دیوان مجروح

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم منتظمین کرام محفل اردو لائیبریری
سدا خوش رہیں آمین
محترم جناب سخنور جی نے
جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم کے دیوان کی
پی ڈی ایف فائل عنایت فرمائی ہے ۔
حسب الارشاد میں اسے یہاں ٹائپ کر رہا ہوں ۔
نایاب
 

نایاب

لائبریرین
(١)
دیوان مجروح
یعنی
گوہر دریائے سخن ۔ ماہر رموز فن
جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم
شاگرد رشید
حضرت نجم الدولہ دبیر الملک اسد اللہ خان غالب
حسب فرمایش
عبدالعزیز تاجر کتب لاہور
قیمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢)
(ا)

ہوالجمیل
میر مہدی مجروح دہلوی
میر مہدی حسین نام ، حسن و عشق کے زخم خوردہ مجروح تخلص کرتے
تھے ۔ شاعری والد کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی ۔ ان کا خاندان مغلوں کی
آخری ؟؟؟؟ میں ایران سے آیا تھا ۔ سادات نجیب الطرفین صاحب اخلاق
حسنہ علم و فضل میں یگانہ ہونے کی وجہ سے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ نسلابعد نسلا چلی آتی تھی ۔ سن پیدائیش ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہے کہ غدر میں پچیس سالہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بچپن میں نہایت شوخ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور نیلی آنکھوں کے مالک تھے ۔
جوانی میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ لباس ٹھیٹھ دلی والوں کا پہنتے تھے ۔ ؟؟؟؟
ٹوپی ۔ ڈھاکے کے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ نیچی چولی کا انگرکھا ۔اس کے نیچے گلشن کا کرتہ ۔
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔ اور یہی وضع مرتے دم تک ؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔
ابتدائی تعلیم گھر میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ دولت علم ؟؟؟؟؟ سے مالا مال ہو رہا

(؟؟؟؟؟؟؟؟) یہ تحریر پڑھی نہیں جاتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣)
(ب)

تھا ۔ ان کے والد بہت بڑے عالم اور نزاکت آفریں شاعر تھے ۔ چچا میر حسن
فارسی نثر میں ید طولی رکھتے تھے ۔ برادر شفیع میر سرفراز حسین جن کے نام حضرت غالب
کے مکتوبات بھرے پڑے ہیں ۔ عربی فارسی کے شہر بھر میں ایک مستند عالم
مانے جاتے تھے ۔ ایسے گلدستہ کے ایک پھول میر مہدی حسن مجروح بھی تھے ۔
لڑکپن سے ہی شاہد سخن کی پرستاری شروع کر دی تھی ۔ ذرا ہوش سنبھالا تو بزرگوں
کے ساتھ ذوق و غالب و مومن و صہبائی کے جلسے اور بزم آرائیاں دیکھیں اور
اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے شعر و سخن کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔
چنانچہ اسی جذبہ شوق اور بیتابی طبیعت کی مناسبت نے حضرت غالب
تک پہنچایا ۔ بھلا خیال کرنا چاہئے کہ جس نخل بار آور کی ترقی میں حضرت غالب
جیسے استاد کا ہاتھ کارفرمائی کرے ۔ اس کی بلندی اور حسن کہانتک پہنچا ہو گا ۔ مگر دنیا میں
بہت پھول ایسے ہیں جو کسی کی گردن کا ہار ہونیسے اپنی جڑ میں مرجھا کر فنا ہو جانا بہتر
سمجھتے ہیں ۔ چند ساعت کے لئے اپنے حسن کو کسی طرہ کے لئے ضایع نہیں کرتے
بلکہ دنوں نسیم سحری کے ساتھ ساتھ کھلتے پھرتے ہیں ۔
میر صاحب کی شاعری پیشہ نہ تھی ۔ خداداد لطف تھا ۔ طبیعت کا ذوق تھا
جو شعروں میں اپنے معنے اور نزاکت بیان کرتا تھا ۔ اس کا اندازہ کرنا بہت دشوار
ہے ۔ کچھ تھوڑا سا پتہ اردو معلے اور عود ہندی سے لگتا ہے ۔ جہاں جگہ جگہ حضرت غالب
جیسا نقاد پھر میر صاحب کا استاد میر صاحب کے ساتھ اس انداز سے باتیں
کرتا ہے ۔ جیسے عاشق اپنے معشوق سے ۔ برابر کا سخن فہم اپنے رازدار سخن سے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٍ
 

