ذکر ہے اس رات کا۔۔!!!

اوشو

لائبریرین
ذکر ہے اس رات کا۔۔!!!

"قصہِ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم" بات صرف اتنی سی تھی کہ میں آج پھر دوستوں کے ساتھ گپ شپ ، رات کی سیر اور چہل قدمی کرنے کے بعد حسبِ معمول تھوڑا سا لیٹ گھر پہنچا تھا۔ لیکن گھر والوں کے لیے رات کا 3 بجے کا ٹائم شاید بہت ت ت ت ت ت لیٹ تھا۔ فراغت کے دن تھے جی بھر کے نیند پوری کرنے اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے علاوہ کچھ مصروفیت نہیں تھی۔
آہ ہ ہ ہ "دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن" اکثر گھر لیٹ ہی آنا ہوتا تھا۔ وہ بھی ایسی ہی رات تھی۔ آوارہ گردی کرتے ہوئے اچانک ذہن میں منی بیگم کی آواز گونجی۔

آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے

سو میں دوستوں کو خدا حافظ کہتے ہوئے گھر کی طرف چل نکلا۔
جن بےجان چیزوں پر مجھے بہت غصہ آتا ہے اور مجھے سخت نا پسند ہیں ان میں ہمارے گھر کی گھنٹی دوسرے نمبر پر ہے، پہلے نمبر پر ناپسند بےجان چیز کا ذکر آگے آئے گا۔ گھر کی اطلاعی گھنٹی رات کی مسحور کن خاموشی میں ایسے گونجتی تھی جیسے جنگ کا بگل بج گیا ہو۔ بٹن سے ہاتھ اٹھا لینے کے بعد بھی اسے چپ کرتے کرتے وقت لگ جاتا تھا۔ رات کے 3 بجے کا وقت تھا۔ میں نے آہستگی سے بٹن پر ہاتھ رکھا اور دھڑکتے دل کے ساتھ دبا دیا۔ نیل کنٹھ کی آواز پورے محلے میں گونجی، اور آہستہ آہستہ دم توڑ گئی۔ دل کی دھڑکن مجھے صاف سنائی دے رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ آنے والے کٹھن وقت کی حشرسامانیاں میرے دماغ کے پردے پر جھماکے سے دکھا رہا تھا۔ اس جان لیوا انتظار کے کچھ لمحات بعد دروازہ کھلا اور ماں جی کی کی شفقت بھری آواز آئی۔
"آگیا میرا سوہنا پتر کمائیاں کر کے! " (آ گیا میرا بیٹا کمائی کر کے!۔)
اتنا کہہ کر ماں جی میری بلائیں لینے لگیں ، ماتھے کو چُوما اور سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر روح فرسا خبر سنائی۔
"تیرے ابو جُتی ہتھ وچ پھڑ کے بیٹھے تینوں اڈیک رہے نیں۔" (تمہارے ابو جوتی ہاتھ میں پکڑے تمہارا ہی انتظار کر رہے ہیں۔)
یہ سن کر میرے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ اور قریب تھا کہ میں گرجاؤں ، دیوار کا سہارا لیا۔ اماں نے اندر آنے کو کہا۔ بہ دقت تمام خود کو سیڑھیاں چڑھنے پر مجبور کیا۔ اوپر پہنچتے ہی سیدھا ٹوائلٹ کا رخ کیا۔ جس کا مقصد حوائجِ ضروریہ سے فراغت سے زیادہ خود کو پرسکون کرنا اور آنے والے وقت کے لیے تیار کرنا تھا۔ ادھر قبلہ والد صاحب پوری طرح مسلح ہو کر بےتابی سے میرا انتظار کر رہے تھے۔ جب کافی دیر ہو گئی تو ان کے صبر کا پیمانہ لب ریز ہو گیا۔ اور انہوں نے آ کر ٹوائلٹ کا دروازہ زور سے دھڑدھڑایا۔ میری تو جیسے جان نکل گئی۔ اتنے میں باہر سے غصے سے بھری آواز آئی۔
