ای بک تشکیل رقص جاری رہے ۔۔۔ منیر انور

الف عین

لائبریرین
منیر انور کی فرمائش پر ان کی کتاب "رقص جاری رہے" یہاں ارسال کی جا رہی ہے۔


رقص جاری رہے

شعری مجموعہ

منیر انور






انتساب
مجھ سے وابستہ تمام معتبر حوالوں کے
نام


نرم جذبوں کا شاعر منیر انور

شاعری عطائے رب کریم ہے۔ وہ جسے چاہے ودیعت فرما دے۔ فطری شاعر اس کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مسلسل ریاضت سے نئے جہان معنی پیدا کرتا ہے۔ شبانہ روز فکری کاوشیں اور خوب سے خوب تر کی جستجو اس کے فن میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ شعر میں سوز و گداز، گھلاوٹ اور تاثیر اسی مسلسل مشقت اور دیدہ ریزی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ شاعر کا تخیل اس کی ذات کے امکانات کا عکاس ہوتا ہے۔ اس کی فکری اڑان قاری کو تفہیم کے نئے زاویوں سے روشناس کرواتی ہے۔ فطری شاعر کو بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی، منزلوں تک رسائی کے لیے راستے وہ خود بناتا ہے اور پھر پورے اعتماد سے کہتا ہے۔
میں تو خود راستے بناتا ہوں
کیا میں پوچھوں گا راستہ تجھ سے
اس شعر کے خالق منیر انور بھی فطری شاعر ہیں اور میری ان سے پرانی یاد اللہ ہے۔ منیر انور کے ادبی سفر کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور ادبی سفر کے آغاز اور پھر ادب سے کنارا کشی تک۔ دوسرا دور ان کی شعر نگری میں واپسی سے 2013 تک جبکہ تیسرا دور 2013 سے لمحہ موجود تک۔ ان کے پہلے اور دوسرے دور کا شعری سرمایہ ان کی کتاب "روپ کا کندن" میں آ چکا ہے جو 2013 میں منصہ شہود پر آئی۔ 2013 سے لمحہ موجود تک کا شعری اثاثہ "رقص جاری رہے " کی صورت میں میرے سامنے ہے۔
گزشتہ چند سالوں نے منیر انور میں واضح تبدیلی پیدا کی ہے۔ ان کی شخصیت سنجیدہ تر ہو گئی اور شاعری میں جذباتی کشمکش شدت اختیار کر گئی ہے۔ اضطراب، بے چینی اور تڑپ کی کیفیات نما یاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہیں۔ کوئی کسک سی ہے جو انہیں کسی پل چین نہیں لینے دیتی اور اس شعر میں تو یہ کسک براہ راست قاری تک منتقل ہوتی ہے۔
اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا
منیر انور کا دل موہ لینے والا انداز اور تصنع سے پاک بیانیہ ایک لطف انگیز ماحول کی تشکیل کرتا ہے۔ وہ اپنا احوال سادہ اور آسان لفظوں میں کہہ جاتے ہیں۔ اپنے اسلوب سے ایسی دلنشیں جذباتی و احساساتی فضا بناتے ہیں کہ قاری اور سامع بے اختیار ان کی کیفیات میں ان کے ہمراہ چل پڑتے ہیں۔ ایک شعر دیکھئے کہ جس کی اثر پذیری اور گہری کیفیت کو محسوس کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا کوئی۔
کتنے کنگال ہو گئے ہیں ہم
آنکھ میں خواب تک نہیں باقی
منیر انور کے ہاں بظاہر سہل اور آسان نظر آنے والے شعر اور مصرعے اپنے اندر بے پناہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ زبان زد عام ہونے کی بے پناہ قوت بھی رکھتے ہیں۔
کتنا سادہ سوال تھا اس کا
وہ محبت کہاں گئی اپنی
منیر انور کے کلام میں موسیقیت اور ترنم کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے غنائیت سے بھر پور الفاظ اور مترنم بحریں بڑے سلیقے سے استعمال کی ہیں۔ ان کے اشعار اپنے اندر ایک منفرد تخیلاتی آہنگ کے حامل ہیں۔ وہ تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کو اپنے مخصوص انداز سے استعمال کرتے ہوئے ندرت اور تازہ کاری سے مزین اشعار کہتے ہیں۔
آنکھیں روشن، لہجے رس کے پیالے جی
یہ ہیں لوگ محبت کرنے والے جی
اسے شاعرانہ تعلّی کہیں یا انا پرستی، لیکن ان کی شاعری میں جہاں تسلیم و رضا کے میٹھے بول سحر کاری کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں اپنی ذات کا احساس بھی پوری توانائی کے ساتھ کار فرما ہے۔ محبت کے حوالے سے ان کے ہاں جہاں "سرنڈر" کی کیفیات پائی جاتی ہیں وہیں متعدد اشعار ایک واضح حد بندی کا تعین کرتے بھی محسوس ہوتے ہیں۔ ایک مثال دیکھئے۔
ہاں محبت ہے ہمیں تجھ سے، محبت لیکن
ہم ترے حاشیہ بردار نہیں ہو سکتے
تقریباً ہر شاعر کے کلام میں تکرار لفظی ملتی ہے۔ منیر انور نے بھی تکرار لفظی سے کام لیا ہے۔ لیکن دیکھئے کس کمال کی نفاست سے۔
ذہن کی گرہیں کھلتے کھلتے ہی کھلتی ہیں
جاتے جاتے ہی رسی کے بل جاتے ہیں
ٹھوکر کھا کر گرنے والا سوچ رہا تھا
گرتے گرتے کیسے لوگ سنبھل جاتے ہیں
ہماری روز مرہ زندگی میں استفہامیہ کلمات کی وقعت و اہمیت اور اثر پذیری سے انکار ممکن نہیں۔ منیر انور کے شاعرانہ اسلوب کی ایک بہت بڑی خوبی ان کا استفہامیہ لب و لہجہ بھی ہے۔ انہوں نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے اور اس بنا پر ان کے کلام کی اثر آفرینی اور دلکشی دو بالا ہو گئی ہے۔
انہوں نے سفر، گھر، یقین، گمان، روشنی، خواب، نقش، صحرا، آئینہ، خوشبو، زیست، پیاس، ہوا، محبت اور آنکھیں وغیرہ کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہوئے عمدہ مضامین کا ابلاغ کیا ہے۔ منیر انور کو نئی نئی تراکیب وضع کرنے میں بھی ملکہ حاصل ہے۔ مثلآ التجائے ساز، ردائے ساز، سکۂ بے کار، مثال در ثمیں، غرور گل تر، عجز کاہ، سرمایۂ ازل، کائنات ضمیر وغیرہ۔
منیر انور کے اس مجموعے میں شامل نظمیں (اجنبی، چپ، انجام، چاند، رقص، ہرج ہی کیا ہے، لاینحل، ہستی کا سرمایہ، تم، اظہار) ایک مخصوص نوعیت کے گہرے جذباتی رنگ میں رنگی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کی نظم کو پڑھتے ہوئے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ وہ نظم میں بھی کھل کر سامنے نہیں آتے بلکہ غزل کی مانند یہاں بھی کچھ کہتے کہتے رہ جانے والی کیفیت برقرار ہے اور یہی کیفیت ان کی نظموں کو محدود کرنے کی بجائے وسیع تر کینوس کی حامل بناتی ہے۔ ان نظموں کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا با معنی اختصار ہے۔ تین سطور پر مشتمل ایک نظم دیکھئے۔ "انجام"
اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں
وقت پوچھا تو یہ احساس ہوا
اب اسے بھولنا ضروری ہے
منیر انور کے زیر نظر مجموعۂ کلام "رقص جاری رہے " میں ان کی نظم اور غزلوں پر مشتمل پنجابی تخلیقات بھی شامل ہیں۔ فکری و فنی پختگی کے ساتھ روح میں اتر جانے والے ان کے یہ اشعار ایک سرشاری کی کیفیت سے ہمکنار کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک شعر ملاحظہ کیجئے۔
ہجر دی نیہری رات اچ تیریاں یاداں دے
ٹاویں ٹاویں تارے کیہ کر سکدے نیں
آخر میں ان کی ایک ہائیکو پیش کرتے ہوئے میں اجازت چاہوں گا۔
یاس کے پھیلتے اندھیروں میں
دل تمہیں ڈھونڈنے نکلتا ہے
نرم جذبوں سے روشنی لے کر
۔۔ ۔
سید محمد مستقیم نوشاہی
19-06-2017


