راں بو ، فرانس کا مشہور شاعر

ہم نے چند ہفتے قبل فرانس کی جدید شاعری کا جائزہ اپنے کالم میں شروع کیا تھا۔ یہ مطالعہ چار ہفتے جاری رہا، اس کے بعد اسے روک دیا گیا۔ روکنے کے کئی اسباب تھے۔ اوّل تو یہی، جیسا کہ ایک کالم میں اس سے پہلے عرض بھی کیا جاچکا کہ موضوع کی طوالت کہیں قارئین کے لیے اکتاہٹ کا باعث نہ ہو، اس لیے اس موضوع کو ہم مسلسل زیرِ مطالعہ رکھنے کے بجائے گاہے گاہے اس کے مختلف پہلوئوں پر بات کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ گزشتہ دنوں کراچی کی صورتِ حال نے ذہن اور اعصاب کو شل کرکے رکھ دیا تھا، جس کا اظہار اس سے قبل دو کالموں میں کیا گیا۔ بہرحال اس بار ہم پھر فرانسیسی شاعری کے جائزے کی طرف واپس آتے ہیں۔
آج ہم جس شاعر کی بات کرنے چلے ہیں وہ واقعتاً ایک عجوبۂ روزگار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے فرانسیسی شاعری ہی کو نہیں، بلکہ بعد ازاں اس کے زیرِاثر ہونے والی تمام دنیا کی جدید شاعری کو اپنے وژن، میجری اور اپنی زبان کے بالکل ہی انفرادی اسلوب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس نے لڑکپن ہی میں اپنی پہلی نظم تخلیق کی۔ اس کو اکثر تنقید نگار اور شعرا جدید شاعری کا باوا آدم کہتے ہیں۔ اس نے شاعری کے روایتی اور ہم عصر تمام اسالیب کو انتہائی کامیابی سے اپنایا، لیکن اس کی شاعرانہ صلاحیت اور استعداد شاعری کی جس صنف میں اپنے کمال کو پہنچی وہ تھی نثری نظم۔ اس شاعر کا نام تھا رمبو… جسے ہمارے ہاں راں بو کہا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام ژاں نکولاآغتیوغ رمبو(Cean Nicolas Aurthur Rimbaud) تھا۔
راں بو، بیلجیم کی سرحد سے ملتے ہوئے فرانس کے شہر شاغل ویل میں 20 اکتوبر 1854ء میں پیدا ہوا تھا۔ جب اس کی عمر 6 برس کی ہوئی تو اس کے والد اور والدہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے اور پھر اس کی پرورش اس کی والدہ نے کی جوکہ اپنی فطرت کے لحاظ سے انتہائی تسلط پسند تھی اور حد درجے کی مذہبی بھی۔ بڑے ہوکر اس نے شاغل ویل کے کالج میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ہر مضمون میں ایک غیر معمولی لیاقت رکھنے والا طالب علم کہلایا جانے لگا، لیکن اس کی ماں اسے دوسرے لڑکوں سے ملنے نہیں دیتی تھی اور بذاتِ خود اسے کالج لے جاتی اور واپس گھر لایا کرتی تھی۔
اس کالج کے ایک پروفیسر نے، جس کا نام جارج ایزامبارڈ تھا، راں بو سے دوستانہ مراسم اختیار کیے اور اسے رومانیت پسندوں اور پارناسی ین کی شاعری پڑھنے کا مشورہ دیا، اور اس کا ادبی ذوق اور تخلیقی مزاج دیکھتے ہوئے یہ رائے بھی دی کہ وہ اپنی شاعری کی باقاعدہ تخلیق کا عمل شروع کردے۔ ایزامبارڈ نے 1870ء میں جب فرانس اور پروشیا کی جنگ کا آغاز ہوا تو کالج کو خیرباد کہہ دیا۔اس کے کالج سے چلے جانے کے بعد راں بو نے چار مرتبہ گھر سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس میں سے ایک کوشش صرف ایزامبارڈ کی تلاش کے سلسلے میں تھی۔
