zaryab sheikh
محفلین
وہ بھی کیا دن تھے جب اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا تھا، ہاتھی کے دانت کھانے کہ اور دکھانے کہ ایک ہی ہوتے تھے ، ہر کوئی اپنا الو سیدھا نہیں کرتا تھا جس کے پاس ایک لاٹھی تھی تو اس کی صرف ایک ہی بھینس ہوا کرتی تھی، آم گھٹلیوں کے دام ملا کرتے تھے ، کھانے کے ساتھ روٹی فری ملا کرتی تھی ، ہر شخص زرداری کی طرح خوش نظر آتا تھا ، لڑکیوں کی انگریزی میرا سے زیادہ اچھی ہوا کرتی تھی، لڑکے سوائے اپنی بہن کہ ہر اس لڑکی کو باجی کہتے تھے جو انہیں بھائی کہتی تھیں، ڈاکو بھی اسی گھر میں ڈاکہ ڈالتے تھے جہاں اوپر کی کمائی کا خوب مال موجود ہوتا تھا، گوشت والا بکرے کو اتنا پانی پلاتا تھا کہ بعد میں گوشت میں پانی ملانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ,کھٹا کھانے کے باوجود کسی کے دانت کھٹے نہیں ہوتے تھے، بجلی کا بل دیکھ کر کسی پر بجلی نہیں گرتی تھی، دودھ میں صرف دودھ ہوا کرتا تھا پانی ملانے کی آپشن خریدنے والے کے پاس تھی، اس وقت جب بادل گرجتے تھے تو برستے بھی تھے ، سبزیوں کو ہوش میں لانے کیلئے پانی نہیں ڈالا جاتا تھا، دالیں اتنی اچھی ہوا کرتی تھیں کہ جلدی گل جاتی تھیں ، لوگ اتنے اچھے تھے کہ رسی جلتی تھی تو ساتھ میں بل میں ختم ہوجاتا تھا ، لوگ سچ بولتے تھے، کسی کو شرم سے پانی پانی نہیں ہونا پڑتا تھا، اس وقت عقل بڑی ہوتی تھی اور بھینس صرف دودھ دیتی تھی،لاتوں کے بھوت باتوں سے آرام کے ساتھ مان جاتے تھے ، لڑکیاں مجھ جیسے حسین انسان کو دیکھ کر نظر جھکا لیتی تھیں انگلیاں دانتوں میں نہیں دباتی تھیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں
پرنس کی کتاب"الٹا کوتوال چور کو ڈانٹے" سے اقتباس
پرنس کی کتاب"الٹا کوتوال چور کو ڈانٹے" سے اقتباس