شمشاد
لائبریرین
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 16
مقدمہ طبع اول فرہنگ آصفیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نُصلے علی رسولہ الکریم
تو حمد کے قابل ہے ذرا شک نہیں اس میں
لیکن ہے کہاں حمد تری ذات کے قابل
اردو زبان کی پیدایش اور ترقی
ہماری اردو زبان جو فی زمانہ علوم و فنون کا خزانہ بھی جمع کر رہی ہے کیا بلحاظ فصاحت کیا بخیال بلاغت ہندوستان کی جان ہے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ اس زبان نے قلعۂ معلے اور دہلی شاہجہان آباد کی چار دیواری سے قدم باہر نہیں نکالا تھا۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ کشمیر سے راس کُماری اور کلکتہ سے کراچی تک اردو مادری زبان کا درجہ حاصل کرتی جاتی ہے۔ بلکہ پیشاور، شیلانگ، کوئٹہ، افغانستان بھی اس کے الفاظ سے بوسیلۂ تجاری و سلطنت موجودہ خالی نہیں پایا جاتا۔ خدا رکھے اب تو ہندوستان کے باہر بھی قدم رکھنا شروع کر دیا ہے۔ عڈن، مالدیپ، جزائر سیلون، لنکا، انڈمان، سنگاپور، ہانگ کانگ، شانگھی میں بھی اس کے شیدا پیدا ہو گئے ہیں۔ عرب میں حاجیوں نے، بغداد شریف، کربلائے معلے، نجف اشراف، مشہد اور بیت المقدس میں زائروں نے، مصرف، شام اور روم میں سیاحوں نے، انگلستان میں طلبائے ہند اور پنشن یافتہ انگریزوں نے اس کا چرچا پھیلا دیا ہے۔ روس کی عملداری میں بھی اس رواج ہو چلا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہندوستانی زبان کا پروفیسر بھی وہاں بلایا گیا ہے۔ بلکہ سنا کہ کہ قسطنطنیہ میں بھی سلطان المعظم نے اس طرف گوشۂ چشم منعطف فرمایا (۱) ہے۔ ہمارےملک کے مزدوری پیشہ اشخاص و روزگار سرکاری سپاہیوں ملازمت پیشہ اصحا صنیعت طلب نوجوانوں نے تو بہت سے ملکوں کو پایاب کر دیا ہے۔ کوئی جاپان پہنچا ہے تو کئوی دین جا براجا ہے۔ کسی نے امریکہ کا رستہ لیا ہے تو کسی نے جرمن اور فرانس کا دھاوا مارا ہے۔ غرض ممباسہمیں، سفالا میں، زنجبار (۲)، ٹرانسول کیپ کولونی، آسٹریلیا اور افریقہ میں جہاں دیکھو کہیں قلی بن کر کہیں خلاصی بن کر، کہیں تاجر بن کر، کہیں واعظ بن کر ہمارا ایک نہ ایک اردو زبان بولنے والا ہندوستانی وہاں موجود ہے۔ اور اب تو موجودہ عالمگیر جنگِ عظین نے یورپ، افریقہ، عرب وغیرہ کے چپے چپے پر ہمارے بہادر اور فتاح سپاہیوں کو پہنچا کر ہندوستانی شریفانہ زبان کا جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ ہمیں اب اس خیال سے آگے قدم بڑھانہ چاہیے کہ ہمارے ملک میں دس کروڑ آدمی اردو زبان بولتے اور اسی قدر اسے سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جو سمجھتے ہیں وہ ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتے ہیں۔ ورنہ ان کا سمجھنا نہ سمجھنا برابر تھ۔ ہماری زبان کو اردو اخباروں، مختلف زبانوں کے ترجموں، طب اور قانونی کتابوں، ریاضی کے رسالو، جدید تصانیف، اردو دیوانوں، گلدستوں، تذکروں، اردو تاریخوں، مذہبی کتابوں، علم ادب کے رسالوں اور آجکل کے مختلف عشقیہ ناولوں نے (گو ان میں سے اکثر حُسنِ اخلاکے حق میں زہر ہلاہل کا اثر رکھتے ہیں) بہت کچھ مدد پہنچائی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری مدارس نے بھی کچھ کمی نہیں کی۔ لوگوں کا یہ کہنا کہ عہد شاہجہاں یعنی پونے تین سو برس سے اردو زبان نے جنم لیا اور سو برس سے تصنیفی اور علمی زبان ہونے میں قدم رکھا۔ ہمارے خیال میں نہیں آتا، مگر ہاں یہ ضرور کہہ
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) اور تو اور تبت تک پہنچ گئی ہے۔ وہاں کےمسلمان تاجر مذہبی مسائل کے اردو ترجمے خرید کر لے جاتے ہیں۔ جس تبتی مقام سے پولو کا کھیل ایجاد ہوا ہے وہاں کی زبان کی جو ایک انگریز نے ڈکشنری میں لکھی ہے، اس میں اردو زبان کے بہت سے الفاظ ذرا ذرا سے تغیر سے موجود ہیں۔ تنتی مسلمان تاجروں سے ہم نے خود بھی ملکر دریافت کیا ہے۔
(۲) 1692ء میں یہاں دُھوم دھام سے تعزیہ داری اور ۔۔۔۔۔۔ مرثیہ خوانی ہوئی، جس میں ہندوستانی اور زنگیاری شریک تھے۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 17
سکتے ہیں کہ ہندوستان کی ایسی مروجہ زبان نے جسے اس وقت بھاشا اور خاص کر برج بھاشا کہتے تھے اردو نام اختیار کیا اور سو برس یہی زبان عدالتی زبان ہو جانے کے باعث عام ملکی زبان کہلائی مگر اصل میں اردو زبان چونکہ ایک مخلوط زبان ہے اور اس نے شاہجہانی لشکر کی بولی ہو جانے کہ وجہ سے ترقی پا کر اردو نام پایا، اس لحاظ سے ہمارا یہ کہنا غلط نہیں کہ اس زبان کی بنیاد اسی وقت سے پڑی جس وقت سے مختلف قوموں، مختلف نسلوں، مختلف اولوالعزموں، مختلف المذاہب، بیرونی بادشاہوں، تاجروں، سیاحوں، خدا پرست درویشوں نے اس ملک میں آ آ کر اس کی قیدیمی زبان میں اپنی مادری زبان کے الفاظ، لغات، اسماء و محاورات اصطلاحات وغیرہ کو مخلوط کیا اور ایک مدت دراز کے بعد اس اتفاقی اختلاط سے یہ زبان ایک معجون مرکب بن گئی اور شاہجہاں نے اسے ہونہار یعنی ترقی پذید اور عام فہم دیکھ کر اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ لکھنے کے واسطے دلالوں کا عہدہ قرار دیا۔ ان لوگوں نے دن بھر کے لین دین کی رپورٹیں انہیں الفاظ کے ساتھ شاہید حضور میں پیش کرنی شروع کیں۔ اردو بازار سے جس کا مقام قلعہ معلی کے لاہوری دروازہ کے سامنے جانب غرب بلاتی بیگم کے کُوچہ کی محاذی اب تک دہلی میں موجود ہے۔ یہ ہونہار بچہ پروان چڑھنا شروع ہوا۔ چنانچہ اب ہم عموما ہر ایک زبان اور خصوصا اردو زبان کے پیدا ہو جانے کے متعلق تھوڑا سا بیان لکھتے ہیں۔ جب سے کسی ملک کی خاص زبان میں دوسرے ملک کی زبان کے الفاظ داخل ہونے شروع ہو جائیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی نئی زبان کی بنیاد پڑی اور اصلی الفاظ کی بجائے نئے نئے الفاظ نے اپنا قدم جمایا۔ جس سے پرانی زبان کے لغات میں تنزل اور جدید الفاظ میں ترقی کا آغاز ہو گیا۔ نئی زبان پیدا ہونے کے کئی سبب ہوا کرتے ہیں۔ پہلا سبب تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، دوسرا سبب یہ ہے کہ جس زبان کے الفاظ میں ثقالت اور حرور کی مخارج میں بولنے والوں کو دقت ہوا کرتی ہے وہ یا تو اس کی بجائے دوسرے سہل الفاظ بہم پہنچانے کے جویا رہتے ہیں یا ان ثقیل اور دقیق الفاظ کر بگاڑ کر کچھ سے کچھ کر لیتے ہیں جس سے اس زبان میں سے ہی ایک نئی زبان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی زبان پراکرت یا کسی اصلی زبان کی شاخ کہلاتی ہے۔ سنسکرت کے زمانہ میں پراکرت اور پراکرت کے زمانہ میں پالیؔ زبان مگہ (۱) اور پراکرت کے میل سے اسی طرح مخلوط ہو کر ایک تیسری زبان بن گئی، جسے عوام الناس یا عام شہری باشندوں نے قبول کیا وہ پراکرت کہلائی۔ جسے گاؤں گنویں کے باشندوں یعنی زمینداروں، چرواہوں، گولوں، گھوسیوں نے اختیار کیا وہ پالی کے نام سے نامزد ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ سُریانی کے ہوتے عبرانی، عبرانی کے ہوتے عربی زبان بولی جانے لگی۔ تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ بوسیلۂ تجارت اجنبی ملکوں کی چیزوں کے نام خوب بخود کسی خلص زبان میں بڑھتے اور جگہ پکڑتے جاتے ہیں۔ چوتھا باعث یہ ہوتا ہے کہ غیر قوموں اور غیر ملکوں کے نتاحوں کے دخل یاب یا مسلط ہو جانے سے جو الفاظ ان کی زبان کے ساتھ آتے ہیں اگر وہ لوگ چلے بھی جاتے ہیں تو بہت سے اپنی قومی اور ملکی زبان کے الفاظ لوگوں کی زبان پر چڑھا جاتے یعنی بطور یادگارِ زمانہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اور جو اشخاص مفتوحہ ملک میں رہ پڑتے ہیں تو رہ ملک مفتوحہ کی زبان میں اپنی زبان سے دن دونی رات چوگنی ترقی کر دکھاتے ہیں۔ بلکہ ملکی باشندے فخریہ خواہ خوشامدانہ خواہ مفتوحانہ خواہ بوجہ ملازمت خود بخود ان کے الفاظ کو اپنی تحریر و تقریر میں لانے لگتے ہیں۔ دیکھو پرتھی راج کے زمانہ یعنی 1193ء بعد شہاب الدین غوری چند کوی (۲) ایک ہندی شاعر نے اپنی کتاب پر پرتھی راج راسا میں کس قدر عربی فارسی الفاظ استعمال کیے ہیں۔علیٰ ہذا کبیر جی نے سکندر لودھی کے زمانہ یعنی 1480ء میں گرو نانک صاحب نے 1500ء میں بابا تلسی داس اور سُور داس جی نے سترہویں صدی عیسوی میں اپنی اپنی مقبول خاص و عام تصنیفات میں کہاں تک عربی و فارسی الفاظ کو دخل دیا ہے۔
دہلی کے قلعہ معلے سے تعلق رکھنے والے مردوں یا عورتوں میں کوئی ہو گا جو اُن مغلیہ خاندان کی عہدہ دارنیوں سے جن کے نام ذیل میں درج ہیں، واقف نہ ہو گا۔ اردابیگنیوں، (۳) جسوانیوں، قلماقانیوں، انا، دوا، چھو چھو، یادی تارنیوِ مغلانیوں، خواص، بُو بُو، حبشنوں، ترکنوں وغیرہ کو نہ سمجھتا ہو گا۔ پانچواں سبب یہ ہے کہ جب اجنبی ملکوں کے روحانی قوت والے خدا پرست درویش یا اولیا اللہ کسی ملک میں آ جاتے اور اپنا اعتقاد لوگوں کے دلوں میں جما دیتے ہیں تو ان کے معتقد اور خاص کر عوام الناس ایسے لوگوں کے فوق العادت کرشمے ان کا استقلال، ان کا جلال دیکھ کر ان کی زبان کے وظائف، دعائیں، بھجن، قول، ملفوظات وغیرہ کو کو حزر جان بنا لیتے ہیں۔ ہر ملک کی عورتیں مردوں سے زیادہ سریع العقیدت، راسخُ الاعتقاد اور پابند رسوم و مذہب ہوتی ہیں۔ ان باتوں کو داخل عبادت اور اپنا دستور العمل بنا لیتی ہیں۔ چونکہ عام زبان کی اشاعت اور ترقی عورتوں پر زیادہ منحصر ہے۔ لہذا ان کے اقوال و افعال بھی زبان کا ایک جزو بن جاتے ہیں۔ بعض موقعوں پر یہ صورت بھی پیش آتی ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی پیغمبر، اوتار یا مذہبی پیشوا خواہ مجتہد العصر ہوتا ہے تو وہ بھی جس زبان کو درجہ قبولیت بخشتا ہے وہ ہی رواج بن جاتا ہے۔ اس کے ماسوا غیر ملکوں کے سیاحوں سے بھی بہت سے باتیں اس وقت کی موجودہ زبان میں شامل ہو جاتی ہیں۔ چھٹا سبب یہ ہے کہ دیگر تعلیم یافتہ ملکو کی اخلاقی، ادبی، مذہبی یا تاریخی کتابیں داخل درس ہو جاتی ہیں تو وہ بھی اپنا اثر بہ کچھ اس ملک میں پہنچاتی ہیں بلکہ ان کی فقری کے فقری تمثیلوں نظیروں ضرب المثلوں میں زبان زد ہو جاتے ہیں۔ بظاہر یہی صورتیں کسی نئی زبان پیدا ہو جانے کی معلوم ہوتی ہیں۔ پس ہندوستان کی اصلی زبان تو جو تھی وہ تھی کیونکہ وہ آریہ یعنی ایرین قوم کے ایک دفعہ ہی آ پڑنے اور قدم جما کر یہیں ڈیرے ڈال دینے سے اصلی باشندوں کے ساتھ ساتھ ہوتی چلی گئی۔ جو لوگ پنجاب کے شمالی پہاڑوں پر چڑھ گئے وہ وہاں لے گئے۔ جو دکن کی طرف اُتر گئے وہ اُدھر لے پہنچے۔ اسی وجہ سے اگر قدیم زبان کے بعض الفاظ کا کچھ پتا چلتا ہے تو شمال کی پہاڑی یا جنوب کی کئی اقوام مثلاً تامل، بھیل، اُڑیا، تلنگو وغیرہ میں چلتا ہے۔ یا ان الفاظ سے کسیقدر سُراغ لگتا ہے جن کا ماخذ سنسکرت تک بگڑ بگڑا کر بھی نہیں پہنچتا جیسے پگڑی ایک ایسا لفظ ہے کہ اس کا مادہ نہ سنسکرت قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی اور زبان۔ البتہ آریہ قوم کی وہ بردہ زبان جو آجکل کی بول چال یا تصانیف سے زمانہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے سرپرستوں کی عدم توجہی