کچھ تنقید نگاروں نے راں بو کے شاعرانہ اسلوب میں اچانک تبدیلی کو اس بات پر محمول کیا کہ یہ اسلوب ان زیادتیوں کے نتیجے کے طور پر اختیار کیا گیا جو جنگ کے زمانے میں فوجیوں نے راں بو پر کیں۔ لیکن یہ محض ایک قیاس ہے، اس کی تصدیق کبھی نہیں ہوسکی۔ بہرحال یہ تو اس کی اُس زمانے کی شاعری پڑھ کر کوئی بھی قاری اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس عرصے میں راں بو کسی نہ کسی نفسیاتی دھچکے سے ضرور دوچار ہوا ہوگا۔ اس کی کم عمری کی جذباتی شاعری آہستہ آہستہ ایک ایسی شاعری میں منقلب ہوئی جس میں ہمیں زندگی سے بڑھتی ہوئی بیزاری اور کلبیت یا مردم بیزاری کا بڑھتا ہوا احساس غلبہ پاتا دکھائی دیتا ہے۔
1871ء میں راں بو نے تین اہم خطوط تحریر کیے… دو ایزامبارڈ کے نام، اور ایک اپنے دوست پول دیمنی کے نام۔ ان خطوط میں پہلی مرتبہ اس نے اپنے جمالیاتی فلسفے کے اہم نکات بیان کیے۔ اس کے ان خطوط کو ایک خواب دیکھنے والے یا رویا پسند کے خطوط کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان خطوط کو ادب کے مؤرخین اور نقادوں نے بارہا بہت استغراق سے پڑھا تاکہ وہ راں بو کی شاعری کا ایسا فہم حاصل کرسکیں جو اس کا حق تھا۔1871ء ہی میں اس نے پول ورلین کو، جو اُس وقت فرانس کا اہم ترین شاعر سمجھا جاتا تھا، بھی خط لکھا اور اپنی کچھ نظمیں بھی اس خط کے ساتھ ورلین کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھیجیں۔ اس خط کے جواب میں ورلین نے راں بو کو پیرس آنے اور اپنے پاس رہنے کی دعوت دی۔ راں بو نے اس دعوت کو فوراً قبول کرلیا اور پیرس جاکر ورلین اور اس کی اہلیہ کے ساتھ رہنے لگا۔
راں بو کی سوسائٹی سے بیزاری اور ورلین سے بڑھتے ہوئے ناپسندیدہ تعلقات کے سبب ورلین کی ازدواجی زندگی تباہ ہوکر رہ گئی۔ آگے چل کر اس کی ہمہ وقت کی شراب نوشی اور پیرس کی ادبی اور ثقافتی انجمنوں سے انتہائی غیر مہذبانہ سلوک کرنے کے بعد راں بو نے ورلین کی میزبانی کو خیرباد کہہ دیا۔ راں بو کے رخصت ہونے کے بعد ورلین نے اپنی بیوی سے ازسرِنو ازدواجی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ اس کے بعد اس نے ایک بار پھر راں بو سے پیرس لوٹنے کی استدعا کی جو راں بو نے قبول کرلی۔ اس کے بعد راں بو اور ورلین کے 1872ء تا 1873ء کے برطانیہ اور بیلجیم کے دورے شروع ہوئے۔ اس زمانے میں راں بو مشرقی مذاہب اور علم کیمیا کے مطالعے میں مگن تھا اور اس قدر کہ دن رات یہ مطالعہ جاری رہتا، اور اسے جاری رکھنے کے لیے راں بو نے نیند اُڑانے والی دوائوں کا کثرت سے استعمال کیا اور ساتھ ہی بہت سی واہمہ ساز ادویات کا بھی۔ اُس زمانے میں اس کی تخلیقی استعداد اپنے عروج پر تھی۔ دوسری طرف راں بو اور ورلین کے تعلقات بگڑتے رہے اور یہ بگاڑ اس حد کو پہنچ گیا کہ جب راں بو نے ورلین سے علیحدگی کے فیصلے کا اعلان کیا تو ورلین نے پستول سے راں بو پر گولی چلا دی جو راں بو کی کلائی میں پیوست ہوگئی۔ راں بو اس واقعے کے بعد اپنی ماں کے پاس واپس چلا گیا۔ اسی دوران اس نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ کو مکمل کیا۔ اس نظم کے عنوان کا انگریزی ترجمہA Season In Hell ہے۔ جب کہ ورلین نے دو سال سخت سزا میں جیل میں گزارے۔ یہ سزا اسے راں بو پر گولی چلانے کی وجہ سے دی گئی تھی۔ جب راں بو کا زخم مندمل ہوگیا اور وہ روبہ صحت ہوا تو پیرس واپس گیا اور اس نے اپنی نظم ورلین کے حوالے کی۔اس کے بعد راں بو نے شاعری کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ یہ فیصلہ راں بو نے اُس وقت کیا جب کہ اُس کی عمر صرف 21 سال تھی۔ اس نے اپنی زندگی مہم جوئی میں گزارنے کا تہیہ کیا اور یورپ، ایتھوپیا اور ابیسینیا میں اسلحہ کی سپلائی اور غلاموں کی تجارت میں حصہ لیا۔ اگرچہ وہ شاعری کو سلام کرکے تاجرانہ زندگی میں ہمہ تن مشغول ہوچکا تھا لیکن دوسری طرف اس کا نام فرانس میں ایک نہایت اہم شاعر کی حیثیت سے اُبھرا اور اس کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی۔ ورلین نے یہ سمجھ کر کے راں بو مرچکا ہے، 1886ء میں راں بو کی نظم ’’رخشندگی‘‘ (Illuminations) شائع کروا دی۔ 1891ء میں راں بو کو ٹانگ کا کینسر ہوگیا اور وہ علاج کروانے کے لیے فرانس کے شہر مارسعی پہنچ گیا۔ اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ واپس اپنی ماں کے پاس چلا گیا، لیکن اس کی حالت بگڑنے لگی اور اسے پھر مارسعی لوٹنا پڑا۔ بالآخر وہ 10 نومبر 1891ء کو اس دارِِ فانی سے 37 برس کی عمر میں کوچ کر گیا اور اسے شاغل ویل میں دفن کردیا گیا۔
راں بو کی ابتدائی شاعری کے زمانے کی جو نظم مقبول ہوئی اس کا عنوان تھا ’’سورج ابھی چمکا ہوا تھا‘‘۔ اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ نظم اس نے 10 برس کی عمر میں تخلیق کی تھی، لیکن اس کی بیشتر نظمیں 1869ء اور 1872ء کے درمیان لکھی گئیں۔ ورلین نے راں بو کی کلیات کے نام سے ان تمام نظموں کو1895ء میں شائع کروایا۔ گو یہ نظمیں اس کی روایتی نظموں میں شمار کی گئیں۔ اس کے موضوعات عام طور سے بورژوائی تہذیب سے روگردانی اور عیسائیت سے انحراف سے متعلق ہیں، لیکن آپ ان نظموں میں اس کی آئندہ کی شاعری میں تلخی اور بیزاری کے پرتو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کلیات میں جو قابلِ ذکر اور توجہ طلب نظمیں شامل ہیں وہ ہیں: ’’میری لاابالی‘‘ ( محبوب)، ’’موسیقی کے نام‘‘، ’’شام کی مناجات‘‘ (عیسائیت کے خلاف ایک نظم)، راں بو کی مشہور ترین اوّلین نظم ’’مخمور نائو‘‘ ہے، جو اُس وقت تخلیق کی گئی جب راں بو 16 برس کا تھا، جو روایتی تشبیہات کے ساتھ ایسی تشبیہات بھی پیش کرتی ہے جن کا تعلق تاثریت اور علامتوں سے ہے۔
16 برس کی عمر ہی میں اس نے شاعری پر اپنے نظریات کا برملا اظہار کیا اور معاشرے میں شاعر کے رول سے متعلق، اپنے ان خطوط میں جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے، اپنے نظریے کا بھی۔ ایک اور بھی قابلِ ذکر نظم اسی زمانے کی ہے، جس کا عنوان’’ سات سالہ شاعر‘‘ ہے، جس میں ان تمام توقعات سے جو مذہب سے متعلق تھیں، بغاوت کی گئی تھی۔ اس کی ماں اس کے لیے بیک وقت ایک عذاب اور شاعری کی دیوی تھی۔ اپنی بعد کی نظموں میں راں بو نے اپنے پہلے کے اسلوب کو بالکل ترک کردیا اور نثری نظمیں تخلیق کرنے لگا، جن کی بہترین مثالیں ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ اور ’’رخشندگی‘‘ ہیں۔ اس بات پر نقادوں میں ابھی تک اتفاقِ رائے نہیں پایا جاتا کہ ان میں سے کون سی نظم پہلے تخلیق کی گئی۔ کچھ کا خیال ہے کہ ’’رخشندگی‘‘ پہلے اور ’’دوزخ کی رُت‘‘ بعد میں لکھی گئی، لیکن بعض دوسرے نقاد اس کے برعکس رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ دونوں نظمیں اپنے انتہائی انفرادی اسلوب اور بعید از فہم و ادراک حرف و بیاں کی وجہ سے ابھی تک دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
