دیوان (ناصر کاظمی)

ناصر کاظمی کی غزل میں دکھ کی ہلکی سی سلگتی ہوئی آنچ نظر آتی ہے۔ دکھ میں چھلبلاہٹ ہوتی ہے غصہ ہوتا ہے لیکن ناصر کے ہاں یہ چیزیں نہیں بلکہ دبی دبی کیفیت موجود ہے جو کہ میر کا خاصہ ہے۔ لیکن ناصر میر کی تقلید نہیں کرتا بلکہ صرف متاثر نظرآتے ہیں ۔ ناصر نے جو دکھ بیان کیے ہیں وہ سارے دکھ ہمارے جدید دور کے دکھ ہیں ناصر نے استعارے لفظیات کے پیمانے عشقیہ رکھے لیکن اس کے باطن میں اسے ہم آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں۔ محض عشق نہیں بلکہ ہجرت ، جدید دور کے مسائل ،اور دوسری بہت سی چیزیں ان کی غزلوں میں ملتی ہیں۔ مثلاً

کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں

جنہیں ہم دیکھے کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں

دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

ان کی غزلوں کا مجموعہ دیوان پیش خدمت ہے
 
غزل


آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو

یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو

یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو

دیوانگیء شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو

جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو

ہر ذرہ ایک محملِ عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاوں کوئی دیکھتا بھی ہو

ہر شے پکارتی ہے پس پردہء سکوت
لیکن کسے سناوں کوئی ہم نوا بھی ہو

فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو

بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو

بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے
طاوس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل


نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آو کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

غزل



ممکن نہیں متاعِ سخن مجھ سے چھین لے
گو باغباں یہ کنجِ چمن مجھ سے سے چھین لے

گر احترام رسمِ وفا ہے تو اے خدا
یہ احترامِ رسمِ کہن مجھ سے چھین لے

منظر و دل نگاہ کے جب ہو گئے اداس
یہ بے فضا علاقہء تن مجھ سے چھین لے

گل ریز میری نالہ کشی سے ہے شاخ شاخ
گل چیں کا بس چلے تو یہ فن مجھ سے چھین لے

سینچی ہیں دل کے خون سے میں نے یہ کیاریاں
کس کی مجال میرا چمن مجھ سے چھین لے!​
 
غزل

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے دویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
مگر جینے کی صورت تو رہی ہے

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سور رہی ہے

چلے دل سے امیدوں کے مسافر
یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے

نہ سمجھو تم اسے شور ِبہاراں
خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے

ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر
اداسی بال کھولے سور رہی ہے​
 
غزل

ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے

کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

کل یہ تاب و تواں نہ رہیگی ٹھنڈ ہو جائے گا لہو
نامِ خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے

کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے

کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاوں کا پانی

یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں‌کی زبانی

یہاں اک شہر تھا شہرِ نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی

میں وہ دل ہوں دبستانِ الم کا
جسے روئے گی صدیوں شادمانی

تصور نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خرد کہتی ہے جس کو لا مکانی

خیالوں ہی میں‌اکثر بیٹھے بیٹھے
بسا لیتا ہوں اک دنیا سہانی

ہجومِ نشہء فکرِ سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی

بتا اے ظلمتِ صحرائے امکاں
کہاں ہوگا مرے خوابوں‌کا ثانی

اندھیری شام کے پردوں میں‌ چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی

کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی

پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اُڑے جائے ہیں اوراقِ خزانی

نئی دنیا کے ھنگاموں میں‌ ناصر
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
غزل

رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آرہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر

تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر

تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دلوں کے ختن
پا شکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر

شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر

یہ محلاتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر

دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر

لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابر کم صبر کر صبر کر

کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر

پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر

درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر

دیکھ ناصر زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر​
 
غزل

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو مرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کے سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا

شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا

موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہوگا

شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا

نیلی دھندلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا

میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا

پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا

میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا

ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں
کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں

فرصتِ شوق بن گئی دیوار
اب کہیں بھاگنے کا رستہ نہیں

ہوش کی تلخیاں مٹیں کیسے
جتنی پیتا ہوں اتنا نشہ نہیں

دل کی گہرائیوں میں ڈوب کے دیکھ
کوئی نغمہ خوشی کا نغمہ نہیں

غم بہر رنگ دل کشا ہے مگر
سننے والوں کو تابِ نالہ نہیں

مجھ سے کہتی ہے موجِ صبح نشاط
پھول خیمہ ہے پیش خیمہ نہیں

ابھی وہ رنگ دلِ میں پیچاں ہیں
جنہیں آواز سے علاقہ نہیں

ابھی وہ دشت منتظر ہیں مرے
جن پرتحریر پائے ناقہ نہیں

یہ اندھیرے سلگ بھی سکتے ہیں
تیرے دل میں مگر وہ شعلہ نہیں

راکھ کا ڈھیر ہے وہ دل ناصر
جس کی دھڑکن صدائے تیشہ نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ کہتی ہیں
یہ خامشی ء آواز نما کچھ کہتی ہے