---------------------------------------------------------------------------------------
(۱) بگہ دین واقع صوبہ بہار کی زبان
(۲) کوئی بمعنی کبیشر یعنی ہندی زبان کا شاعر
(۳) صحیح یساولنی
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 18
کے سبب دم چُراتی اور اپنے آپ کو قالب بے جان کا مصداق بناتی ہے۔ اپنی عُروجی زمانہ کے علوم و فنون یا مذہبی کتب سے روز روشن کی طرح یہ دکھا رہی ہے کہ ہمارا اصلی مسکن ایران کہو یا تُوران یاشیا کی سطح مرتفع بتاؤ یا جیحون و سیحون کے بڑے بڑے میدان یہی ہے ہمارے پُرکھا ہمارے بولنے والے ادھر ہی سے آئے اور وہاں کی زبان جو ژند پاژند یا زرتشت کے زمانہ کی زبان سے ملتی جلتی ہے اپنے ساتھ لائے اور اسی کو ٹکسال پر چڑھا کر سنسکرت ینعی دیوبانی یا اس زمانے کے شرفا و علماء کی بول چال خواہ درباری ۔۔۔۔۔۔۔۔ سنہ عیسوی سے گیارہ بارہ سو برس پیشتر منوچہر کے زمانہ میں سامؔ (۱) نریمان۔ رستم دستان کا ہند میں آنا اور سورج راے وائی قنوج کا رستم کے ساتھ اپنی بھانجی کا بیاہ دینا اور اس امر سے اس کا خوش ہو کر اپنے ملک ایران کا رستہ لینا۔ بعد ازاں افراسیاب کا اول مرتبہ پچاس ہزار ترکوں کا یہاں بھیجنا اور اخیر کو خود ایک لاکھ سوار لیکر چڑھ آنا۔ نیز سن عیسوی سے نو سو برس پہلے کیکاؤس کا اکثر اقطاعِ ہند پر قابض رہنا تاریخوں سے بخوبی ثابت ہے۔ اصل میں یہی زمانہ زبان اردو کی بنیاد پڑنے کا پورا پورا زمانہ ہے کیونکہ اس وقت راجہ بصرت تخت ہند پر جلوہ ارفروز تھا اور اُسی کے عہد میں برج بھاشا اضلاع ستھرا نیز ممالک مغربی میں اور پوربی بھا کا ممالک مشرقی میں رائج ہوئی۔ اسی نے زبان اردو کو اپنی آغوش محبت میں لیا۔
سنہ عیسوی سے 606 برس پیشتر آریہ قوم کے زمانہ استقلال میں کیخسرو بادشاہ فارس جو بخت نصر بادشاہ بابل کا ہمعصر تھا۔ آبنائے ہیلسپونٹ یعنی باسفورس سے دریائے سندھ تک حکمراں رہا۔ اس بادشاہ کے لشکر میں جسقدر ایران و توران کے لشکری اپنے اپنے دیس اور شہروں کی مختلف زبانیں بولتے تھے وہ سب شمالی ہند کے باشندوں کے دلوں میں بستی اور زبانوں پر چڑھتی جاتی تھیں۔ چونکہ اہل حکومت کی زبان بہت جلد دیسی زبان پر اپنا زبردست سایہ ڈال کر قابو کر لیتی ہے۔ پس فارسی آمیز زبان شمالی ہند میں اسی وقت سے جڑ پکڑ گئی۔ چنانچہ آج تک ملک پنجاب و سند میں فارسی الفاظ دیگر زبانوخ کے الفاظ کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ داراب بادشاہ فارس نے جو کیخسرو سے سو 100 برس بعد یعنی سنہ عیسوی سے پانچ سو برس پہلے ہند میں دڑھ کر آیا اپنی تزک میں لکھا ہے کہ "جب میں ہند میں آیا تو میں دو طرح کے آدمی اور دو ہی طرح زبانیں پائیں۔ جو کالے کالے قوی ہیکل مثل دیو آدمی تھے ان کی بولی مطلق میری کہہ میں نہیں آتی تھی۔ اور جو گورے گورے چھریرے جسم والے تھے ان کی بہت سے باتیں میں سمجھ جاتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے وہ یہاں کے کچھ آدمی اپنے ساتھ لے گیا جو غالباً وہی آریہ قوم کے لوگ ہوں گے جنکے الفاظ اس کی سمجھ میں آتے تھے مگر جو سیاہ فام تھے وہ اصلی باشندے یعنی دراوڑ نسل کے آدمی ہوں گے۔
پس یہ گورے چٹے آدمی وہی تھے جو زبان سنسکرت یا اس زبان کا ماخذ خواہ مادہ اپنے ساتھ لیکر آئے یا یہ کہو چونکہ سنسکرت اور فارسی کا ماخذ ایک ہی ہے۔ اس سبب سے ان لوگوں کی زبان ایران والوں کی سمجھ آتی تھی اور جو سمجھ میں نہیں آتی تھی وہ غالباً اس زمانہ کی پراکرت یعنی عام زبان تھی جو سنسکرت سے بگڑ بگڑا کر کچھ سے کچھ ہو گئی تھی یا اصلی باشندوں کی رہی سہی ویسی بھاکا سمجھو جو اب مرورِ زمانہ کے باعث نیست و نابود ہو گئ۔ اور اگر کچھ ہے تو وہ پراکرت یا پالی میں شامل ہو جانے کے باعث اپنا پتا نہیں لگنے دیتی۔ حال میں مُلک سند سے ایک پرانی کتاب کسی یورپین کے ہاتھ آئی تھی جسکے ایک طرف سنسکرت عبارت تھی اور دوسری جانب قدیم فارسی۔ ان دونوں میں بہت کم فرق پایا جاتا تھا۔ اس سے یہی ثابت ہے کہ عجب نہیں اول اول فارسی آمیز سنسکرت مدت تک ہند میں بھی جاری رہی۔ ہو۔ غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ ہندوستان کی اصلی زبان تو اس ملک سے غائب ہو گئی۔ اس کے بعد سنسکرت کو دور دورا ہوا۔ اس نے مدت تک اپنا ڈنکا بجایا۔ جب اس کا زمانہ کمال کو پہنچا تو مختلف ملکو کے سورماؤں نے آن آن کر اس ملک کی زبان میں اپنے اپنے وقت کی یادگار یعنی الفاظ چھوڑے۔ پہلے ایرانی آئے اُن کے بعد سنہ عیسوی سے 327 برس پہلے سکندر رُومی نے اور اس کے بعد اس کے جانشینوں جیسے صلیقوس یعنی سلوکس سپہ لالار سکندر بن فیلقوس نے سنہ عیسوی سے 323 برس پیشتر ہند پر چڑھائی کی تو چندر گُپت نے استواری صلح وازدیادِ محبت کی غرض سے سلیقوس کی بیٹی کو اپنی رانی بنایا اور صلیقوس اپنی میگاستھن نامی ایک افسر کو چندرگپت کے دربار میں اپنی پیاری بیٹی کو پاس چھوڑ گیا۔ چنانچہ یہ شخص عرصہ دراز تک ہندوستان میں رہا۔ اور سب سے پہلے اسی نے یونانی زبان میں ہمارے ملک کی ایک بسیط تاریخ لکھی۔ صلیقوس کے بعد اُس کے جانشینوں میں سے حاکم خراسان نے یونانی حکوت سے انحراف کیا اور کابل سے لیکر پنجاب نیز مالوہ تک حکمران ہو گیا۔ چنانچہ یہ ملک مدت تک اس کے اور اس کے ولیعہد کے عمل میں رہا۔
پس اس زمانہ میں کچھ کچھ یونانی الفاظ بھی یہاں کی ملکی زبان میں شامل ہوئے۔ جس وقت سنسکرت کا ستارا نہایت اوج پر پہنچا تو اس زبان کی قومی پابندی، دقت طلب مخارج اور مشکل الفاظ نے اس سے جی چُھرا دیا اور پراکرت کا رواج بڑھا دیا۔ یہی اس کے زوال کا ابتدائی زمانہ ہے۔ ساکھی مُنی نے اپنے زمانہ کی پالی اور پراکرت کو حضرتِ عیسیٰ سے 523 برس پہلے سموکیاس میں بُدھ مذہب کے اصول اور عبادت کی ڈھنگ پھیلائے جسے ہر ایک سمجھنے اور ماننے لگا۔ اسی زمانہ میں مسیح سے 263 برس پہلے راجا اشوک نے بُدھ مذہب کو راج دھرم ٹھہرا دیا۔ پھر کیا تھا اس موبان کو دن دُونی رات چوگنی ترقی نصیب ہونے لگی۔ جو ملک فتح کیا جاتا اس میں ایک لاٹھ یعنی مینار یا ستون بان اصولوں کا لکھ کر مع زمانہ فتح نصب کر دیا جاتا۔ لیکن برہمن سنسکرت کا تنزل، وید کی بد اعتقادی، ذاتوں کی تمیز کا اُٹھ جانا نہ دیکھ کسے۔ سنبھل سنبھلا کر لڑنے مرنے اٹھ کھڑے ہوئے اور آخرکار 1500 سو برس بعد گُلِ مراد لیکر اُٹھے۔ پھر سنسکرت کو از سر نو عروج ہوا۔ مسیح سے 57 برس پیشتر بکرماجیت نے سنسکرت کو بہت ترقی دی۔ اُسی کے زمانہ میں شکُنتلا کا ناٹک لکھا گیا۔ جس میں ہر ایک فرقہ کی اپنی اپنی زبان میں گفتگو ہے۔ 77ء میں راجہ شالباہن نے بھی جس کا ابتک سمت جاری ہے۔ برہمنوں اور سنسکرت کی بہت بڑی قدر کی اور اس کا نہایت حامی رہا۔ اخیر میں برہمنوں نے اٹھارہ کتابیں جنہیں پُران کہتے ہیں پرانے عقیدے کے موافق نئے سرے سے تصنیف کیں۔ جس کا زمانہ آٹھویں صدی عیسوی سمجھنا چاہیے۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 19
گو اخیر میں پُرانیں بھی بنیں بُدھ مذہب کو بھی زوال ہوا مگر سنسکرت کو مختلف فرقوں کے غلبے، مختلف حکومتوں کے زور اور آپس کے نفاق سے ایسا گُھن لگا کہ پھر نہ پنپی۔ اول اول اس کی بول چال موقوف ہوئی۔ اس کے بعد تصانیف نے پاؤں سمیٹھا۔ مذہبی روک ٹوک نے عوام کو سیکھنے نہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنسکرت ہندوستان میں پاؤں توڑ کر بیٹھ گئی اور جرمنی میں جا کر نئے سرے سے جنم لیا۔ جہاں ان زبان کے بولنے سمجھنے اور اس میں تصنیف کرنے والے بہت سے لایق پیدا ہو گئے۔ انہوں نے سنسکرت کی ڈکشنیریاں مختلف تصانیف میں، ایک ایک لفظ کیا موقع، ان کی ہر ای موقع کی استعمال کر دیکھ دیکھ کر تیار کر ڈالیں۔ آج سنسکرت کا جو ذخیرہ جرمنی میں موجود ہے تمام دنیا میں نہیں ہے۔ آمدم برسرِ مطلب۔ اُوپر کے بیان سے ہند کی اصلی زبان۔ آریہ قوم کی بولی اور سنسکرت میں سابقہ ایرانی اور یونانی زبان کی آمیزش کا سبب معلوم ہو سکا ہے اب اس سے آگے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جب اس بات کو قرنوں بزر گئے تو یہاں کی دولت، ثروت، خوشگوار آب و ہوا اور پیداوار کو دیکھ کر عربوں (۱) کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ اگرچہ ان کا یہاں آنا جہازوں کی لُوٹ مار اور تجارتی جھگڑوں کے سبب سے ہوا مگر دلی ارادہ یہی تھا کہ ہندوستان میں بھی اسلامی جھنڈا اسی طرح لہرائے جس طرح ایران میں فراٹے بھر رہا ہے۔ چنانچہ سب سے اول 636ء میں بخلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں میں سے ابو العاص حاکم یمن بمقام تھانہ واقع بمبئی پر حملہ آور ہو کر فتحیاب ہوا۔ اس کے اٹھائیس 28 برس بعد 664ء میں مُہلب بن ابی صفرہ نے ملتان پر قبضہ کیا۔ اڑتالیس 48 برس بعد 713ء میں خلیفہ ولید کے سردار محمد بن قاسم نے سند پر حکومت جمائی۔ یہ سب عربی النسل ہیں جنہوں نے 76 سال تک اپنی زبان کا ہند میں استعمال کیا اور عربی کے بہت سے الفاظ یہاں کی اس زباں میں جو ان کے ممالک محروسہ میں بولی جاتی تھی ملا گئے۔ اب مسلمانوں کا متواتر دور دورا شروع ہوا۔ اس زمانہ میں اسی کثرت سے ان کی زبان کے الفاظ برج بھاکا میں مخلوط ہوئے۔ جس کثرت سے آجکل انگریزی الفاظ دھینگا دھینگی سے اپنا سکہ بٹھا رہی ہیں۔ چونکہ اسلامی زمانہ میں اس کثرت سے سرکاری مدارس نہ تھے۔ صرف دیسی مکتب یا خانقاہوں اور مسجدوں کی عربی فارسی مذہبی درسگاہیں تھیں جنہیں تمام ملک میں علم پھیلانے اور ایک سرے سے سب کو شائستہ اور تعلم یافتہ بنانے سے غرض نہ تھی۔ بلکہ تعلیم میں یہ بھی پخ لگی ہوئی تھی کہ شریفوں کے سوا ادنی قوموں کو اہل نہ بنایا جائے۔ کیونکہ ان کی کمینہ عادتیں، سفلہ طبیعتیں حصول علم سے اپنی آبائی اور ذاتی سرشت اور جبلت کے اثر کو زائل نہیں کر سکتیں چنانچہ ہماری اس بحث کے متعلق تذکرۂ دولتِ شاہی میں بھی چند مثالیں ایسی موجود ہیں کہ کمینوں نے شاہی ضرورتوں کے موقع پر بجائے قرض لاکھوں روپیہ اس شرط پر دینا چاہا کہ ہماری اولاد کو تعلیم دیجائے مگر اس وقت کے بادشاہوں نے اس امر کی مطلق پرواہ نہ کی۔ اس پر بھی سیکڑوں ہزاروں ان کے زبان کے لُغت ہند کی زبان میں مخلوط ہو گئے۔ اور ایسی حالت میں کہ سرکاری اسکول دیہات سے لیکر ۔۔۔۔۔۔۔ دیار میں بکثرت موجود ہیں نیز انگریزی زبان لازمی زبان قرار پائی ہے کیوں نہ انگریزی الفاظ افراط سے نوکِ زبان ہوں۔ گھر کی بیٹھنے والی عورتیں تک انگریزی زبان کے بہت سے الفاظ بولنے لگی ہیں۔ گویا ان کی زبان بھی اب خالص زبان نہ رہی۔ ریل کی، تار کی، ڈاک کی، عدالت کی ضروری اصطلاحیں تمام عورتیں جانتی ہیں۔ جنکے بچے مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں۔ ان کی ماں بہنیں مدارس کی بہت سی اصطلاحوں سے واقف ہو گئی ہیں۔ وہ کون عورت ہے جو پاس، فیل، کاپی، سلیٹ، پنسل وغیرہ نہیں سمجھتی۔ وہ کون سی نیک بخت ہے جو پرائمری، مڈل، ٹائم کو نہیں جانتی۔ پس اسی طرح مسلمانوں کی حکومت نے ہندوستانی زبان کو عربی، فارسی اور ترکی زبان سے ترقی بخشنی شروع کی بلکہ ترکوں کا نام تو یہاں تک دلوں میں گھر کر بیٹھا کہ ہر ایک مسلمان کا نام تُرک پڑ گیا۔ جسطرح ہولی کی رنگرلیوں میں کرشن جی کا نام لطف دیتا ہے اسی طرح عاشقانہ دھینگا دھینگیوں اور چھیڑ چھاڑ میں ترکوا کا لفظ مزا دینے لگا مثلاً ترکوا نے مچھ لئی گا گریا، کیسے کروں موری ساسریا (۲)۔ حتی کہ بعض اوقات پیار اور محبت کے موقع پر بھی مسلمان کی بجائے تُرک کا لفظ زبان پر آنے لگا۔ حضرت نظام الدین اولیا تو حضرت امیر خسرو کو محبت اور لاچینی تُرک ہونے کی وجہ سے تُرک اللہ ہی کے خطاب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے اس شعر میں بھی خسرو کو خصوصیت کے ساتھ تُرک فرمایا ہے گر برائے تُرکِ تُرکم ارہ برتاک نہند – ترک تارک گیرم و ہرگز نگیرم ترک تُرک۔ مگر حضرت امیر خسرو نے خود بھی اپنے ہندی فارسی اشعار میں اس طرح باندھا ہے ہندہ بچہ بیں کہ عجب حُن دھرے چھے – بروقتِ سخن گفتن مُکھ پُھور جھرے چے۔ گفتم زلبِ لعلِ تویک بوسہ بگیرم – گفتا کہ ارے رام تُک کائیں کرے چھے صرف اُسی زمانہ میں نہیں اگر آپ اب بھی دیہات کا گشت لگائیں تو دیکھ لیں کہ اکثر مقامات میں اسوقت تک عموماً بڑی عمر والے اور ان سے کم نئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے لوگ مسلمانوں کو تُرک ہی کہتے ہیں۔ غزنوی خاندان کی دو سو دس سال کی حکومت نے جو 976 سے 1186ء تک رہی غور خاندان کی سلطنت نے جسکا 58 برس چراغ روشن رہا۔ غلاموں کے خاندان نے جنکی غلامی میں 84 برس بسر ہوئے۔ خلجیوں نے جنہوں نے تین 30 برس تک ہندوستان میں حکمرانی کی۔ خاندان تغلق نے جو 94 برس حکمراں رہا۔ خاندانِ سادات نے جس نے 36 سال سے زیادہ عمر نہ پائی۔ خاندان لودھی نے جو 76 بر تک اپنا ڈنکا بجاتا رہا۔ خاندان مغلیہ نے جو 331 سال تک ہند کا چراغ روشن کرتا رہا۔ اپنی اپنی زبان کے کون سے الفاظ تھے جو ہند میں نہ پھیلائے۔ اور ہندی زبان کو کون سی رسمیں، اصطلاحیں اور عادات تھیں جنہیں خود اختیار نہ کیا۔ غرض سب کو گڈمڈ کر کے ایک عجیب نسخہ سجونِ مرکب تیار کر دیا۔ اُسی زمانہ کے اخیر میں کہ سلطنت مغلیہ نے پاؤں پیٹنے شروع کر دیے تھے۔ مغربی بادشاہوں نے مختلف طریقوں سے ہند کی سر زمین میں قدم رکھنا شروع کیا۔ کبھی پرتگیزوں نے یہاں آ کر پاؤ روٹی کی جسے نان پاؤ اور ڈبل روٹی کہتے ہیں حاضری کھائی۔ کبھی ولندیزوں نے کبھی ڈنمارک والوں نے کبھی فرانسیسیوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی۔ اور 361 برس تک یہاں کی ہوا کھائی۔ جنکو جو جگہ راس آئی وہیں رہ پڑے اور ابتک ہیں۔ مگر سب سے زیادہ جلال اور استقلال کے ساتھ جو منصفانہ حکومت آئی وہ انگریزی حکومت ہے۔ اس نے بدامنی کو مٹا کر امن قائم کیا۔ سرکشوں کا سر کُبلا اور 134 برس سے ابتک ترقی پر ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔
برج بھاکا میں جس نے سب سے اول اپنا رنگ جمایا وہ سلطان الشعراء حضرت امری خسرو بادشاہ سخن طوطیٔ شکر مقال شاعر بے مثال کہ کہہ مکرنیا، پہلیاں، ڈھکوسلے، گیت، دو سخنے، کہاوتیں، انملیاں تھیں۔ آپ خلجی بادشاہوں کے زمانہ میں تھے جسے چھ 600 سو برس کے قریب عرصہ ہوا۔ 1325ء میں انتقال فرمایا۔ ہندی آمیز فارسی غزلیں انہوں کہیں۔ خالق باری بنا کر عربی فارسی ہندی الفاظ کی نظم میں
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) ایک محقق اپنے لکچر میں لکھتا ہے کہ "مذہب اسلام سے پہلے ہندو تجار کے عربستان جاتے تھے اور بہت سے عربوں نے ہندوستان کو اپنی تجارت کا پالا بنا رکھا۔
(۲) ساس کی تصغیر ہے۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 20
ڈکشنری انہوں نے بنائی۔ دُھرپد کی بجائے قول انہوں نے ایجاد کیا۔ راگ، راگنیاں بلکہ ساز تک بنا ڈالے۔ عجب زندہ دل، خوش طبع، خوش مزاج، خوشخو، خوشروع آدمی تھے۔ اس زمانہ کی عورتیں انکے گیتوں کو بڑے شوق سے گانے اور ان سے ہر طرح کا مذاق کرنے لگی تھیں۔ ان سے گیت بنانے کی فرمایش ہوتی اور یہ فوراً ان کے مزاج کے موافق گھڑ کر انہیں خوش کر دیتے۔ لڑکیوں میں پہلیاں اور سکھیاں اسطرح پھیلتیں۔ جس طرح کرشن جی کے زمانہ میں گوپیاں مشہور ہوئیں۔ خدا داد قبولیت اں کے کلام اور ان کی ذات کو اس قدر نصیب ہوئی کہ اس زمانہ کے استادان سخن اور اولیاء اللہ نے بھی داد دی ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ 1324ء (725ھ) میں مسلمان خاص بھاشا اور ہند و فارسی آمیز ہندی بولنے لگے۔ اور مسلمانوں نے اسی زبان کو اپنی زبان سمجھا۔
برج کی زبان نہایت شیریں رسیلی اور اُلفت بھری زبان ہے۔ جس کی وجہ وہاں ایک ایسے اوتار کا جنم لینا سمجھنا چاہیے جو زندہ دلی، خوش مزاجی، حکیم الطبعی کا بڑا بھاری بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی پیدائش سے برج کو اشرفُ البلاد و فخر الامصار بنا دیا تھا۔ اُس کے فلسفیانہ چوچلے حکیمانہ چٹکلے آجتک خوش مزاجوں کے دلوں میں چٹکیاں لیتے ہیں۔ اس کے ہر ایک کھیل، ہر ایک حرکت سے رنگ وحدت ٹپکتا تھا۔ چنانچہ چوک چکنی (۱) کے تہوار میں جو بھادوں سُدی چوتھ کو ہوا کرتا ہے، جس میں کئی کئی آدمی یا لڑکے حلقہ بنا کر ڈنڈوں سے کھیلتے ہیں، اُسکی آواز سے ثابت ہوتا ہے کہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت نمایاں ہے۔ یہ بھی کرشن جی کا ایجاد ہے۔ ہمارے خیال کے موافق وہ پکا موحد، بہت بڑا ظریف الطبع فلاسفر اور وشنو کا سولہواں 16 اوتار تھا۔ اُس کی طفلانہ حرکتیں عاقلانہ حکمتوں سے بھر ی ہوئی ہیں۔ اس کی محققانہ تصنیف آلہیات سے پُر ہے۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو ایسے شخص کی نسبت سفلانہ خیال رکھتے ہیں۔حیف ہے ایسے مؤرخوں پر جو اس کے حالات کی نُکتہ چینی کرتے ہیں۔ وہ بیشک ہندوستان کا پیغمبر اور اہل ہند کا رہبر تھا۔ کرشن اور رامچندر ایسے دو اوتار ہوئے ہیں کہ ان کے اخلاق نے صرف اخلاقی ترقی ہی کو کام نہیں فرمایا بلکہ اپنے اپنے ملک کی زبان کو بھی وہ محبوب الخلائق بنایا کہ ادھر کرشن جی کی بدولت برج بھاکا نے روپ نکالا اور ادھر رمچندر جی کے طفیل پوربی بھاکا نے جوین پکڑا بلکہ بنو باس کے زمانہ میں دکن اور لنکا تک بھی فیض پہنچایا۔
ان دونوں اوتاروں کی داستانیں اس وقت تک مُردہ دلوں کو زندہ کر دینے اور ہر وقت ایک نئی رُوح پھونکنے والی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے عجیب نکتےحل ہوتے ہیں اور غضب کی معلومات پڑھکر آیندہ کےلئے نہایت مفید نتیجے نکلتے ہیں۔ ان کی داستانیں کیا ہیں، حیات و ممات کی معلومات کے رخت و عبرت افزا فسانے بلکہ خزانے ہیں سرسری ہم جہان سے گزرے – ورنہ ہر چا جہانِ دیگر تھا۔ رامچندر جی کو ہندؤ وشنو کا آٹھواں اوتار اور ۔۔۔۔۔ جگ کا سردار مانتے ہیں۔ اب ہم ذرا اس زمانہ کی خاص اردو زبان کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اردو تُرکی زبان میں لشکر گاہ اور بازار لشکر کو کہتے ہیں۔ چونکہ اردو مراد اکثر بادشاہی لشکر سے ہوا کرتی ہے، لہذا تعظیماً اسے اردو معلے کے نام سے نامزد کرنے لگے اور آخیر میں لشکری بولی پر اس کا اطلاق ہونے لگا۔ یہاں اردو سے ہماری مراد اردئے شاہجہاں ہے۔ آجکل قرب دہلی کی وجہ سے یا اس باعث سے کہ اسی کی سرزمین میں یہ شہر آباد ہوا، شاہجہان آباد کو بھی دلی کہنے لگے اور وہاں کی بولی کو دلی کی زبان۔ دلی ملک قدیم اور پرانا شہر ہے۔ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے راجہ مہاراجہ اسی خطہ میں دارالسلطنت بنا کر قیام پذیر رہے۔ لیکن اس زمانہ میں ہر ایک اپنی اپنی بولی بولتا تھا۔ ایک کی زبان دوسرے کی زبان سے نہیں ملتی تھی۔ اس زبان کو اس زمانہ کی بھاکا کہا کرتے تھے۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی عملداری آئی اور مسلمان یہاں کے شہروں میں آ کر بسے تو انہیں بڑی دقت پیش آئی۔ سودا سُلف کا لینا دینا۔ اپنا مفہوم سمجھاجا ان کا مفہوم سمجھنا مشکل پڑ گیا۔ اگر خود دکانیں لگاتے ہیں تو اپنی قوم کے سوا کوئی دوسرا سودا خریدنے نہیں آتا۔ اور جو دوسروں سے لیتے ہیں تو گُڑ کی جگہ نمک اور نمک کی جگہ دال دکھاتا ہے۔ ادھر انہیں غصہ آتا ہے اُدھر بیچنے والا پیچ و تاب کھاتا ہے اور کسی کا سودا نہیں بنتا۔
اول اول تو مسلمانوں کی عملداری میں بھی اختلاف رہا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ کبھی کسی خاندان کی حکومت ہوئی۔ کبھی کسی بادشاہ کی سلطنت۔ اس سبب سے کوئی خاص زبان مستقل نہ ہو سکی۔ چنانچہ انگریزی تیرھویں ہجری ساتویں صدی بعہد محمد شاہ تغلق و علاء الدین خلجی میں زبان کا رواج تھا۔ اس کی اس دوہی سے جو حضرت شیخ شرف الدین بو علی قلندر صاحب کی زبان مبارک سے مبارز خاں صاحب کے اردۂ سفر کے موقع پر نکلا تھا، بخوبی پتا لگتا ہے کہ کیسی صاف اور سیدھی زبان تھی گو اس میں سرتاپا ہندہ الفاظ جیسے کہ دوہوں میں ہوا کرتے ہیں پائے جاتے ہیں مگر زبان عام فہم ہے اور عام فہم بھی ایسی کہ اس زمانہ کی ہندی سے ذرا سا مس رکھنے والے بھی بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ وہ دوہا یہ ہے سجن سگارے جائیں گے اور نین مرینگے روئے – بدھنا ایسی رین کر جو بھور کدھی نا ہوئے۔ اسی مضمون کو آپ نے فارسی میں اس طرح ادا کیا ہے من شنیدم یارِ من فروا رو دراہ شتاب – یا الٰہی تا قیامت بر نہ آید آفتاب۔ ہاں مختلف زبانوں کے لُغات و الفاظ ایک دوسرے کی زبان پر چڑھنے لگے بلکہ بعض کبیشروں، ہند کے مصنفوں اور یہاں کے شاہی ہندو عہدہ داروں نے تو اپنے کتبوں اپنی پوتھیوں اور عرائض میں بھی انہیں برتنا اور اپنی بھاکا میں داخل کرنا شروع کر دیا۔ بعض مسلمان ذکی الطبع ایسے بھی ہوئے کہ انہوں نے صرف اس زمانہ کی بھاکا ہی حاصل نہیں کی بلکہ سنسکرت میں بھی مہارت بہم پہنچا کر مہاکبیشر اور گیانی پنڈت بن گئے۔ خان خاناں کے اشلوک آجتک لوگ نہیں بھولے۔ پشتکوں میں، پوتھیوں میں۔ کجکولوں میں درج کر گئے۔ اور انہوں نے ضرب الامثال کا درجہ حاصل کر لیا۔ بلکہ حکیمانہ توان اور بزرگانہ ملفوظات میں شمار ہونے لگے۔ اس کے علاوہ بھاٹوںے بھی خانخاناں کے بہت سے اشلوکوں کو اپنی روزی کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔ علیٰ ہذا دارا شکوہ نے سنسکرت میں وہ دسترس حاصل کی کہ اُپنشدوں اور نیزلوگ بششٹ پران یعنی تصنیفاتِ موحدان کامل کا ۔۔۔۔۔۔ میں ترجمہ کر دکھایا۔ یہی نہیں بلکہ اس زمانہ کے بھگتوں، لیڈروں، پیشواؤں اور مختلف پنتھ کے بانیوں نے بھی اپنی بانیون بھجنوں اپنے قولوں اپنی تصنیفات میں انہیں جگہ دی۔ مسلمانوں میں سے امیر خسرو نے خلبیوں اور تغلقوں کے زمانہ میں وہ ہر دلعزیزی پیدا کی کہ ایک ایک گلی اور کوچہ کا بچہ، ہر گاؤں کی گیتا کریاں ہر قریہ کی زمیندارنیاں جاننے لگیں۔ بڑے بڑے گویوں نے انہیں ندیک مانا اور ان کے ایجاد
