رنگ تصویر کائنات

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم

''علم بارش کا وہ قطرہ ہے جو سیپی کے منہ میں گرتا ہے تو موتی بن جاتا ہے اور
اگر سانپ کے منہ میں گرے تو زہر بن جاتا ہے "

ہماری تعلیم اسوقت تک باشعور انسانیت کو جنم نہیں دے سکتی جب تک کہ ہماری بنیادی تربیت ہی باشعور نہ ہو۔
ہمارا گھر ہماری پہلی درسگاہ ہی باشعور نہ ہو۔ہمارا گہوارہ باشعور نہ ہوا۔ مختلف ادوار کی منتخب خواتین کا تذکرہ کرنے کا مقصد
قارئین کو یہ باور کرانا ہے کہ خواتین نے ہر دور میں معاشرہ پر انمٹ نقوش مرتب کیے ہیں۔
ابتدائے آفرینش سے ہی تہذیبوں کے عروج و زوال میں عورت کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے لیکن باوجود اس کے
معاشرے کے اس اہم حصے کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی جس کی وہ حقدار تھی، بلکہ اکثر اوقات اس کی انتہائی تذلیل کی جاتی رہی ہے۔ بعثت اسلام سے پہلے عرب میں عورت کی حالت و حیثیت سے کون واقف نہیں۔
ذلت کی پستیوں سے اٹھا کر انتہائی معزز مقام عطا کرنا یہ اسلام کا ایسا کارنامہ ہے جس کی قدیم و جدید میں مثال موجود نہیں ہے۔
اسلام کی دی ہوئی حیثیت اور عزت ملنے کے بعد مسلم خواتین نے ہر دور میں قابل قدر کارنامے سر انجام دیکر یہ ثابت کردیا کہ
عورت معاشرے کا ہر کام کرسکتی ہے اور اس کے لیے پردہ ہرگز رکاوٹ نہیں۔ دراصل پردہ مرد و عورت کے درمیان ایک فطری حد ہے (Barrier) ہے جو دونوں کے درمیان آزادانہ اختلاط کو روکتا ہے اور اس کے لیے الگ میدان عمل متعین کرتا ہے۔
" جنت ماں کے قدموں تلے ہے "
" انسان کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہے "
" ماں بھی اک عورت ہی ہوتی ہے "
" ہر کامیاب مرد کے پیچھے اک عورت کا سہارا ہوتا ہے ۔ "
اکثر مشہور عام قائد اپنی تقریر میں یہ جملہ دھراتے رہے ہیں کہ
'' تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دونگا''
ظہور اسلام سے قبل دنیا اس سچائی سے ناآشنا تھی کہ عورت کے بھی وہی فطری حقوق ہیں جو مردکے حقوق ہیں۔
یہودی قانون ِ عورت کو مرد کی نجی جائیداد تصورکرتاتھا۔
مسیحی کلیسا کا قانون یہ تھاکہ
" انسان ہونے کے اعتبار سے مرداورعورت دو مختلف اجناس ہیں۔ انسان
صرف مرد ہیں اورعورت کے اندر کسی غیر انسانی چیزکی روح بولتی ہے۔ "
رومی اور یورپی قوانین عورت کو مرد سے بہت پست اور نیچے دیکھتے تھے ۔
خاندانی زندگی میں عور ت کی کوئی بھی انفرادی حیثیت نہیں ہوتی تھی
اور عورت انسانی معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھی جاتی تھی اورانسان صرف مرد ہی کو سمجھا جاتا تھا۔
یہودی اورمسیحی عقیدے کے مطابق عورت کو پیدائشی گناہ کا ملزم سمجھاجاتا تھا ،
اس لئے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو گندم کا دانہ کھانے کی ترغیب اماں حوا نے دی تھی ۔
اس طرح عورت کے سر یہ الزام تھونپا گیا کہ وہ آدم کی گمراہی کے لئے شیطان کا آلہ ¿ کار بنی تھی۔
چنانچہ ظہور ِ اسلام سے قبل قریب قریب تمام مذاہب وادیان کے اندر عورت کو ہر طرح کے گناہوں ،
ہر طرح کی محرومیوں اور ہرطرح کی بد اعمالیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا ۔
مگر جوں ہی اسلام کا ظہور ہوا تو اس نے صاف صاف اعلان کردیا ۔ کہ
عورت بھی اپنے فطری حقوق میں مرد کے برابر ہے ،