سب اپنے گھر وں میں لمبی تان کے سوئے ہیں
اور دور کہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے

جب صبح کو چڑیاں باری باری بولتی ہیں
کوئی نامانوس اداس نوا کچھ کہتی ہے

جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں
کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے

کبھی بھور بھئے کبھی شام پڑے کبھی رات گئے
ہر آن بدلتی رت کی ہوا کچھ کہتی ہے

مہان ہیں ہم مہمان سرائے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے

بیدار رہو بیدار رہو بیدار رہو
اے ہم سفرو آوازِ درا کچھ کہتی ہے

ناصر آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
غزل

اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں

او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں

تیری گلی میں سارادن
دکھ کر کنکر چنتا ہوں

مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں

میرا دل جلائے کون
میں ترا خالی کمرہ ہوں

تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں

تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں

آتی رت مجھے روئے گی
جاتی رت کا جھونکا ہوں

اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔​
 
غزل

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل

ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتاتھا کاجل

میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں
میری تجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکرو عمل

میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے، دیکھ اس کالی رات کو دیکھ
میں وہی تیرا ہمراہی ہوں ساتھ مرے چلنا ہو تو چل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
غزل

جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے

ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے

دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے ویران سرا ہوتی ہے

رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
اس میں توہینِ وفا ہوتی ہے

منہ اندھیرے کبھی اُٹھ کردیکھو
کیا تروتازہ ہوا ہوتی ہے

اجنبی دھیان کی ہر موج کے ساتھ
کس قدر تیز ہوا ہوتی ہے

غم کے بے نور گزر گاہوں میں
اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے

غمگسارِ سفرِ راہِ وفا
مژہء آبلہ پا ہوتی ہے

گلشنِ فکر کی منہ بند کلی
شبِ مہتاب میں وا ہوتی ہے

جب نکلتی ہے نگارِ شبِ غم
منہ پہ شبنم کی ردا ہوتی ہے

حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل ، گل سے جدا ہوتی ہے

اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے

جب کوئی غم نہیں‌ہوتا ناصر
بے کلی دل کی سوا ہوتی ہے​
 
غزل

شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

رات کتنی گزر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں

یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں

اُن اجالوں کی دھن میں‌پھرتا ہوں
چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں

رین اندھیری ہے اور کنارہ دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
غزل

دل میں اک لہر سے اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی

شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر کی رات جاگتی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
غزل

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی

کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں‌تازگی

بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی

وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بجھ گیا
اگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی

میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاوں وہ دیوار گر گئی

بازار بند راستے سنسان بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں‌کوئی

گلیوں میں‌ اب تو شام سے پھرتے ہیں‌ پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع سو وہ بھی بجھی بجھی

اے روشنیء دیدہ و دل اب نظر بھی آ
دنیا ترے فراق میں‌اندھیر ہو گئی

القصہ جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں
گو ابتدائے غم میں‌بڑی احتیاط کی

اب جی میں ہے کہ سرکشی پتھر سے پھوڑیے
ممکن ہے قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری

بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دن
تصویر کھینچیے کسی موجِ خیال کی

ناصر بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاوں وہ بے فکر زندگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
غزل

پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
یارو یہ کیسی ہوا ہے اب کے

دوست بچھڑے ہیں کئی بار مگر
یہ نیا داغ کھلا ہے اب کے

پتیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں
قتلِ گل عام ہوا ہے اب کے

شفقی ہو گئی دیوارِ خیال
کس قدر خون بہا ہے اب کے

منظرِ زخمِ وفا کس کو دکھائیں
شہر میں قحطِ وفا ہے اب کے

وہ تو پھر غیر تھے لیکن یارو
کام اپنوں سے پڑا ہے اب کے

کیا سنیں شورِ بہاراں ناصر
ہم نے کچھ اور سنا ہے اب کے​
 
غزل

دفعتہ دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی
اس خرابے میں یہ دیوار کہاں سے آئی

آج کھلنے ہی کو تھا دردِ محبت کا بھرم
وہ تو کہیے کہ اچانک ہی تری یاد آئی

نشہء تلخیء ایام اترتا ہی نہیں
تیری نظروں نے گلابی بہت چھلکائی

یوں تو ہر شخص اکیلا ہے بھری دنیا میں
پھر بھی ہر دل کے مقدر میں نہیں تنہائی

یوں تو ملنے کو وہ ہر روز ہی ملتا ہے مگر
دیکھ کر آج اُسے آنکھ بہت للچائی

ڈوبتے چاند پہ روئی ہیں ہزاروں آنکھیں
میں تو رویا بھی نہیں تم کو ہنسی کیوں آئی

رات بھر جاگتے رہتے ہو بھلا کیوں ناصر
تم نے یہ دولتِ بیدار کہاں سے پائی​
 
Top