---------------------------------------------------------------------------------------
(۱) یہ لفظ اصل چوتھ چاندنی ہے۔
(۲) ہندی شاعرہ عورتیں
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 21
کر دہ راگوں کو حرزِ جان بنایا۔ حتی کہ آپ تک ان کے نام کے ساتھ بڑے بڑے کلانوت اپنا کان پکڑتے ہیں۔ محمد جائیسی نے جو 1600 ء میں بعہد شیر شاہ گیت بنائے۔ دوہے بنائے، پدماوت بھاکا لکھی وہ اچھے اچھے بھاکا زبان کے استادوں، اہل زبانوں کو پرے بٹھاتی ہے۔ فیضی نے بھی کچھ کم مہارت پیدا نہ کی۔ ہندوستان کے پاک طینت موحدوں، صلح کل طبیعتوں جیسے بابا نانک (۱)، کبیر جی، داؤد وغیرہ نے اپنے دوہوں، شبدوں، ساکھیوں، گرنتوں میں مسلمانوں کے الفاظ کو عزت سے برتا اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا ہے، مگر اتنوں میں سے کوئی بھی اس زبان کی اصلاح اور تدوین پر متوجہ نہ ہوا۔ ہاں اکبر عہد میں جس وقت کہ مُغلیہ سلطنت کو قیام اور امن و امن کو سانس لینے کی فرصت ملی۔ لوگ اپنے اپنے تھکانے بیٹھے۔ تو ہندو اور مسلمان شیر و شکر ہو گئے۔ ہندوؤں کو معزز خطاب ملنے لگے۔ منشی، محرر، مقصدی، برطیق ایران مرزایانِ دفتر کہلانے لگے اور علمی چرچا شروع ہوا۔ لیکن اس وقت میں فارسی زبان کی وہ قدر تھی کہ کایستوں نے تو سکندر لودھی کے وقت یعنی 1488ء سے ہی اپنا معیار علم اسی پر ٹھہرا کر دفتروں کا کاروبار سنبھالا تھا۔ مگر اور قوموں میں بھی شوق چرا گیا۔ جس وقت شاہجہاں تخت سلطنت پر متمکن ہوا اور اس نے انتظام سلطنت کے لحاظ سے یہ قانون مقرر کیا کہ ہر ایک ملک،ہر ایک محروسہ ریاست کے وکلا حاضر دربار رہا کریں اور کلی کو از سرِ نو آباد کر کے قلعہ معلے یعنی لال قلعہ بنایا، اس شہر کا نام شاہجہاں آباد قرار دیا اور ایسا بھاری جشن کیا کہ جشن قیصری سے بھی باعتبار کثرتِ انعام و اکرام، خاطر و مدارات، رعایا پروری اور جُود و سخا میں بڑھا ہوا تھا۔ جسے کوئی خطاب یس منصب عطا فرمایا، اسی حیثیت کے موافق اس کے مصارف کا بھی جاگیر سے کفیل ہو گیا یا کوکئی اور رستہ نکلا دیا۔ اس جشن کے موقع پر بھانت بھانت کا پکھیرو ڈال ڈالی کا طُوطیٔ خوش الحان اپنی اپنی بولیاں بول رہا تھا۔ تمام ملکوں کے لوگوں جمگھٹا تھا۔ ہر ایک کی گُفتار و رفتار جدا تھی۔ ہر ایک کا رنگ ڈھنگ نرالا تھا۔ لباو و پوشاک انوکھی۔ جس وقت آپس میں مصافحہ کرتے بات چیت کی نوبت پہنچتی تو چار لفظ اپنی زبان کے ہوتے تو دو سمجھانے کے واسطے دوسرے کی زبان کے مجلسوں میں، جلسوں میں بہت سی باتیں ایسی سرزد ہوتیں کہ اس موقع کی زبانوں کا ایک گلدستہ بن جاتی۔ ہر ایک پنکھڑی کی خوشبو، اس کا رنگ اس کی بناوٹ اپنا اپنا انوکھا جوبن دکھاتی۔ رفتہ رفتہ بادشاہی امیر و امرا نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔ بیگماتِ قلعہ، محل، حرمیں، پرستاران شاہی ہندی نژاد ہونے کی وجہ سے اس زبان کو جھت لے اُڑیں۔ ہندی، فاریسی، عربی، ترکی اسطرح آمیز ہوئے کہ ایک زبان اور چار مزے کی آواز کانوں میں پڑنے لگی۔ بازار کی خرید و فروخت نے بھی یہی عالم اختیار کیا۔ ہر ایک چیز کی خوب دھڑلے سے بکری ہوئی اور ازخود ایک نئی زبان کی صورت نظر آنی شروع ہوئی۔ بادشاہ کو جو یہ پرچہ گزرا تو اس نے اپنے زمانہ کی ایک ہمیشہ نام چلانے والی زندہ اور مبارک یادگار خیال کر کے ایک عہدہ تجویز کیا۔ اس کا نام دلالی رکھا۔ چونکہ دلال بخوبی رہنمائی کرنے والے اور دلالی خاطر خواہ رہنمائی کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً بائع و مشتری میں سودا کرانے والے کو۔ لہذا لغوی و اصطلاحی دونوں معنی کے خیال سے یہ لفظ اس موقع کے لئے نہایت موزوں رہا۔ اول اول خاص شاہی لشکر میں بعد ازاں ہر ایک بازار میں دلال مقرر کر دیئے کہ دن بھر جو کچھ سودا سُلف لیتے دیتے وقت ایک دوسرے سے الفاظ سنیں انہیں قلمبند کر لیں۔ چنانچہ یہ کام سرعت کے ساتھ جاری ہو گیا اور یہاں تک رواج بڑھا کہ ہر ایک شہر اور ہند کے ہر ایک ملک میں یہ ایک پیشہ قرار پا گیا۔ دکانداروں نے خوشی خوشی ان کا حق تسلیم کر لیا۔ فی روپیہ یا فی سیکڑا یہ ڈسکؤنٹ کے حقدار ہو گئے۔ غرض دلالی ایک موروثی عہدہ نیز پیشہ بن گیا اور اخری کو ان لوگوں کی نیت بگڑ کر یہ نوبت پہنچی کہ اپنی بولی اور گنتی بھی الگ کر لی۔ گاہک کے ساتھ آئے اور دکان دار سے ایک کونہ پر بیٹھ کر کہ دیا کہ لالہ جی ان کو اچھا اور کفایت کا مال دینا، ہم کونہ پر بیٹھے ہیں۔ ہمارا کچھ خیال نہ کرنا۔ اس سے یہ غرض ہوئی کہ چوتھائی حصہ ہمارا ہے۔ آگے تم جانو اور تمہار کام۔ کبھی فرمایا کہ دیکھو لالہ ایسے گھرے گاہک کو نہ ٹالنا۔ ہمیں تو صرف گالی سے غرض ہے۔ ان کو عمہد مال ملجائے۔ تمہارا گاہب پٹ جائے۔ یعنی ہم روپیہ کے نفع میں آٹھ آنے کے شریک ہیں۔ یہ خریدار گانٹھ کا پورا آنکھوں کا اندھا دوسرے کی دکان سے اُچٹا کر لائے ہیں۔ یہ باتیں وہ ہیں جو سینہ بہ سینہ ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں۔ اور ہم نے انہیں اسی موقع کے واسطے لگا رکھا تھا۔ محمد شاہی عہد غالباً 1729ء میں نادر شاہ کی غضبناک چڑھائی کی خبر سُنکر کہا تھا کہ نادر شاہ کل کا آتا آج آ جائے۔ اپنا سر کھانے مگر یاروں کی ٹوڑی کا وقت نہ جائے۔ ٹوڑی مالکوس راگ کی ایک راگنی کا نام ہے۔ آپ کو یہ راگنی نہایت پسند تھی۔ ان کے زمانہ میں بھاکا آمیز اردو کے بہت سے گیت ٹپے ٹھمریاں، راگ، راگنیاں بن گئیں۔
کیا تو یہ زبان گھٹنیوں چل رہی تھی کیا ایک دفعہ ہی سپاٹا بھرنا شروع کیا۔ مگر چونکہ اول اول اس کی شاہجہانی لشکر سے ابتدا ہوئی۔ لہذا اس کا نام بھی اردو پڑ گیا۔ قلعۂ معلےٰ کے لاہور دروازہ کے سامنے اردو بازار کے نام سے ایک بازار بھی آباد ہو گیا جو بلاقی بیگم کے کوچہ اور چاندنی چوک کے سڑک کے جنوبی پہلو پر واقع تھا۔ اب روز بروز اس کی تراش خراش ہونے اور یوماً فیوماً رونق بڑھنے لگی۔ فارسی کے محاورات ہندی میں ترجمہ ہوئے۔ عربی فارسی اسموں اور مصدروں کو ہندی مصدروں کی علامت لگا اردو بنا لیا۔ امیر خسرو نے تو یہاں تک اجتہاد کیا کہ چلنے سے چلیدن بنا کر فارسی میں رائج کر دیا۔ حتیٰ کہ اب ترجموں اور تصانیف کا دفتر بھی کُھل گیا۔ کسی نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا۔ کسی نے شہادت نامہ لکھا کسی نے چار درویش سنبھالا۔ کوئی نظمپر جُھک پڑا۔ ولی گجراتی نے بعہد عالمگیر 1658ء بمطابق 1046ہجری میں سب سے اول دیوان لکھ ڈالا۔ شاہ حاتم، فغاں، خان آرزو نے دلی کی زبان کو منجھا، مگر ان سے پانچ برس پیشتر شاہ عالم ثانی نے 1759ء مطابق 1173 ہجری میں نظم کا شوق کیا اور آفتاب تخلص فرما کر چار دیوان لکھے اور اس زبان کو پہلے سے بہت زیادہ ترقی دے کر چمکایا۔ ان کے بعد مظہر جانجاناں، میر سوز، میر تقی، مرزا رفیع سودا اور خواجہ میر درد کے وقت میں تو یہ فنِ شعر میں عالم شباب پر پہنچ گئی۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 22
ان لوگوں کی خوش بیانی اور طلاقتِ لسانی نے اسے چار چاند لگا دیئے۔ چنانہ ان کی خوش بیانی کے آوازہ نے ان کے کلام کا آویزہ بنا کر ہر ایک سخن فہم کے گوشِ فصاحت نیوش میں پہنا دیا۔
مصحفی – سید انشاء جرأت گو ان کے پیرو بنے مگر ان کو نہ پہنچے۔ البتہ ناسخ، آتش، نصیر، مومن، ذوق اور غالب نے اردو کو معراج پر پہنچا دیا۔ اور اب اخیرمیں داغ معاملہ بندی، درد بھری سخن گوئی، سخن سنجی، فصاحتِ کلام میں ابنائے زمانہ پر سبقت لے جا کر ہر ایک اہل زبان کو اپنا داغ دے گیا۔ حضرت معروف حضرت عارف حضرت نیز رخشاں یوسف علی خاں عزیز، میر مجروح، انور پہلے ہی چل بسے تھے۔ ایک حضرت حالی (۱) کا دم رہ گیا۔ خدا تعالےٰ انہیں عمر نوح عطا فرمائے اور ہمارے بقیہ زندگی بھی ان کی حیات میں ملا کر خلق اللہ کو فیض پہنچائے ہر زمانہ میں تغیر و تبدل ہو کر یہ زبان منجتی اور صاف ہوتی چلی گئی۔ شاہجہاں آباد کی زبان کو ہند میں وہی شرف حاصل ہے جو شیراز کی زبان کو ایران میں، عربی کو مکہ میں، فرانسیسی کو پیرس میں۔ انگریزی کو لندن میں۔ اس شہر کی زبان اردو بولنے والوں کے لیے سند اور یہ شہر اس کی اصل ٹکسال اور گھر ہے۔ بعض زبانوں کے غیر مانوس، غیر ضروری الفاظ جو بلا ضرورت اپنی علمیت جتانے کی غرض سے اس زبان میں زبردستی ٹھونسے جاتے ہیں وہ زبان کے لطف کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اس میں سنسکرت کے الفاظ ہوں خواہ عربی کے، فارسی کے لغت ہوں خواہ انگریزی کے بعض نہایت بے جوڑ اور بے تُکے معلوم ہوتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں اردو کی تصنیف و تالیف کثرت اخبار اور ترجموں کی افراط نے اسے علمی زبان بنا دیا اور یہ ہمارے ملک کی ایک مستند زبان ہو گئی مگر بے میل پیوند کسی طرح خوشنما اور موزوں نہیں ہوا کرتا۔ غیر مانوس اور خشونت انگیز الفاظ کمخاب میں ٹاٹ کا پیوند معلوم ہوتے ہیں۔ اس زبان کی تکمیل میں اگر کسر تھی تو فن لغات مصطلحات کی تدوین کی کسر تھی۔ سو خدا تعالٰی نے اس عشق ہمارے دل میں دالا۔ اور ہم نے باوجود تنگدستی اسے پورا کر کے دکھا دیا۔ گویا اب ہمارے زبان کو آئندہ نسلوں کے واسطے موجودہ و سابقہ الفاظ کا ایک عمدہ ذخیرہ اور لُغات کی ترقی کا ایک معتدبہ سامان بہم پہنچ گیا۔ ہمارے زمانہ کی تہذیبی اور شریفانہ زبان یہی قرار پائی۔ گو آپ کے جھگڑے اور خود غرضانہ پالیسی اسے نقصان پہنچانے میں کمی نہ کرے مگر یہ زبان اب مٹنے والی نہیں۔ ریل نے اسے عام بلکہ عالمبیر بنا دیا۔ تویا اردو زبان ہند کی ملکی زبان ہو گئم۔ نہ یہ مسلمانوں کی خاص زبان ہے نہ ہندوؤں کی نہ کسی اور کی یہ تو اپنے دیس کی سہل المخارج، سریع الفہم، ہمہ گیر، ہمہ صفت موصوف۔ عام پسند وہاں ہے جس کے لئے مدراس کی تعلیمی کانفرنس نے بھی سرکار سے یہ درخواست کی ہے کہ وہاں کی دیسی زبانوں میں اردو بھی تسلیم کی جائے۔ ہماری زبان کوئی اکل کھری زبان نہیں ہے۔ اس میں سب زبانوں کی کھپت اور سمائی ہے۔ یہ اسی زبان نے صلاحیت اور ملنساری پائی ہے کہ ہر ایک زبان کے الفاظ خواہ کسی لہجہ اور کیسے ہی مشکل مخرج سے تعلق کیوں نہ رکھیں، اس میں بآسانی جزو بدن ہو جاتے ہیں۔ تُرکی کا غ، عربی کا ع، فارسی کی ژ، اٹلی کی ث، سنسکرت کا ش، ہندی کا ڈھ، انگریزی کی ٹ۔ غرض جس زبان کا سخت سے سخت اور نرم سے نرم لفظ چاہو اس میں کھپا لو اور اردو زبان بولنے والے سے اسکے اصلی تلفظ کے موافق نکلوا لو۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ ہمارے ملم میں دیس دیس کی آب و ہوا کا لطف، ہر ایک موسم کا سماں موجود ہے۔ ہمارے ملک والے جس غیر زبان کو چاہتے ہیں، اس عمدگی اور خوبی سے بولنے لگتے ہیں کہ اس کے اہل زبان بھی تمیز نہیں کر سکتے کہ یہ کسی غیر دیس کا آدمی ہمارے بولی بول رہا ہے یا ہمارا ہی ہموطن اور ہمزبان ہے۔ اور تو اور یہاں کے بعض پرندوں کو بھی یہ ملکہ حاصل ہے کہ انہیں جونسی زبان چاہو سکھا لو۔ بلوا لو۔ بنگالہ کا مینا اور ہندوستن کے طوطے کی بولی پر صاف انسان کا گمان ہوتا ہے بلکہ اور پرندوں کی بولی بھی یہ جانور ایسی اُڑا لیتے ہیں کہ سننے والے کو تمیز نہیں ہونے دیتے کہ یہ بلبل ہزار داستاں ہے یا طُوطیٔ شکرستاں، اس سے بڑھ کر اور بات سنئے کہ یہاں کے بعض لوگ جانوروں کی بولی بول کر ادھر آدمیوں کو اُدھر جانوروں کو خاصا دھوکہ دے دیتے ہیں۔ جس وقت، جس موسم، جس موقع پر چاہو، جس پرند، جس جانور کی ان کے منہ سے بولی بلوا کر سن لو۔
