دینے کے واسطے خدمت خلق ضروری ہے
مندرجہ بالا تینوں کام عبادت سمجھ کر کرنے چاہیئے ہیں تاکہ بندگی کا اصل مفہوم سمجھ میں آجائے
(خواجہ صوفی محمد عظمت اللہ شاہ ) انتخاب از ماہنامہ گلستان نقیب
 
خورش ده به گنجشک و کبک وحمام
که یک روزت افتد همائے به دام
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہین کہ دانہ ڈالتا جا کبھی چڑیا چگے گی کبھی تیتر آئے گا اور دانہ چگے گا کبھی کبوتر آئے گا پس تو بد دل نہ ہو اپنے کام میں لگا رہ پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ تیرا مقصود یعنی ھما بھی آئے گا پس تو فورا جال کو کھینچ لے۔
یعنی مطلب یہ ہوا کہ اے انسان تو عبادت و مخلوق خدا مین لگا رہ صلے کی تمنا نہ کر آخر ایک دن ایسا آئے گا کہ تیرے اعمال صالحہ حسنات سے قبولیت کے درجے میں پہنچجائے گے پس ہوشیار رہ کہ ناگاہ تو بارگاہ رب العزت میں قبول کرلیا جائے تجھے ولایت کی خلعت پہنا دی جائےگی۔
 
آخری تدوین:
نصرت فتح علی خان کی خوبصورت آواز اور پھر گرہ بندیاں واہ لطف آگیا
کر رہی درحقیقت کام ساقی کی نظر
مے کدے میں گردش ساغر برائے نام ہے

پھروں ڈھونڈھتا میکدہ توبہ توبہ
مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں ہے
سلامت رہے تیری آنکھوں کی مستی
مجھے مہ کشی کی ضرورت نہیں ہے


گرہ بندی
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہ یار سلامت ہزار میخانے
سرور چیز کی مقدار پر نہیں موقوف
شراب کم ہے تو ساقی نظر ملا کر پلا
جام پر جام پینے سے کیا فائدہ؟
رات گزری تو سار ی اتر جائیگی
تیری نظروں سے پی ہے خدا کی قسم
عمر ساری نشے میں گزر جائے گی


یہ ترک تعلق کا کیا تذکرہ ہے؟
تمھارے سوا کوئی اپنا نہیں ہے
اگر تم کہو تو میں خود کو بھلادوں
تمھیں بھول جانے کی طاقت نہیں ہے


گرہ بندی
اک بار عقل نے چاہا تھا تجھ کو بھلانا
سوبار جنوں نے تیری تصویر دکھادی
ہر اک موڑ پر اک نئی مات کھائی
رہی دل کی دل میں زباں پر نہ آئی


کئے ہیں کچھ ایسے کرم دوستوں نے
کہ اب دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے

گرہ بندی
ہمیشہ میرے سامنے سے گزرنا
نگاہیں چراکر مجھے دیکھ لانا
میری جان تم مجھ کو اتنا بتادو
یہ کیا چیز ہے گر محبت نہیں ہے
ہزاروں تمنائیں ہوتی ہیں دل میں
ہماری تو بس اک تمنا یہی ہے


مجھے اک دفعہ اپنا کہہ کہ پکارو
بس اسکے سوا کوئی حسرت نہیں ہے
فاتح محمد وارث التماس ہے کہ یہ کلام کس کا ہے یعنی جانکاری چاہتا ہوں
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
مجھے اک دفعہ اپنا کہہ کہ پکارو
بس اسکے سوا کوئی حسرت نہیں ہے
فاتح محمد وارث التماس ہے کہ یہ کلام کس کا ہے یعنی جانکاری چاہتا ہوں
میں شاعر کے نام کے متعلق تو نہیں جانتا لیکن "دفعہ" کے بر وزن فعو باندھنے کی وجہ سے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بڑا شاعر نہیں ہے۔
 
خودپسندی
دوسرے کو حقیر سمجھے بغیر اپنے آپ کو اچھا سمجھنا بھی گناہ ہے کیونکہ بیہقی کی ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ خود پسندی 70سال کے اعمال کو ضائع کردیتی ہے۔