دیباچہ

تنہائی، انسان کا ازلی مسئلہ، جو وقت گذرنے کے ساتھ گھمبیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ رابطوں کے ذرائع بڑھتے جا رہے ہیں لیکن روابط کم ہو رہے ہیں، تحقیق و تجسس کے اس تیز رفتار دور میں نت نئی دریافتوں کے انبار نے کرۂ ارض کی ارفع ترین مخلوق اور اس کے لطیف تر احساسات و جذبات کو کہیں بہت دور اپنے ملبے تلے سسکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ شاعر انسانیت کی یہی سسکیاں عمیق گہرائیوں سے دریافت کر کے شعری جمالیات کی صورت، بہت احتیاط سے، بڑے لطیف پیرائے میں اپنے جیسوں کا کثیر جہتی دکھ متوقع مسیحاؤں کے سامنے رکھتا ہے۔ "رقص جاری رہے " اسی کوشش کا تسلسل ہے۔
منیر انور
20 جون 2017 


حمد باری تعالیٰ


حضورِ ربِ دو عالم غلام حاضر ہے
سب اپنے نقش لئے نا تمام حاضر ہے

ترے ہی نور سے چمکے گی کائناتِ ضمیر
سو اے کریم! یہ ظلمت کی شام حاضر ہے

اسے طلب ہے ملے آگہی کا سوز دروں
لئے لبوں پہ یہ تیرا کلام حاضر ہے

ترے کرم کی اُمیدیں سجائے پلکوں پر
مقام والے ترا بے مقام حاضر ہے

یہ تیرا بندہ، یہ سائل ترا، ترا انورؔ
بصد خلوص بصد احترام حاضر ہے



نعت

نہ مال و زر نہ کلاہ و قبا سے مطلب تھا
انہیں ہمیشہ خدا کی رضا سے مطلب تھا

کسی بھی شخص سے مطلوب کچھ نہ تھا ان کو
فقط کرم سے غرض تھی، عطا سے مطلب تھا

کچھ اور چاہتے کب تھے خدا کے بندوں سے
خدا کی راہ میں ان کی وفا سے مطلب تھا

رسولِ پاک انہیں لائے راستی کی طرف
کہ جن کو ظلم سے، کذب و ریا سے مطلب تھا

وہ برگزیدہ پیمبر وہ منتخب بندے
انہیں کہاں کسی حرص و ہوا سے مطلب تھا

کیا معاف سبھی کو فقط خدا کے لئے
انہیں سزا کی بجائے ہُدیٰ سے مطلب تھا

نہ جانے کیسے مباحث میں پڑ گئے انورؔ
ہمیں تو اُسوۂ خیرالوریٰ سے مطلب تھا



کچھ سنبھالا نہیں گیا تجھ سے
چھوڑ اب کیا کریں گلہ تجھ سے

صرف اپنا خیال رکھنا تھا
اور وہ بھی نہیں ہوا تجھ سے

میں تجھے ہارنے نہیں دوں گا
مجھ کو ہوتا ہے حوصلہ تجھ سے

کوئی اب تک تری تلاش میں ہے
کوئی آگے نکل گیا تجھ سے

تو نے اپنا بنا لیا مجھ کو
اور مانگوں بھی کیا بھلا تجھ سے

میں نہ کہتا تھا امتحان نہ لے
اب تو دل ہو چکا رِہا تجھ سے

میں تو خود راستے بناتا ہوں
کیا میں پوچھوں گا راستہ تجھ سے

میرے منصف دلیل رہنے دے
میں نے مانگا ہے فیصلہ تجھ سے



داستاں گو کہاں نہیں ملتا
کون محوِ فغاں نہیں ملتا

مل بھی لیتا ہے جب ضرورت ہو
بے ضرورت جہاں نہیں ملتا

لوگ ملتے ہیں کتنے گلیوں میں
جو جہاں تھا وہاں نہیں ملتا

گو یقیں ناگزیر ہے لیکن
جز قیاس و گماں نہیں ملتا

اتنے نزدیک آ گئے ہیں ہم
جسم بھی درمیاں نہیں ملتا

میں تو انورؔ پلٹ کے آ ہی گیا
اس کا کوئی نشاں نہیں ملتا



جب کہیں پیار سے پکارا گیا
میں وہاں سر کے بل دوبارہ گیا

تیری آواز تھی کہ نور کی رَو
روح تک روشنی کا دھارا گیا

شب ترے خواب سے رہی روشن
دن تری یاد میں گذارا گیا

میں نے اس وقت خواب اپنائے
جب مجھے گود سے اُتارا گیا

اس کا پندار تھا عزیز ہمیں
اس کا نقش آنکھ میں اُبھارا گیا

ایک ہی شرط تھی کہ ہارنا ہے
بس تو پھر بے تکان ہارا گیا

وہ کہیں اور جا چکا تھا جب
میں اسے دیکھنے دوبارہ گیا

موج آخر اتر گئی لیکن
موج کے ساتھ ہی کنارہ گیا

آج اک اور خواب ٹوٹ گیا
آج اک اور شخص مارا گیا

گرد چہرے پہ تھی مگر انورؔ
بار بار آئینہ نکھارا گیا



تیرا ساتھ نبھائیں کب تک
آگ میں پھول کھلائیں کب تک

کنکر کنکر ان رستوں کو
اپنا خون پلائیں کب تک

’’ایک محبت سو افسانے‘‘
افسانے دہرائیں کب تک

آتی جاتی ان سانسوں کو
خوابوں سے بہلائیں کب تک

اندر اندر کب تک روئیں
تیرا ہجر منائیں کب تک

آج دوا کرنا لازم ہے
دو گے صرف دعائیں کب تک

بھوک سے مرتے بچے دیکھیں
دھوپ میں جلتی مائیں کب تک

میرے دیپ بجھا سکتی ہیں
یہ بے مہر ہوائیں کب تک

اصلی بات پہ آ جاؤ نا
آئیں بائیں شائیں کب تک

آپ بہت سادہ ہیں انورؔ
آپ کو ہم سمجھائیں کب تک



تم سے وابستہ ہر خوشی اپنی
اپنے سب لفظ، شاعری اپنی

میں بھی خود کو سمیٹ ہی لوں گا
تم سنبھالو تو بے خودی اپنی

دیر تک گفتگو رہی اس سے
خامشی بولتی رہی اپنی

تیری آواز سن رہا تھا میں
اور غزل یاد آ گئی اپنی

کتنا سادہ سوال تھا اس کا
وہ محبت کہاں گئی اپنی؟

اس کی ہشیاریاں دھمال میں ہیں
رقص کرتی ہے سادگی اپنی

لب پہ مچلا تو تھا سوال مگر
بات ہی کاٹ دی گئی اپنی

تھے سبھی اس کے ہمنوا انورؔ
بس کسی نے نہیں سنی اپنی



نقش کوئی رہا نہیں باقی
دھول سی ہے کہیں کہیں باقی

کتنے کنگال ہو گئے ہیں ہم
آنکھ میں خواب تک نہیں باقی

اب یہ منظر بھی دیکھنا تھا ہمیں ؟
سنگِ در ہے نہ ہے جبیں باقی

میں کسی بے کراں خلا میں ہوں
آسماں ہے نہ اب زمیں باقی

تیرا کردار اب نہیں اس میں
ہے کہانی تو ہم نشیں باقی

اب تو انورؔ وہ کیفیت ہے کہ بس
کچھ گماں ہے نہ کچھ یقیں باقی






خواب شرمندۂ اظہار نہیں ہو سکتے
ہم تری راہ کی دیوار نہیں ہو سکتے

ہاں محبت ہے ہمیں تجھ سے، محبت لیکن
ہم ترے حاشیہ بردار نہیں ہو سکتے

جن کے سائے میں مری روح جھلس جاتی ہے
وہ مری راہ کے اشجار نہیں ہو سکتے

لوگ، یہ اپنے مفادات کے مارے ہوئے لوگ
دل تو رکھ سکتے ہیں دلدار نہیں ہو سکتے

راس آ جائے ترے خواب کی زنجیر جنہیں
وہ کبھی نیند سے بیدار نہیں ہو سکتے

جن کے لفظوں سے امیدوں کے دیئے جلتے ہیں
وقت کی دھند سے دوچار نہیں ہو سکتے

یہ تو ممکن ہے تعلق نہ رکھیں تجھ سے مگر
دوست ہیں باعثِ آزار نہیں ہو سکتے

ہم بہاروں کے تعاقب میں خزاؤں کا شکار
ہاں ہوئے ہیں مگر اس بار نہیں ہو سکتے

ہم کتابوں کی طرح زندہ رہیں گے انورؔ
ہم ترے شہر کا اخبار نہیں ہو سکتے






کاش ہر داستاں حسیں ہوتی
دکھ سے آزاد ہر جبیں ہوتی

جس کو ہم بے بسی سمجھتے ہیں
بے بسی ہی فقط نہیں ہوتی

جانے ہم کب کے جا چکے ہوتے
آسماں پر اگر زمیں ہوتی

خواب تعبیر ہو بھی جائیں اگر
زندگی مطمئن نہیں ہوتی

شور سنتا ہوں اور سوچتا ہوں
تیری آواز بھی کہیں ہوتی

تیری نظریں جہاں ٹھہر جاتیں
ہر نظر لازماً وہیں ہوتی

تو یہ پردے اگر ہٹا دیتا
میری ہستی تری امیں ہوتی

میرے سر پہ بھی آسماں ہوتا
کاش قدموں تلے زمیں ہوتی

ہم جسے زندگی کہیں انورؔ
جُز محبت نگیں نہیں ہوتی





وہ جو پیاسے رہے دریا کے کنارے پیارے
وہ ہمی تھے کسی پیمان کے مارے پیارے

تم بھی ہر بار نئے ڈھنگ سے کھیلے لیکن
ہم بھی ہر بار بہت سوچ کے ہارے پیارے

میں جو ہر شخص کو سینے سے لگا لیتا ہوں
ہر سمندر کی ضرورت ہیں یہ دھارے پیارے

خامشی جرم لگی، بولنا تعزیر لگا
ہم نے ایسے بھی شب و روز گذارے پیارے

میرے احباب کے دکھ پلکوں پہ آ جاتے ہیں
اور پھر ٹوٹتے جاتے ہیں ستارے پیارے






جہانِ رنگ ترا انتظار کرتے ہوئے
میں تھک گیا ہوں ستارے شمار کرتے ہوئے

نہیں ہے دوسرا آنسو بھی میری پلکوں پر
یہاں تک آ گیا میں اختصار کرتے ہوئے

کھلی فضا کے پرندوں سے رابطہ تھا مرا
کٹی ہے عمر ہواؤں سے پیار کرتے ہوئے

بدن سے روح میں بھی خستگی سی در آئی
کہاں گئے ہو خزاں کو بہار کرتے ہوئے

تعلقات کی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں
سو چل رہے ہیں، مگر تو تکار کرتے ہوئے