راں بو کی نظمیں جس طرح اس کی زندگی میں سنسنی خیز تھیں اسی طرح اس کی موت کے بعد بھی سنسنی خیز سمجھی جاتی ہیں۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ جو تبدیلی راں بو کی تنقید میں نمایاں ہوئی، وہ مجموعی طور پر اس کی شاعری سے زیادہ اس کی نظموں کی فرداً فرداً قدر و قیمت کے تعین سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ’’مخمور نائو‘‘ اس کی ایک زمانے سے مشہور نظم تھی اور اکثر نقادوں نے اس کی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مدح سرائی کی، لیکن اب یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اس نظم کو اتنا انفرادی نہیں سمجھا جاتا جیسے کہ پہلے سمجھا جاتا تھا، اور اب اس کی تعریف اور مدح سرائی میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ روبرٹ گرئیر کوہن کے مطابق راں بو کی اکثر نظمیں جو ’’رخشندگی‘‘ میں شامل ہیں بعید از فہم ہیں اور ان کے ادراک کے لیے نت نئی حکمتِ عملیاں جنم لے رہی ہیں۔ نقاد راں بو کی شاعری کو کلی طور پر سمجھنے کے لیے اس کی زندگی کی رنگارنگی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ اس کی زندگی میں جو کلیدی اشارہ اب تلاش کیا گیا ہے، وہ ہے راں بو کا تساہل اور محنت کشی سے گریز۔ یہ نکتہ کرسٹن کروس کا اٹھایا ہوا ہے۔ اس نے اس ضمن میں دلیل کے طور پر اس کی نظم ’’ گندہ خون‘‘ (Bad Blood) کی مثال دی جس میں راں بو جفاکشی سے منحرف ہونے اور محنت کا کوئی کام نہ کرنے کی بات کرتا ہے، اور کرسٹن کروس نے یہی بات اس کے خطوط میں بھی ڈھونڈ نکالی۔ ری ان ہارڈ کا خیال ہے کہ راں بو کے اپنی ماں کی نصیحت کے باوجود ورلین سے بے وفائی کے احساسِ جرم کو اس کی نظم ’’دوزخ کی ایک رُت‘‘ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن راں بو سے متعلق گفتگو کو اس مقام پر ختم نہیں کیا جاسکتا، اس کی مشہور ترین نظموں نے ساری دنیا کے ادب کو کیا دیا، اس کو جاننے کے لیے ابھی راں بو کی شاعری اور اس شاعری کے اس کی زندگی سے ارتباط پر اس دور کے تنقید نگاروں اور قارئین کی آرا کو جاننا بہت ضروری ہے۔یہ کام ہم اگلے کالم میں کریں گے۔ ان شا اﷲ۔
(جاری ہے)
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/48300
 
دوسرا اور آخری حصہ
گویا اس کی زندگی اور فن کی تشکیل میں اس کے اپنے ارادے کو دخل تھا اور یوں ہم ایک کو دوسرے کے تذکرے کے بغیر بیان کریں گے تو بودلیئر کی شاعری کے گوناگوں پہلو ہماری سمجھ میں نہیں آئیں گے۔
بودلیئر کا پہلا شعری مجموعہ ۱۸۵۷ء میں ’’بدی کے پھول‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا جسے وزارتِ داخلہ نے یہ کہہ کر ممنوع قرار دیا کہ یہ انسانی شرافت اور وقار کے منافی ہے۔ کیا مصنف، کیا ناشر اور کیا پرنٹر سب ہی معتوب قرار پائے۔ اس کے اس مجموعے سے جن نظموں کو حذف کردیا گیا، وہ یہ ہیں، ’’اے مکار قاری! میرے ہم زاد! میرے بھائی!‘‘، ’’لیسبوس‘‘، ’’ملعون عورتیں‘‘، ’’اے وہ کہ جو بہت خوش رہتی ہے‘‘، ’’زیور اور خون پینے والی چمگادڑ کی ماہیتِ قلبی‘‘— ان نظموں کے حذف کیے جانے کی وجوہات ہم اس وقت تفصیل سے بیان کریں گے، جب بودلیئر کی ان نظموں پر مفصل گفتگو کریں گے۔
