رؤف کلاسرا کے کالم " درویش کی تلاش " میں سے اقتباس

محمد فہد

محفلین
رومی کو سننے کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے ۔ ایک دن ایک طوائف جس کا نام ڈیزرٹ روز تھا بھی انہیں سننے کے لیے مسجد پہنچ گئی ۔
ڈیزرٹ روز نے اس مقصد کے لیے اپنا حلیہ بدل لیا تھا ، رومی کی گفتگوسننے کے دوران ان کے ایک پرانے گاہک نے اسے پہچان لیا ، اس پر ایک شور مچ گیا کہ ایک طوائف مسجد میں موجود ہے ۔
لوگوں نے اسے وہاں سے نکالا اور باہر لے آئے ۔ ہجوم میں غصہ بڑھ رہا تھا ڈیزرٹ روز کو لگا اب اسے وہیں کھڑے کھڑے سنگسار کر دیا جائے گا ۔
اسی اثناء میں ایک درویش اس ہجوم کے قریب پہنچا ۔ اور چیخ کر بولارک جاؤ! ہجوم ساکت ہو گیا ۔
" تم لوگوں کو شرم آنی چاہیے تیس لوگ ایک کمزور عورت پر حملہ آور ہو رہے ہیں ۔ کیا یہ انصاف ہے ۔ درویش بولا " ۔
مجمع میں سے کوئی بولا " یہ طوائف یہاں ایک مرد کے لباس میں آئی تا کہ ہم اچھے مسلمانوں کو دہوکہ دے سکے " ۔
تم لوگ مجھے یہ بتا رہے ہو کہ اس عورت کو اس لیے مارنا چاہتے ہو کہ یہ مسجد کیوں آئی تھی ؟ کیا یہ جرم ہے ؟"
درویش کے لہجے میں اب طنز نمایاں تھا ۔
یہ طوائف ہے ، ہجوم میں سے کوئی چلایا ! مسجد میں اس کی کوئی جگہ نہیں ۔
ہجوم طوائف طوائف کے نعرے لگانا شروع ہو گیا ، ایک نے کہا آؤ طوائف کو مارتے ہیں ۔ لگتا تھا اس ایک فقرے نے درویش کے جلال کو مزید تیز کر دیا !
رک جاؤ اور مجھے ایک بات بتاؤ ! کیا تم واقعی اس عورت سے نفرت کرتے ہو یا اسے حاصل کرنے کی خواہش ہے ؟
یہ کہہ کر اس درویش نے طوائف کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی جانب کھینچ لیا ۔ ظوائف درویش کے پیچھے چھپ گئی جیسے ایک چھوٹی سی بچی خطرہ دیکھ کر اپنی ماں کے پیچھ چھپ گئی ہو ۔
ہجوم کے سربراہ نے درویش سے کہا تم اس علائقے میں اجنبی ہو تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو تمہیں ہمارا پتہ نہیں ہے تم اس سے دور رہو ۔
کیا تمہارے پاس ایک طوائف کا دفاع کرنے سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہے ؟
درویش ایک لمحے کے لیے خاموش رہا جیسے وہ اس سوال پر غور کر رہا ہو اس نے غصے کا اظہار نہیں کیا اور پر سکون رہا ۔
پھر کہا : " پہلے تم لوگ یہ بتاؤ کہ تم لوگ مسجد میں عبادت کے لیے جاتے ہو یا اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھنے ؟
کیا مسجد میں خدا سے زیادہ اہم وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں تم تکتے رہتے
ہو ؟
اگر تم لوگ خدا کی عبادت کرنے گئے تھے تو یہ عورت تم کو وہاں نظر ہی نہیں آنی چاہیے تھی ، حلیہ بدلنا تو دور کی بات ہے اگر اس نے کپڑے تک نا پہنے ہوتے تو پھر بھی وہ تم لوگوں کو نظر نہیں آنی چاہیے تھی ۔
جاؤ لوٹ جاؤ اور رومی کا وعظ سنو اس کمزور عورت کو مارنے سے وہ کام زیادہ بہتر ہے ۔
اس عظیم ناول کو پڑھتے ہوئے مجھے کوٹ رادھا کشن کے وہ بے بس میاں بیوی یاد آئے جنہیں ہجوم نے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے ہونے والے اعلانات کے بعد گھر میں ان کے بچوں کی موجودگی میں گھسیٹ کر نکالا اور بھٹے کی آگ میں زندہ جلا دیا تھا ۔
اس بد نصیب جوڑے کی قسمت میں شمس تبریز جیسا درویش نہیں تھا جو انہیں اس طرح بچا لیتا جیسے اس نے ڈیزرٹ روز کو آج سے آٹھ سو برس قبل غضب ناک ہجوم سے بچایا تھا ۔
رؤف کلاسرا کے کالم " درویش کی تلاش " میں سے اقتباس
 
Top