اسد

محفلین
ہوالجمیل




میر مہدی مجروح دہلوی


میر مہدی حسین نام، حسن و عشق کے زخم خوردہ مجروح تخلص کرتے
تھے ۔ شاعری والد کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی۔ ان کا خاندان مغلوں کی
آخری بہار میں ایران سے آیا تھا۔ سادات نجیب الطرفین صاحب اخلاق
حسنہ علم و فضل میں یگانہ ہونے کی وجہ سے دربار میں علاوہ مصاحبت کے
مورچہ جنبانی نسلاً بعد نسلاً چلی آتی تھی۔ سن پیدایش کا اندازہ اس سے ہو سکتا
ہے کہ غدر میں پچیس سالہ جوان تھے۔

بچپن میں نہایت سُرخ و سفید۔ حیادار فرغلی آنکھوں کے مالک تھے ۔
جوانی میں خوشرو۔ خوشخو نوجوان تھے۔ لباس ٹھیٹھ دلّی والوں کا پہنتے تھے۔ پچ گوشیہ
ٹوپی ۔ ڈھاکے کے ڈوروئیے کا نیچی چولی کا انگرکھا ۔اس کے نیچے گلشن کا کرتہ۔
ہر وقت عطر میں تر بہ تر رہتے تھے۔ اور یہی وضع مرتے دم تک نبہا گئے۔

ابتدائی تعلیم گھر میں پائی کیونکہ سارا خاندان دولت علم وفضل سے مالا مال ہو رہا
 

نایاب

لائبریرین
(٤)

(ج)

ہنگامہ غدر کی ویرانی نے حضرت مجروح کو دلی سے نکال دیا تو پانی پت
محلہ انصار میں ایک عرصہ تک قیام کیا ۔ اس زمانہ مین مرزا غالب اور میر صاحب
ممدوح کی خط و کتابت ایک افسانہ ہے ۔ انہیں خطوط میں ایک جگہ میر صاحب
کی طرز تحریر کی داد اس طرح دیتے ہیں ۔
“ میر مہدی جیتے رہو ۔ آفرین صد ہزارآفرین ۔ اردو عبارت لکھنے کا کیا
اچھا ڈھنگ پیدا کیا ہے کہ مجھکو رشک آنے لگا ہے ۔ سنو ۔ دلی کی تمام
مال و متاع و زر و گوہر کی لوٹ پنجاب احاطے میں گئی ہے ۔ یہ طرز عبارت
خاص میری دولت تھی ۔ سو ایک ظالم پانی پت انصاریوں کے محلے کا رہنے
والا لوٹ لے گیا ۔ مگر میں نے اس کو بھی کہا اللہ برکت دے ۔ “
میر صاحب کی شاعری دلی میں جوان ہوئی ۔ غدر نے بلبل کو چمن سے
نکالا تو پانی پت میں انصار نے مدتوں نفرت کی ۔ زمانہ ذرا سنبھلا تو ریاست
الور میں اپنے بھائی کے پاس چلے گئے ۔ وہاں ایک عرصہ تحصیلدار رہے ۔
قدردان مہاراجہ شودیان سنکھ کا انتقال ہوا تو ریاست جے پور میں کچھ دن کاٹے
آخر اسی اجڑے دیار دلی میں آ گئے ۔ غدر سے پہلے مال و متاع لٹا تھا ۔ اس
اس دفعہ دلی نے دولت بصارعت بھی چھین لی اور باقی عمر کا حصہ اسیطرح گذار دیا ۔
حضرت مجروح کی شاعری کی نسبت زیادہ بحث کرنے کی یہاں
گنجایش نہیں ۔ بس اتنا کافی ہے کہ مرزا غالب کی اردو شاعری کی نسل انہیں
سے چلتی ہے ۔ باقی سب شاگرد فارسی میں استاد ہوئے ۔ حضرت مجروح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٥)
(د)