کسی بھی جنس کو دوسری جنس پرکوئی فطری برتری حاصل نہیں ہے۔
چنانچہ دونوں جنسوں(عورت ومرد) کے حقوق کے بارے میں قرآن نے یہ واضع اعلان کر دیا ۔
" اور حسن سلوک میں بیوی کے حقوق بھی اسی طرح شوہروں پر ہوئے ۔جس
طرح شوہروں کے بیویوں پر ہوئے ۔“(۲۔۲۲۸) "
قرآن نے یہ چار الفاظ ”وَلَھُنَّ مثل الّذِین علیھن“ کہہ کر انسان کی معاشرتی زندگی کے سب سے بڑے انقلاب کا اعلان کردیا تھا۔
اس اعلان نے عورت کو وہ سب کچھ دیدیا جو اسے کسی بھی غیر اسلامی نظام ، دستور اور قانون نے نہیں دیا تھا ۔
اورآج بھی دنیا کی غیر مسلم عورت اس نعمت سے محروم ہے جو حقوق کے اعتبار سے اسے اسلام نے دی ہے ۔
چنانچہ جنسی درجہ اور حقوق کے اعتبار سے قرآن کے ہاں دونوں جنسیں برابر ہیں ۔
البتہ معاشرتی زندگی میں داخلی امور کی ذمہ داری عورت کے سر ڈالی گئی ،
اورخارجی زندگی کے امور کے ذمہ داری مرد کے سرڈالی گئی ۔
چنانچہ ایک مکمل انسان کاادھا حصہ عورت ہے ، اور ادھا حصہ مرد ہے ،
اور یوں دو نصف ٹکڑوں کے ملنے سے انسانی معاشرہ کی تکمیل ہوتی ہے ۔
چنانچہ قرآن جب جب اور جہاں جہاں بھی اپنے مخاطبین سے خطاب کرتا ہے
وہ مرد اورعورت دونوں سے برابر برابر مخاطب ہوتاہے ۔ اورکہتا ہے
”مسلمان مرد اورمسلمان عورتیں ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں۔ راست باز مرد اور راست باز عورتیں “
قرآن اپنے خطاب میں صرف مردوں کو ہی مخاطب نہیں کرتا۔ بلکہ مرد و عورت کے یکساں فطری حقوق کے اعتبار سے
برابر برابر مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی مخاطب کرتاہے ۔
اسلام نے عورت کو سیاسی ،ملکی اور حکومتی معاملات میں بھی رہنمائی کے یکساں حقوق دیئے ہیں۔
البتہ ایسی رہنمائی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونی ضروری ہے۔
جیسا کہ جب عضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکان کے چھت سے داخل ہوکر
بلوائیوں نے جب قرآن کی تلاوت کرنے کے دوران شہید کر دیا تو مسلمانوں میں پہلی سیاسی بغاوت پھوٹ پڑی۔
چنانچہ اس دوران ایک گروہ کی قیادت اوررہنمائی حضرت عائشہ ؓ نے کی ۔
اس وقت ان کی قیادت میں چلنے والے مسلمانوں میں سے کسی بھی سیاسی اورعسکری شعبہ سے تعلق رکھنے والے
کسی بھی فرد کو یہ بات عجب نہیں لگی تھی کہ حضرت عائشہ ؓ عورت ہوکر
مسلمانوں کی سیاسی اور عسکری محاذوںکی قیادت کیسے کرسکتی ہیں؟
اللہ کے ہاں جو دین اورجو رسول تمام ادیان اورتمام رسل سے زیادہ پسنددیدہ ہے
وہ دین اسلام اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے۔
چنانچہ اس دین اور دین کے رسول کی شریعت تمام دنیا کے انسانوں کے لئے خیر خواہی ،سلامتی، امن اورنجات کا باعث ہے ۔
لیکن مسلم خواتین کا المیہ یہ ہے کہ
اکثر اللہ اوراس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ دین کی تعلیمات کو
اپنی عمل زندگی میں اپنانے میں پوری طرح سے کامیاب نہ ہو سکیں ۔
ہماری مسلم خواتین بہنیں آج اسلامی خاتون بننے کے بجائے
مغربی اور یورپی تہذیب کی دلدادہ ناکام ونامراد خواتین جیسا بننے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔
" کی محمد سے وفا تونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں (اقبالؒ) "
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ
عورت اپنے میدان کار کے اندر اگر اپنا رول بحیثیت بیٹی ، بہن ،ماں اور بیوی عمدہ طریقے سے اداکرتی ہے
تو اس کی شناخت قدرومنزلت والی بن جاتی ہے ۔
دنیا کی تاریخ میں ایسی بلند پایہ عورتوں کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے نہ صرف گھرآنگن میں بڑی بڑی عظیم ہستیوں کو
پالاپوسا ، انہیں زندگی میں کچھ کردکھانے کے قابل بنایا، ان کی صلاحیتوں کواپنی تعلیم وتربیت سے جلا بخشی
بلکہ خود علم اور عمل کے ایسے ایسے نقشے ترتیب دیئے کہ مردوں کے شانہ بشانہ ان کی کارکردگی تاریخ کے صفحات پر بہت ہی نمایاں ہیں۔ اسلام نے تو بہرحال عورت کو بلندیاں چھونے کے لئے آزاد چھوڑا اور اسے اپنی نسوانی خصوصیات کے دائرے میں بڑے بڑے معرکہ سر کرنے کی ترغیب بھی دی ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب ماننے والی قوموں میں بھی ایسی عورتوں کی کمی نہیں جنہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے
کسی نے انسانیت نوازی کا عَلم اٹھایا تو کسی نے قلم اور سیاہی کا ساتھ نبھایا۔
ہم یہ بات نظرانداز نہیں کرسکتے کہ
مدرٹریسا جیسی نرم دل اور بے سہارا بچوں کو گلے لگانے والی عالمی شہرت یافتہ عورت نے واقعی ایک عظیم کردار کا عملی ثبوت فراہم کیا۔ آج ہمارے درمیان ایسی عورتوں کی کمی ضرورہے لیکن جہاں بھی ایک خاتون کو شمع محفل بنے بغیر اپنے دائرہ کار میں کوئی اچھاکام کرنے کا موقع ملے تو وہاں اس کے جوہر کھلتے ہیں ۔

حضرت فاطمہ علیہ السلام
ہمارے آقائے نامدار آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی پیاری صاحبزادی
جن کے احترام میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہوجایا کرتے تھے
آپ کی تربیت نے صاحبزادگان حسنین کریمین کو وہ کردار عطا کیا کہ دین
اسلام کے لیے ان کی دی ہوئی قربانی کی نظیر نہیں مل سکتی۔
ذات النطاقین حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما:
ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو رازدار بنایا تھا۔ اس وقت آپ کم سن تھیں۔
جب کفار کو حضور صلّی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکے سے نکل جانے کی خبر ملی
تو ابوجہل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آیا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ڈرا دھمکا کر پوچھا کہ
حضور صلّی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کس طرف گئے ہیں۔
بہادر بچی نے کچھ نہ بتایا۔ ابوجہل ملعون نے آپ کو زدوکوب کیا اور اس زور سے طمانچہ مارا
کہ آپ کے کان کی ایک بالی نکل کر دور جا گری۔ جب تک حضور صلّی اللہ علیہ وسلم
غار میں روپوش رہے آپ کے لیے کھانا لے جاتی رہیں۔ آپ نے بعد میں ہجرت کی اور
غزوات میں بھی حصہ لیا اور مجاہدین کی خدمت کی۔ حجاج بن یوسف نے جب ظلم کے
پہاڑ توڑے تو پیرسنی کی باوجود کھری کھری سنائیں۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا:
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا: آپ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔
آپ نہایت نڈر اور بہادر خاتون تھیں۔ غزوہ خندق کے دوران آپ عورتوں کے ہمراہ ایک قلعے میں تھیں۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ بیمار ہونے کی وجہ سے قلعے میں تھے لیکن کمزوری کے باعث نگرانی کرنے سے قاصر تھے۔