میں جانتا تھا کہ ہے اور معرکہ باقی
رہِ فرار مگر اختیار کرتے ہوئے

وہ کم نصیب سمجھ ہی نہیں سکا مجھ کو
ہر ایک ضابطے، ہر حد کو پار کرتے ہوئے

میں سوچتا ہوں مجھے سوچنا تو چاہیے تھا
بے اعتبار پہ پھر اعتبار کرتے ہوئے

مری پناہ میں تھا وہ، کہ زد پہ تھا انورؔ
میں ہچکچاتا رہا اس پہ وار کرتے ہوئے





ملال و حزن کے سائے ذرا ہٹا دے نا
مرے فسردہ جبیں آج مسکرا دے نا

اب اس کے بعد مرا ذکر آنے والا ہے
فسانہ ساز یہاں روشنی دکھا دے نا

بھلا ہے ضبط مگر جبر سے گریز اچھا
جو اشک روک رکھے ہیں انہیں بہا دے نا

گماں کی تیرگی کھانے لگی محبت کو
ابھی ہے وقت یقیں کا دیا جلا دے نا

پھر اس کے رخ پہ گلابوں کی رت اتر آئی
مجھے کسی نے کہا تھا غزل سنا دے نا

کبھی تو خاص مجھی سے خطاب کر انورؔ
یہ پردہ ہائے طلسماتِ فن اٹھا دے نا





یوں تو ہر شے ہے سلیقے سے مری دنیا میں
پھر بھی ہے جیسے کوئی خاص کجی دنیا میں

تو کبھی خود سے رِہا ہو تو خبر بھی ہو تجھے
اور کچھ لوگ بھی بستے ہیں اسی دنیا میں

یوں تو ہر لمحہ محبت میں گزارا میں نے
ہائے جو عمر ترے ساتھ کٹی دنیا میں

اس کی مسکان کھلاتی ہے کنول سینے میں
ورنہ کیا رکھا ہے کانٹوں سے اٹی دنیا میں

ایک بے مہر مسافت کے سوا کچھ نہ رہا
تیرے جانے سے مری بھید بھری دنیا میں



اب کوئی اور تماشا نہ کرو جانے دو
شہر کے شہر کو رسوا نہ کرو جانے دو

سب کی فکر اپنی ہے، اندازِ نظر اپنا ہے
بات بے بات یوں الجھا نہ کرو جانے دو

آنکھ نم چہرہ سلگتا ہوا بھیگا لہجہ
یوں نہ جاؤ، نہیں ایسا نہ کرو، جانے دو

اب مراسم کا وہ معیار کہاں باقی ہے
یوں ہی ہر بات کو سوچا نہ کرو جانے دو

اب تو دھڑکن میں سکوں ہے نہ تلاطم باقی
اب ہمیں پیار سے دیکھا نہ کرو جانے دو

اس محبت سے تو انورؔ یہ نتیجہ نکلا
بھولنے والوں کو ٹوکا نہ کرو جانے دو



بھٹک رہا ہے دل بے چارہ جنگل میں
چھوڑ دیا نا ہاتھ ہمارا جنگل میں

تیری خواہش اور گورکھ دھندے دل کے
آن گرا ہے ایک ستارہ جنگل میں

میں ہر پیڑ سے اس کا پوچھتا رہتا ہوں
کھویا ہے اک جان سے پیارا جنگل میں

سوکھے پتے، ننگی شاخیں، تنہائی
ہم نے کیسا زہر اتارا جنگل میں

ایک کنارہ میرے پیاسے دل میں ہے
اور صحرا کا ایک کنارہ جنگل میں

آنکھیں، خواب، محبت، جذبے، دل، دھڑکن
جانے ہم نے کیا کیا ہارا جنگل میں





کب کہا ہے مجھے محبت دو
سانس لینے کی تو سہولت دو

اک فسانہ پسِ فسانہ ہے
میں سنا دوں اگر اجازت دو

ساتھ چلنا ہے یا نہیں چلنا
تم مجھے فیصلے کی قوت دو

میں یہاں خوش ہوں اپنی دنیا میں
جاؤ تم غیر کو رفاقت دو

میں خبر تیرگی کی لیتا ہوں
تم ذرا روشنی کو زحمت دو

سادگی سے کرو کلام انورؔ
اپنے اشعار کو سلاست دو



کیسے عمل میں آئی جدائی نہ پوچھیے
شیریں لبوں کی تلخ نوائی نہ پوچھیے

لوگوں نے جو دھری تھی وہ تہمت الگ مگر
اس نے اُڑائی ہے جو ہوائی نہ پوچھیے

کس کس طرح فسانے بناتے ہیں یار لوگ
کیسے پہاڑ بنتی ہے رائی نہ پوچھیے

اِک عمر چاہے جانے کی خواہش میں کٹ گئی
یہ عمر ہم نے کیسے بِتائی نہ پوچھیے

اب تو سکوں جمود کے درجے پہ آ گیا
جمنے لگی وہ ذہن پہ کائی نہ پوچھیے

کیا کیا شب ان کی بزم میں یارانِ حرف نے
سرسوں ہتھیلیوں پہ جمائی نہ پوچھیے

ہاں وہ بھی اختلاف سے آگے نہیں گیا
میں نے بھی ایسے جم کے نبھائی نہ پوچھیے

چہرے پہ اک ملال سا، آنکھوں میں تھی نمی
دینا وہ اس کا میری صفائی نہ پوچھیے

شہرِ سخن میں حرفِ پذیرائی اک طرف
شانے پہ اس کا دستِ حنائی نہ پوچھیے



نقش اس کا ذہن و دل سے مٹانا پڑا مجھے
آخر یہ کام کر کے دکھانا پڑا مجھے

تشنہ لبی کا عکس دکھانے کی شرط تھی
صحرا میں اک سراب بنانا پڑا مجھے

دشمن تو تھا ضرور مگر عالی ظرف تھا
آخر اسی سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