بودلیئر فرانس کا پہلا شاعر تھا جس نے بلاجھجک اپنے آپ کو ایک گناہ گار اور تعیش پرست انسان کی حیثیت سے پیش کیا۔ اتنا بے باکانہ کہ پڑھنے والا اس کا ہم نوا ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ایک دھتکارے ہوئے فرشتے سے تشبیہ دیتا تھا۔ اس کی نظر میں محبت کرنا سوائے جنس سے لطف اندوز ہونے کے اور کچھ نہ تھا، لیکن وہ یہ بھی کہتا تھا کہ محبت کرنا اور بدی کرنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اسی کے ساتھ اس کا یہ اصرار بھی تھا کہ محبت سے بڑی دنیا میں اور کوئی راحت نہیں۔ گناہ بالقصد ایک فطری عمل ہے۔ وہ طوائفوں کے لیے اپنے دل میں سوائے ہمدردی کے اور کچھ نہیں پاتا تھا۔ اس کے خیال میں بورژوا طبقے کے خلاف سب سے بڑی طاقت طوائفوں کے پاس تھی۔ اس نے ایک بار کہا تھا کہ جب میں اپنے ماضی کی گہرائیوں میں ڈوب کر نکلتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ انسان کو اس کی راہِ مستقیم سے کوئی ایسی قوت بھٹکاتی ہے جو اس کے دروں سے تعلق نہیں رکھتی۔
اس کے مجموعے ’’بدی کے پھول‘‘ کا دوسرا ایڈیشن جس میں ممنوعہ نظموں کی جگہ نئی نظمیں شامل کی گئی تھیں، ۱۸۶۱ء میں شائع ہوا۔ اس وقت تک بودلیئر کی شہرت ایک معتبر نقاد کی حیثیت سے سارے فرانس میں پھیل چکی تھی۔ اب ایدوارد مانے اس کا بہترین دوست تھا۔ بودلیئر نے اپنی کتاب ’’جدید انسان کے مصور‘‘ میں مصور گویاؔ کی بہت تعریف کی اور تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ بودلیئر کی کئی نظمیں گویا کی پینٹنگز سے متا٭ٔثر ہوکر لکھی گئی ہیں۔
اس کالم میں ہم نے بودلیئر کی شاعری پر صرف اس کے مجموعۂ کلام ’’بدی کے پھول‘‘ کے حوالے سے مختصر گفتگو کی ہے اور ان نظموں کا جائزہ بھی نہیں لیا جنھیں سرکاری طور پر ممنوعہ قرار دیا گیا تھا۔ ہمارا اگلا کالم بودلیئر کی شاعری کے فنی محاسن اور محرکات سے بحث کرے گا اور اس عظیم شاعر کی عظمت کی وجہ اور اس کے ادب اور آرٹ کے مختلف پہلوئوں پر عبورِ کامل کے حوالے سے بھی۔
گزشتہ کالم میں، میں نے جہاں اپنی گفتگو منقطع کی تھی، وہیں سے بات کا سرا جوڑتے ہیں۔ ذکر تھا بودلیئر کی شاعری کی عظمت اور اس کے پہلی شعری مجموعے ’’بدی کے پھول‘‘ کا۔ جیسا کہ پہلے کالم میں کہا جا چکا ہے کہ ’’بدی کے پھول‘‘ میں چھ نظمیں ایسی تھیں جن کو فحاشی اور فرانس کے کلچر کے خلاف ایک بدنما داغ قرار دیا گیا تھا۔ اگرچہ بعد میں ان تمام نظموں کو بھی اس کے مجموعے میں دوبارہ شامل کرلیا گیا تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ان نظموں کا اور ان میں شامل موضوعات کا تذکرہ کرلیں۔
’’بدی کے پھول‘‘ پانچ حصوں میں منقسم ہے:
1۔بے کیفی اور مثالیت 2۔بدی کے پھول
3۔بغاوت 4۔شراب
5۔موت