اسی زبان کو زبان ریختہ بھی کہتے ہیں جسکی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دوامی قیام کے واسطے گویا ریختہ کی مضبوط بنیاد ڈالی ہے، بلکہ زیادہ تراردو اشعار کو ریختہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ غالب علٰی کلِ غالب فرماتے ہیں جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکہ ہو رشکِ فارسی – گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یوں۔ علیٰ ہذا حضرت عارف کا ارشاد ہے یہ ریختہ وہ ہے کہ کوئی ڈھا نہیں سکتا – عارفؔ نہیں دیکھی یہ تعمیر کسی نے۔ عارف یہ ریختہ بھی نہیں فارسی سے کم – دیوان سیکڑوں مرے ایراں تلک گئی۔ میر تقی کس کس طرح سے میرؔ نے کاٹا ہے عمر کو – اب آخر آخر آن کے یہ ریختہ کہا۔ مگر اب ریختہ کی بجائے اردو یا فقط اردو لکھنے اور بولنے میں سے سے زیادہ زباں زدِ خاص و عام ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اردو کی وہ نظم جو آورو سے بچا کر بیساختہ ازرُوئے آمد کہی جائے ریختہ ہے۔
اردو زبان کی بالترتیب تصنیفی ترقی
بظاہر اردو زبان میں تصنیف کا سلسلہ 1732ء مطابق 1145ھ عہد محمد شاہ بادشاہ دہلی سے شروع ہوا۔ اور میاں فضلی دہلوی نے سب سے پہلے وہ مجلس اس زمانہ کی زردو کے موافق لکھی۔ یہ کتاب بار بار طبع ہو چکی ہے۔ آپ سے چالیس پچاس برس پہلے محرم کی مجلسوںمیں عزاداروں کے گھروں میں شہادت ناموں کی بجائے یہی کتاب پڑھی جاتی تھی۔ مگر اب اسے کوئی نہیں پڑھتا۔ کیونکہ بلحاظ زبان و بیان اس سے بدرجہا بہتر اس بیان کے متعلق بہت سے کتابیں بن گئی ہیں۔ حضراب میر اُنیس اور مرزا دبیر کے مرثئے رُلانے اور چار آنسو ٹپکانے کے واسطے وافی و کافی ہیں۔ گو بلحاظ تعصب بعض لوگ ان کے کلام کی داد نہ دیں۔ اور ان مرثیوں کو عقیدتمندانہ نظر سے نہ دیکھیں۔ مگر درحقیقت حضرات موصوف نے مرثیہ گوئی کو ایک خاص علم بنا دیا ہے۔ ہر ایک کا حصہ نہیں ہے کہ اس میں سبقت لے جائے۔ 1705ء مطابق 1164ھ میں شری للوجی لال کوی نے پریمؔ ساگر اردو آمیز زبان میں لکھی۔ 1771ء مطابق 1185ح میں رفیع سودا نے میر تقی کی مثنوی شعلہ عشق کو نثر میں کیا لیکن اس نثر سے اپنے زبردست کلام کی سے
مقدمہ طبع اول فرہنگ آصفیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نُصلے علی رسولہ الکریم
تو حمد کے قابل ہے ذرا شک نہیں اس میں
لیکن ہے کہاں حمد تری ذات کے قابل
اردو زبان کی پیدایش اور ترقی
ہماری اردو زبان جو فی زمانہ علوم و فنون کا خزانہ بھی جمع کر رہی ہے کیا بلحاظ فصاحت کیا بخیال بلاغت ہندوستان کی جان ہے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ اس زبان نے قلعۂ معلے اور دہلی شاہجہان آباد کی چار دیواری سے قدم باہر نہیں نکالا تھا۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ کشمیر سے راس کُماری اور کلکتہ سے کراچی تک اردو مادری زبان کا درجہ حاصل کرتی جاتی ہے۔ بلکہ پیشاور، شیلانگ، کوئٹہ، افغانستان بھی اس کے الفاظ سے بوسیلۂ تجاری و سلطنت موجودہ خالی نہیں پایا جاتا۔ خدا رکھے اب تو ہندوستان کے باہر بھی قدم رکھنا شروع کر دیا ہے۔ عڈن، مالدیپ، جزائر سیلون، لنکا، انڈمان، سنگاپور، ہانگ کانگ، شانگھی میں بھی اس کے شیدا پیدا ہو گئے ہیں۔ عرب میں حاجیوں نے، بغداد شریف، کربلائے معلے، نجف اشراف، مشہد اور بیت المقدس میں زائروں نے، مصرف، شام اور روم میں سیاحوں نے، انگلستان میں طلبائے ہند اور پنشن یافتہ انگریزوں نے اس کا چرچا پھیلا دیا ہے۔ روس کی عملداری میں بھی اس رواج ہو چلا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہندوستانی زبان کا پروفیسر بھی وہاں بلایا گیا ہے۔ بلکہ سنا کہ کہ قسطنطنیہ میں بھی سلطان المعظم نے اس طرف گوشۂ چشم منعطف فرمایا (۱) ہے۔ ہمارےملک کے مزدوری پیشہ اشخاص و روزگار سرکاری سپاہیوں ملازمت پیشہ اصحا صنیعت طلب نوجوانوں نے تو بہت سے ملکوں کو پایاب کر دیا ہے۔ کوئی جاپان پہنچا ہے تو کئوی دین جا براجا ہے۔ کسی نے امریکہ کا رستہ لیا ہے تو کسی نے جرمن اور فرانس کا دھاوا مارا ہے۔ غرض ممباسہمیں، سفالا میں، زنجبار (۲)، ٹرانسول کیپ کولونی، آسٹریلیا اور افریقہ میں جہاں دیکھو کہیں قلی بن کر کہیں خلاصی بن کر، کہیں تاجر بن کر، کہیں واعظ بن کر ہمارا ایک نہ ایک اردو زبان بولنے والا ہندوستانی وہاں موجود ہے۔ اور اب تو موجودہ عالمگیر جنگِ عظین نے یورپ، افریقہ، عرب وغیرہ کے چپے چپے پر ہمارے بہادر اور فتاح سپاہیوں کو پہنچا کر ہندوستانی شریفانہ زبان کا جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ ہمیں اب اس خیال سے آگے قدم بڑھانہ چاہیے کہ ہمارے ملک میں دس کروڑ آدمی اردو زبان بولتے اور اسی قدر اسے سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جو سمجھتے ہیں وہ ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتے ہیں۔ ورنہ ان کا سمجھنا نہ سمجھنا برابر تھ۔ ہماری زبان کو اردو اخباروں، مختلف زبانوں کے ترجموں، طب اور قانونی کتابوں، ریاضی کے رسالو، جدید تصانیف، اردو دیوانوں، گلدستوں، تذکروں، اردو تاریخوں، مذہبی کتابوں، علم ادب کے رسالوں اور آجکل کے مختلف عشقیہ ناولوں نے (گو ان میں سے اکثر حُسنِ اخلاکے حق میں زہر ہلاہل کا اثر رکھتے ہیں) بہت کچھ مدد پہنچائی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری مدارس نے بھی کچھ کمی نہیں کی۔ لوگوں کا یہ کہنا کہ عہد شاہجہاں یعنی پونے تین سو برس سے اردو زبان نے جنم لیا اور سو برس سے تصنیفی اور علمی زبان ہونے میں قدم رکھا۔ ہمارے خیال میں نہیں آتا، مگر ہاں یہ ضرور کہہ
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) اور تو اور تبت تک پہنچ گئی ہے۔ وہاں کےمسلمان تاجر مذہبی مسائل کے اردو ترجمے خرید کر لے جاتے ہیں۔ جس تبتی مقام سے پولو کا کھیل ایجاد ہوا ہے وہاں کی زبان کی جو ایک انگریز نے ڈکشنری میں لکھی ہے، اس میں اردو زبان کے بہت سے الفاظ ذرا ذرا سے تغیر سے موجود ہیں۔ تنتی مسلمان تاجروں سے ہم نے خود بھی ملکر دریافت کیا ہے۔
(۲) 1692ء میں یہاں دُھوم دھام سے تعزیہ داری اور ۔۔۔۔۔۔ مرثیہ خوانی ہوئی، جس میں ہندوستانی اور زنگیاری شریک تھے۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 17
سکتے ہیں کہ ہندوستان کی ایسی مروجہ زبان نے جسے اس وقت بھاشا اور خاص کر برج بھاشا کہتے تھے اردو نام اختیار کیا اور سو برس یہی زبان عدالتی زبان ہو جانے کے باعث عام ملکی زبان کہلائی مگر اصل میں اردو زبان چونکہ ایک مخلوط زبان ہے اور اس نے شاہجہانی لشکر کی بولی ہو جانے کہ وجہ سے ترقی پا کر اردو نام پایا، اس لحاظ سے ہمارا یہ کہنا غلط نہیں کہ اس زبان کی بنیاد اسی وقت سے پڑی جس وقت سے مختلف قوموں، مختلف نسلوں، مختلف اولوالعزموں، مختلف المذاہب، بیرونی بادشاہوں، تاجروں، سیاحوں، خدا پرست درویشوں نے اس ملک میں آ آ کر اس کی قیدیمی زبان میں اپنی مادری زبان کے الفاظ، لغات، اسماء و محاورات اصطلاحات وغیرہ کو مخلوط کیا اور ایک مدت دراز کے بعد اس اتفاقی اختلاط سے یہ زبان ایک معجون مرکب بن گئی اور شاہجہاں نے اسے ہونہار یعنی ترقی پذید اور عام فہم دیکھ کر اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ لکھنے کے واسطے دلالوں کا عہدہ قرار دیا۔ ان لوگوں نے دن بھر کے لین دین کی رپورٹیں انہیں الفاظ کے ساتھ شاہید حضور میں پیش کرنی شروع کیں۔ اردو بازار سے جس کا مقام قلعہ معلی کے لاہوری دروازہ کے سامنے جانب غرب بلاتی بیگم کے کُوچہ کی محاذی اب تک دہلی میں موجود ہے۔ یہ ہونہار بچہ پروان چڑھنا شروع ہوا۔ چنانچہ اب ہم عموما ہر ایک زبان اور خصوصا اردو زبان کے پیدا ہو جانے کے متعلق تھوڑا سا بیان لکھتے ہیں۔ جب سے کسی ملک کی خاص زبان میں دوسرے ملک کی زبان کے الفاظ داخل ہونے شروع ہو جائیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کسی نئی زبان کی بنیاد پڑی اور اصلی الفاظ کی بجائے نئے نئے الفاظ نے اپنا قدم جمایا۔ جس سے پرانی زبان کے لغات میں تنزل اور جدید الفاظ میں ترقی کا آغاز ہو گیا۔ نئی زبان پیدا ہونے کے کئی سبب ہوا کرتے ہیں۔ پہلا سبب تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا، دوسرا سبب یہ ہے کہ جس زبان کے الفاظ میں ثقالت اور حرور کی مخارج میں بولنے والوں کو دقت ہوا کرتی ہے وہ یا تو اس کی بجائے دوسرے سہل الفاظ بہم پہنچانے کے جویا رہتے ہیں یا ان ثقیل اور دقیق الفاظ کر بگاڑ کر کچھ سے کچھ کر لیتے ہیں جس سے اس زبان میں سے ہی ایک نئی زبان نکلنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہی زبان پراکرت یا کسی اصلی زبان کی شاخ کہلاتی ہے۔ سنسکرت کے زمانہ میں پراکرت اور پراکرت کے زمانہ میں پالیؔ زبان مگہ (۱) اور پراکرت کے میل سے اسی طرح مخلوط ہو کر ایک تیسری زبان بن گئی، جسے عوام الناس یا عام شہری باشندوں نے قبول کیا وہ پراکرت کہلائی۔ جسے گاؤں گنویں کے باشندوں یعنی زمینداروں، چرواہوں، گولوں، گھوسیوں نے اختیار کیا وہ پالی کے نام سے نامزد ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ سُریانی کے ہوتے عبرانی، عبرانی کے ہوتے عربی زبان بولی جانے لگی۔ تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ بوسیلۂ تجارت اجنبی ملکوں کی چیزوں کے نام خوب بخود کسی خلص زبان میں بڑھتے اور جگہ پکڑتے جاتے ہیں۔ چوتھا باعث یہ ہوتا ہے کہ غیر قوموں اور غیر ملکوں کے نتاحوں کے دخل یاب یا مسلط ہو جانے سے جو الفاظ ان کی زبان کے ساتھ آتے ہیں اگر وہ لوگ چلے بھی جاتے ہیں تو بہت سے اپنی قومی اور ملکی زبان کے الفاظ لوگوں کی زبان پر چڑھا جاتے یعنی بطور یادگارِ زمانہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اور جو اشخاص مفتوحہ ملک میں رہ پڑتے ہیں تو رہ ملک مفتوحہ کی زبان میں اپنی زبان سے دن دونی رات چوگنی ترقی کر دکھاتے ہیں۔ بلکہ ملکی باشندے فخریہ خواہ خوشامدانہ خواہ مفتوحانہ خواہ بوجہ ملازمت خود بخود ان کے الفاظ کو اپنی تحریر و تقریر میں لانے لگتے ہیں۔ دیکھو پرتھی راج کے زمانہ یعنی 1193ء بعد شہاب الدین غوری چند کوی (۲) ایک ہندی شاعر نے اپنی کتاب پر پرتھی راج راسا میں کس قدر عربی فارسی الفاظ استعمال کیے ہیں۔علیٰ ہذا کبیر جی نے سکندر لودھی کے زمانہ یعنی 1480ء میں گرو نانک صاحب نے 1500ء میں بابا تلسی داس اور سُور داس جی نے سترہویں صدی عیسوی میں اپنی اپنی مقبول خاص و عام تصنیفات میں کہاں تک عربی و فارسی الفاظ کو دخل دیا ہے۔