آنے لگے تھے لوگ مسلسل فریب میں
پردہ کسی کے رخ سے ہٹانا پڑا مجھے

اُس پر ترے حصول کی منزل تو تھی مگر
اُس راستے سے لوٹ کے آنا پڑا مجھے

انورؔ اُٹھا دیا تھا کبھی بزم سے جسے
کل اس کو ہاتھ تھام کے لانا پڑا مجھے





اس نے مڑ کر اگر نہیں دیکھا
ہم نے بھی پھر اُدھر نہیں دیکھا

ایک مدت سے راستے میں ہوں
ایک مدت سے گھر نہیں دیکھا

کچھ کے منہ میں یہاں زبان نہیں
کچھ کے کندھوں پہ سر نہیں دیکھا

اس نے سب کی طرف نظر کی تھی
آئینہ ہی مگر نہیں دیکھا

تیرے معیار کا کہیں جس کو
ایک بھی چارہ گر نہیں دیکھا

تم نے اپنا جمال تو دیکھا
میرا حسنِ نظر نہیں دیکھا

ہم اسے دیکھتے رہے انورؔ
جس نے منہ پھیر کر نہیں دیکھا



گماں یقین کے سب منظروں پہ بھاری ہے
عجیب دھند مرے روز و شب پہ طاری ہے

تری جبیں پہ ہیں جاہ و جلال کے خاکے
ہمارے ہاتھ میں لفظوں کی ریزگاری ہے

متاعِ حرف و معانی ہے سکۂ بے کار
ہنر وری بھی فقط وجہ دلفگاری ہے

کسی کا ساتھ اگر ہو تو خوب ہے ورنہ
سفر تو کرنا ہے ہم نے، سفر تو جاری ہے

سنبھل کے خرچ کرو، دھیان سے لٹاؤ اسے
تمہارے ہاتھ سہی، زندگی ہماری ہے

مقدرات سے بنتا نہیں گلہ انورؔ
کہ یہ فراق شعوری ہے، اختیاری ہے



ایک مسکراہٹ پر انتظار ممکن ہے
زندگی ترا اب بھی اعتبار ممکن ہے

زیست کے تقاضوں سے کب فرار ممکن ہے
حادثہ محبت کا بار بار ممکن ہے

آپ ٹھیک کہتے ہیں، خواہشوں کے موسم میں
چاہتوں کی دھرتی پر انتشار ممکن ہے

ایک آخری کوشش کر رہے ہیں ہم ورنہ
جو نہیں ہوا اب تک، اب کی بار ممکن ہے

غیر کے اشاروں پر رقص کر رہے ہیں آپ
آپ پر بھلا کب تک اعتبار ممکن ہے



پھر کوئی سانحہ نہ ہو جائے
تو بھی بے دست و پا نہ ہو جائے

میں یہ پتھر نہیں تراشوں گا
یہ بھی اک دن خدا نہ ہو جائے

یہ جو دیوار چن رہے ہو تم
درد کا راستہ نہ ہو جائے

یوں بھی ربط اس سے کم رکھا ہم نے
ہم سے کوئی خطا نہ ہو جائے

پھر منڈیروں پہ رکھ رہے ہو دیئے
پھر سے دشمن ہوا نہ ہو جائے

منزلوں کا گریز اپنی جگہ
راستہ ہی خفا نہ ہو جائے

وہ جو ہمراہ چل پڑے انورؔ
زندگی کیا سے کیا نہ ہو جائے



فضائے مہر و محبت تری پناہ میں ہوں
میں اپنے حسنِ تخیل کی بارگاہ میں ہوں

ابھی ہوں اس کی کشش کے حصار سے باہر
ابھی میں عکسِ تمنا ہوں اور راہ میں ہوں

ترا وقار مرے ساتھ سے عبارت ہے
مثالِ دُرِّ ثمیں میں تری کلاہ میں ہوں

اے میرے حسنِ مذَبذب ترے جمال کی خیر
کہ میں یقیں ہوں مگر چشمِ اشتباہ میں ہوں

مدارِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
میں تیری راہِ طلب میں ہوں، تیری چاہ میں ہوں

کہاں وہ دور کہ جچتا نہ تھا نظر میں تری
کہاں یہ وقت کہ میں بھی تری نگاہ میں ہوں

کہیں غرورِ گلِ تر ہے خاکِ پا میری
کہیں کہیں مگر انورؔ میں عجزِ کاہ میں ہوں



ہمیں بھی خوشبو سے، رنگ سے واسطہ تھا کوئی
ہماری دھڑکن میں، سانس میں بولتا تھا کوئی