"باہر نکل جلدی! تیرا سُوتر کر لینداں اج میں!" (جلدی باہر آؤ، آج تمہارا علاج کر کے رہوں گا!)
شکر ہے اس وقت میں ٹوائلٹ میں تھا، باہر ہوتا تو یقینا کچھ نہ کچھ "خطا" ہو جاتی(ویسے ہو جاتا بھی ٹھیک رہے گا)۔ہمت کر کے ٹوائلٹ سے باہر نکلا ہاتھ دھو کر کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ شاں ں ں ں ں کی آواز کے ساتھ کوئی چیز میرے سر کے اوپر سے گزری اور تڑاخ کی آواز کے ساتھ دیوار کو لگی۔ دیکھا تو برادرِ خورد کا جوتا تھا جو میرے سر کے اوپر سے ایسے گزرا جیسے گھر والوں کی نصیحتیں میرے سر کے اوپر سے گزرتی ہیں۔ یقینا یہ حملے کا اعلان تھا۔ میں نے سنبھل کر والد صاحب کی طرف دیکھا تو وہ کافی ساری "نعلین در بغلین" کیے ، مجھ پر نشانہ بازی کے لیے سشت باندھے کھڑے تھے۔ پہلے نشانہ خطا ہو جانے پر ان کا غصہ یقینا قابل قبول تھا۔ جس کا اظہار انہوں نے جوتوں کی مزید فائرنگ سے کیا۔
یہ پارلیمنٹ اور قانون ساز ادارے بھی دفتروں میں بیٹھے پتا نہیں کیا کیا قانون بناتے رہتے ہیں۔ میں وزیر قانون ہوتا تو سب سے پہلا قانون یہ بناتا کہ "جو جگہ جوتا مارنے کی ہے وہاں مارا جائے۔" ابھی تک یہ میرے منصوبوں میں شامل ہے کہ اس کو پاکستان کے قانون کا حصہ بنانا ہے۔ چونکہ اس وقت بھی یہ فعل غیر آئینی نہیں تھا، چنانچہ میرے جسم نازک ، جسے ماں جی پیار سے "ڈھیٹ ہڈی" کہتی ہیں، کے کئی حصے اس حملے کی زد میں آ گر بری طرح سے گھائل ہوئے۔ سارے گھر کی جوتیوں کا ڈھیر میرے آس پاس لگنے کے بعد والد صاحب کا ہاتھ اپنے پاؤں کی طرف بڑھا تو میں سمجھا شاید سانس لینے اور پاؤں پر خارش کرنے لگے ہیں۔ لیکن جب ان کا ہاتھ ان کے کنکریٹ مارکہ کنگ کانگ جوتے کو اتارنے میں مصروف ہو گیا تو مجھے دال میں کچھ کالا محسوس ہوا۔ اور جوتا اتارے کے بعد والد صاحب میرے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے تیار نظر آئے کہ دال میں کالا نہیں ساری دال ہی کالی ہے۔ مجھے سخت ناپسند بےجان اشیاء کی فہرست میں والد صاحب کا جوتا پہلے نمبر پر تھا۔ ان کا اچانک حملہ عراق کے کویت پر حملے جیسا تھا۔ اس حملے کے لیے میں بالکل تیار نہیں تھا، چنانچہ کافی سارا جانی و مالی نقصان ہوا۔ کچھ دیر تو ماں جی صورت حال کا جائزہ لیتی رہیں، جب انہوں نے دیکھ لیا کہ دونوں فریقین کی خاطر خواہ تسلی و تشفی ہو چکی ہے تو اچانک ان کی مامتا بیدار ہوئی، اور وہ اقوام متحدہ کا کردار ادا کرتے ہوئے جنگ بندی کرانے کے لیے میدان جنگ میں کُودپڑیں۔ حالانکہ اسے جنگ نہیں کہنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ توایک کم سن اور نہتے فریق پر یک طرفہ پدرانہ شفقت تھی۔(جارحیت اس وجہ سے نہیں کہہ سکتا کہ قبلہ والد صاحب بھی نیٹ گردی کرتے ہیں اور چھٹیوں میں گھر بھی جانا ہے۔) خیر اماں کے درمیان میں آجانے کے بعد کچھ بچت ہو جانے کی امید پیدا ہو گئی تھی۔ اب ابو اور میں اماں کے ارد گرد محوری گردش میں چکر کاٹ رہے اس منظر کو کوئی اور دیکھتا تو سمجھتا ہم "کِکلی" ڈال رہے ہیں۔ اس عمل کے دوران ان کا جوتا مسلسل میری تاک میں تھا۔ نشانے پر آتے ہی رسید کر دیا جاتا۔ آخر مزید 8 بار ان کے تختہ ستم بننے کے بعد ایک نشانہ مس ہو کر اماں کی ٹانگ پر لگا۔ اور اماں "ہائےے ےےےےےے"کی آواز نکالتے ہوئے فرش پر بیٹھ گئیں۔ ساتھ ہی مجھے اشارہ کر دیا کہ جنگ بندی کرانے کے لیے میرے ساتھ اداکاری میں تھوڑا ساتھ دو۔میں نے بھی ان کا منصوبہ سمجھتے ہوئے فورا سے پیشتر اپنے چہرے پر سے مظلومیت کے تاثرات غائب کیے اور فکرمندانہ تاثرات طاری کرتے ہوئے ۔ "ماں جی! کیا ہوا۔۔۔۔!!!" کا نعرہ بلند کیا۔ ماں جی کی ہائے ے ے ے ے اور میری پریشان صورت دیکھ کر ابو جی بھی فکر مند ہو گئے اور جوتا پھینک کر ساتھ ہی بیٹھ گئے اور ماں جی کی پنڈلی کی طرف دیکھنے لگے جسے میں سہلا رہا تھا۔ اماں کو سہارا دے کر چارپائی پر بٹھایا۔ اور ٹانگیں دبانے لگ گیا۔ اماں نے ہلکے سے میرے کان میں کہا کہ "کچھ نہیں ہویا، تینوں بچانا سی" نہیں ہوا، تمہیں بچانا تھا۔) اور ساتھ ہی پھر تھوڑی سی ہائےےے کر دی۔ ابو جی بھی پاس ہی بیٹھ گئے غصہ بدستور موجود تھا لیکن اب ساتھ تھوڑے سے پشیمان بھی لگ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد اماں نے کہا۔ بس کر اب ٹھیک ہوں۔ اماں کی بحالی صحت کا اعلان سن کر ابوجی کا دھیان میری طرف ہوا تو دوبارہ پارہ چڑھنے لگا۔ لیکن اب کچھ شدت کم تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ زلزلہ گزر گیا ہے لیکن اس کے کچھ آفٹر شاکس باقی ہیں۔ چنانچہ والد صاحب نے مجھے مرغا بننے کا حکم دیا اور ساتھ ساتھ الو، گدھا و دیگر ناہنجار حیوانات کے ساتھ میری مماثلت پر روشنی ڈالنے لگے شاید وہ اس زمانے میں بھی ڈاکٹر آصف بھائی سے دعا سلام رکھتے ہوں جو انہیں شفاخانہ حیوانات سے معلومات بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ اور میں مرغا بنا سوچ رہا تھا کہ ایک مرغا کس طرح الو، گدھے وغیرہ وغیرہ جیسا ہو سکتا ہے۔ ،اب میں کان پکڑے مرغا بنا ہوا تھا وہ بھی ایڑیاں جوڑ کر۔ یوگا کے اس آسن پر ابھی تک ماہرین تحقیق نہیں کر سکے۔ لیکن یہ بہت مفید آسن ہے اس سے دماغ میں خون کی فراہمی بڑھتی ہے اور عقل ٹھکانے آ جاتی ہے۔ اور میں چونکہ گھر کے ساتھ ساتھ سکول میں بھی ان مراحل سے اکثر گزرتا رہتا تھا اس لیے مجھے اس کی کافی پریکٹس تھی۔ چنانچہ زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ سوچا 2 منٹ کی سزا ہو گی۔ لیکن کہاں !!!!! جب 10 منٹ گزر گئے تو میری بھی بس ہو گئی۔ اس موقع پر ایک بار پھر مامتا بیدار ہوئی اور ماں جی نے والد صاحب کو کہا
"چلو چھڈو ہن، معافی دے دیو، آئندہ ٹیم نال گھر آیا کرے گا۔" (چلیں چھوڑیں اب معاف کر دیں۔ آئندہ وقت سے گھر آ جایا کرے گا۔
ابو نے مجھے سے تصدیق کرنے کو کہا اور میں نے سرِ تسلیم جو پہلے سے ہی خم تھا مزید خم کیا اور اثبات میں جنبش دی اور ساتھ "اقرار باللسان " بھی کیا۔ اس کے بعد مجھے کھڑا ہونے کا کہا گیا۔ کھڑا ہونے کے بعد بھی میرے کان سائیں سائیں کرتے رہے۔خدا خدا کر کے میں اس مشکل مرحلے میں سرخرو ہوا اور کمرے میں امن و امان قائم ہوا۔ اس کے بعد مجھے جوتے اکٹھے کرنے کا حکم دیا گیا۔ میں جوتے اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا معائنہ کر رہا تھا ایک دو جوتے تو متعدد بار اس عملِ تطہیر میں استعمال ہو چکے تھے آج ٹوٹ گئے جنہیں یا تو مرمت کرایا جاتا یا ناکارہ ہوجانے کے بعد ہمارے گھر میں موجود ایک چھوٹی سی گیلری میں پھینک دیا جاتا۔ آپس کی بات ہے آدھی گیلری انہی ٹوٹے ہوئے جوتوں سے بھری پڑی ہے اور ان میں سے زیادہ تر کو اس عبرت انگیز مقام تک پہنچانے میں میرا کردار بہت اہم تھا۔ نافرمان ہونے کی مصدقہ سند تو مجھے اماں ابا سے مل چکی تھی۔ لیکن کئی محترم "بر" گزیدہ احباب کی صحبت سے اتنی عقل مجھ میں آ گئی ہے کہ تابع فرمان بیٹا تو شاید نہ بن سکا لیکن کوشش کروں گا کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تابع فرمان شوہر ضرور بنوں (بشرطیکہ شادی کا فیصلہ کر لیا تو۔) تاکہ جوتوں والی گیلری جو مجھ پر ابو جی کے جوتا بردار تابڑ توڑ حملوں میں استعمال ہونے کے بعد ٹوٹ جانے والے جوتوں سے آدھی بھری ہوئی ہے، شادی کے بعد باقی آدھی جگہ خالی ہی رہے۔ نہ کہ زوجہ محترمہ کے استعمال میں آئے۔اور ان کے ٹوٹے ہوئے جوتوں سے بھرے۔
یہ تو خیر واقعہ ہے ایک رات کا۔۔۔۔۔۔!!!!
اب ایسی کتنی راتیں زندگی میں آئیں یہ بتانا مشکل ہے، بس یہ اندازہ کر لیں اس سے اگلی رات بھی یہی ریہرسل کی گئی، اس سے اگلی رات بھی اور اس سے اگلی رات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اور اور۔۔۔۔۔!!!!
رات ہائے ہائے کرتے گزری۔

