اٹک کے معروف صوفی بزرگ،حضرت غلام محمد نذر صابری کے سانحہ ارتحال پر ایک تاثراتی تحریر
یہ تحریر فروغ نعت اٹک کے تیسرے شمارہ میں شامل ”گوشۂ نذر صابری،، میں شائع ہوئی
نذر صابری نے تحقیق و تاریخ کے علاوہ فن شعر گوئی ، تذکرہ نگاری اور ملفوظ نگاری
شہرت حاصل کی
===========
رنگ ، نوراور خوشبوکا سفر
مجھے ایک کہانی کہنی ہے، ایک داستان بیان کرنی ہے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہانی کہاں سے شروع کروں، اس داستان کا نقطہ ٔ آغاز کیا ہے؟ شاید یہ تب کی بات ہے جب کوئی چیز عدم سے وجود میں نہ آئی تھی،بلکہ شاید عدم بھی ہنوز کالعدم تھا، حدود وقت کے حلقے سے باہر، زمان مکاں کے دائروں سے ماورا،ابھی وحدت کے اکتارے سے ’ ’کن ‘‘ کا سرمدی نغمہ بھی نہ پھوٹا تھا۔تبھی رنگ نور اور خوشبو کی اس کہانی کی ابتدا ہوئی۔کہانی کےآغاز میں صرف ایک رنگ تھا،ایسا رنگ جس کی کوئی رنگت نہ تھی، اپنے ہی رنگ میں رنگا ہوا ، ایک نور تھاجواپنی ہی ذات کے اندر مچل رہا تھا۔ ایک خوشبو تھی، مشام نا آشنا خوش بو، جواپنے اندر ہی اندر ہمک رھی تھی۔ایک روشنی تھی جو اپنے ہی محور کے گرد دائروں میں لپٹی ہوئی تھی۔رنگ نور اور خوشبومیں عجب ہم رنگی اور یک رنگی تھی۔ کہتے ہیں روشنی کا ایک ہی رنگ ہوتا ہےلیکن جب اسے منشور سے گزارا جائے نور کی قوسیں اور رنگوں کے دائرے تشکیل پاتےہیں،سو جب اس نور اول کو ’ ’کن ‘‘ کے منشور سے گذارا گیاتو رنگ نور اور خوشبو کا سفرآغاز ہوا۔ اب رنگ نور اور خوشبو مسافر تھے۔
جب طلسم کدۂ وجود و عدم عالم وجود میں آیا، زمانہ سانس لینےلگا اور روزِ اول کا آغاز ’’الست بربکم‘‘ کے ترانے سے ہوا تب رنگ، نور اور خوشبو اپنے سفر کے پہلے پڑائو پر تھے۔ اسی پڑائو پر رنگ، نور اور خوشبو نے ہستی کے بیچوں بیچ کہیں اپنا گھر بنالیا۔لیکن رنگ نور اور خوشبو مسافر تھے۔
قضا کی ہوا چلی اور کتابِ تقدیر کے کئی صفحات پلٹ گئی اب ہستی وقت کے کاندھے پر سوار عالمِ آب و گل میں اتر رہی تھی رنگ، نور اور خوشبو حریمِ ہستی کے مکین بن کرایک جہانِ رنگ و بو آباد کرنے جارہے تھے۔کیونکہ رنگ نور اور خوشبو مسافر تھے۔
صدیاں بیتیں زمانے لد گئے کھجوروں والی سر زمین میں ایک کامل ہستی کا ظہور ہوا۔ ہستی کے بیچ گھر کرنے والے رنگ، نور اور خوشبو ہمکنے اور امڈنے لگے۔ روشنی کو ایک نیا منشور مل گیا۔ چہار جانب رنگوں کی قوسیں بنتی گئیں رنگ دائرے بناتے گئے اور خوشبوئیں زاویے تراشتی رہیں۔ انہی رنگوں کے دوش پر اڑتی خوشبو اجمیر پہنچی۔۔ ۔ سینے میںعشق مستی کا سوز چھپائے، دل میں عرفان و آگہی کاچراغ جلائے، پلو میں خوشبوئے محمد باندھے چشتی رنگ اوڑھے ایک آئینہ گر اجمیر میں عجب شان بے نیازی سے وارد ہوا۔ اجمیر میں سفید گلابوں کی فصل کاشت ہوئی تو خوشبوئوں نے یہاں اپنا بسیرا بنا لیا۔ رنگ و نور کے آئینے ڈھلنے لگے۔ اجمیر کے آئینہ ساز نے ایک آئینہ دہلی میں نسب کیاتو اجمیر کے رنگ دہلی کے آئینہ خانہ سے منعکس ہو کر اجودھن کی طرف پھیلنے لگے۔ رنگ، نور اور خوشبو مسافر تھے۔
زمانے نے ایک اور انگڑائی لی اجودھن کی مٹی کو ایک پارس کے قدموں نے مس کیا۔ اس کی نظرِ کیمیا اثر نے وہاں کے سنگ ریزوں کو رشکِ خورشید و قمر کر دیا۔ رنگ ، نور اور روشنی اجودھن کی فضاؤں میں گھل مل گئے۔ اجودھن کے اس فردِ فرید نے چشتی رنگوں کی قوسِ قزح سجا دی۔ قوس قزح کا ایک کنارہ دلی میں اترا تو دوسرے نے کلیر میں ٹھکانہ کیا۔ رنگ، دلی اور کلیر میں بولنے لگے۔ خوشبو بکھرنے لگی اور روشنی پھیلنے لگی ۔ دلی میں ہر رنگ نے اپنا جوبن رنگِ نظام کے پاس گروی رکھ دیااور اسی کے رنگ میں رنگ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کلیر میں صابری رنگ کی برکھا برسی اور ہر رنگ اسی رنگ میں بھیگتا چلا گیا۔
رنگ، نور اور خوشبو مسافر تھے ۔۔۔۔وقت کےگھوڑے نے ایک اور زقند لگائی اور کئی پگڈنڈیاں عبور کر گیا۔ اب رنگ ، نور اور خوشبو کی گھٹائیں سلسلۂ کوہِ شوالک پر ٹوٹ کر برسیں۔ رمداس کا ایک مردِ درویش صابری رنگ کی بکل مارے نمودوار ہوااور رنگ، نور اور خوشبو کا بٹوارا لگا دیا۔آنئنے بنتے گئے اورخوشبوؤں کے جلو میں رنگ و روشنی کا سفر جاری رہا۔
رمداس کے اسی مردِ درویش کا ایک قتیل ، شہر اولیا کے باسی مولوی علی بخش کا بیٹا نذرصابری رنگ،نور اور خوشبو کی گٹھڑی اٹھائےکیمبل پور میں وارد ہوا ۔چند لمحے یہاں کی پتھریلی، سنگلاخ اور ناہموار سر زمین کو حیرت سے تکتارہا اور پھر اپنا اسباب کھول کر رکھ دیا۔ شاید اسے یہیں اترنے کا حکم ہوا تھا۔ شہرِ اولیا ملتان سے جالندھر ، جالندھر سے لاہور اور پھر لاہور سے کیمبل پور کی مٹی نے اسے کھینچ لیا تھا۔ اس نے خود کو کلیر کے صابرپیا کی نذر کر رکھا تھا اور اسی کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ وہ اپنے عہدشباب میں درویشی کی بکل مارےیہاں آیا ۔ رنگِ صابر اس کی خوش نمائی اور خوش قامتی سے عیاں تھا۔ اس کے دھان پان وجود میں پہاڑوں سے ٹکرانے کا حوصلہ تھا وہ علم و تحقیق کا رسیا اور ادب و فن کا متوالاتھا اس نے دائیں بائیں اوپر نیچے آگے پیچھے دیکھا اور پھر اپنے زاویے میں بیٹھ گیا۔ اس نے علم وحکمت کی شمع جلائی تحقیق و جستجو کا عود سلگایا اور شعروادب پھیکے اور بے کیف خاکے میں عشق و مستی کے رنگ بھرنے لگا۔ شمع روشن ہوئی تو پروانے نثار ہونےکو آ پہنچے۔ خوشبو پھیلی تو اٹک کی دھرتی نے اس کے لیے مشامِ جان وا کر دیا۔ صدیوں سے مدفون رنگ و نور کے خزانے اس کے لیے اگل دیے گئے۔ گمشدہ کڑیوں کی یافت اس کے لیے اَلَنَّا لَہُ الحَدِید ہو گئی۔ رنگ ابھرے تو کئی نادر و نایاب شاہکار دعوتِ نظارہ دینے لگے۔ اپنی لگن اور دھن میں مگن وہ آئینے تراشتا رہا خوشبو گہری اور رنگ چوکھے ہوتے گئے۔ اس کی تراشی ہوئی رنگ ونور کی قوسوں سے پھوٹتی گہری خوشبو ہر طرف پھیل گئی۔شش جہتی رنگ پھیلتے ہوئے وجد و ذوق کےخوبصورت اور حسین زاویے بناتے گئے۔ وہ آئینہ در آئینہ تقسیم ہوکر رنگ ونور کی جھلمل میں اس انداز سےرقصاں رہا کہ ہر آئینے میں اس کی نمود اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہی۔کبھی شوق و وارفتگی کے رنگ دھنک کی صورت میں نمودار ہوئے، کبھی ہجر و فراق کے رنگ چاندنی راتوں میں اتر کر نور کےہالے بناتے رہے اور کبھی سوز و ساز کے رنگ دلوں میں اتر کرچہروں کی تب و تاب بڑھانے لگے۔انہی رنگوں کی مہکار میں کئی گوہرِ آبدار تخلیق ہوئے اور رنگ بانٹنے والادرویش سب سے بے نیاز اور سب سے الگ اپنے زاویے میں بیٹھا کسی ماہر آئینہ ساز کی طرح آئینے بناتا اور ان کی تراش خراش کرتا رہا۔ اس کا تراشیدہ ہردرپن جدا گانہ رنگ کا نور بکھیرتا رہا ۔ ان رنگوں کے امتزاج سے بننے والےعکس ذوق و شوق اور عشق و مستی کی قوسیں تخلیق کرتے رہے۔غبار۔ رہ۔ بطحا میں لپٹی قوسیں محرابی زاویوں میں متشکل ہو کر عجز و عقید ت سےمسلسل سرنگوں ہوتی رہیںاور آئینہ سا ز درپن تخلیق کرتے، رنگ بانٹتے اپنی معراج کی جانب محوِ پرواز رہا۔ آئینہ ساز کے بطن سے پھوٹنے والےزمان و مکان کی حدود و قیود کو توڑتے، فضاوںکو چیرتے جذبوں کے عکاس سبھی رنگوںپربالاخر قبولیت کا رنگ غالب آگیا اور لافانی رنگوں کا امین آئینہ ساز اک تمنائے بغل گیری کے ساتھ بانہیں کھولے آغوشِ محبت کو وا کیے، فنا کے رنگوں میں ابدیت گھولتا ہوا اپنے سفر کےاگلے پڑاؤ کی اور روانہ ہوگیا۔ اس کی جلائی ہوئی شمعیں رنگوں کے دائرے بُن رہی ہیں،رنگ خوشبوؤں کےزاویوں کی تجسیم کر رہے ہیں اورنورانی محرابوں سے امڈتی خوشبو نےمیرے گوشہ قلب کواپنا مسکن بنا لیا ہے یا شاید میری وادیٔ جاں میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور میرے اندر مشک مچا رکھی ہے۔
یہ داستان ہے رنگ نور اور خوشبو کی ۔۔۔ جوابھی ختم نہیں ہوئی اور شاید ان کا سفر تا ابد جاری رہے گا کیونکہ۔ ۔ ۔۔ ۔ رنگ نور اور خوش بو مسافر ہیں۔
اوڑھوں گی غبارِ رہ بطحا کی چنریا
اس رنگ میں طے ہو یہ سفر کیسا لگے گا
سید شاکرالقادری چشتی نظامی