السلام علیکم!
یہ بات بالکل بھی سمجھ نہیں آئی، وضاحت فرما دیجیے:
دوسرے کو حقیر سمجھے بغیر اپنے آپ کو اچھا سمجھنا بھی گناہ ہے

کہیں آپ یہ تو نہیں لکھنا چاہ رہے تھے کہ
دوسروں کو حقیر جانتے ہوئے خود کو اچھا سمجھنا بھی گناہ ہے÷
 
بچے کی صلاحیت پہچانیں:
**************
ہر بچہ مختلف عادات و اطوار کا مالک ہوتا ہے۔۔۔
ہر بچے کے شوق مختلف ہوتے ہیں۔۔۔
کوئی کھیل کا رسیا ہوتاہے،کوئی مطالعے کا،کوئی ٹیکنیکل ذہن کا مالک ہوتا ہے اور کوئی مائنڈ گیمز کا ماسٹر۔۔۔
کسی کی آواز اچھی ہوتی ہے۔۔۔
کسی کے بولنے کا انداز اچھا ہوتاہے۔۔۔
لیکن
یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کسی بچے میں کوئی خوبی یا شوق نہ ہو۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرابی کب پیدا ہوتی ہے؟؟؟
جب والدین بچے پر اس چیز کو سیکھنے کا زور لگاتے ہیں جس کی صلاحیت اس کے اندر موجود نہیں ہوتی۔۔۔
بچہ اُس حد تک نتائج پیدا نہیں کرسکتا جو قدرتی صلاحیت والا بچہ کرسکتا ہے۔۔۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ اعتماد کھونا شروع کردیتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا بڑا بیٹا نعتیں اور ملی نغمے پڑھنے کا بہت شوقین ہے۔۔۔
لیکن صلاحیت ویسی نہیں کہ اساتذہ کی نظر میں آسکے۔۔۔
بہت پریشان رہتا تھا،دکھی اور غمزدہ بھی۔۔۔
ایک دن سمجھایا کہ اگر سب کی آواز اور سُر فلاں نعت خواں جیسے ہوتے تو پھر اسے کون سُنتا؟؟؟
بات سمجھ گیا اور ذرا سا مسکرایا۔۔۔
کسی بھی اچھے نعت خواں کی یہی خوبی ہے کہ اس کا انداز اور آواز منفرد ہے۔۔۔
اسی طرح تمھاری صلاحیت کسی اور چیز میں ہے۔۔۔
پھر اس نے کامیابی سے تقریر کی۔۔۔
چھوٹے چھوٹے ٹیکنیکل کام بہت شوق اور اچھے طریقے سے کرلیتا ہے۔۔۔
مطالعے کا بھی شوقین ہے۔۔۔
یہی وہ صلاحیت ہے جو بچے میں پہچاننی ہے اور پھر اسے نکھارنا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے پر غیر ضروری دباؤ اس کی شخصیت کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔۔۔
اس کے اندر والدین کا خوف پیدا کرتا ہے۔۔۔
اس کے اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔۔۔
بچے میں جو صلاحیت موجود نہیں،اُسے وہ سکھانے پر زور نہ دیں اور نہ ہی اُسے طعنہ دیں کہ وہ باقی بچوں جیسا کیوں نہیں؟؟؟
اُس کی صلاحیت پہچانیں،پھر اُسے مواقع فراہم کریں اور اُس کی حوصلہ افزائی کریں۔۔۔
کچھ عرصہ میں ہی حوصلہ افزا نتائج آپ کے سامنے ہوں گے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرے کو ایک صحت مند سوچ کی حامل نسل دیں۔۔۔
ایسی نسل جو ذہنی طور پر مضبوط،مجتمع ہو۔۔۔
جس کی سوچ کا رُخ مثبت ہو۔۔۔
جس کے اندر احساسِ کمتری نہ ہو۔۔۔
یہ ایسا صدقہ جاریہ ہے جو آپ کے لئے ہمیشہ کا م آئے گا۔۔۔
تجربہ شرط ہے۔۔۔
..................
اپنے بچوں میں مراقبہ کی عادت کو پروان چڑھائیں اس سے ان مین خداداد صلاحتیں پیدا ہوتی ہیں دوسرا یہ کہ پھر مراقبہ ان کی زندگی کا ایک حصہ بن جاتا ہے تیسری سب سے اہم بات یہ کہ بچے کا ذہن کبھی تخریب کی طرف نہیں جاتا ہے چھوتھی اہم بات یہ کہ بچہ بدتمیزی نہیں کرتا ہے اور جن بچوں کی طینیت میں جارحانہ پن ہوتا ہے وہ ایگریسو رویہ کو کافی کنڑول میں رکھتے ہیں۔
دراصل انسان کے عمر کے مختلف دور(پیرڈز یا سرکل ) ہوتے ہیں ہر دور کا اسم الحسنی کے اعتبار سے الگ مراقبہ ہوتا ہے جو کہ بچے کی کنڈلی دیکھنے سے پتہ چلتا ہے۔