کے حصہ میں میر تقی اور میر حسن کا رنگ آیا ۔ انہیں کی زبان
اور انہیں کا کلام ان کو پسند تھا ۔ ہر وقت اسی میں محو رہتے
تھے ۔ فارسی ترکیبیں اور بڑی بڑی بحروں کو خاطر میں نہ لاتے
تھے ۔ سادگی اور نزاکت پر جان دیتے تھے ۔ مرزا غالب
کا مشہور شعر ہے ۔۔
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد
اسی مضمون کو میر صاحب نے کس خوش آہنگی اور خوبی سے ادا
فرمایا ہے ۔
کج ادائی یہ سب ہمیں تک تھی
اب زمانے کو انقلاب کہاں ؟
انصاف اہل انصاف کے ہاتھ ہے ۔ ظاہر بین نگاہیں شاید
چمکدار الفاظ نہ ہونے کی وجہ سے حیران ہو جائیں ۔ غرضکہ اسی
طرح کے اشعار سے دیوان پر ہے ۔ وہ مضامین جن کو شعرا
ہزاروں بندشوں اور الفاظ کے ایچ پیچ کے ذریعہ قابو میں لاتے
ہیں ۔ میر صاحب ایک بات کہہ کر چپکے ہو جاتے ہیں اور مطلب
ادا کر جاتے ہیں ۔ نثر میں بھی مرزا غالب کے پیچھے پیچھے اڑتے
تھے ۔ اور خوب لکھتے تھے ۔ اردو معلی کا دیباچہ اب تک گواہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٦)
(ہ)

دیتا ہے ۔ قصیدہ کا بھی یہی حال ہے ۔
غدر کے عبرت خیز واقعہ نے میر صاحب کو بہت دل برداشتہ
کر دیا تھا ۔ غزل تقریبا ترک کر دی تھی ۔ سلام اور نعت وغیرہ کہتے
اور سفر آخرت کے لئے توشہ تیار کرتے رہتے ۔ اگر غزل لکھتے
تو اس میں بھی اکثر اشعار اسی رنگ میں ہوتے ۔ اسی ولولہ نے زیارات
کربلا و نجف اشرف سے مشرف کرایا ۔ ہر وقت بزرگان اسلام کی
مدح سرائی میں وقت گذارتے ۔
دیوان مطبوع اکثر احباب کی فرمایش سے ان کے دوست
میرن صاحب نے نہایت محنت سے تیار کیا تھا ۔ کیونکہ میر صاحب
تو ان باتوں کو بھلا چکے تھے ۔ اس کے علاوہ مجموعہ سلام اور ایک دو
قصائد ائمہ کی تعریف میں علیحدہ بھی شایع ہوئے ۔ ایک مثنوی
بڑی محنت سے لکھی تھی وہ بھی علیحدہ شایع کی گئی ۔ مگر اب یہہ
سب چیزیں ناپید ہیں ۔ اور جس شخص کی جگہ مرزا غالب اور اہل دہلی
کے دل میں تھی ۔ آج کاغذوں پر بھی نظر نہیں آتی اور شاید
چند دن یہ کسی کو معلوم بھی نہ ہو سکے کہ مجروح کون تھے ۔ فاعتبرو
یا اولی الابصار ۔
آخر اس دار فانی سے رخت سفر باندھا اور جہاں کی آس
میں مدتوں سے پابہ رکاب تھے ۔ سدھارے ۔ سن 1321 ہجری ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٧)

(و)