دہلی کے قلعہ معلے سے تعلق رکھنے والے مردوں یا عورتوں میں کوئی ہو گا جو اُن مغلیہ خاندان کی عہدہ دارنیوں سے جن کے نام ذیل میں درج ہیں، واقف نہ ہو گا۔ اردابیگنیوں، (۳) جسوانیوں، قلماقانیوں، انا، دوا، چھو چھو، یادی تارنیوِ مغلانیوں، خواص، بُو بُو، حبشنوں، ترکنوں وغیرہ کو نہ سمجھتا ہو گا۔ پانچواں سبب یہ ہے کہ جب اجنبی ملکوں کے روحانی قوت والے خدا پرست درویش یا اولیا اللہ کسی ملک میں آ جاتے اور اپنا اعتقاد لوگوں کے دلوں میں جما دیتے ہیں تو ان کے معتقد اور خاص کر عوام الناس ایسے لوگوں کے فوق العادت کرشمے ان کا استقلال، ان کا جلال دیکھ کر ان کی زبان کے وظائف، دعائیں، بھجن، قول، ملفوظات وغیرہ کو کو حزر جان بنا لیتے ہیں۔ ہر ملک کی عورتیں مردوں سے زیادہ سریع العقیدت، راسخُ الاعتقاد اور پابند رسوم و مذہب ہوتی ہیں۔ ان باتوں کو داخل عبادت اور اپنا دستور العمل بنا لیتی ہیں۔ چونکہ عام زبان کی اشاعت اور ترقی عورتوں پر زیادہ منحصر ہے۔ لہذا ان کے اقوال و افعال بھی زبان کا ایک جزو بن جاتے ہیں۔ بعض موقعوں پر یہ صورت بھی پیش آتی ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی پیغمبر، اوتار یا مذہبی پیشوا خواہ مجتہد العصر ہوتا ہے تو وہ بھی جس زبان کو درجہ قبولیت بخشتا ہے وہ ہی رواج بن جاتا ہے۔ اس کے ماسوا غیر ملکوں کے سیاحوں سے بھی بہت سے باتیں اس وقت کی موجودہ زبان میں شامل ہو جاتی ہیں۔ چھٹا سبب یہ ہے کہ دیگر تعلیم یافتہ ملکو کی اخلاقی، ادبی، مذہبی یا تاریخی کتابیں داخل درس ہو جاتی ہیں تو وہ بھی اپنا اثر بہ کچھ اس ملک میں پہنچاتی ہیں بلکہ ان کی فقری کے فقری تمثیلوں نظیروں ضرب المثلوں میں زبان زد ہو جاتے ہیں۔ بظاہر یہی صورتیں کسی نئی زبان پیدا ہو جانے کی معلوم ہوتی ہیں۔ پس ہندوستان کی اصلی زبان تو جو تھی وہ تھی کیونکہ وہ آریہ یعنی ایرین قوم کے ایک دفعہ ہی آ پڑنے اور قدم جما کر یہیں ڈیرے ڈال دینے سے اصلی باشندوں کے ساتھ ساتھ ہوتی چلی گئی۔ جو لوگ پنجاب کے شمالی پہاڑوں پر چڑھ گئے وہ وہاں لے گئے۔ جو دکن کی طرف اُتر گئے وہ اُدھر لے پہنچے۔ اسی وجہ سے اگر قدیم زبان کے بعض الفاظ کا کچھ پتا چلتا ہے تو شمال کی پہاڑی یا جنوب کی کئی اقوام مثلاً تامل، بھیل، اُڑیا، تلنگو وغیرہ میں چلتا ہے۔ یا ان الفاظ سے کسیقدر سُراغ لگتا ہے جن کا ماخذ سنسکرت تک بگڑ بگڑا کر بھی نہیں پہنچتا جیسے پگڑی ایک ایسا لفظ ہے کہ اس کا مادہ نہ سنسکرت قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی اور زبان۔ البتہ آریہ قوم کی وہ بردہ زبان جو آجکل کی بول چال یا تصانیف سے زمانہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے سرپرستوں کی عدم توجہی
---------------------------------------------------------------------------------------
(۱) بگہ دین واقع صوبہ بہار کی زبان
(۲) کوئی بمعنی کبیشر یعنی ہندی زبان کا شاعر
(۳) صحیح یساولنی
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 18
کے سبب دم چُراتی اور اپنے آپ کو قالب بے جان کا مصداق بناتی ہے۔ اپنی عُروجی زمانہ کے علوم و فنون یا مذہبی کتب سے روز روشن کی طرح یہ دکھا رہی ہے کہ ہمارا اصلی مسکن ایران کہو یا تُوران یاشیا کی سطح مرتفع بتاؤ یا جیحون و سیحون کے بڑے بڑے میدان یہی ہے ہمارے پُرکھا ہمارے بولنے والے ادھر ہی سے آئے اور وہاں کی زبان جو ژند پاژند یا زرتشت کے زمانہ کی زبان سے ملتی جلتی ہے اپنے ساتھ لائے اور اسی کو ٹکسال پر چڑھا کر سنسکرت ینعی دیوبانی یا اس زمانے کے شرفا و علماء کی بول چال خواہ درباری ۔۔۔۔۔۔۔۔ سنہ عیسوی سے گیارہ بارہ سو برس پیشتر منوچہر کے زمانہ میں سامؔ (۱) نریمان۔ رستم دستان کا ہند میں آنا اور سورج راے وائی قنوج کا رستم کے ساتھ اپنی بھانجی کا بیاہ دینا اور اس امر سے اس کا خوش ہو کر اپنے ملک ایران کا رستہ لینا۔ بعد ازاں افراسیاب کا اول مرتبہ پچاس ہزار ترکوں کا یہاں بھیجنا اور اخیر کو خود ایک لاکھ سوار لیکر چڑھ آنا۔ نیز سن عیسوی سے نو سو برس پہلے کیکاؤس کا اکثر اقطاعِ ہند پر قابض رہنا تاریخوں سے بخوبی ثابت ہے۔ اصل میں یہی زمانہ زبان اردو کی بنیاد پڑنے کا پورا پورا زمانہ ہے کیونکہ اس وقت راجہ بصرت تخت ہند پر جلوہ ارفروز تھا اور اُسی کے عہد میں برج بھاشا اضلاع ستھرا نیز ممالک مغربی میں اور پوربی بھا کا ممالک مشرقی میں رائج ہوئی۔ اسی نے زبان اردو کو اپنی آغوش محبت میں لیا۔
سنہ عیسوی سے 606 برس پیشتر آریہ قوم کے زمانہ استقلال میں کیخسرو بادشاہ فارس جو بخت نصر بادشاہ بابل کا ہمعصر تھا۔ آبنائے ہیلسپونٹ یعنی باسفورس سے دریائے سندھ تک حکمراں رہا۔ اس بادشاہ کے لشکر میں جسقدر ایران و توران کے لشکری اپنے اپنے دیس اور شہروں کی مختلف زبانیں بولتے تھے وہ سب شمالی ہند کے باشندوں کے دلوں میں بستی اور زبانوں پر چڑھتی جاتی تھیں۔ چونکہ اہل حکومت کی زبان بہت جلد دیسی زبان پر اپنا زبردست سایہ ڈال کر قابو کر لیتی ہے۔ پس فارسی آمیز زبان شمالی ہند میں اسی وقت سے جڑ پکڑ گئی۔ چنانچہ آج تک ملک پنجاب و سند میں فارسی الفاظ دیگر زبانوخ کے الفاظ کی نسبت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ داراب بادشاہ فارس نے جو کیخسرو سے سو 100 برس بعد یعنی سنہ عیسوی سے پانچ سو برس پہلے ہند میں دڑھ کر آیا اپنی تزک میں لکھا ہے کہ "جب میں ہند میں آیا تو میں دو طرح کے آدمی اور دو ہی طرح زبانیں پائیں۔ جو کالے کالے قوی ہیکل مثل دیو آدمی تھے ان کی بولی مطلق میری کہہ میں نہیں آتی تھی۔ اور جو گورے گورے چھریرے جسم والے تھے ان کی بہت سے باتیں میں سمجھ جاتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے وہ یہاں کے کچھ آدمی اپنے ساتھ لے گیا جو غالباً وہی آریہ قوم کے لوگ ہوں گے جنکے الفاظ اس کی سمجھ میں آتے تھے مگر جو سیاہ فام تھے وہ اصلی باشندے یعنی دراوڑ نسل کے آدمی ہوں گے۔
پس یہ گورے چٹے آدمی وہی تھے جو زبان سنسکرت یا اس زبان کا ماخذ خواہ مادہ اپنے ساتھ لیکر آئے یا یہ کہو چونکہ سنسکرت اور فارسی کا ماخذ ایک ہی ہے۔ اس سبب سے ان لوگوں کی زبان ایران والوں کی سمجھ آتی تھی اور جو سمجھ میں نہیں آتی تھی وہ غالباً اس زمانہ کی پراکرت یعنی عام زبان تھی جو سنسکرت سے بگڑ بگڑا کر کچھ سے کچھ ہو گئی تھی یا اصلی باشندوں کی رہی سہی ویسی بھاکا سمجھو جو اب مرورِ زمانہ کے باعث نیست و نابود ہو گئ۔ اور اگر کچھ ہے تو وہ پراکرت یا پالی میں شامل ہو جانے کے باعث اپنا پتا نہیں لگنے دیتی۔ حال میں مُلک سند سے ایک پرانی کتاب کسی یورپین کے ہاتھ آئی تھی جسکے ایک طرف سنسکرت عبارت تھی اور دوسری جانب قدیم فارسی۔ ان دونوں میں بہت کم فرق پایا جاتا تھا۔ اس سے یہی ثابت ہے کہ عجب نہیں اول اول فارسی آمیز سنسکرت مدت تک ہند میں بھی جاری رہی۔ ہو۔ غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ ہندوستان کی اصلی زبان تو اس ملک سے غائب ہو گئی۔ اس کے بعد سنسکرت کو دور دورا ہوا۔ اس نے مدت تک اپنا ڈنکا بجایا۔ جب اس کا زمانہ کمال کو پہنچا تو مختلف ملکو کے سورماؤں نے آن آن کر اس ملک کی زبان میں اپنے اپنے وقت کی یادگار یعنی الفاظ چھوڑے۔ پہلے ایرانی آئے اُن کے بعد سنہ عیسوی سے 327 برس پہلے سکندر رُومی نے اور اس کے بعد اس کے جانشینوں جیسے صلیقوس یعنی سلوکس سپہ لالار سکندر بن فیلقوس نے سنہ عیسوی سے 323 برس پیشتر ہند پر چڑھائی کی تو چندر گُپت نے استواری صلح وازدیادِ محبت کی غرض سے سلیقوس کی بیٹی کو اپنی رانی بنایا اور صلیقوس اپنی میگاستھن نامی ایک افسر کو چندرگپت کے دربار میں اپنی پیاری بیٹی کو پاس چھوڑ گیا۔ چنانچہ یہ شخص عرصہ دراز تک ہندوستان میں رہا۔ اور سب سے پہلے اسی نے یونانی زبان میں ہمارے ملک کی ایک بسیط تاریخ لکھی۔ صلیقوس کے بعد اُس کے جانشینوں میں سے حاکم خراسان نے یونانی حکوت سے انحراف کیا اور کابل سے لیکر پنجاب نیز مالوہ تک حکمران ہو گیا۔ چنانچہ یہ ملک مدت تک اس کے اور اس کے ولیعہد کے عمل میں رہا۔
پس اس زمانہ میں کچھ کچھ یونانی الفاظ بھی یہاں کی ملکی زبان میں شامل ہوئے۔ جس وقت سنسکرت کا ستارا نہایت اوج پر پہنچا تو اس زبان کی قومی پابندی، دقت طلب مخارج اور مشکل الفاظ نے اس سے جی چُھرا دیا اور پراکرت کا رواج بڑھا دیا۔ یہی اس کے زوال کا ابتدائی زمانہ ہے۔ ساکھی مُنی نے اپنے زمانہ کی پالی اور پراکرت کو حضرتِ عیسیٰ سے 523 برس پہلے سموکیاس میں بُدھ مذہب کے اصول اور عبادت کی ڈھنگ پھیلائے جسے ہر ایک سمجھنے اور ماننے لگا۔ اسی زمانہ میں مسیح سے 263 برس پہلے راجا اشوک نے بُدھ مذہب کو راج دھرم ٹھہرا دیا۔ پھر کیا تھا اس موبان کو دن دُونی رات چوگنی ترقی نصیب ہونے لگی۔ جو ملک فتح کیا جاتا اس میں ایک لاٹھ یعنی مینار یا ستون بان اصولوں کا لکھ کر مع زمانہ فتح نصب کر دیا جاتا۔ لیکن برہمن سنسکرت کا تنزل، وید کی بد اعتقادی، ذاتوں کی تمیز کا اُٹھ جانا نہ دیکھ کسے۔ سنبھل سنبھلا کر لڑنے مرنے اٹھ کھڑے ہوئے اور آخرکار 1500 سو برس بعد گُلِ مراد لیکر اُٹھے۔ پھر سنسکرت کو از سر نو عروج ہوا۔ مسیح سے 57 برس پیشتر بکرماجیت نے سنسکرت کو بہت ترقی دی۔ اُسی کے زمانہ میں شکُنتلا کا ناٹک لکھا گیا۔ جس میں ہر ایک فرقہ کی اپنی اپنی زبان میں گفتگو ہے۔ 77ء میں راجہ شالباہن نے بھی جس کا ابتک سمت جاری ہے۔ برہمنوں اور سنسکرت کی بہت بڑی قدر کی اور اس کا نہایت حامی رہا۔ اخیر میں برہمنوں نے اٹھارہ کتابیں جنہیں پُران کہتے ہیں پرانے عقیدے کے موافق نئے سرے سے تصنیف کیں۔ جس کا زمانہ آٹھویں صدی عیسوی سمجھنا چاہیے۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 19