 

ایک شخص نے بہتر گھر خریدنے کیلئے اپنا پہلے والا گھر بیچنا چاہا.. اس مقصد کیلئے وہ اپنے ایک ایسے دوست کے پاس گیا جو جائیداد کی خرید و فروخت میں اچھی شہرت رکھتا تھا..
اس شخص نے اپنے دوست کو مُدعا سنانے کے بعد کہا کہ وہ اس کے لئے گھر برائے فروخت کا ایک اشتہار لکھ دے..
اس کا دوست اِس گھر کو بہت ہی اچھی طرح سے جانتا تھا.. اشتہار کی تحریر میں اُس نے گھر کے محل وقوع ' رقبے ' ڈیزائن ' تعمیراتی مواد ' باغیچے ' سوئمنگ پول سمیت ہر خوبی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا..
اعلان مکمل ہونے پر اُس نے اپنے دوست کو یہ اشتہار پڑھ کر سُنایا تاکہ تحریر پر اُسکی رائے لے سکے.. اشتہار کی تحریر سُن کر اُس شخص نے کہا.. " برائے مہربانی اس اشتہار کو ذرا دوبارہ پڑھنا.. "
اُس کے دوست نے اشتہار دوبارہ پڑھ کر سُنا دیا.. اشتہار کی تحریر کو دوبارہ سُن کر یہ شخص تقریباً چیخ ہی پڑا.. " کیا میں ایسے شاندار گھر میں رہتا ہوں..؟ اور میں ساری زندگی ایک ایسے گھر کے خواب دیکھتا رہا جس میں کچھ ایسی ہی خوبیاں ہوں مگر یہ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں تو رہ ہی ایسے گھر میں رہا ہوں جس کی ایسی خوبیاں تم بیان کر رہے ہو..
مہربانی کر کے اس اشتہار کو ضائع کر دو.. میرا گھر بکاؤ ہی نہیں ہے
.. "
ایک منٹ ٹھہریئے.. مضمون ابھی پورا نہیں ہوا..
ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نعمتیں تمہیں دی ہیں ان کو ایک کاغذ پر لکھنا شروع کر دو.. یقیناً اس لکھائی کے بعد تمہاری زندگی اور زیادہ خوش و خرم ہو جائے گی..
اصل میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہی بھلائے بیٹھے ہیں کیوں کہ جو کچھ برکتیں اور نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں ہم اُن کو گننا ہی نہیں چاہتے.. ہم تو صرف اپنی گنی چنی چند پریشانیاں یا کمی اور کوتاہیاں دیکھتے ہیں اور برکتوں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں..
" میں اپنے ننگے پیروں کو دیکھ کر کُڑھتا رہا.. پھر ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے تو شکر کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدے میں گر گیا.. "
اب آپ سے سوال..
کتنے ایسے لوگ ہیں جو آپ جیسا گھر ' گاڑی ' ٹیلیفون ' تعلیمی سند ' نوکری وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی خواہش کرتے ہیں..
کتنے ایسے لوگ ہیں جب آپ اپنی گاڑی پر سوار جا رہے ہوتے ہو تو وہ سڑک پر ننگے پاؤں یا پیدل جا رہے ہوتے ہیں..
کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہوتی جب آپ اپنے گھر میں محفوظ آرام سے سو رہے ہوتے ہیں..
کتنے ایسے لوگ ہیں جو علم حاصل کرنا چاہتے تھے اور نا کر سکے.. اور آپ کے پاس تعلیم کی سند موجود ہے..
کتنے بے روزگار شخص ہیں جو فاقہ کشی کرتے ہیں اور آپ کے پاس ملازمت اور منصب موجود ہے..
ہزاروں باتیں لکھی اور کہی جا سکتی ہیں..
کیا خیال ہے.. ابھی بھی اللہ کی نعمتوں کے اعتراف اور اُنکا شکر ادا کرنے کا وقت نہیں آیا کہ ہم کہہ دیں..
" یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے.. میں نادان ہوں ' مجھے معاف کر دے..!!