درگاہ قدم شریف میں سپرد خاک کیا ۔ تاریخ ان کے شاگرد رشید
جناب نواب احمد سعید خاں صاحب طالب دہلوی نے لکھی اور
کندہ کرا دی ۔
وحید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
(١)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فاتح کارجہاں نام ہے یزداں تیرا
قاطع شرک ہے اول ہی سے پیماں تیرا
جنت و کوثر و طوبی و قصور و انہار
کچھ نہیں مانگتا وہ جو کہ ہے خواہاں تیرا
خوان شاہان جہاں کی نہیں پروا اسکو
سیر رہتا ہے سدا جو کہ ہے مہماں تیرا
کیوں نہ ہر رنگ مذاہب کے ہوں انسان پیدا
خانہ دہر ہے گویا کہ گلستاں تیرا
جانتا ہے تری رحمت نہ رکھے گی محروم
جمع خاطر نہ ہو کس طرح پریشاں تیرا
لڑکھڑاتے ہیں تری راہ میں رسولونکے قدم
کیسے حولوں سے ہے لبریز بیاباں تیرا
وہ ترا ملک ہے جسکو کہ نہیں بیم و زوال
دست تاراج سے امیں ہے گلستاں تیرا
زخمئے عشق وہ کامل ہے کہ لذت پائے
جب نمک ریز ہو ذخموں پہ نمکداں تیرا
ذات اقدس ہے تری کار برار عالم
زرفشاں سب پہ ہے گنجینہ احساں تیرا
طور و موسی کی حقیقت پہ نہیں کرتے نظر
دیکھنا کیا ہی سمجھ رکھا ہے آساں تیرا
سلسلہ گر متناہی ہو تو آگاہی ہو
نہ تو اول ترا معلوم نہ پایاں تیرا
کیوں نہ مہمان ہوں ترے خوان کرم پہ دونوں
سچ ہے بندہ ہے ہر اک گبرو مسلماں تیرا
میں رضامند ہوں تو دوزخ و جنت جو دے
ایک ہے عدل ترا دوسرا احساں تیرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢)

اول و آخر و پیدا و نہاں سب تو ہے
جلوہ ہر رنگ میں تازہ ہے ہر اک آں تیرا
جنتی جانتے ہیں آپ کو اہل دوزخ
ہے یہ تسکین فزا لطف فراواں تیرا
جن و انسان و ملک ہیں ترے در کے ساجد
کیوں نہ ہو واجب تعمیل ہے فرماں تیرا
مایہ نطق زباں ہے سو عطا ہے تیری
کون سے منہ سے ہو مجروح ثنا خواں تیرا
--------------------------------------------------------------------------------------

ثنا و حمد ایزد ہو رقم کیا
ہمارا ناطقہ کیا اور ہم کیا
مجھ کو درپش ہے توصیف وحدت
مرکب سے کروں اس کو رقم کیا
حیات اپنی ہے وابستہ نفس سے
عطائے خاص ہے یہ دمبدم کیا
نہیں کثرت سے کچھ نقصان وحدت
محیط اک قطرہ میں ہوتا ہے کم کیا
جو ہے موجود ہر جا اس کو طالب
کریں پابندی دیر و حرم کیا
زباں نکتہ سنج سحر پرداز
بیاں اس کا کرے فیض ؛ تم کیا
پہلا اک قطرہ ناچیز موہوم
کرے پیمائیش پہنائے یم کیا
یہاں لا تقنطو ورد زباں ہے
گناہوں کی فراوانی کا غم کیا
ترحم طالب طاعت نہیں ہے
مرا محتاج ہے اس کا کرم کیا
گیاہ خشک لب ہے چشم براہ
بھلا اب دیر ہے ابر کرم کیا
جیبں فرسودگاں در گہہ قدس
یہ کہتے ہیں کہ ہے اکلیل جم کیا
وہاں سے گنج زر ملتا ہے بے رنج
طلب سے دیتے ہیں اہل کرم کیا
زبان و نطق سب اسکے دیئے ہیں
کریں اس کا ادائے شکر ہم کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣)

وجود نیستی پر اسقدر ناز
بھلا پیدائیے نقش قدم کیا
دم شمشیر پر ہے راہ الفت
آٹہیں اے حضرت موسی قدم کیا
زباں مجروح کی اور حمد باری
سمائے گا بھلا قطرہ میں یم کیا