ان نظموں کے موضوعات مختلف النوع ہیں اور اس میں بودلیئر نے عموماً اپنے عہد پر ایک فلسفیانہ نگاہ بھی ڈالی ہے اور اپنے ذہنی کرب اور جذبات کا بھی اظہار کیا ہے۔ چاہے جس بھی حصے سے تعلق رکھتی ہوں، تمام نظمیں سادہ زبان میں تخلیق کی گئی ہیں اور عوامی سطح پر بھی ان کا ابلاغ ہوتا ہے۔ جن جذبات کا بودلیئر نے اس مجموعے میں اظہار کیا ہے وہ انتہائی ذاتی اور انفرادی ہے لیکن بودلیئر کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان نظموں کوآفاقیت عطا کی ہے اور وہ ہر انسان کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان نظموں میں جن موضوعات کو جگہ دی گئی ہے وہ ہیں: خیر و شر، انسان کی فطرت، مادیت اور روحانیت کے درمیان تصادم، مذہب، موت، وقت، تنظیم اور تزکیہ، نفس، مقدر، بیزاری اور فن کاری۔ ان تمام باتوں کا احاطہ کرنے کے لیے ہمیں بہت ساری نظموں کا تجزیہ کرنا ہوگا لیکن چونکہ اس کالم میں اس کی گنجائش نہیں اس لیے میں صرف اس کی نظم ’’قاری سے‘‘ کے متعلق یہ کہوں گا کہ یہ نظم مجموعے کی تمام نظموں کے مزاج کی کیفیات اور رجحانات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
اس نظم میں اس نے انسان کی فطرت کے ان پہلوئوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کروائی ہے جو اپنی سرشت میں منفی ہوتے ہوئے بھی حقیقت کے آئینہ دار ہیں۔ اس لیے اس فلسفے کا بنیادی نکتہ جس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، دراصل یہ ہے کہ انسان بار بار گناہ کرنے پر مجبور ہے اوربار بار اس سے توبہ کرنے کی خواہش یا داخلی ضرورت بھی اس کے اندر پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ انسان کی زندگی کی یکسانیت اور اس سے پیدا ہونے والی بوریت یا بیزاری اصل میں اس کے بگڑنے اور پھر بگڑ کر دوبارہ سنورنے کی طرف مائل ہونے کا محرک ہے۔ ایسے موضوعات کو جو یقینا صرف منفی ہی نہیں بلکہ ناخوش گوار بھی ہیں، جس طرح بودلیئر نے شاعری میں تبدیل کیا ہے انھی کی بنا پر اُس کی ساری مدح سرائی کی جاتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے استعارات، علامات اورتشبیہات کا جو انوکھا اور دلکش استعمال کیا ہے اس نے آج تک فرانسیسی شاعری کو متاثر کررکھا ہے۔ بودلیئر کا سارا کرب یہ تھا کہ اگرچہ انسان مسرت کے لمحات سے اپنی زندگی کو لبریز کردینا چاہتا ہے لیکن چوں کہ یہ مسرت روحانیت سے بہت دور ہونے کی وجہ سے انتہائی کھوکھلی ہوتی ہے اس لیے انسان ان مسرتوں سے (جن میں جنسی تجربے سے گزرنے کی مسرت کو تقدم حاصل ہے) سوائے ایک بے مداوا پچھتاوے کا شکار ہونے کے مآلِ کار اور کچھ نہیں کشید کرسکتا۔
اس کے علاوہ بودلیئر کا جو پسندیدہ موضوع ہے وہ ہے فطرت کی انسان کی طرف سے بے نیازی۔ اس بے نیازی کے خلاف اس نے کہیں شدید رنج و غم کا اظہار کیا تو کہیں اس سے انتقامی رویہ اختیار کیا۔ ایک نظم میں اس نے کہا کہ وہ پھولوں کو مسل کر فطرت سے اپنا انتقام لیتا ہے۔ پول والیری نے ’’بدی کے پھول‘‘ پڑھ کر کہا کہ یہ مجموعہ جو مختصر سا ہے فرانسیسی شاعری کے تمام ضخیم شعری مجموعوں پر بھاری ہے۔ اس کا ترجمہ یورپ کی بیشتر زبانوں میں ہوا جس کی مثال فرانسیسی شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ والیری نے کہا کہ اس سے پہلے فرانسیسی شاعری بیرونِ ملک متعارف نہیں ہوئی تھی۔ فرانس کی نثر البتہ بین الاقوامی طور پر شرفِ قبولیت حاصل کرچکی تھی۔ یہ صرف بودلیئر کی وجہ سے ہوا کہ فرانسیسی شاعری نے ملکی سرحدیں عبور کیں۔ نہ صرف یہ کہ اس کی شاعری بیرونِ ملک مقبول ہوئی بلکہ یہ بھی کہ یہ جدیدیت کی پہلی سچی مثال تھی فرانسیسی شاعری میں۔ دوسرے ممالک کے شعرا نے اس شاعری کی نقل میں شاعری کی۔ سوئن برن،گیبرئیل دانزیو اوراسٹیفن جارج کی شاعری کو بودلیئر کے اتباع کے واضح ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
