رقیب روسیاہ

ضیاء حیدری

محفلین


............. رقیب روسیاہ............................................ .......

اردو زبان میں استعمال ہونے والا لفظ رقیب روسیاہ دراصل عربی زبان سے ماخوذ اسم رقیب کے آخر پر فارسی اسما رو اور سیاہ لگا کر مرکب توصیفی رقیب روسیاہ بنتا ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ایک ایسا لفظ جس میں ازلی دشمن عرب اور عجم
باہم مرکب ہوں اس سے ڈر تو لگے گا ہی، مگر ڈرنے کا نہیں۔ یہ آپ کے دل پر مونگ دلنے کے لئےپیدا ہوتا ہے۔ رقیب کا لفظ سنتے ہی ذہن میں کسی کالے کلوٹے، موٹے مسٹنڈے غنڈے کا تصور آتا ہے- اس میں آپکا قصور نہیں ہے- یہ سب ہماری فلموں کا کیا دھرا ہے- ورنہ ایسا نہیں ہے- رقیب گورا چٹّا بھی ہو سکتا ہے اور آپ سے زیادہ خوبصورت بھی، لیکن آپ اسے رقیب رو سیاہ کہیں گے- اگر آپ کا دل رقیب رو سیاہ کوجوتوں سے مارنے کو چاہ رہا ہے تو یہ عین فطری خواہش ہے لیکن احتیاطا پہلے اس کی طاقت کا اندازہ کرلیں، ایسا نہ ہو کہ آپ خود پنچنگ بیگ بن جائیں۔
رقیب آسمان سے نہیں اترتے ہیں ان کو بنانے کا کام آپ کا نازک اندام خوبصورت محبوب انجام دیتا ہے- بعض اوقات آپ اپنی حماقت سے یا اپنی معصومیت سے بھی رقیب بنا بیٹھتے ہیں-
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

بعض اوقات آپ کو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ دوسروں سےاپنے محبوب کی زیادہ تعریفیں بھی کوئ اچھی بات نہیں، لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب آپ لاکھ اپنی سادگی کی داستان کسی کو سناتے پھریں کہ میں تو اسکو ایسا نہیں سمجھتا تھا- لیکن لوگ آپکو اول درجے کا بے وقوف ہی سمجھیں گے- خوشحالیء رقیب سے آپ کا محبوب شاد شاد نظر انے لگے تو اس کی جفا کا شکوہ نہ کرنا، ورنہ آپ روسیاہ کی مسند پر فائز ہوسکتے ہیں۔
جب آپ دونوں کے درمیان رشتہء رقابت قائم ہو جائے، اس کو نبھانا بھی آپ ذمہ داری بن جاتا ہے- یہ مت بھولیں جسے آپ رقیب کہتے ہیں اس سے رشتے میں آپ بھی اس کے رقیب ہوئے- چاہے اس سے پہلے وہ آپکا عزیز دوست رازدان، ہم نوالہ و ہم پیالہ تھا- جس طرح سے چچی جب ساس بن جائے تو پھر اسے چچی نہیں ساس ہی سمجھنا چاہئے
رقیب کے داخل ہوتے ہی زندگی کے شب وروز تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ گورا ہے اور آپ سانولے تو آپکو گورا کرنے والی کریموں کے بارے میں جانکاری کرنی پڑجائے گی۔ اگر آپ گولڈ لیف کے پیکٹ میں کے ٹو سگریٹ رکھنے کے عادی ہیں، تو کوئی بات نہیں، مگر اب اس میں ایک گولڈ لیف کی سگریٹ بھی رکھنا پڑےگی، ایسا نہ ہو کہ رقیب آپ کے محبوب کے سامنے سگریٹ مانگ لے اور آپ کی پول کھل جائے۔ رقیب اگر ہر وقت شیکسپئر اور غالب کے حوالے دیتا ہو۔ تو ان دو افراد پر ہزار لعنتیں بھیجنے کے بعد بھی آپ کو انکے متعلق پڑھنا پڑ ہے گا
- لیکن خیال رہے کہ اس کے سامنے اپنی علمیت نہ بگھاریں جبکہ آپ کچّے ہو، ورنہ اس علمی کبڈی آپ مار کھا جائیں گے-
آپ جس راہ پر چل نکلے ہیں، وہاں رقیب سے پالا پڑتا ہے- ہابیل اور قابیل کا قصہ سنا ہوگا۔ گو کہ یہ کہانی بہت پرانی ہے۔ تب سے اب تک کسی بھی عشق کو اسکے بغیر مکمل نہیں سمجھا گیا ۔ اگرآپ اس راستے پر رقیب کی انٹری نہیں چاہتے ہیں تو یا تو راستہ بدل ڈالیں یا قاصد کو

شرافت کا تقاضہ یہی ہے کہ راستہ بدل
لیں۔ زمانہ بڑا خراب ہے، اب شرفاء میں شرافت نہیں رہی ہے، جن میں شرافت ہے وہ طبقہء اشرافیہ میں شمار نہیں ہوتے ہیں۔
 
Top