ایک یہودی جاسوسی کی نیت سے قلعے کے نزدیک آیا تو خیمے کی چوب سے اس کا سر پھاڑ دیا اس کے بعد اس
کا سر کاٹ کر قلعے کے باہر پھینک دیا۔ یہودیوں نے یہ سمجھا کہ قلعہ کے اندر کافی فوج ہے
جس وجہ سے ان کو قلعے کی طرف آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو کفار نے شہید کرنے کے بعد نعش کا مثلہ کردیا تھا لیکن آپ نے
بہت اور صحابہ کے ساتھ بھائی کی نعش کی زیارت کی۔
حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا:
اسلام کی پہلی خاتون جو راہ حق میں شہید ہوئیں۔ بوڑھی اور ناتواں سی کنیز تھیں۔
جب مسلمان ہوئیں تو کفار نے ان پر ظلم وستم کی انتہا کردی لیکن انہوں نے راہ حق کو نہ چھوڑا۔
تنگ آکر ابوجہل نے ان کو برچھی مارکر شہید کر ڈالا۔
حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا:
آپ مکے کی ایک دولت مند خاتون تھیں۔ مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے خفیہ طور پر عورتوں میں تبلیغ شروع کردی،
لیکن کفار کو کسی طرح ان کی خبر لگ گئی اور انہوں نے اس قدر ظلم وتشدد کیا کہ اپنے حواس کھو بیٹھیں
لیکن اسلام کا دامن کہاں چھوٹنے والا تھا۔ آخر کفار نے ان کو مکے سے نکال دیا،
لیکن فتح مکہ کے موقعہ پر ان کا گھر مسلمانوں کا مہمان خانہ تھا اور انہوں نے بڑی فیاضی سے مسلمانوں کی خاطر مدارات کی۔
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا:
جنگ احد، خیبر، فتح مکہ، جنگ یمامہ میں شریک ہوئیں۔ جنگ احد میں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی
حفاظت کرتے ہوئے ابن قمہ پر تلوار سے وار کئے۔ جنگ یمامہ میں مسلیمہ کذاب کے خلاف لڑتے ہوئے
آپ کا بیٹا حبیب رضی اللہ عنہ شہید ہوگیا تو قسم کھائی کہ یا تو مسلیمہ کذاب کو قتل کروں گی یا خود شہید ہوجاؤں گی۔
چنانچہ میدان جنگ میں نہایت بہادری کے ساتھ لڑیں۔ آپ کا ایک ہاتھ کٹ گیا، جسم پر بارہ زخم آئے،
یہاں تک آپ کو اطلاع دی گئی کہ مسلیمہ کذاب قتل ہوگیا ہے۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا:
ایک لحاظ سے حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کی خالہ ہیں۔ آپ کا پہلا نکاح مالک بن نفر سے ہوا تھا جو کافر تھا۔
اس کے بعد ابوطلحہ نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے نکاح کا پیغام دیا تو اس کے کفر کی وجہ سے رد کردیا۔
پھر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے سامنے کلمہ پڑھ لیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نکاح پڑھایا،
آپ نے یہ کہہ کر اپنا حق مہر معاف کردیا کہ ”اسلام سب سے بڑا مہر ہے۔“
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ”یہ مہر عجیب و غریب تھا۔“
حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پاک میں جو مواخات قائم کی تھی اس کا اجتماع ام سلیم رضی اللہ عنہ کے گھر ہوا تھا۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر میں تشریف لے جاتے تھے۔ آپ نے کافی غزوات میں شرکت کی۔
جنگ حنین میں آپ کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا، حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر کہا کہ
”اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو اس خنجر سے اس کا پیٹ چاک کرکے اسے جہنم رسید کروں گی“