والیری کہتا ہے کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ فرانس میں ایسے شعرا بھی ہیں جو بودلیئر سے بہتر ہیں مگر بودلیئر سے زیادہ اہم فرانسیسی شاعر کوئی نہیں۔ یہ بے نظیر اہمیت بودلیئر کو کیسے ملی؟ وہ کیا بات تھی کہ جس نے بودلیئر کو عام آدمی سے ممتاز کیا اور اس نے غیر ملکی شعرا کو اتنا متاثر کیا؟ یہ بعد از موت مقبولیت، یہ روحانیت اور یہ بے مثال عزت جو بودلیئر کو نصیب ہے اس میں دیگر عوامل کو بھی دخل ہے۔ اور وہ عوامل ہیں بودلیئر کی تنقیدی صلاحیت اور بودلیئر کا شعریت اور فن کارانہ حسیت سے بھرا ہوا دل۔ مگر اس کے ساتھ بودلیئر جو بچپن ہی سے جنس پرست تھا اور نئے نئے تجربات کرنے کی صلاحیت سے مالا مال بھی، جو ایک انمول دریافت اس نے کی اور جس نے اس کو ایسا بلند شاعر بنا دیا، وہ تھا ایڈگر ایلن پو کا مطالعہ۔ ایلن پو نے بودلیئر کو سب کچھ عطا کیا جس کو ہم شاعرانہ دبازت کہہ سکتے ہیں۔ بودلیئر اس زمانے میں زندہ تھا جب رومانیت پسندی کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ اور جس تحریک کے رہنما ہیوگو، لامارٹین، میوسے اور وینئی جیسے زبردست شعرا تھے۔ اس ماحول میں بودلیئر کے ذہن پر بس ایک دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ اس رومانیت پسندی کے دور کا سب سے پڑا شاعر بن جائے اور وہ بھی کچھ اس طور سے کہ اس کی شاعری پر نہ وکٹر ہیوگوکا اور نہ لامارٹین اور نہ میوسے کی شاعری کا کوئی سایہ پڑے۔ اس نے ’’بدی کے پھول‘‘ کے پیش لفظ میں اس بات کی طرف یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا کہ فرانس میں شاعری کے شعبے میں کتنے ہی نام ور شعرا ہیں، جن کی دھوم ہے، مگر ان سب سے الگ اور بڑھ کر کوئی کام کرنا چاہتا ہوں۔ اور وہ کام اپنے انتہائی تجزیے میں رومانیت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ وہ ہیوگوکا بہت مداح تھا کیوں کہ اس کی شاعری کا کینوس، اس کی نئے نئے قافیے اور اوزان وضع کرنے کی صلاحیت اور اس کا وژن تمام ہم عصر شعرا سے کہیں زیادہ تھا، لیکن بودلیئر کا ہیوگو پر یہ بھی اعتراض تھا کہ وہ کبھی قبولِ عام حاصل کرنے کے لیے اپنی سطح سے گر جاتا تھا اور پیغمبرانہ پیشین گوئیاں کرنے کے خبط میں نری خطیبانہ شاعری کرنے لگتا۔ پھر بھی والیری کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی ان چیزوں سے بالکل بچ نہ سکا اور کہیں کہیں تو بودلیئر کی شاعری ہیوگو کی شاعری کی تضمین معلوم ہوتی ہے۔ پھر بھی بودلیئر جانتا تھا کہ ہیوگو کیا نہیں کر پایا اور اس نے وہی کرنے کی ٹھانی اور کر دکھایا۔
اس نے ایسی شاعری کی جس کے بحور اور اوزان ہیوگو کی طرح نثری اظہار کا شکار نہیں بنتے تھے اور جو وکٹر ہیوگو کی نسبت زیادہ کڑے مرحلوں سے گزرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس سے اس کی شاعری میں دل کشی کا ایک ایسا سماں بندھ گیا جو کہیں ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ ایسی دل کشی ہیوگو کی شاعری میں بالکل ہی معدوم ہے،لیکن وکٹر ہیوگو کی بعد کی شاعری، جو بودلیئر کے مرنے کے بعد شائع ہوئی اس نے اس کی تمام پچھلی کوتاہیوں کا ازالہ کردیا، لیکن یہاں ہم اس کا ذکر اس لیے نہیں کریں گے کہ یہ کالم بودلیئر پر ہے۔ جہاں تک بودلیئر کے یہاں علامت کا تعلق ہے تو اس کے یہاں عورت سب سے بڑی علامت ہے۔ عورت اس کے یہاں بے کیفی اور آئیڈیل کے درمیان ایک ارتباط قائم کرنے والی قوت کی آئینہ دار ہے۔اس کی عورت جہاں انسان کو خدا کی معرفت عطا کرتی ہے وہیں مآل کار اسے شیطان کے سپرد بھی کردیتی ہے۔ اس کے نزدیک عورت فطرت کی ترجمان ہے اور اسی لیے اس کے یہاں کوئی ارفع و اعلیٰ مقام تک نہیں پہنچتی۔ بودلیئر کے لیے موت ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے۔ وہ جگہ جگہ اس کا اظہار کرتا ہے جیسے اس کی نظم ’’ایک راہ گیر سے‘‘ ایک عشقیہ نظم کی حیثیت سے آغاز ہوتی ہے اور بالآخر موت کے خوف کے روبرو اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس کے یہاں ڈائنوں، چڑیلوں اور مختلف قسم کی تمام بلائوں کی تشبیہات نسائی ہیں۔
بودلیئر کو شہری زندگی کا شاعر کہا جاتا ہے اور شہری زندگی کا نمائندہ بودلیئر کے یہاں’’بانکا نوجوان‘‘ تھا جو بے مقصد اور آزادانہ شہر میں آوارہ گردی کرتا پھرتا تھا۔یہ اس کے نزدیک انسان کی آزادی کی بہترین علامت تھی۔ اور یہ علامت بانکے نوجوان کے اس رویّے کی ترجمان تھی جس کو دنیا کو کسی کانچ کی دیوار سے دیکھتے رہنے کا رویہ کہا جا سکتا ہے۔ وہ نئی معیشت جس نے شہریوں کے آپس کے روابط کو ایک نئی شکل عطا کی تھی، اس نے بودلیئر پر جیسے جادو کردیا تھا، مگر یہ جادو اس کے یہاں اکثر ٹریجڈی کی تشکیل کرتا نظر آتا ہے۔ اپنی نظم ’’ایک راہ گیر سے‘‘ میں وہ کہتا ہے کہ وہ شاید اب کبھی کسی خوب صورت عورت کو اپنے پاس سے گزرتا نہیں دیکھ سکے گا۔ ہوسکتا ہے ہم دونوں میں محبت کا رشتہ قائم ہو، لیکن یہ صرف ایک شاید والی بات ہے۔
والٹیئر بینجمن کہتا ہے کہ بودلیئر کے یہاں کوئی شہری پہلی نظر میں کسی سے محبت کرنے کا اہل نہیں۔ یہ آخری نظر ہی میں ممکن ہے۔ شہر ایک ایسی جگہ ہے جس کو خدائی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ صرف گلیوں، بازاروں اور نالیوں کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بودلیئر کے یہاں نہ تو زولا کی سیاست پسندی پائی جاتی ہے اور نہ فلوبیئر کی سیاست سے کنارہ کشی۔ اس کے بجائے وہ دانستہ طور پر بدی میں غلطیدہ رہنا چاہتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے چہروں سے تہذیب و تمدن کے نقابوں کو نوچ پھینکے۔ اس لیے کہ اس سے شاعری خواہ مخواہ ایک کلیشے اور سطحی احساسات اور جذبات کی آواز بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے اس رویّے نے انیسویں صدی کے اواخر کی شاعری اور جدت پسند شاعری کو ایک ایسی راہ پر ڈال دیا جسے ہم زوال پسندی کی راہ کہیں تو غلط نہ ہوگا، لیکن آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ بودلیئر خود یہ چاہتا تھا کہ اس کو زوال پسند شاعر سمجھا جائے۔ آپ اس کی اس انوکھی خواہش کو جھوٹی شرافت اور دکھاوے کی مہذبانہ زندگی کے خلاف بغاوت کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں؟ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ بودلیئرکو اسی مزاج نے ایک عظیم شاعر بنادیا۔
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/48300
 
Top