-------------------------------------------------------

اللہ رے نور روئے تجلی نقاب کا
ہر ذرہ کر دیا ہے نظر آفتاب کا
یہ کس سے ہو سکے ہے بجز فیض مصطفی
جو معصیت میں رنگ دکھائے ثواب کا
ہے بانگ و در باش ادب بہر فرش عرش
روضہ ہے یہ جناب رسالت مآب کا
کچھ ماجرا نہ مہر نبوت کا پوچھئے
نقطہ ہے حق کے قلم انتخاب کا
امی ہوا اگرچہ بظاہر پہ اصل میں
کشاف ہے حقائق ام الکتاب کا
کر لیں بہت سے جرم اکھٹے کہ حشر میں
ہونا ہے سامنا کرم بے حساب کا
لو آؤ نور وا دئیے ایمن کو دیکھ لو
سرکا ہے روئے پاک سے گوشہ نقاب کا
الطاف حق نے بارش رحمت رکھی سدا
سایہ ہٹا نہ آپ کے سر سے سحاب کا
حاضر ہیں ہم سوال کریں منکر و نکیر
یاں حب احمدی ہے خلاصہ جواب کا
ہم بھی تو خواجہ ناش ہیں بگڑیں نہ کسطرح
تھانبا ہے جبرئیل نے حلقہ رکاب کا
رحمت خدا کی عام ۔ نبی شافع انام
پھر خوف کس لئے ہو حساب و کتاب کا
یثرب کی راہ تھم کے کہیں پوچھتا نہیں
اللہ رے شوق اس دل پر اضطراب کا
اس ابر رحمت کی ترشح ضرور ہے
دوزخ بنا ہوا ہوں تف سینہ تاب کا
آفتادگی کسی کی نہ تھی آپ کو پسند
سایہ اسی لئے نہ پڑا اس جناب کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
(4)


صلی علی کا شور جو ہے آسمان تک
آیا ہے لب پہ نام مرے کس جناب کا
کیسی تعب فشار کی کیسا عذاب قبر
مرقد میں چین سے ہے محب بوتراب کا
خورشید نار کیوں نہ کرے گوشہ لحد
یہ داغ عشق ہے خلف بو تراب کا
عذر گنہ میں سمع خراشی سے فائدہ
دفتر ہے دیکھ لو مرے حال خراب کا
حاضر ہو جب خودی تو حضوری کہانسے ہو
ہم ہو گئے ہیں ۔ آپ ہی باعث حجاب کا
چشم کرم دریغ نہ ہو اس سے یا نبی
مہدی کو آسرا ہے تمہاری جناب کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمسر جہاں میں کب ہے رسول کریم کا
ثانی کبھی ملا نہیں در یتیم کا
وہ گلشن وقار کہ جس کے درخت پر
ہے آشیانہ بلبل سدرہ مقیم کا
وہ شاہ عدل دوست کہ یہ بندوبست شرع
ہے اک نمونہ آپ کی رائے سلیم کا
وہ ہادی الطریق کہ جس کے کلام کا
ہر حرف رہنما ہے رہ مستقیم کا
حاکم وہ اس جہان میں ہر جن و انس پر
قاسم وہ دین میں ہے نعیم و جحیم کا
شائق کلیم تھا سو رخ پاک شاہ نے
جلوہ دکھا دیا اسے حسن قدیم کا
فرش رہ حضور ہو اس کی یہ چاہ ہے
رتبہ بلند کیوں نہ ہو عرش عظیم کا
اکھڑی سی کچھ ہوا نفس عیسوی کی ہے
یثرب سے آ گیا کوئی جھونکا نسیم کا
آؤ در حضور پہ اے طالبان حق
رستہ دکھا رہا ہوں رہ مستقیم کا
اب فکر کیا شفاعت و رحمت ہے ایکجاہ
نائب بھی ہے کریم خدائے رحیم کا
حضرت کے واسطے سے نہ کی التجائے دید
مقصود کس طرح سے بر آتا کلیم کا
-----------------------------------------------------