گو اخیر میں پُرانیں بھی بنیں بُدھ مذہب کو بھی زوال ہوا مگر سنسکرت کو مختلف فرقوں کے غلبے، مختلف حکومتوں کے زور اور آپس کے نفاق سے ایسا گُھن لگا کہ پھر نہ پنپی۔ اول اول اس کی بول چال موقوف ہوئی۔ اس کے بعد تصانیف نے پاؤں سمیٹھا۔ مذہبی روک ٹوک نے عوام کو سیکھنے نہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنسکرت ہندوستان میں پاؤں توڑ کر بیٹھ گئی اور جرمنی میں جا کر نئے سرے سے جنم لیا۔ جہاں ان زبان کے بولنے سمجھنے اور اس میں تصنیف کرنے والے بہت سے لایق پیدا ہو گئے۔ انہوں نے سنسکرت کی ڈکشنیریاں مختلف تصانیف میں، ایک ایک لفظ کیا موقع، ان کی ہر ای موقع کی استعمال کر دیکھ دیکھ کر تیار کر ڈالیں۔ آج سنسکرت کا جو ذخیرہ جرمنی میں موجود ہے تمام دنیا میں نہیں ہے۔ آمدم برسرِ مطلب۔ اُوپر کے بیان سے ہند کی اصلی زبان۔ آریہ قوم کی بولی اور سنسکرت میں سابقہ ایرانی اور یونانی زبان کی آمیزش کا سبب معلوم ہو سکا ہے اب اس سے آگے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جب اس بات کو قرنوں بزر گئے تو یہاں کی دولت، ثروت، خوشگوار آب و ہوا اور پیداوار کو دیکھ کر عربوں (۱) کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ اگرچہ ان کا یہاں آنا جہازوں کی لُوٹ مار اور تجارتی جھگڑوں کے سبب سے ہوا مگر دلی ارادہ یہی تھا کہ ہندوستان میں بھی اسلامی جھنڈا اسی طرح لہرائے جس طرح ایران میں فراٹے بھر رہا ہے۔ چنانچہ سب سے اول 636ء میں بخلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں میں سے ابو العاص حاکم یمن بمقام تھانہ واقع بمبئی پر حملہ آور ہو کر فتحیاب ہوا۔ اس کے اٹھائیس 28 برس بعد 664ء میں مُہلب بن ابی صفرہ نے ملتان پر قبضہ کیا۔ اڑتالیس 48 برس بعد 713ء میں خلیفہ ولید کے سردار محمد بن قاسم نے سند پر حکومت جمائی۔ یہ سب عربی النسل ہیں جنہوں نے 76 سال تک اپنی زبان کا ہند میں استعمال کیا اور عربی کے بہت سے الفاظ یہاں کی اس زباں میں جو ان کے ممالک محروسہ میں بولی جاتی تھی ملا گئے۔ اب مسلمانوں کا متواتر دور دورا شروع ہوا۔ اس زمانہ میں اسی کثرت سے ان کی زبان کے الفاظ برج بھاکا میں مخلوط ہوئے۔ جس کثرت سے آجکل انگریزی الفاظ دھینگا دھینگی سے اپنا سکہ بٹھا رہی ہیں۔ چونکہ اسلامی زمانہ میں اس کثرت سے سرکاری مدارس نہ تھے۔ صرف دیسی مکتب یا خانقاہوں اور مسجدوں کی عربی فارسی مذہبی درسگاہیں تھیں جنہیں تمام ملک میں علم پھیلانے اور ایک سرے سے سب کو شائستہ اور تعلم یافتہ بنانے سے غرض نہ تھی۔ بلکہ تعلیم میں یہ بھی پخ لگی ہوئی تھی کہ شریفوں کے سوا ادنی قوموں کو اہل نہ بنایا جائے۔ کیونکہ ان کی کمینہ عادتیں، سفلہ طبیعتیں حصول علم سے اپنی آبائی اور ذاتی سرشت اور جبلت کے اثر کو زائل نہیں کر سکتیں چنانچہ ہماری اس بحث کے متعلق تذکرۂ دولتِ شاہی میں بھی چند مثالیں ایسی موجود ہیں کہ کمینوں نے شاہی ضرورتوں کے موقع پر بجائے قرض لاکھوں روپیہ اس شرط پر دینا چاہا کہ ہماری اولاد کو تعلیم دیجائے مگر اس وقت کے بادشاہوں نے اس امر کی مطلق پرواہ نہ کی۔ اس پر بھی سیکڑوں ہزاروں ان کے زبان کے لُغت ہند کی زبان میں مخلوط ہو گئے۔ اور ایسی حالت میں کہ سرکاری اسکول دیہات سے لیکر ۔۔۔۔۔۔۔ دیار میں بکثرت موجود ہیں نیز انگریزی زبان لازمی زبان قرار پائی ہے کیوں نہ انگریزی الفاظ افراط سے نوکِ زبان ہوں۔ گھر کی بیٹھنے والی عورتیں تک انگریزی زبان کے بہت سے الفاظ بولنے لگی ہیں۔ گویا ان کی زبان بھی اب خالص زبان نہ رہی۔ ریل کی، تار کی، ڈاک کی، عدالت کی ضروری اصطلاحیں تمام عورتیں جانتی ہیں۔ جنکے بچے مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں۔ ان کی ماں بہنیں مدارس کی بہت سی اصطلاحوں سے واقف ہو گئی ہیں۔ وہ کون عورت ہے جو پاس، فیل، کاپی، سلیٹ، پنسل وغیرہ نہیں سمجھتی۔ وہ کون سی نیک بخت ہے جو پرائمری، مڈل، ٹائم کو نہیں جانتی۔ پس اسی طرح مسلمانوں کی حکومت نے ہندوستانی زبان کو عربی، فارسی اور ترکی زبان سے ترقی بخشنی شروع کی بلکہ ترکوں کا نام تو یہاں تک دلوں میں گھر کر بیٹھا کہ ہر ایک مسلمان کا نام تُرک پڑ گیا۔ جسطرح ہولی کی رنگرلیوں میں کرشن جی کا نام لطف دیتا ہے اسی طرح عاشقانہ دھینگا دھینگیوں اور چھیڑ چھاڑ میں ترکوا کا لفظ مزا دینے لگا مثلاً ترکوا نے مچھ لئی گا گریا، کیسے کروں موری ساسریا (۲)۔ حتی کہ بعض اوقات پیار اور محبت کے موقع پر بھی مسلمان کی بجائے تُرک کا لفظ زبان پر آنے لگا۔ حضرت نظام الدین اولیا تو حضرت امیر خسرو کو محبت اور لاچینی تُرک ہونے کی وجہ سے تُرک اللہ ہی کے خطاب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے اس شعر میں بھی خسرو کو خصوصیت کے ساتھ تُرک فرمایا ہے گر برائے تُرکِ تُرکم ارہ برتاک نہند – ترک تارک گیرم و ہرگز نگیرم ترک تُرک۔ مگر حضرت امیر خسرو نے خود بھی اپنے ہندی فارسی اشعار میں اس طرح باندھا ہے ہندہ بچہ بیں کہ عجب حُن دھرے چھے – بروقتِ سخن گفتن مُکھ پُھور جھرے چے۔ گفتم زلبِ لعلِ تویک بوسہ بگیرم – گفتا کہ ارے رام تُک کائیں کرے چھے صرف اُسی زمانہ میں نہیں اگر آپ اب بھی دیہات کا گشت لگائیں تو دیکھ لیں کہ اکثر مقامات میں اسوقت تک عموماً بڑی عمر والے اور ان سے کم نئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے لوگ مسلمانوں کو تُرک ہی کہتے ہیں۔ غزنوی خاندان کی دو سو دس سال کی حکومت نے جو 976 سے 1186ء تک رہی غور خاندان کی سلطنت نے جسکا 58 برس چراغ روشن رہا۔ غلاموں کے خاندان نے جنکی غلامی میں 84 برس بسر ہوئے۔ خلجیوں نے جنہوں نے تین 30 برس تک ہندوستان میں حکمرانی کی۔ خاندان تغلق نے جو 94 برس حکمراں رہا۔ خاندانِ سادات نے جس نے 36 سال سے زیادہ عمر نہ پائی۔ خاندان لودھی نے جو 76 بر تک اپنا ڈنکا بجاتا رہا۔ خاندان مغلیہ نے جو 331 سال تک ہند کا چراغ روشن کرتا رہا۔ اپنی اپنی زبان کے کون سے الفاظ تھے جو ہند میں نہ پھیلائے۔ اور ہندی زبان کو کون سی رسمیں، اصطلاحیں اور عادات تھیں جنہیں خود اختیار نہ کیا۔ غرض سب کو گڈمڈ کر کے ایک عجیب نسخہ سجونِ مرکب تیار کر دیا۔ اُسی زمانہ کے اخیر میں کہ سلطنت مغلیہ نے پاؤں پیٹنے شروع کر دیے تھے۔ مغربی بادشاہوں نے مختلف طریقوں سے ہند کی سر زمین میں قدم رکھنا شروع کیا۔ کبھی پرتگیزوں نے یہاں آ کر پاؤ روٹی کی جسے نان پاؤ اور ڈبل روٹی کہتے ہیں حاضری کھائی۔ کبھی ولندیزوں نے کبھی ڈنمارک والوں نے کبھی فرانسیسیوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی۔ اور 361 برس تک یہاں کی ہوا کھائی۔ جنکو جو جگہ راس آئی وہیں رہ پڑے اور ابتک ہیں۔ مگر سب سے زیادہ جلال اور استقلال کے ساتھ جو منصفانہ حکومت آئی وہ انگریزی حکومت ہے۔ اس نے بدامنی کو مٹا کر امن قائم کیا۔ سرکشوں کا سر کُبلا اور 134 برس سے ابتک ترقی پر ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔
برج بھاکا میں جس نے سب سے اول اپنا رنگ جمایا وہ سلطان الشعراء حضرت امری خسرو بادشاہ سخن طوطیٔ شکر مقال شاعر بے مثال کہ کہہ مکرنیا، پہلیاں، ڈھکوسلے، گیت، دو سخنے، کہاوتیں، انملیاں تھیں۔ آپ خلجی بادشاہوں کے زمانہ میں تھے جسے چھ 600 سو برس کے قریب عرصہ ہوا۔ 1325ء میں انتقال فرمایا۔ ہندی آمیز فارسی غزلیں انہوں کہیں۔ خالق باری بنا کر عربی فارسی ہندی الفاظ کی نظم میں
--------------------------------------------------------------------------------------
(۱) ایک محقق اپنے لکچر میں لکھتا ہے کہ "مذہب اسلام سے پہلے ہندو تجار کے عربستان جاتے تھے اور بہت سے عربوں نے ہندوستان کو اپنی تجارت کا پالا بنا رکھا۔
(۲) ساس کی تصغیر ہے۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 20
ڈکشنری انہوں نے بنائی۔ دُھرپد کی بجائے قول انہوں نے ایجاد کیا۔ راگ، راگنیاں بلکہ ساز تک بنا ڈالے۔ عجب زندہ دل، خوش طبع، خوش مزاج، خوشخو، خوشروع آدمی تھے۔ اس زمانہ کی عورتیں انکے گیتوں کو بڑے شوق سے گانے اور ان سے ہر طرح کا مذاق کرنے لگی تھیں۔ ان سے گیت بنانے کی فرمایش ہوتی اور یہ فوراً ان کے مزاج کے موافق گھڑ کر انہیں خوش کر دیتے۔ لڑکیوں میں پہلیاں اور سکھیاں اسطرح پھیلتیں۔ جس طرح کرشن جی کے زمانہ میں گوپیاں مشہور ہوئیں۔ خدا داد قبولیت اں کے کلام اور ان کی ذات کو اس قدر نصیب ہوئی کہ اس زمانہ کے استادان سخن اور اولیاء اللہ نے بھی داد دی ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ 1324ء (725ھ) میں مسلمان خاص بھاشا اور ہند و فارسی آمیز ہندی بولنے لگے۔ اور مسلمانوں نے اسی زبان کو اپنی زبان سمجھا۔
برج کی زبان نہایت شیریں رسیلی اور اُلفت بھری زبان ہے۔ جس کی وجہ وہاں ایک ایسے اوتار کا جنم لینا سمجھنا چاہیے جو زندہ دلی، خوش مزاجی، حکیم الطبعی کا بڑا بھاری بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی پیدائش سے برج کو اشرفُ البلاد و فخر الامصار بنا دیا تھا۔ اُس کے فلسفیانہ چوچلے حکیمانہ چٹکلے آجتک خوش مزاجوں کے دلوں میں چٹکیاں لیتے ہیں۔ اس کے ہر ایک کھیل، ہر ایک حرکت سے رنگ وحدت ٹپکتا تھا۔ چنانچہ چوک چکنی (۱) کے تہوار میں جو بھادوں سُدی چوتھ کو ہوا کرتا ہے، جس میں کئی کئی آدمی یا لڑکے حلقہ بنا کر ڈنڈوں سے کھیلتے ہیں، اُسکی آواز سے ثابت ہوتا ہے کہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت نمایاں ہے۔ یہ بھی کرشن جی کا ایجاد ہے۔ ہمارے خیال کے موافق وہ پکا موحد، بہت بڑا ظریف الطبع فلاسفر اور وشنو کا سولہواں 16 اوتار تھا۔ اُس کی طفلانہ حرکتیں عاقلانہ حکمتوں سے بھر ی ہوئی ہیں۔ اس کی محققانہ تصنیف آلہیات سے پُر ہے۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو ایسے شخص کی نسبت سفلانہ خیال رکھتے ہیں۔حیف ہے ایسے مؤرخوں پر جو اس کے حالات کی نُکتہ چینی کرتے ہیں۔ وہ بیشک ہندوستان کا پیغمبر اور اہل ہند کا رہبر تھا۔ کرشن اور رامچندر ایسے دو اوتار ہوئے ہیں کہ ان کے اخلاق نے صرف اخلاقی ترقی ہی کو کام نہیں فرمایا بلکہ اپنے اپنے ملک کی زبان کو بھی وہ محبوب الخلائق بنایا کہ ادھر کرشن جی کی بدولت برج بھاکا نے روپ نکالا اور ادھر رمچندر جی کے طفیل پوربی بھاکا نے جوین پکڑا بلکہ بنو باس کے زمانہ میں دکن اور لنکا تک بھی فیض پہنچایا۔
