ذکر چھڑا جب ”قیامت“ کا

یوسف-2

محفلین
21تاریخ کو قیامت تو نہیں آئی لیکن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کچھ لوگ رات بھر وہم میں رہے کہ پتہ نہیں، کل سورج نکلتا ہے یا نہیں۔ ان کا خوف دیکھنے کے لائق تھا۔ ایک صاحب نے تو رات چار بجے انٹرنیٹ چیک کیا کہ دیکھوں، جاپان میں سورج نکلا ہواہے یا نہیں۔ ظاہر ہے جاپان میں سورج آٹھ دس گھنٹے پہلے نکل آتا ہے۔ اگر آج قیامت کا دن ہے تو جاپان اندھیرے میں ڈوبا ہوگا۔ یہ صاحب اتنی سی بات نہیں جانتے تھے کہ سورج تو ہر وقت کہیں نہ کہیں نکلا رہتا ہے۔ یہ تو ہم نے فرض کر لیا ہے کہ جاپان میں سب سے پہلے نکلتا ہے اور فرض کرنے کو یہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان میں نکلتا ہے، پھر عربستان اور افریقہ میں، پھر بحر اوقیانوس میں، اس کے بعد امریکہ میں، پھر بحر الکاہل میں، اس کے بعد جاپان اور چین میں اور پھر بھارت میں۔ سورج اصل میں اس طرح نکلتا ہی نہیں ہے جس طرح ہم سمجھتے ہیں۔ ہر وقت آدھی دنیا پر سورج ہوتا ہے باقی آدھی پر نہیں ہوتا اور یہ جو مایا تہذیب کے کیلنڈر والی پیش گوئی میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن سورج نہیں نکلے گا۔ یہ سائنسی طور پر ہو ہی نہیں سکتا۔ایسا ہونے سے پہلے زمین برباد ہو چکی ہوگی۔ اس لئے کہ سورج کو نکلنے سے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ کوئی بہت بڑی طاقت زمین کو سورج کے مدار سے نکال کر بہت تیز رفتاری سے پچاس ساٹھ کروڑ میل دور پھینک دے۔ اتنی دوری پر زمین سورج کے ’’سائے‘‘ سے محروم ہو جائے گی لیکن اتنی بڑی طاقت کے دھکے سے زمین کا انجر پنجر ہل جائے گا، کوئی یہ دیکھنے کیلئے باقی ہی کہاں رہے گا کہ سورج کدھر گیا۔ اس لئے قیامت کی یہ نشانی بنتی ہی نہیں ہے۔ ہاں۔ قیامت کی یہ نشانی بالکل سائنٹفک ہے کہ اس روز سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلے گا۔ کوئی بہت بڑا دھماکہ ہوئے بغیر زمین کے قطب اپنی خاصیت میں الٹ جائیں تو زمین یک بیک الٹی گھومنے لگے گی اور سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا۔ اس الٹی گردش سے سارا توازن بگڑ جائے گا اور سبک رفتاری کے ساتھ پہاڑ غبار صحراہو جائیں گے، سمندروں میں میدان بن جائیں گے اور کشش ثقل بدل جانے سے پانی بخارات بن کر اڑ جائے گا۔ قرآن میں ہے، اس روز زمین غیر زمین بن جائے گی۔ یعنی سیارہ تو یہی رہے گا لیکن اس کی زمین ہونے کی خصوصیات نہیں رہیں گی۔ ان میں سب سے بڑی خصوصیت مقناطیسی کشش ہے جو الٹی ہو جائے گی اور پھر بہت ساری تبدیلیاں ہو کر زمین الارض کے بجائے غیر الارض ہو جائے گی۔
______________________
قیامت والی پیش گوئی پر کئی وہم پسند مسلمانوں نے بھی اس لئے یقین کر لیا کہ اس روز جمعہ پڑتا تھا اور ہماری مذہبی روایات نے بھی قیامت کا دن جمعہ ہی بتایا ہے۔ لیکن یہ تو محض ایک نشانی ہے۔ دیکھا جائے تو قیامت کی کئی نشانیاں پوری ہو بھی چکیں لیکن چند ایک پھر بھی رہتی ہیں۔ یا جوج ماجوج تو منگول لشکروں کی صورت نکل کر تاراج کی ڈیوٹی پوری کر چکے، پچھلی صدی کی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دجّال بھی آگیا ۔کچھ کچھ نقاب میں تھا جو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے کافی حد تک بے حجاب ہوگیا ہے۔ اس دجال کا ایک نہیں، کئی سر ہیں۔ امریکہ ، فری مارکیٹ، کنزیو مرازم، کلوننگ، خلا سے مار کرنے والے اڑن کھٹولے اور آئینے۔ دجّال کی صفت یہ ہے کہ وہ جس کی چاہے روزی کھول دے جس کی چاہے بند کر دے، جسے چاہے مار دے اور جسے چاہے زندہ کر دے، کلوننگ کرکے۔ حدیث ہے کہ وہ جسے زندہ کیا جائے گا، ہو بہو ویسا ہی ہوگا جیسا مرنے والا تھا۔ سمجھ جائیے کہ مرنے والا تو زندہ نہیں ہوگا، لیکن جو زندہ ہوگا وہ ہو بہو مرنے والے جیسا ہوگا۔ ایک دابۃ الارض رہ گیا تھا، وہ بھی نکل آیا (انٹرنیٹ، سائبر نیٹکس، موبائل فون، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی) شاید آخری سے پہلے کی ساری نشانیاں پوری ہو چکیں اور آخری ہے دجّال کی شکست، حضرت مسیحؑ کے ہاتھوں۔ حضرت مسیحؑ کی آمد ثانی کے آثار نظرآنے لگے ہیں۔ روایات کے مطابق ان کی آمد سے پہلے شام ، ترکی اور فلسطین میں حالات الٹ پلٹ ہو جائیں گے۔ اب دیکھ لیجئے وہ تو ہو چکے یا ہو رہے ہیں۔ واللہ اعلم۔ ایک نشانی کچھ علامتی روایات کے معنے سمجھ کر اخذ کی جا سکتی ہے۔ پرانے قصوں میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے عزرائیل ؑ کو ایک بستی تباہ کرنے کا حکم دیا۔ فرشتے نے پوچھا بار الٰہا، اس بستی میں عذاب والی توکوئی بات نظر نہیں آتی ہے۔ خدا نے فرمایا، جا کر خود احوال جانو۔ عزرائیل نیچے آیا اور بستی کے ایک عالم سے ملا۔ کہا، میں نے سنا ہے اس بستی کے لوگ علم میں بڑا کمال پا چکے، توبتاؤ، اس وقت عزرائیل کہاں ہے۔ عالم نے کچھ لمحوں کا مراقبہ کیا، پھر کہا،میں نے ہر طرف نگاہ ڈال لی، عزرائیل کہیں نظر نہیں آرہا۔ نہ آسمان میں، نہ پاتال میں، نہ مشرق میں، نہ مغرب میں، نہ فضا میں، نہ سمندر میں۔ اب ایک ہی بات ہے، یا تو تم عزرائیل ہو یا تو میں ہوں لیکن میں تو نہیں ہوں، اس لئے تمہی ہو۔ عزرائیل سمجھ گیا کہ یہ بستی اب باقی نہیں رکھی جا سکتی۔ غیر نافع علم نے لکیر عبور کر لی ہے۔ چنانچہ بستی الٹا دی۔
تو یہ ایک نشانی بھی ایسی ہے جو تیز رفتاری سے پوری ہو رہی ہے۔ سائنس میں جو دریافتیں ہوتی ہیں، سائنس نہ سمجھنے والے لوگ اسے انسانی عقل کا کارنامہ سمجھتے ہیں اور ایجاد کو تخلیق مان لیتے ہیں۔ اصل میں تو سارے علوم اور ساری طاقتیں خدا نے بنا کر پوشیدہ کر دی ہیں۔ کچھ کا ظاہر ہونا انسان کے فائدے میں ہے اور کچھ ایسی ہیں کہ ان کا راز ہی میں رہنافائدہ مند ہے۔ جیسے ایٹم کی شیرازہ کشی کرکے طاقت کو برآمد کرنے کا طریقہ۔ اور جین کی مدد سے زندہ جسم بنانا یعنی کہ کلوننگ۔ اب پتہ نہیں، ایسے کتنے اور راز دریافت ہونے تک قدرت خاموش رہے گی اور کب نکتہ عدم برداشتآجائے گا۔ دریافتوں کی تیز رفتاری بتا رہی ہے کہ قیامت کی گھڑی قیامت کی رفتار سے لپک رہی ہے اور اب تو بس دیکھنے والے دیکھیں گے کہ ’’الٹی گنتی‘‘ کب پوری ہوتی ہے۔ کب وہ آخری کڑاکا ہوگا جس کے سننے کی طاقت خدا نے انسان کے جسم میں رکھی ہی نہیں۔
______________________
قیامت سے اتنا ڈرنے والے ایک بات بھول جاتے ہیں۔ قیامت تو پتہ نہیں کب آنی ہے لیکن موت کے وقت کا تو پتہ ہی ہے کہ زیادہ دور نہیں۔ کوئی بہت لمبی عمر پالے تب بھی طے ہے کہ ایک حد سے زیادہ نہیں جئے گا اور جونہی کوئی مرتا ہے، اس کا عرصہ قیامت شروع ہو جاتا ہے۔ قیامت کا جو حکم ہے،موت کے باب میں بھی وہی ہے یعنی ادھر صورقیامت پھکا، ادھر توبہ اور عمل کی مہلت ختم۔ اب کوئی استغفار معنے نہیں رکھتا اور ایسا ہی مرنے کا معاملہ ہے۔ موت کے فرشتے نے گردن دبوچی اور بس پھر کلمہ قبول نہ توبہ۔ تو قیامت اتنی قریب ہے لیکن پھر بھی لوگ دولت کے ڈھیر لگا رہے ہیں، شدّاد کے پلازے سے بھی اونچے پلازے بنا رہے ہیں اور کروڑوں لوگ ان کی لوٹ مار کی وجہ سے بھوکوں مر رہے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے معاشرے اور تہذیبیں دوزخ کی وادیوں میں بدل گئی ہیں۔ ان لوگوں کا لاشعور کہتا ہے تم نے مرنا ہی نہیں۔ع​
کئے جاؤ دولت جمع دوستو​
کاترانہ گاتے گاتے یہ بھی مر جائیں گے اور اپنے پیچھے اپنے ہی جیسے کبھی عبرت نہ پکڑنے والے اور ہمیشہ جینے کے خیال میں رہنے والے ’’پسماندگان‘‘چھوڑ جائیں گے۔یہی تووہ ’’پسماندہ‘‘ ہیں جو سب سے زیادہ گھاٹے میں رہیں گے۔ (عبداللہ طارق سہیل کا کالم۔ روزنامہ نئی دنیا۔ 23 دسمبر 2012 )​
 
Top