مرے حوالے سے لوگ پہچانتے تھے اس کو
زمانے بھر کی نظر میں چبھتا رہا تھا کوئی

کبھی ملو گے تو ایک لمحے میں جان لو گے
کسی کی امید میں کہاں تک جیا تھا کوئی

ہمیں یہ تسلیم ہے کہ تم روشنی تھے لیکن
ہمارے دامن کی اوٹ میں بھی دیا تھا کوئی

اسے محبت سے واسطہ ہی کبھی نہیں تھا
جو ربط ہم سے تھا اور ہی سلسلہ تھا کوئی

اسے بھی ممکن ہے کچھ مسائل کا سامنا ہو
ہمیں نکلنے کا راستہ دے رہا تھا کوئی

کہا یہ اس نے خدا کرے آپ مر ہی جائیں
تو صاحبو! اس کے بعد رستہ بچا تھا کوئی؟


غزل کہوں کہ تجھے حاصل غزل لکھوں
میں لفظ لکھوں مگر پھر بدل بدل لکھوں

تمہارے ساتھ جو لمحے نصیب میں آئے
انہیں میں عمر کہوں، اور ایک پل لکھوں

ابد قرار دوں چاہت کی ہر نشانی کو
میں تیرے پیار کو سرمایۂ ازل لکھوں

تری نظر کے بدلتے ہوئے اشاروں کو
میں تیرا آج کہوں اور اپنا کل لکھوں

لکھوں تو لکھتا چلا جاؤں عشق کی ضد ہے
ہے مصلحت کا تقاضا سنبھل سنبھل لکھوں

وہ میری روح میں شامل ہے اس طرح انورؔ
بن اس کے زیست فقط سانس کا عمل لکھوں

لخت لخت

ہم کسی اور ستارے کی کشش میں گم ہیں
وہ کوئی اور جہاں ہے، تو جہاں ٹھہرا ہے

کوئی منزل ہے نہ پسپائی کا رستہ کوئی
رہروِ شوق بھی ٹھہرا تو کہاں ٹھہرا ہے 


ہاں مگر اب نہیں لوٹ آنے کا رستہ کوئی
ہاں تعلق تھا مگر کب اسے سمجھا کوئی

کم سے کم یوں تو در و بام نہ جلتے میرے
کم سے کم یوں تو ہوا دے کے نہ جاتا کوئی

روز جلتا ہے بہ اندازِ دگر قریۂ جاں
روز ہوتا ہے یہاں اور تماشا کوئی

راہ میں پلکیں بچھائیں، درِ دل کھول دیا
راہ چلتے بھی نظر آیا جو تجھ سا کوئی

اب مروّت کے یہ چشمے بھی غنیمت انورؔ
اب کہاں پہلی محبت کا سا دریا کوئی



آنکھیں روشن، لہجے رس کے پیالے جی
یہ ہیں لوگ محبت کرنے والے جی

کسی کسی کا حسن نشیلا ہوتا ہے
کچھ شاعر بھی ہوتے ہیں متوالے جی

لمحہ لمحہ جکڑا جاتا ہوں ان میں
یادیں ہیں یا ہیں مکڑی کے جالے جی

اس کی آنکھ سے آنسو بن کر بہہ نکلے
میرے پاؤں میں پڑنے والے چھالے جی

راتوں کا احوال کہاں چھپ سکتا ہے
سب کہہ دیتے ہیں آنکھوں کے ہالے جی

میں نے ہنس کر ٹال دیا گو لوگوں نے
آپ کے نام کے پتھر خوب اچھالے جی

گنگو تیلی آس لگائے بیٹھا ہے
جائے راجہ بھوج تو راج سنبھالے جی

آپ نے گھولا زہر فضاؤں میں لیکن
ہم نے پھول اگائے، بوٹے پالے جی

جنگ کی باتیں کرنے والو یاد رہے
بچتے ہیں بس آہیں، آنسو، نالے جی

آگ اگلتے سانپ کا شکوہ بے جا ہے
میں نے تو بس اپنے پھول سنبھالے جی

باپ کی آنکھ سے میرے آنسو ٹپکے تھے
بس اس دن سے ہونٹوں پر ہیں تالے جی



تو اگر پیاس آشنا ہوتا
میرا صحرا ہرا بھرا ہوتا

خامشی باوقار ہے جیسے
معتبر تیرا بولنا ہوتا

اختلافی بیان سے پہلے
کاش تم نے مجھے سنا ہوتا

سوچ کر بولتے تو ممکن ہے
جو ہوا ہے نہیں ہوا ہوتا

حاسدوں کی کہاں کمی تھی ہمیں
تم نہ ہوتے تو دوسرا ہوتا

کم نسب دشمنوں سے مل بیٹھا
اس سے اچھا تھا مر گیا ہوتا

وہ تو میرا ضمیر زندہ ہے
ورنہ میں تیرا ہم نوا ہوتا

تیرے ہونٹوں پہ مہر ہوتی اگر
میرے ہاتھوں میں آئینہ ہوتا

در بہ در خاک چھاننے والے
مجھ سے پیمان کر لیا ہوتا

وہ میسر نہیں رہا ورنہ
میں اسے کب کا کھو چکا ہوتا

کس قدر سوچتے ہو تم انورؔ
ارے اظہار کر دیا ہوتا


اک ذرا طرزِ خوش گمانی سے
سب ملا طشتِ زندگانی سے

یہ جو کچھ لوگ مانتے ہیں مجھے
دوستوں ہی کی مہربانی سے

ہم بھی کیا روگ پال بیٹھے ہیں
اس کی معصوم چھیڑ خانی سے

تم سے ملنا بہت ضروری ہے
پیاس بجھتی نہیں ہے پانی سے

جلد تفریق ہونے والا ہے
میرا قصّہ تری کہانی سے

رنگ میری فضاؤں کے انورؔ
سرخ ہونے لگے ہیں دھانی سے

لخت لخت

اپنے اپنے درد کے قصّے تھے ہونٹوں پر
کون بھلا پڑھتا ان آنکھوں کی تحریریں

میرے بچے جیتیں گے یہ بازی انورؔ
یا سیلاب کے ماتھے پر لکھی تحریریں 


چاہتوں کا ثمر مل گیا
تجھ سا اہلِ نظر مل گیا

تو مجھے راہ میں کیا ملا
اک جوازِ سفر مل گیا

اک شعورِ محبت ہمیں
تیرے زیرِ اثر مل گیا

تیرے معیار کا تو نہیں
ہاں مگر چارہ گر مل گیا