ایک شخص نے بہتر گھر خریدنے کیلئے اپنا پہلے والا گھر بیچنا چاہا.. اس مقصد کیلئے وہ اپنے ایک ایسے دوست کے پاس گیا جو جائیداد کی خرید و فروخت میں اچھی شہرت رکھتا تھا..
اس شخص نے اپنے دوست کو مُدعا سنانے کے بعد کہا کہ وہ اس کے لئے گھر برائے فروخت کا ایک اشتہار لکھ دے..
اس کا دوست اِس گھر کو بہت ہی اچھی طرح سے جانتا تھا.. اشتہار کی تحریر میں اُس نے گھر کے محل وقوع ' رقبے ' ڈیزائن ' تعمیراتی مواد ' باغیچے ' سوئمنگ پول سمیت ہر خوبی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا..
اعلان مکمل ہونے پر اُس نے اپنے دوست کو یہ اشتہار پڑھ کر سُنایا تاکہ تحریر پر اُسکی رائے لے سکے.. اشتہار کی تحریر سُن کر اُس شخص نے کہا.. " برائے مہربانی اس اشتہار کو ذرا دوبارہ پڑھنا.. "
اُس کے دوست نے اشتہار دوبارہ پڑھ کر سُنا دیا.. اشتہار کی تحریر کو دوبارہ سُن کر یہ شخص تقریباً چیخ ہی پڑا.. " کیا میں ایسے شاندار گھر میں رہتا ہوں..؟ اور میں ساری زندگی ایک ایسے گھر کے خواب دیکھتا رہا جس میں کچھ ایسی ہی خوبیاں ہوں مگر یہ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں تو رہ ہی ایسے گھر میں رہا ہوں جس کی ایسی خوبیاں تم بیان کر رہے ہو..
مہربانی کر کے اس اشتہار کو ضائع کر دو.. میرا گھر بکاؤ ہی نہیں ہے
.. "
ایک منٹ ٹھہریئے.. مضمون ابھی پورا نہیں ہوا..
ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نعمتیں تمہیں دی ہیں ان کو ایک کاغذ پر لکھنا شروع کر دو.. یقیناً اس لکھائی کے بعد تمہاری زندگی اور زیادہ خوش و خرم ہو جائے گی..
اصل میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہی بھلائے بیٹھے ہیں کیوں کہ جو کچھ برکتیں اور نعمتیں ہم پر برس رہی ہیں ہم اُن کو گننا ہی نہیں چاہتے.. ہم تو صرف اپنی گنی چنی چند پریشانیاں یا کمی اور کوتاہیاں دیکھتے ہیں اور برکتوں اور نعمتوں کو بھول جاتے ہیں..
" میں اپنے ننگے پیروں کو دیکھ کر کُڑھتا رہا.. پھر ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے پاؤں ہی نہیں تھے تو شکر کے ساتھ اللہ کے سامنے سجدے میں گر گیا.. "
اب آپ سے سوال..
کتنے ایسے لوگ ہیں جو آپ جیسا گھر ' گاڑی ' ٹیلیفون ' تعلیمی سند ' نوکری وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی خواہش کرتے ہیں..
کتنے ایسے لوگ ہیں جب آپ اپنی گاڑی پر سوار جا رہے ہوتے ہو تو وہ سڑک پر ننگے پاؤں یا پیدل جا رہے ہوتے ہیں..
کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہوتی جب آپ اپنے گھر میں محفوظ آرام سے سو رہے ہوتے ہیں..
کتنے ایسے لوگ ہیں جو علم حاصل کرنا چاہتے تھے اور نا کر سکے.. اور آپ کے پاس تعلیم کی سند موجود ہے..
کتنے بے روزگار شخص ہیں جو فاقہ کشی کرتے ہیں اور آپ کے پاس ملازمت اور منصب موجود ہے..
ہزاروں باتیں لکھی اور کہی جا سکتی ہیں..
کیا خیال ہے.. ابھی بھی اللہ کی نعمتوں کے اعتراف اور اُنکا شکر ادا کرنے کا وقت نہیں آیا کہ ہم کہہ دیں..
" یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے.. میں نادان ہوں ' مجھے معاف کر دے..!!


