روئیے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں

روئیے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں
وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے مار دیتے ہیں

کبھی برسوں گزرنے پر کہیں بھی کچھ نہیں ہوتا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمحے مار دیتے ہیں

کبھی منزل پہ جانے کے نشاں تک بھی نہیں ملتے
جو رستوں میں بھٹک جائیں تو رستے مار دیتے ہیں

کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے
ادھورے نامکمل سے یہ قصے مار دیتے ہیں

ہزاروں وار دنیا کے سہے جاتے ہیں ہنس ہنس کے
مگر اپنوں کے طعنے اور شکوے مار دیتے ہیں

مجھے اکثر یہ لگتا ہے کہ جیسے ہوں نہیں ہوں میں
مجھے ہونے نہ ہونے کے یہ خدشے مار دیتے ہیں

کبھی مرنے سے پہلے بھی بشر کو مرنا پڑتا ہے
یہاں جینے کے ملتے ہیں جو صدمے مار دیتے ہیں

بہت احسان جتانے سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے
بہت ایثار وقربانی کے جذبے مار دیتے ہیں

کبھی طوفاں کی زد سے بھی سفینے بچ نکلتے ہیں
کبھی سالم سفینوں کو کنارے مار دیتے ہیں

وہ حصہ کاٹ ڈالا زہر کا خدشہ رہا جس میں
جو باقی رہ گئے مجھ میں وہ حصے مار دیتے ہیں

جو آنکھوں میں رہیں نزہتؔ وہی تو خواب اچھے ہیں
جنھیں تعبیر مل جائے وہ سپنے مار دیتے ہیں

نزہت ؔعباسی
 
Top