میری تکمیل ہونے لگی
وہ سراپا ہنر مل گیا

تم سنبھالو یہ دیوارِ زر
آدمیت کا در مل گیا

دل میں جاگی تھی اس کی لگن
تا بہ حدِ نظر مل گیا

تو ملا تو تھکن جاگ اٹھی
یوں لگا جیسے گھر مل گیا





تو ہے ویسا ہی ہو بہو یارا
خواب میں تھا جو رُوبرو یارا

دوسرا تو ہے جس نے سمجھی ہے
میری بے ربط گفتگو یارا

تجھ کو سوچوں تو پھول کھلتے ہیں
دل کی نگری میں کو بکو یارا

اتنے لوگوں میں بھی اکیلے ہیں
ایک میں اور ایک تو یارا

بس یہ عزمِ سفر جواں رکھنا
دھند چھٹنی تو ہے کبھو یارا

آج کل رتجگے مناتی ہے
تیرے خوابوں کی آرزو یارا

ایک صحرا ہے پیاس کا انورؔ
تو محبت کی آبجو یارا

لخت لخت

یہ محبت بس ایک لفظ نہیں
یہ مری زندگی کا محور ہے

محبت، اور پھر ترکِ محبت
حماقت در حماقت ہو رہی ہے



عہدِ زر نگاراں میں کتنے زخم سلگے ہیں
کتنی بھوک چمکی ہے، کتنے درد مہکے ہیں

بے کسی کی زنجیریں توڑنے کی کوشش میں
کتنے گھر سلگتے ہیں، کتنے پھول جلتے ہیں

میرے گاؤں کے لوگو، کس کا خوف ہے تم کو
بند ہونٹ ہیں سب کے، سوچ پر بھی پہرے ہیں

وہ بھی پیار کے داعی، ہم بھی چاہ کے پیکر
نفرتوں کے یہ شعلے پھر کہاں سے اٹھتے ہیں

غور کیجئے ہم کو یہ نظام کیا دے گا
اوٹ میں چناروں کی جب ببُول اگتے ہیں

بھولتا نہیں انورؔ مفلسی کا وہ منظر
ایک بوڑھی عورت ہے اور پھلوں کے چھلکے ہیں



مشکل وقت میں اکثر لوگ بدل جاتے ہیں
چلتے چلتے اپنی راہ نکل جاتے ہیں

سب کے اپنے اپنے پیمانے ہوتے ہیں
سب اپنے افکار کی آگ میں جل جاتے ہیں

ذہن کی گرہیں کھلتے کھلتے ہی کھلتی ہیں
جاتے جاتے ہی رسی کے بل جاتے ہیں

ٹھوکر کھا کر گرنے والا سوچ رہا تھا
گرتے گرتے کیسے لوگ سنبھل جاتے ہیں

بے حس لوگوں کی بستی میں آخر انورؔ
کیسے کیسے نغمے آہ میں ڈھل جاتے ہیں



میری آمد پہ وہ خفا کیوں تھا
جس نے پوچھا ہے میں گیا کیوں تھا

یوں تو یہ بھی سوال بنتا ہے
وہ مجھے سوچتا رہا کیوں تھا

شب اسے اس پہ اعتراض ہوا
میری دیوار پر دیا کیوں تھا

اُس کی آنکھوں کا بولتا منظر
جانے اتنا اداس سا کیوں تھا

میں نے جب اپنی ہار مانی تھی
اُس کا لہجہ بجھا بجھا کیوں تھا

وہ بھی اغراض کا مسافر تھا
قافلے سے مگر جدا کیوں تھا

ابر گر مہرباں تھا دھرتی پر
سائبانوں کا سلسلہ کیوں تھا

کل جسے مجھ پہ ناز تھا انورؔ
آج مجھ سے گریز پا کیوں تھا



ہو کسی پر اثر ضروری نہیں
شاعری کا سفر ضروری نہیں

بس تری آنکھ کا اشارہ بہت
ہاتھ ہو ہاتھ پر ضروری نہیں

ہم تعلق کے اس مقام پہ ہیں
کوئی پیغام بر ضروری نہیں

جان کے بدلے جان لی جائے
یہ روا ہے مگر ضروری نہیں

ٹھیک بھی ہو کہا سنا تیرا
اے مرے بے خبر ضروری نہیں

اپنا اپنا مزاج ہے انورؔ
سب کی ہو چشم تر ضروری نہیں



بے چین ہو کے ہم نے جو کھولی قبائے ساز
یوں جانیے کہ درد پہ ڈالی ردائے ساز

یہ گیت ہے کہ سحر ہے پھیلا ہواؤں میں
بلبل کی ہے صدا کہ ہے تو ہم نوائے ساز

نغمے کی دھن پہ مست ہیں ساری سماعتیں
سنتا بھلا ہے کون یہاں التجائے ساز

نوحہ زمین کا ہے کہ فنکار کا ہے درد
کرنے لگی ہے روح کو زخمی صدائے ساز

مطرب بھی کیا کرے کہ ہماری اداسیاں
بالائے حرف و صوت ہیں اور ماورائے ساز



باہر اوجھل، اندر گم
منظر گم پس منظر گم

چھینٹے پہنچے دامن تک
اور کیچڑ میں پتھر گُم

سانپ اُگے بستی بستی
جو گی بین بجا کر گم

اس جنگل میں سوچے جو
ہو جاتا ہے اکثر گم

میرے اندر اک صحرا
اور صحرا میں ساگر گم

رات کے راز بتاتی تھی
گوری نے کی جھانجھر گم

اس کا ظرف اور میں انورؔ
جیسے جھیل میں کنکر گم


عذاب دل کے سہے اپنی جان پر اکثر
کھلا نہیں میں کسی مہربان پر اکثر

اب التفات کے عنواں بدل گئے ورنہ
سجی ہیں محفلیں میرے مکان پر اکثر

سوال اُٹھتے رہے ہیں ترے حوالے سے
جواب آیا نہ میری زبان پر اکثر

کیا پڑاؤ بھی، لیکن ترے مسافر نے
رکھا سفر کو مقدّم تکان پر اکثر

وہ تو نہیں ہے جسے سوچتے ہوئے میری
گرفت ڈھیلی پڑی ہے کمان پر اکثر

ہم ایسے سادہ ہیں انورؔ کہ جو محبت میں
یقین کرتے رہے ہیں گمان پر اکثر