(٥)
ہر اک بقدر ظرف ہے اس در سے کامیاب
وہ ذات پاک چشمہ ہے فیض عمیم کا
مجروع اہل کیں کی عداوت سے کیا غرض
تو تو محب ہے آل نبی کریم کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وصف کیا ہو بیاں محمد کا
ہے خدا مدح خواں محمد کا
عرش اس کو سمجھ نہ روح امیں
یہ تو ہے آستاں محمد کا
تھی زمیں عرش کی نہ ہم پہلو
سایہ پڑتا کہاں محمد کا
حامل عرش بھیجتے ہیں درود
نام آیا جہاں محمد کا
بات میں مردہ کو جلاتا ہے
لب معجز بیاں محمد کا
ہے بہت کہنہ ورنہ کہتے ہم
فرش ہے آسماں محمد کا
ہوا آہن گداز قلب عرب
معجزہ ہے بیاں محمد کا
باہمہ قرب حق ہے روح امیں
خادم آستاں محمد کا
ہے وہ راز نہاں کا گنجینہ
حال ہو گیا عیاں محمد کا
ہے وہ ذات خدا میں مستغرق
حق ہے جو ہے بیاں محمد کا
بال جلتے ہیں واں فرشتوں کے
ہے گذر گہہ جہاں محمد کا
فخر بس ہے یہی کہ اے مجروح
تو ہوا مدح خواں محمد کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے فلک آستاں محمد کا
ہے ملک پاسباں محمد کا
چپ رہو اے مسبحاں فلک
ہو رہا ہے بیاں محمد کا ۔
------------------------------------------------
 

نایاب

لائبریرین
(٦)

لوگ کہتے ہیں لامکاں جس کو
ہے وہیں تو مکاں محمد کا
جز خداوندا بزد متعال
کون ہے رتبہ داں محمد کا
دل میں پتھر کے نقش پا دیکھو
حشر تک ہے نشاں محمد کا
ہو بھگانا جہاں سے شیطاں کا
نام لے لو وہاں محمد کا
اس کی کاشف ہے خود شب معراج
فرش ہے آسماں محمد کا
اسم اعظم کی ہے تلاش تو رکھ
نام ورد زباں محمدا کا
دیکھ سکتا ہے ہمکو دوزخ میں
کب دل مہرباں محمد کا
کرتا پرزر ہے دامن امید
دست گوہر فشاں محمد کا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تخت شاہی سے کام کیا مجروح
میں ہوں اور آستاں محمد کا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یاں کیوں نہ سائباں ہو نور الہ کا
روضہ ہے یہ جناب رسالت پناہ کا
پیہم ہے بسکہ ریزش انظار زائراں
ہے فرش صحن خاص میں نار نگاہ کا
محشر میں دیکھ جوش شفاعت حضور کا
طاعت بھی ڈھونڈتی ہے وسیلہ گناہ کا
حضرت کی یاد و حسرت دیدار ہے یہاں
غائت یہ دل کی ہے وہ نتیجہ نگاہ کا
دریائے بیکراں ہے صفات محمدی
جبریل اس میں قصد نہ کرنا شناہ کا
شق قمر بھی اس نے کیا رد شمس بھی
مالک شہ رسل ہے سپید و سیاہ کا
وہ پیک چرخ جس کالقب ہے مہر منیر
داغی غلام ہے یہ تری بارگاہ کا
ہوں جس زمیں پہ بال ملائک بچھے ہوئے
وہ ہی نشاں سمجھئے مدینہ کی راہ کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٧)