ہرے رنگ کی روشنائی سے لکھی گئی تحریر ایک بہترین مراقبہ ہے
 
السلام علیکم!
یہ بات بالکل بھی سمجھ نہیں آئی، وضاحت فرما دیجیے:
دوسرے کو حقیر سمجھے بغیر اپنے آپ کو اچھا سمجھنا بھی گناہ ہے

کہیں آپ یہ تو نہیں لکھنا چاہ رہے تھے کہ
دوسروں کو حقیر جانتے ہوئے خود کو اچھا سمجھنا بھی گناہ ہے÷

فاتح صاحب خودپسندی ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو کہ آپ کے مزاج اور طبیعت پر حاوی ہوجاتی ہے اور یہ پھر طبیعت کا حصہ بن جاتی ہے۔
خود پسندی کو ایک مثال سے واضح کرونگا
میرا ایک دوست سنار ہے یوں سمجھ لیں گولڈ کے کام سے متعلق ہے مؤصوف کا تعلق پنجاب سے ہے گلے کا لاکٹ ہو انگشتری ہو چاہے کڑے ہوں یہ ان میں نگینے لگانے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں ایلیٹ کلاس (طبقہ اشرافیہ) کی خواتین ان کے پاس آتی ہیں اور ان کے نخرے سنبھالے نہیں جاتے ہیں منہ مانگے دام لیکر کام کرتے ہیں اور فخریہ کہتے ہیں میرے جیسا کام میرے جیسا ہنر اور میرے جیسی مہارت دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں ہے دوسرے کسی کاریگر کے کام کو انتہائی حقارت سے دیکھتے ہیں اور اس کے کام میں سو عیب نکالتے ہیں اور اس دوران ان کا لہجہ زہر آلود اور انتہائی حقارت بھرا ہوتا ہے
فاتح صاحب امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ خود پسندی کسے کہتے ہیں۔
میرے ایک اور دوست ہیں جو ڈاکٹر ہیں یہ انجکشن لگانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں ہاتھ میں اس حد تک صفائی ہے کہ ادھر انجکشن لگایا کب نکالا پتہ ہی نہیں چلتا یعنی جس کو ٹیکہ لگتا ہے اس کو درد کا احساس تک نہیں ہوتا ہے ان کے منہ پر جو بندہ ان کی تعریف کرتا ہے تو فورا زمین پر دوانگلیاں لگا کر ماتھا خاک آلود کرتے ہیں اور کہتے ہیں تعریف اس خدا کی جس نے میرے ہاتھ میں یہ صلاحیت رکھی ہے یعنی موصوف بالکل بچھو کے ڈنگ (نیش) کی مانند سوئی لگاتے ہیں کہ پھر ادھر سے خون نکلنا تو ایک طرف رہا نشان تک نہیں ملتا کہ بازو پر کس مقام پر ٹیکہ لگا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ ان کو بچھو ڈنگ نہین مارتا ہے۔
 
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ نے فرماتے ہیں کہ عشق کے پانچ درجات ہیں۔
پہلا درجہ شریعت ہے یعنی جمال محبوب کی صفت سننا تاکہ شوق پیدا ہو۔
دوسرا درجہ طریقت ہے یعنی محبوب کی طلب کرنا اور محبوب کی راہ میں چلنا ۔
تیسرا درجہ حقیقت ہے یعنی ہمیشہ محبوب کے خیال مین رہنا۔
چوتھا درجہ معرفت ہے یعنی اپنی مراد کو محبوب کی مراد مین محو کردینا ۔
پانچواں درجہ وحدت ہے یعنی اپنے فانی وجود کو ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی ختم کردینا اور صرف محبوب کو ہی مؤجود مطلق جاننا ۔
جب یہ پانچ درجے مرتب ہوجاتے ہیں تو کام ختم ہوجاتا ہے اور صرف محبوب کا عشق باقی رہتا ہے عاشق اور معشوق کی موج بحر عشق میں غرق ہوجاتی ہے ۔چناچہ کسی بزرگ نے فرمایا ہے کہ وجود دو عشق کے درمیان ہے یعنی اول بھی عشق ہوتا ہے اور آخر بھی عشق ہوتا ہے کیونکہ ہر وجود جو مؤجود ہے عشق سے خالی نہیں ہوتا اور نہ عشق کے بغیر قائم و باقی رہ سکتا ہے ۔پش اول و آخر ،ظاہر و باطن جو کچھ ہے عشق ہے۔