لخت لخت

محفل میں اس نے ایسے دیکھا مجھ کو
اچھا اچھا اپنا آپ لگا مجھ کو

پورے ہال کی نظریں مجھ پر آ ٹھہریں
اس نے جب گلدستہ پیش کیا مجھ کو 


جُز ترے کوئی دھیان ہے ہی نہیں
دوسرا سائبان ہے ہی نہیں

اک ضرورت نچا رہی ہے ہمیں
عشق تو درمیان ہے ہی نہیں

لوٹ کر آ گیا ہے وہ لیکن
اب مجھے اس پہ مان ہے ہی نہیں

ہے تصور کی کارفرمائی
ورنہ وہ مہربان ہے ہی نہیں

اب تو یوں ہو گیا کہ لوگوں کو
تجھ سے اچھا گمان ہے ہی نہیں

تیرے لہجے میں اب منیرانورؔ
وہ مٹھاس اور رسان ہے ہی نہیں



تم بھی کتنا ستا رہے ہو مجھے
کام پر یاد آ رہے ہو مجھے

ایک تو کار زارِ ہستی ہے
دوسرے تم گھلا رہے ہو مجھے

پہلے کیا کم ہیں الجھنیں میری
یہ جو تم گنگنا رہے ہو مجھے

میری دُکھتی رگوں سے واقف ہو
پھر بھی کیوں آزما رہے ہو مجھے

گاہے گاہے نہیں ہے ہرج کوئی
تم تو یکسر بھلا رہے ہو مجھے

میں تمہارا وقار ہوں یارو
خاک میں کیوں ملا رہے ہو مجھے

پیاس، صحرا، سراب، بے تابی
تم کہاں لے کے جا رہے ہو مجھے





جب سے اک شخص مرا قافلہ سالار ہوا
زندگانی کا سفر اور بھی دشوار ہوا

ہونے والی ہے نئی بات بہر حال کوئی
وہ کچھ ایسے ہی نہیں میرا طرفدار ہوا

تیز اتنی تھیں ہوائیں کہ بجھا دیں سورج
ایک جگنو تھا جو آمادۂ پیکار ہوا

حکم یہ ہے کہ رکھا جائے مراتب کا خیال
بزمِ یاراں نہ ہوئی شاہ کا دربار ہوا

میں نے کچھ اور طرح سے اسے چاہا انورؔ
وہ کسی اور طرح میرا طلبگار ہوا



کس نے کس کو نہیں کہا پاگل
ایک سے ایک تھا بڑا پاگل

سب کی سنتا تھا اور ہنستا تھا
سب سمجھتا تھا وہ مہا پاگل

شور تھا اور زیاں تھا لفظوں کا
سو وہاں پر خموش تھا پاگل

اس کا تو آسرا ہی تم پر تھا
جس کو تم نے بھی کہہ دیا پاگل

بیچتا تھا دوائے ہوش و خرد
ہوش آیا تو ہو گیا پاگل

میں وہی ہوں مری عزیز وہی
تیرا انورؔ، وہی ترا پاگل


نظمیں


اجنبی

مضمحل خال و خد
اجنبی سلوٹیں
اور آنکھوں میں کچھ
غیر مانوس سی الجھنیں
آج صبح
شیو کرتے ہوئے، آئینے میں لگا
میں نہیں ہوں
کوئی اور ہے
کوئی ایسا
جسے میں نہیں جانتا 

انجام


اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں
وقت پوچھا تو یہ احساس ہوا
اب اسے بھولنا ضروری ہے




چُپ

ہمیں خاموش رہنے دو کہ جانے کیوں
ہمارے لفظ اور لہجے میں
اک ٹھنڈک سرایت کر چکی ہے
ہمیں ڈر ہے
ہمارے سرد لہجے، منجمد لفظوں کی زد میں
آ نہ جائیں
گرم جذبوں کے سہانے روپ




چاند

چاند بادل کی اوٹ سے نکلا
اور کھڑکی سے دودھیا کرنیں
اس کا چہرہ اُجالنے آئیں
میں نے دیکھا کہ چاند چہرے پر
چاند کی روشنی مچلتی تھی
ایک لمحے کو رک گئی دھڑکن
آنکھ جیسے جھپکنا بھول گئی
دل نے چاہا کہ وقت تھم جائے
اور یہ ساعتِ حیات افروز
زندگانی نکھار دے لیکن
وقت کی باگ ہاتھ میں کب تھی
اور پھر اختیار بھی کب تھا



رقص

ان مہ و سال پر دسترس تو نہیں
ایک لمحہ مگر جی رہے ہیں جو ہم
دسترس میں بھی ہے
اور بس میں بھی ہے
آؤ اس لمحۂ مہرباں کو محبت کے رنگوں میں گوندھیں
کہانی بنا دیں
اسے لمحۂ جاودانی بنا دیں
کہ ہفتوں، مہینوں پہ، سالوں پہ طاری رہے
مہلت زندگی سے نکل کے بھی
اس کائنات تغیر میں جاری رہے
اس کا پھیلاؤ صدیوں پہ بھاری رہے
رقص جاری رہے



ہرج ہی کیا ہے

جانے کیا طوفان اٹھا ہے
دل بستی کے سارے منظر
اپنی اصل بھلا بیٹھے ہیں
یادیں، باتیں، آنکھیں، خوشبو
جھیل کنارہ، گرتی بوندیں
اور ترا لہراتا آنچل
سب کچھ گڈ مڈ ہونے کو ہے

آج یہ ہم بھی سوچ رہے ہیں
دھول بھری ہے جو آنکھوں میں
سینے پر جو بوجھ پڑا ہے
درد کی گہری گرد میں لپٹے
دھندلے دھندلے یہ سب منظر
دھو لینے میں ہرج ہی کیا ہے
اپنی آنکھیں اپنے آنسو
رو لینے میں ہرج ہی کیا ہے



لاینحل

چائے کی پیالی پر
مسئلے زمانے کے
ہم سنوار لیتے ہیں
ایک مسئلہ لیکن
حل نہیں ہوا اب تک
ہجر کیوں مسلسل ہے
ہم میں دوریاں کیوں ہیں ؟



ہستی کا سرمایہ

کہاں میں بھول پاؤں گا؟
وہ ساری پیار کی باتیں
مرے اصرار کی باتیں
ترے انکار کی باتیں
وہ سب اظہار کی باتیں
کہاں میں بھول پاؤں گا؟