حضرت کی راہ فقر میں ہے فرش جا بجا
دارا کی شوکتوں کا سکندر کی جاہ کا
حیران عقل کیوں نہ ہو وصف حضور میں
دریائے پر خروش میں ہے برگ کاہ کا
اسید شست و شو ترے ابر کرم سے ہے
نامہ بہت سیاہ ہے اس روسیاہ کا
رحمت بہانہ جو ہے گنہگار کے لئے
بخشش ہے واں جواب لب عذر خواہ کا
کیا اس کے آگے دشمن شیطاں نسب تھے
لشکر ہے یہ خد یو ملائک سپاہ کا
کیا رہبری کی اس سے رکھینگے امید ہم
پیر و خضر ہی خود ہے میرے خضر راہ کا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مجروح سر کو قیصر و دارا سے کیوں جھکائے
یہ بھی تو ہے غلام شہ دیں پناہ کا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
لیا جب نام ہمنام خدا کا
سنا مژدہ حصول مدعا کا
جھکیں سر کیوں نہ یاں گردن کشونکے
یہ در ہے شہسوار لافتا کا
ہوئے روشن جو ایسے چشم و خورشید
لگایا سرمہ کیا اس خاک پا کا
ہوا یہ لحمک لحمی سے ثابت
کہ حیدر جز و تن ہے مصطفا کا
ہوئے کعبہ میں جب پیدا ید اللہ
قوی بازو ہوا خیر الورا کا
وہ نکلے قتل مرہ کو دو انگشت
نشاں پھر دیکھ لیجے لافتا کا
نہ جھلکے کیونکہ نور لا تناہی
وہ آئینہ ہے ذات کبریا کا
بفرمان خداوند دو عالم
علی ہے نفس ناطق مصطفا کا
نہ کیوں زور یدالہی دکھائے
یہ پنجہ ہے شہ خیبر کشا کا
جسے کہتے ہو تم ناموس اکبر
وہ خادم ہے علی مرتضا کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٨)

عدو کے خون کا مینہ برسا رہی ہے
کھلا جوہر یہ تیغ برق زا کا
نہیں تصویر بھی اس کی ٹھہرتی
یہ نقشہ ہے سمند تیز پا کا
ہوئے سب عقدہ دشوار آساں
لیا ہے نام کیا مشکل کشا کا
خدایا ساتر عصیان مجروح
سدا دامن رہے آل عبا کا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ دل ہے شایق ہے اسکے روئے روشن کی زیارت کا
کہ جو ہے مہر انور بارہویں برج امامت کا
امام مہدئیے ہادی سرور سینہ زہرا
دل و جان نبی نور بصر شاہ ولایت کا
اگر ظاہر کرے وہ احتساب دین و دنیا کو
تعجب کیا جو بت پڑھنے لگے کلمہ شہادت کا
جہاں کو تنگ کر رکھا ہے اہل کفر و بدعت نے
دکھا ان کو نمونہ شاہ مرداں کی شجاعت کا
پڑے یہ غلغلہ جب زوالفقار حیدری چمکے
کہ حق ظاہر ہوا اب کونچ ہے اہل ضلالت کا
دکھا برقع کشا اس چہرہ پر نور کو یارب
شب ظلماتئیے زحمت میں چمکا نور راحت کا
اٹھا دیگا عمل عالم سے سب کشور ستانونکا
ولایت گیر ہے وہ لخت دل شاہ ولایت کا
امامت اور شاہی ہے مبارک جاں نثارونکو
کہ گنج زر کے ہے ہمراہ گنجینہ سعادت کا
نبی ہوں مقتدی جنکے امام و پیشوا وہ ہیں
ہنسی ٹھٹھا سمجھ رکھا ہے کیا منصب امامت کا
(قطعہ)
ہوا پیدا جہاں حضرت کے نور جد امجد سے
قدم سے آپ کے وابستہ ہے آنا قیامت کا
غرض خلاق عالم نے پیمبر کے گھرانے کو
کیا باعث زمانہ کی بدایت اور نہایت کا
امام عصر کی غیبت میں یہ اک سر پنہاں ہے
کہ تا ہو حال ظاہر منکر و اہل ارادت کا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
غلاموں میں رہے محسوب یہ مجروح یا مولا
یہ خادم آپکا خواہاں ہے ہر دم اس عنایت کا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 

نایاب

لائبریرین
(٩)