 
علت و معلول کا فلسفہ
اگر کوئی موجود کسی دوسری موجود کا محتاج ہو، اور اس کا وجود دوسرے کے وجود پر منحصر ہو تو اسے فلسفہ کی اصطلاح میں محتاج موجود کو "معلول" اور دوسرے کو "علت" کہا جاتا ہے.
سب سے پہلے ارسطو نے علل اربعہ (علت فاعلیہ, علت مادیہ, علت صوریہ, علت غائیہ) کا فلسفہ پیش کیا تها اور آج تک اسی فلسفہ کا دنیا پر راج ہے حتی کہ کتاب و سنت پر بلاواسطہ عمل پیرا ہونے والوں کے علاوہ دنیا کا ہر مذہب بلکہ جدید سائنس بهی اسی علل اربعہ کے فلسفہ کی ہی معتقد ہے.
اسی فلسفہ کی بنیاد پر ملاحدہ و مادہ پرستوں کا کہنا ہے کہ "اگر ہر وجود کی کوئی نہ کوئی علت ہے تو پھر خدا کی کیا علت ہے؟"
چونکہ ممکن الوجود کا وجود خود سے نہیں ہوتا لہٰذا وہ اپنے متحقق ہونے کے لئے کسی دوسرے موجود کا محتاج ہے، اس لئے کہ یہ قضیہ بدیہی اور آشکار ہے کہ ہر وہ محمول جسے موضوع کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے یا تو وہ خود بخود (بالذات) ثابت ہے، یا کسی دوسرے کی وجہ سے (بالغیر) اس کا ثبوت ہے.
پس ایک موضوع کے لئے وجود کا ثابت ہونا یا تو بالذات ہے یا بالغیر، اگر بالذات نہیں ہے تو ضرور بالغیر ہے، لہٰذا ہر ممکن الوجود جو خود بخود وجود سے متصف نہیں ہوا ہے وہ حتماً دوسری شئی کے ذریعہ فیض وجود سے مستفیض ہوگا, پس ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہے لیکن بعض لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اصل علیت کا معنی یہ ہے کہ ہر موجود علت کا محتاج ہے لہٰذا ان لوگوں نے یہ اشکال کیا ہے کہ پھر خدا کے لئے بھی علت ہونی چاہیے. لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے غافل ہیں کہ اصل علیت (موجود) بطور مطلق نہیں ہے بلکہ اس کا مو ضوع ممکن الوجود اور معلول ہے یا دوسری تعبیر کے مطابق ہر موجود محتاج علت کا محتاج ہے نہ ہر موجود.
علتوں کا سلسلہ ایک ایسے موجود پر تمام ہو جو خود کسی کا معلول نہ ہو اس لئے کہ علتوں کا یہ نہایت تسلسل محال ہے اور اس طرح واجب الوجود کا وجود ثابت ہو جاتا ہے علت خود بخود موجود ہے اور کسی دوسرے وجود کی محتاج نہیں. فلاسفہ نے تسلسل کو باطل کرنے کے لئے متعدد دلیلیں پیش کی ہیں لیکن حقیقیت تو یہ ہے کہ علتوں کے سلسلہ میں تسلسل کا باطل ہونا آشکار ہے جو ایک معمولی تفکر سے سمجھ میں آجاتا ہے، یعنی چونکہ وجود معلول علت سے وابستہ اور اسی کے ذریعہ قائم ہے، اگر یہ فرض کر لیں کہ اس کی معلولیّت عمومی ہے تو اس صورت میں کوئی موجود وجود میں نہیں آسکتا ،اس لئے کہ چند وابستہ موجودات کا ان کے مقابل موجود کے وجود ہونے کے بغیر فرض کرنا معقول نہیں ہے.