وہ فرضی نام کے قصے
وہ جھوٹے قہقہے سارے
وہ اپنی عمر کم کہنا
وہ سب احساس، سوغاتیں
کہاں میں بھول پاؤں گا؟
مجھے سب یاد آئیں گی
نئے محشر اُٹھائیں گی
محبت کی وہ سوغاتیں
وہ تیری ان کہی باتیں
کہاں میں بھول پاؤں گا؟

وہ Messenger کا ہرجملہ
تمہارے ہاتھ کا لکھا
مرے دل پر دھڑکتا تھا
مجھے مہمیز کرتا تھا
کہاں میں بھول پاؤں گا؟

تمہاری Mail نے پھر سے
مجھے محسوس کروایا
تمہاری دوستی تو ہے
مری ہستی کا سرمایہ
تو پھر ہستی کا سرمایہ
کوئی کب بھولنے پایا؟
کہاں میں بھول پاؤں گا؟



تم

محبتوں کا نصاب تم ہو
جو لوحِ دل پہ رقم ہوئی ہے
وہ چاہتوں کی کتاب تم ہو
سوال میں ہوں
جواب تم ہو



اظہار


کسی سے بات کرنا
اور دل میں پھول کھل اٹھنا
کسی منظر میں خود کو دیکھنا
اور مسکرا دینا
محبت ہے تو پھر گوری
مجھے تم سے محبت ہے



ہائیکوز

آئینے سے کیا مطلب
خود کو دیکھ لیتے ہیں
اس کی جھیل آنکھوں میں
٭

میرے دل کے صحرا میں
پھول کھلنے لگتے ہیں
جب وہ مسکراتی ہے
٭


ہاتھ تیرے ہیں میری آنکھوں پر
تیرے ہاتھوں کی حدتوں کی قسم
آرزو تیری اب بھی زندہ ہے
٭


یاس کے پھیلتے اندھیروں میں
دل تمہیں ڈھونڈنے نکلتا ہے
نرم جذبوں سے روشنی لے کر
٭


تیرے جذبوں کے گرم موسم تک
کوئی بھی راستہ نہیں جاتا
راہبر راہزن ہوئے سارے
٭



پنجابی





ہاسا، بوکا، مٹکا، کھوہ
پنڈ دا شام سویرا، کھوہ

اج وی میرے اندر وسدا
پپل، ٹاہلی، نلکا، کھوہ

میرے دکھڑے پنڈ دا چھپڑ
تیریاں یاداں وگدا کھوہ

ہاسے ہولی ہولی رُس گئے
ہولی ہولی سکیا کھوہ

اج میرے ول ویکھ کے انورؔ
تاڑی مار کے ہسیا کھوہ



کھوپے

میں ٹہگا نئیں
فیر وی کیوں لگدا اے مینوں
کسے نے گل وچ ٹلی بنھ کے
کھوہ گیڑن تے لا دتا اے

اکھیں کھوپے
نک وچ نتھ
تے پیراں تھلے
اکو جیہادن رات دا چکر

اُنج تے ایہہ وی ہو سکدا اے
اکو تھاں تے کھڑا کھڑوتا
اپنی تہون ہلائی جاواں
ٹلینوں کھڑکائی جاواں

پر جس گل وچ ٹلی پائی
اکھاں تے کھوپے بنہے نیں
جس دے ہتھ اِچ نتھ دی ڈوری
اوہ تے دل دے اندر وسدا




ڈُوں گیاں سوچاں، پوہ دے پالے، جگراتے
میرے وسوں باہر نیں میرے جگراتے

تبکا تبکا لہو نچوڑی جاندے نیں
روزی روٹی، لمے پینڈے، جگراتے

جاندے ہویاں کسے نیں مینوں دِتے سی
کاغذ، قلم تے سوچیں ڈُبے جگراتے

خوشیاں، ہاسے، مٹھی نیندر توں رکھ لے
سانوں پیہج دے ہنجو، ہوکے، جگراتے

اج تے شیشے نیں وی مینوں پچھ لیا
تینوں کیہدے دکھڑے دے گئے جگراتے

بندہ خالی پیپا ہو کے ریہہ جاندا
گُجیاں ماراں مار دے ریہندے جگراتے

گل سن اینیاں لمیاں سوچاں چنگیاں نئیں
گل سن دے جاندے نیں سُفنے جگراتے

کوئی تے میرے وانگوں وی جاگے انور
کوئی تے میرے نال ہنڈاوے جگراتے 


لگی اگ تے لارے کیہ کر سکدے نیں
پانی پون دے کارے کیہ کر سکدے نیں

دکھ دا مینہ تے پکے کوٹھے ٹہا دیندا
صبر دے مٹی گارے کیہ کر سکدے نیں

ہجر دی نیہری رات اچ تیریاں یاداں دے
ٹانویں ٹانویں تارے کیہ کر سکدے نیں

اپنا ویلا آپ ٹپوناں پیندا اے
منگے ہوئے سہارے کیہ کر سکدے نیں

اپنی اگ اِچ سڑ جاندے نیں ساڈے جئے
اپنے آپ توں ہارے کیہ کر سکدے نیں

پیار تے توں ای توں دا سودا اے سجنا
ایتھے میں دے مارے کیہ کر سکدے نیں

اندر کُہپ ہنیرے ہون تے فیر انورؔ
بجلی دے چمکارے کیہ کر سکدے نیں


نکوں چہل جاندی اے سجنا
اینویں قول کسے ہارے نیں ؟

مَتھے تیڑی پائی رکھ دا ایں
کیہڑے تیرے مانھ مارے نیں

اک تے لوکاں اَت مچائی
دُوجے توں میہنے مارے نیں

توں وی بازی ہار گیا ایں
میرے کول وی بس لارے نیں

پیار تے توں وی جم کے کیتا
میں وی اپنے ساہ وارے نیں

ہجر دی نیہری ڈاہڈی سئی پر
تیری یاد دے ککھ پہارے نیں

پیو دے ہندیاں سارے اک سی
ہُن تے وکھو وکھ سارے نیں

میرے راہ دا چانن انورؔ
اوہدیاں اکھاں دے تارے نیں




سوچاں اگ تے لہجے اگ
اندر باہر چوفیرے اگ

بیڑی کِدر لے کے جاواں
شَوہ دریا اچ، کنڈھے اگ

بندہ ساڑ سواہ کر دیندے
ہوندے نیں پچھتاوے اگ

گنے وی اوکھے بچ دے نیں
کھورینوں جے لگے اگ

لوکاں دا تے کم اے لوناں
تُسیں تے آن بجھاندے اگ

چَہلیا پانی نال ناں بجھُدی
لگی دل دے ویہڑے اگ

درد وچھوڑا ناں لکھ انورؔ
لگ سکدی اے ورقے اگ
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
استاد محترم!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
ماشاءاللہ۔
تھوڑا سا حصہ پڑھا ہے ابھی۔
 
Top