دیدہ وروں سے کور نگاہی ملی مجھے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دیدہ وروں سے کور نگاہی ملی مجھے
ایسے پڑھے ورق کہ سیاہی ملی مجھے

کس دشت میں چلا ہوں کہ احساس مر گیا
صورت دکھائی دی نہ صدا ہی ملی مجھے

خالی پیالے سینکڑوں ہاتھوں میں ہر طرف
تشنہ لبی اور ایک صراحی ملی مجھے

ہمزاد میرا مرگیا میری انا کے ساتھ
ورثے میں تخت ِ ذات کی شاہی ملی مجھے

اپنی نظر میں خود مری توقیر بڑھ گئی
جب سے تری نظر کی گواہی ملی مجھے

دیوار ِ اختلاف سلامت ہے شہر میں
دونوں طرف ہی ورنہ تباہی ملی مجھے

چاروں طرف خزانے محبت کے ہیں ظہیر
جو چیز میں نے پیار سے چاہی ملی مجھے

ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۱۲

ٹیگ: سید عاطف علی فاتح محمد تابش صدیقی کاشف اختر
 
Top