ہم راتوں کو اٹھ اٹھ روتے ہیں
جب سارا عالم سوتا ہے

وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
اگلے دن دوستوں نے صبح پوچھا کہ رات کیسی گزری تو میں نے وہی پسندیدہ فقرہ مکمل شعر کی صورت میں ان کی نذر کیا۔

میں نے پوچھا کہ کل شب کہاں تھے؟ پہلے شرمائے، پھر ہنس کے بولے
آپ وہ بات کیوں پوچھتے ہیں، جو بتانے کے قابل نہیں ہے!!!

اب گھر والے ہمت ہار چکے ہیں اور میرا معمول جوں کا توں ہے۔
کیوں کہ
ہم سے قائم ہے شبِ آوارگی
بہت عجیب لگتا ہے سرِ شام گھر جانا
ملک بلال
 

یوسف-2

محفلین
:good: ۔
اوشو
کی تحریر​
کی روانی اور ان کے پدر بزرگوار کے ”جوتے باری“ کی روانی میں کیا خوب قدرمشترک ہے۔ اللہ کرے زور قلم ۔ ۔ ۔ اففففف یہ میں کیا لکھنے لگا تھا کہ موصوف کے زور قلم کا انحصار تو موصوف کے والد محترم کے زور جوتا پر ہے۔ :p اب ہم یہ ”دعا“ کیسے کریں کہ
اوشو
ایسی تحریریں لکھجتے رہا کریں۔ :D
 

نایاب

لائبریرین
ہائے وہ آوارگی کے دن ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت یاد آتے ہیں ۔
بہت خوب شگفتہ شگفتہ ماضی کا فسانہ
بہت شکریہ بہت دعائیں شراکت پر محترم اوشو بھائی
 

شمشاد

لائبریرین
اوشو بھائی کیا کچھ یاد دلا دیا۔
کئی راتیں تو رات کو دیر سے گھر آنے پر پرنالے کے ذریعے اوپر چڑھتے گزری ہیں کہ دروازہ کھٹکھٹایا تو والد بزرگوار نے فوراً سوتے میں اٹھا جانا ہے کہ ان کی چارپائی عین دروازے کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔
 
اوشو بھائی کیا کچھ یاد دلا دیا۔
کئی راتیں تو رات کو دیر سے گھر آنے پر پرنالے کے ذریعے اوپر چڑھتے گزری ہیں کہ دروازہ کھٹکھٹایا تو والد بزرگوار نے فوراً سوتے میں اٹھا جانا ہے کہ ان کی چارپائی عین دروازے کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔
اور ہم اسکول سے آ کر تپتی دھوپ میں پتنگیں لوٹنے نکل جایا کرتے تھے
 
کبھی نمدیدہ کبھی سنجیدہ ۔
معاشرے میں پائی جانے والی ایک عام سی روایت کو
خوبصورت انداز میں بیان کر نے کی کوشش
جو نہ صرف بہت کچھ یاد دلاتی اور والدین کے محبت و شفقت کو اجاگر کرتی ہے
بلکہ اور بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے
ایک مزاحیہ مگر دلچسپ شگفتگی پر مبنی خوبصورت بیانیہ جسے پرھتے ہوئے
خود بخود لبوں میں مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے
اور بے ساختہ لکھنے والے کو داد دینا پڑتا ہے ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ یار لاجواب تحریر۔۔۔ ویسے آپ کے والد صاحب کی ہمت کو داد دینی ہے کہ عین تہجد کے وقت بھی اپنی نیند خراب کر کے آپ کی تواضع کرتے تھے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
واہ یار لاجواب تحریر۔۔۔ ویسے آپ کے والد صاحب کی ہمت کو داد دینی ہے کہ عین تہجد کے وقت بھی اپنی نیند خراب کر کے آپ کی تواضع کرتے تھے۔ :)
بھائی صاحب شوق دا کوئی مُل نہیں ہوندا۔ اور دونوں کو اپنا اپنا شوق پورا کرنے کا خوب موقع ملتا تھا۔
 
Top