کوئی آسماں کیا سوا ہو گیا
کہ افزوں نزول بلا ہو گیا
وہ جاتے ہیں دامن بچائے ہوئے
تجھے جرات شوق کیا ہو گیا
ڈرو نالہ حسرت آلود سے
غضب ہو گیا گر رسا ہو گیا
نہ ہلنے دیا مہر صیاد نے
رہا قید میں گو رہا ہو گیا
کبھی میرے دل سے نکلتا نہیں
یہ غم تو مزا وصل کا ہو گیا
ہوئے بال و پر بند اب ہمکو کیا
اگر عقدہ دام وا ہو گیا
بڑھے اور بھی بخت کی تیرگی
اگر سر پر ظل ہما ہو گیا
لگا ہاتھ میں کس کا شور آب اشک
جو پھیکا سا رنگ حنا ہو گیا
کہا میں نے ایجاں تو بولے چہ خوش
کہو کب سے میں بیوفا ہو گیا
وہ آئیں یہاں اک نئی بات ہے
تجھے بخت بد آج کیا ہو گیا
کیا حال دوری جو ان کو رقم
تو ہر حرف خط کا جدا ہو گیا
کھٹکتا ہے پہلو میں دن رات دل
یہ پیکاں ترے تیر کا ہو گیا
کھلا جب سیہ نامہ میرا تو پھر
شب تار روز جزا ہو گیا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہیں اس تند خو سے یہ گستاخیاں
تھمو تم کو مجروح کیا ہو گیا
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
وہ مرے پاس گر آئے بھی تو پھر کیا ہو گا
یہی ہو گا کہ کوئی خون تمنا ہو گا
زندگانی ہے تو کیوں دیکھنا ان کا ہو گا
گرو ہستی سے مرے بیچ میں پردا ہو گا
کہتے ہیں کونسا مطلب تجھے کہنا ہو گا
اور ہوا بھی تو کوئی شکوہ بیجا ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١٠)
اے خوشا بخت جو معشوق کو دیکھے ہمدوش
آرزو خیز غضب خواب زلیخا ہو گا
اپنا عشاق میں ہم مرتبہ اسدم جانوں
جب یہ سمجھوں کہ کوئی دوسرا تمسا ہو گا
سخت مضطردل ہنگامہ طلب ہے یارب
آج ہی کیوں نہ وہ ہو جائے جو فردا ہو گا
دیدہ دجلہ فشاں اشک فشانی کبتک
ان کو اک یہ بھی نہ آنے کا بہانہ ہو گا
ہر طرف ہمکو یہاں بوئے وفا آتی ہے
یہ تو مرقد کسی مقتول جفا کا ہو گا
نالہ نیم شب و آہ سحر ہیں بے کار
کوئی ہنگام بھی تاثیر دعا کا ہو گا
تا کجا یہ دل پر شرم نہ ہو گا گستاخ
جب کہ ہر ناز ترا حوصلہ فرسا ہو گا
اور ہے کون جو پاس اس کے ذرا جا نکلے
ہاں مگر دم ترے عاشق کا نکلتا ہو گا
نہ ہٹے دشنہ جانگیر مرے پہلو سے
شب فرقت میں اسی کا تو سہارا ہو گا
اپنی ہنگامہ فزائی کو رکھے گا محشر
وہ ہی فتنہ جو تری چشم سے پیدا ہو گا
صبح گو ہو شب وعدہ مگر آنا کیا
ابھی وہ بننے سنورنے میں خود آرا ہو گا
ہائے وہ دن کہ شب وصل ہر اک کھٹکے پر
ان کا گھبرا کے یہ کہنا کہ بس اب کیا ہو گا
رشک اعدا تو مسلم ہے ولے سچ یہ ہے
جب وہ اپنا نہ ہوا دوست تو کس کا ہو گا
آہ جس درد کے انجام میں پھٹتا ہے جگر
پھر وہ آغاز میں فرمائیے کیسا ہو گا
یہ مرا عقدہ دل بند قبا ہے تیرا
جز تمہارے یہ کسی اور سے کب وا ہو گا
طعنہ غیر سنے دورئی جاناں دیکھے
اے فلک اور تو اب اسکے سوا کیا ہو گا
فرش راہ دیدہ مجنوں ہیں زمیں پر یارو
کیونکہ نقش قدم ناقہ لیلا ہو گا
شوق کہتا ہے اسے دیکھ تو لو ہمرہ غیر
رشک کہتا ہے مجھے کب یہ گوارا ہو گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top