یہ سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔
حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا:
آپ دشمن رسول ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہ کی زوجہ تھیں۔ فتح مکہ کے موقعہ پر اسلام قبول کیا۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ یمن کی طرف فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلّی اللہ علیہ
وسلم سے اپنے شوہر کے لیے پناہ طلب کی اور یمن جاکر شوہر کو لے آئیں۔ جنگ اجنادیں میں
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔
قنظرہ ابن حکیم کے نزدیک رسم ادا ہوئی ابھی دعوت ولیمہ سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ رومیوں نے حملہ کردیا۔
آپ کے شوہر حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔ آپ نے خیمے کی چوب اکھاڑی
اور اس سے سات رومیوں کو جہنم رسید کیا۔
حضرت ام ھابان رضی اللہ عنہا:
شادی کے چند روز بعد شوہر کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئیں۔ آپ کے شوہر لڑتے لڑتے شہید ہوگئے،
آپ بھی لڑرہی تھیں، جب شوہر پر نظر پڑی تو مردانہ وار دشمن کی صفوں کے اندر سے شوہر کی لاش پیٹھ پر لاد کر اٹھا
لائیں۔ بعض مجاہدین نے شوہر کی شہادت کا احوال پوچھا تو فرمایا ”وہ خوش نصیب تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں
شہادت کا رتبہ عطا فرمایا، ایک میں ہوں کہ ابھی تک شہادت کی سعادت حاصل کرنے سے محروم ہوں،
اسی خدا نے جس نے ہمیں رشتہ ازدواج میں منسلک کیا تھا اب اللہ تعالیٰ نے انہیں واپس لے لیا ہے میں اس کی
رضا پر راضی ہوں اور عہد کرتی ہوں کہ اپنے شوہر کی موت کا انتقام لوں گی اورجلد سے جلد ان کے پاس پہنچنے کی کوشش کروں گی۔“ دوسرے دن ام ھابان نے بہادری سے جنگ میں حصہ لیا۔ دشمنوں نے تیر برسائے دشمن کے علم بردار کو تیر مارکر
گرادیا۔ دمشق کے حاکم کو جو فوج کی قیادت کررہا تھا آنکھ میں تیر مارا جس سے وہ زخمی ہوکر میدان جنگ سے بھاگ نکلا۔

یہ تذکرہ جاوداں ان ان گنت عظیم صحابیات میں سے چند خواتین کا ہے
جنہوں نے اپنے قول عمل و کردار سے لازوال داستانیں رقم کیں جو آج بھی ہماری خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں
اور ان خواتین کی بصارت میں اضافے کا ذریعہ ہیں جو دین اسلام سے ناواقفیت اور اغیار کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر کہہ بیٹھتی
ہیں کہ اسلام نے عورتوں کومحبوس و مقید کردیا ہے یا ان کے حقوق کا استحصال کیا ہے۔
عظیم خواتین کی یہ داستان یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ تاریخ اسلامی ان عظیم المرتبت خواتین کے تذکرہ سے مزین ہے
جن کی مثال کسی بھی خطے سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی قوم قدیم ہو یا جدید پیش کرنے سے قاصر ہے۔
ماں کی حیثیت سے بچوں کی بہترین تربیت کرنے والی گھریلو خاتون سے لیکر مجاہدہ، ولیہ، شاعرہ، طبیبہ، عالمہ، قاریہ تک
بلکہ حکومت سنبھالے ہوئے قابل تقلید حاکمہ کے روپ میں رفاہ عامہ کی وہ ان مٹ مثالیں قائم کرتی نظر آتی ہے ان سب درجات میں ماں کا درجہ سب سے اہم ہے کہ اک اچھی ماں ہی اک بچہ کی اچھی تربیت کر کے اچھا انسان بناتی ہے ۔ گویا اک ایسا چراغ جلاتی ہے جس سے نسل انسانی کی نسلیں منور ہو جاتی ہیں ۔
نایاب
 
Top