ہر وہ چیز جسے موجود کہا جاسکتا ہو وہ دو حال سے خارج نہیں، یا تو اس کے لئے وجود ضروری ہے یعنی وہ خودبخود موجود ہے کہ جسے اصطلاح میں واجب الوجود کہا جاتا ہے یا پھر اس کے لئے وجود کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کسی دوسرے وجود کی برکت سے عالم وجود میں آیا ہے تو اسے اصطلاح میں ممکن الوجود کہا جاتا ہے اور یہ بات روشن ہے کہ جس چیز کا وجود محال ہو اس کا موجود ہونا غیرممکن اور کسی بھی صورت میں اسے موجود کا نام نہیں دیا جاسکتا لہٰذا ہر موجود یا واجب الوجود ہے یا ممکن الوجود.
مفہوم ممکن الوجود میں غور و فکر کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شئی بھی اس مفہوم کی مصداق بنے وہ علت کی محتاج ہوگی، اس لئے کہ جب کوئی موجود خود بخود موجود میں نہ آیا ہو تو مجبوراً کسی دوسرے موجود کے ذریعہ وجود میں آیا ہے جیسا کہ ہر وہ وصف جو بالذات نہ ہو تو اس کا بالغیر ہونا ضروری ہے اور قانون علیّت کا مفاد بھی یہی ہے کہ ہر وابستہ اور ممکن الوجود، کسی نہ کسی علت کا محتاج ہے, اور اگر ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہو تو کسی بھی حال میں کوئی موجود محقق نہیں ہوسکتا، یہ فرض بالکل اسی طرح ہے جسمیں ہر فرد اگر اپنے اقدام کو دوسرے کے آغاز پر مشروط کردے تو پھر کسی قسم کا کوئی اقدام وقوع پذیر نہیں ہوسکتا، لہذا خارجی موجودات کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی واجب الوجود موجود ہے.
خلاصہ کلام:
ھر موجود جس کا پھلے کوئی وجود نھیں تھا، اسے بعد میں وجود حاصل ھوا اور ھر وہ مخلوق جس کی ھستی اس کی اپنی ذاتی نہ ھو اس کے وجود کے لئے کسی علت و سبب اور ایک خالق کا ھونا لازمی ھے ۔
یہ اصول نہ صرف یہ کہ کائنات کے اصل سر چشمے اور تمام مخلوقات کے وجود اور پیدائش کی اصل علت کی جانب ھماری رھنمائی کرتا ھے، بلکہ اس ضمن میں یہ بھی بتاتا ھے کہ اس اصل منبع اور علت کو کسی دوسرے منبع اور علت کی حاجت نہ ھو ، کیونکہ اس کی ھستی خود اس کی اپنی ذاتی ھے اور وہ مخلوق نھیں ھے ۔
بزرگ فلاسفہ نے اس مفھوم کو اس مختصر سے فقرے میں سمو دیا ھے ۔ وہ کھتے ھیں : ” کلّ ما بالعرض ینتھی الی ما بالذّات “
ھر عرضی وجود ، یعنی غیر ذاتی وجود ، بالآخر کسی وجود ذاتی کی طرف لوٹتا ھے اور اسی پر منتھیٰ ھوتا ھے.
ایک یھودی نے حضرت علی رضی اللہ سے دریافت کیا کہ خدا کب سے موجود ھے ؟
آپ نے جواب میں فرمایا : ” کب سے موجود ھے کا سوال تم اس کے بارے میں اٹھا سکتے ھو جو موجو د نہ رھا ھو. اس طرح کا سوال ھر جگہ با معنی نھیں ھو سکتا ، صرف اس چیز کے بارے میں یہ با معنی ھو سکتا ھے جو پھلے موجود نہ رھی ھو اور بعد میں نمودار ھوئی ھو ۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے ۔ وہ ھر آغاز سے پھلے رھا ھے اور ھر انجام کے بعد بھی رھے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوال صحیح نھیں ھے ۔
بشکریہ
Zail Shahzad
 
Top