ان دونوں اوتاروں کی داستانیں اس وقت تک مُردہ دلوں کو زندہ کر دینے اور ہر وقت ایک نئی رُوح پھونکنے والی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے عجیب نکتےحل ہوتے ہیں اور غضب کی معلومات پڑھکر آیندہ کےلئے نہایت مفید نتیجے نکلتے ہیں۔ ان کی داستانیں کیا ہیں، حیات و ممات کی معلومات کے رخت و عبرت افزا فسانے بلکہ خزانے ہیں سرسری ہم جہان سے گزرے – ورنہ ہر چا جہانِ دیگر تھا۔ رامچندر جی کو ہندؤ وشنو کا آٹھواں اوتار اور ۔۔۔۔۔ جگ کا سردار مانتے ہیں۔ اب ہم ذرا اس زمانہ کی خاص اردو زبان کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اردو تُرکی زبان میں لشکر گاہ اور بازار لشکر کو کہتے ہیں۔ چونکہ اردو مراد اکثر بادشاہی لشکر سے ہوا کرتی ہے، لہذا تعظیماً اسے اردو معلے کے نام سے نامزد کرنے لگے اور آخیر میں لشکری بولی پر اس کا اطلاق ہونے لگا۔ یہاں اردو سے ہماری مراد اردئے شاہجہاں ہے۔ آجکل قرب دہلی کی وجہ سے یا اس باعث سے کہ اسی کی سرزمین میں یہ شہر آباد ہوا، شاہجہان آباد کو بھی دلی کہنے لگے اور وہاں کی بولی کو دلی کی زبان۔ دلی ملک قدیم اور پرانا شہر ہے۔ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے راجہ مہاراجہ اسی خطہ میں دارالسلطنت بنا کر قیام پذیر رہے۔ لیکن اس زمانہ میں ہر ایک اپنی اپنی بولی بولتا تھا۔ ایک کی زبان دوسرے کی زبان سے نہیں ملتی تھی۔ اس زبان کو اس زمانہ کی بھاکا کہا کرتے تھے۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی عملداری آئی اور مسلمان یہاں کے شہروں میں آ کر بسے تو انہیں بڑی دقت پیش آئی۔ سودا سُلف کا لینا دینا۔ اپنا مفہوم سمجھاجا ان کا مفہوم سمجھنا مشکل پڑ گیا۔ اگر خود دکانیں لگاتے ہیں تو اپنی قوم کے سوا کوئی دوسرا سودا خریدنے نہیں آتا۔ اور جو دوسروں سے لیتے ہیں تو گُڑ کی جگہ نمک اور نمک کی جگہ دال دکھاتا ہے۔ ادھر انہیں غصہ آتا ہے اُدھر بیچنے والا پیچ و تاب کھاتا ہے اور کسی کا سودا نہیں بنتا۔
اول اول تو مسلمانوں کی عملداری میں بھی اختلاف رہا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ کبھی کسی خاندان کی حکومت ہوئی۔ کبھی کسی بادشاہ کی سلطنت۔ اس سبب سے کوئی خاص زبان مستقل نہ ہو سکی۔ چنانچہ انگریزی تیرھویں ہجری ساتویں صدی بعہد محمد شاہ تغلق و علاء الدین خلجی میں زبان کا رواج تھا۔ اس کی اس دوہی سے جو حضرت شیخ شرف الدین بو علی قلندر صاحب کی زبان مبارک سے مبارز خاں صاحب کے اردۂ سفر کے موقع پر نکلا تھا، بخوبی پتا لگتا ہے کہ کیسی صاف اور سیدھی زبان تھی گو اس میں سرتاپا ہندہ الفاظ جیسے کہ دوہوں میں ہوا کرتے ہیں پائے جاتے ہیں مگر زبان عام فہم ہے اور عام فہم بھی ایسی کہ اس زمانہ کی ہندی سے ذرا سا مس رکھنے والے بھی بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ وہ دوہا یہ ہے سجن سگارے جائیں گے اور نین مرینگے روئے – بدھنا ایسی رین کر جو بھور کدھی نا ہوئے۔ اسی مضمون کو آپ نے فارسی میں اس طرح ادا کیا ہے من شنیدم یارِ من فروا رو دراہ شتاب – یا الٰہی تا قیامت بر نہ آید آفتاب۔ ہاں مختلف زبانوں کے لُغات و الفاظ ایک دوسرے کی زبان پر چڑھنے لگے بلکہ بعض کبیشروں، ہند کے مصنفوں اور یہاں کے شاہی ہندو عہدہ داروں نے تو اپنے کتبوں اپنی پوتھیوں اور عرائض میں بھی انہیں برتنا اور اپنی بھاکا میں داخل کرنا شروع کر دیا۔ بعض مسلمان ذکی الطبع ایسے بھی ہوئے کہ انہوں نے صرف اس زمانہ کی بھاکا ہی حاصل نہیں کی بلکہ سنسکرت میں بھی مہارت بہم پہنچا کر مہاکبیشر اور گیانی پنڈت بن گئے۔ خان خاناں کے اشلوک آجتک لوگ نہیں بھولے۔ پشتکوں میں، پوتھیوں میں۔ کجکولوں میں درج کر گئے۔ اور انہوں نے ضرب الامثال کا درجہ حاصل کر لیا۔ بلکہ حکیمانہ توان اور بزرگانہ ملفوظات میں شمار ہونے لگے۔ اس کے علاوہ بھاٹوںے بھی خانخاناں کے بہت سے اشلوکوں کو اپنی روزی کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔ علیٰ ہذا دارا شکوہ نے سنسکرت میں وہ دسترس حاصل کی کہ اُپنشدوں اور نیزلوگ بششٹ پران یعنی تصنیفاتِ موحدان کامل کا ۔۔۔۔۔۔ میں ترجمہ کر دکھایا۔ یہی نہیں بلکہ اس زمانہ کے بھگتوں، لیڈروں، پیشواؤں اور مختلف پنتھ کے بانیوں نے بھی اپنی بانیون بھجنوں اپنے قولوں اپنی تصنیفات میں انہیں جگہ دی۔ مسلمانوں میں سے امیر خسرو نے خلبیوں اور تغلقوں کے زمانہ میں وہ ہر دلعزیزی پیدا کی کہ ایک ایک گلی اور کوچہ کا بچہ، ہر گاؤں کی گیتا کریاں ہر قریہ کی زمیندارنیاں جاننے لگیں۔ بڑے بڑے گویوں نے انہیں ندیک مانا اور ان کے ایجاد
---------------------------------------------------------------------------------------
(۱) یہ لفظ اصل چوتھ چاندنی ہے۔
(۲) ہندی شاعرہ عورتیں
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 21
کر دہ راگوں کو حرزِ جان بنایا۔ حتی کہ آپ تک ان کے نام کے ساتھ بڑے بڑے کلانوت اپنا کان پکڑتے ہیں۔ محمد جائیسی نے جو 1600 ء میں بعہد شیر شاہ گیت بنائے۔ دوہے بنائے، پدماوت بھاکا لکھی وہ اچھے اچھے بھاکا زبان کے استادوں، اہل زبانوں کو پرے بٹھاتی ہے۔ فیضی نے بھی کچھ کم مہارت پیدا نہ کی۔ ہندوستان کے پاک طینت موحدوں، صلح کل طبیعتوں جیسے بابا نانک (۱)، کبیر جی، داؤد وغیرہ نے اپنے دوہوں، شبدوں، ساکھیوں، گرنتوں میں مسلمانوں کے الفاظ کو عزت سے برتا اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا ہے، مگر اتنوں میں سے کوئی بھی اس زبان کی اصلاح اور تدوین پر متوجہ نہ ہوا۔ ہاں اکبر عہد میں جس وقت کہ مُغلیہ سلطنت کو قیام اور امن و امن کو سانس لینے کی فرصت ملی۔ لوگ اپنے اپنے تھکانے بیٹھے۔ تو ہندو اور مسلمان شیر و شکر ہو گئے۔ ہندوؤں کو معزز خطاب ملنے لگے۔ منشی، محرر، مقصدی، برطیق ایران مرزایانِ دفتر کہلانے لگے اور علمی چرچا شروع ہوا۔ لیکن اس وقت میں فارسی زبان کی وہ قدر تھی کہ کایستوں نے تو سکندر لودھی کے وقت یعنی 1488ء سے ہی اپنا معیار علم اسی پر ٹھہرا کر دفتروں کا کاروبار سنبھالا تھا۔ مگر اور قوموں میں بھی شوق چرا گیا۔ جس وقت شاہجہاں تخت سلطنت پر متمکن ہوا اور اس نے انتظام سلطنت کے لحاظ سے یہ قانون مقرر کیا کہ ہر ایک ملک،ہر ایک محروسہ ریاست کے وکلا حاضر دربار رہا کریں اور کلی کو از سرِ نو آباد کر کے قلعہ معلے یعنی لال قلعہ بنایا، اس شہر کا نام شاہجہاں آباد قرار دیا اور ایسا بھاری جشن کیا کہ جشن قیصری سے بھی باعتبار کثرتِ انعام و اکرام، خاطر و مدارات، رعایا پروری اور جُود و سخا میں بڑھا ہوا تھا۔ جسے کوئی خطاب یس منصب عطا فرمایا، اسی حیثیت کے موافق اس کے مصارف کا بھی جاگیر سے کفیل ہو گیا یا کوکئی اور رستہ نکلا دیا۔ اس جشن کے موقع پر بھانت بھانت کا پکھیرو ڈال ڈالی کا طُوطیٔ خوش الحان اپنی اپنی بولیاں بول رہا تھا۔ تمام ملکوں کے لوگوں جمگھٹا تھا۔ ہر ایک کی گُفتار و رفتار جدا تھی۔ ہر ایک کا رنگ ڈھنگ نرالا تھا۔ لباو و پوشاک انوکھی۔ جس وقت آپس میں مصافحہ کرتے بات چیت کی نوبت پہنچتی تو چار لفظ اپنی زبان کے ہوتے تو دو سمجھانے کے واسطے دوسرے کی زبان کے مجلسوں میں، جلسوں میں بہت سی باتیں ایسی سرزد ہوتیں کہ اس موقع کی زبانوں کا ایک گلدستہ بن جاتی۔ ہر ایک پنکھڑی کی خوشبو، اس کا رنگ اس کی بناوٹ اپنا اپنا انوکھا جوبن دکھاتی۔ رفتہ رفتہ بادشاہی امیر و امرا نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔ بیگماتِ قلعہ، محل، حرمیں، پرستاران شاہی ہندی نژاد ہونے کی وجہ سے اس زبان کو جھت لے اُڑیں۔ ہندی، فاریسی، عربی، ترکی اسطرح آمیز ہوئے کہ ایک زبان اور چار مزے کی آواز کانوں میں پڑنے لگی۔ بازار کی خرید و فروخت نے بھی یہی عالم اختیار کیا۔ ہر ایک چیز کی خوب دھڑلے سے بکری ہوئی اور ازخود ایک نئی زبان کی صورت نظر آنی شروع ہوئی۔ بادشاہ کو جو یہ پرچہ گزرا تو اس نے اپنے زمانہ کی ایک ہمیشہ نام چلانے والی زندہ اور مبارک یادگار خیال کر کے ایک عہدہ تجویز کیا۔ اس کا نام دلالی رکھا۔ چونکہ دلال بخوبی رہنمائی کرنے والے اور دلالی خاطر خواہ رہنمائی کو کہتے ہیں اور اصطلاحاً بائع و مشتری میں سودا کرانے والے کو۔ لہذا لغوی و اصطلاحی دونوں معنی کے خیال سے یہ لفظ اس موقع کے لئے نہایت موزوں رہا۔ اول اول خاص شاہی لشکر میں بعد ازاں ہر ایک بازار میں دلال مقرر کر دیئے کہ دن بھر جو کچھ سودا سُلف لیتے دیتے وقت ایک دوسرے سے الفاظ سنیں انہیں قلمبند کر لیں۔ چنانچہ یہ کام سرعت کے ساتھ جاری ہو گیا اور یہاں تک رواج بڑھا کہ ہر ایک شہر اور ہند کے ہر ایک ملک میں یہ ایک پیشہ قرار پا گیا۔ دکانداروں نے خوشی خوشی ان کا حق تسلیم کر لیا۔ فی روپیہ یا فی سیکڑا یہ ڈسکؤنٹ کے حقدار ہو گئے۔ غرض دلالی ایک موروثی عہدہ نیز پیشہ بن گیا اور اخری کو ان لوگوں کی نیت بگڑ کر یہ نوبت پہنچی کہ اپنی بولی اور گنتی بھی الگ کر لی۔ گاہک کے ساتھ آئے اور دکان دار سے ایک کونہ پر بیٹھ کر کہ دیا کہ لالہ جی ان کو اچھا اور کفایت کا مال دینا، ہم کونہ پر بیٹھے ہیں۔ ہمارا کچھ خیال نہ کرنا۔ اس سے یہ غرض ہوئی کہ چوتھائی حصہ ہمارا ہے۔ آگے تم جانو اور تمہار کام۔ کبھی فرمایا کہ دیکھو لالہ ایسے گھرے گاہک کو نہ ٹالنا۔ ہمیں تو صرف گالی سے غرض ہے۔ ان کو عمہد مال ملجائے۔ تمہارا گاہب پٹ جائے۔ یعنی ہم روپیہ کے نفع میں آٹھ آنے کے شریک ہیں۔ یہ خریدار گانٹھ کا پورا آنکھوں کا اندھا دوسرے کی دکان سے اُچٹا کر لائے ہیں۔ یہ باتیں وہ ہیں جو سینہ بہ سینہ ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں۔ اور ہم نے انہیں اسی موقع کے واسطے لگا رکھا تھا۔ محمد شاہی عہد غالباً 1729ء میں نادر شاہ کی غضبناک چڑھائی کی خبر سُنکر کہا تھا کہ نادر شاہ کل کا آتا آج آ جائے۔ اپنا سر کھانے مگر یاروں کی ٹوڑی کا وقت نہ جائے۔ ٹوڑی مالکوس راگ کی ایک راگنی کا نام ہے۔ آپ کو یہ راگنی نہایت پسند تھی۔ ان کے زمانہ میں بھاکا آمیز اردو کے بہت سے گیت ٹپے ٹھمریاں، راگ، راگنیاں بن گئیں۔
کیا تو یہ زبان گھٹنیوں چل رہی تھی کیا ایک دفعہ ہی سپاٹا بھرنا شروع کیا۔ مگر چونکہ اول اول اس کی شاہجہانی لشکر سے ابتدا ہوئی۔ لہذا اس کا نام بھی اردو پڑ گیا۔ قلعۂ معلےٰ کے لاہور دروازہ کے سامنے اردو بازار کے نام سے ایک بازار بھی آباد ہو گیا جو بلاقی بیگم کے کوچہ اور چاندنی چوک کے سڑک کے جنوبی پہلو پر واقع تھا۔ اب روز بروز اس کی تراش خراش ہونے اور یوماً فیوماً رونق بڑھنے لگی۔ فارسی کے محاورات ہندی میں ترجمہ ہوئے۔ عربی فارسی اسموں اور مصدروں کو ہندی مصدروں کی علامت لگا اردو بنا لیا۔ امیر خسرو نے تو یہاں تک اجتہاد کیا کہ چلنے سے چلیدن بنا کر فارسی میں رائج کر دیا۔ حتیٰ کہ اب ترجموں اور تصانیف کا دفتر بھی کُھل گیا۔ کسی نے قرآن شریف کا ترجمہ کیا۔ کسی نے شہادت نامہ لکھا کسی نے چار درویش سنبھالا۔ کوئی نظمپر جُھک پڑا۔ ولی گجراتی نے بعہد عالمگیر 1658ء بمطابق 1046ہجری میں سب سے اول دیوان لکھ ڈالا۔ شاہ حاتم، فغاں، خان آرزو نے دلی کی زبان کو منجھا، مگر ان سے پانچ برس پیشتر شاہ عالم ثانی نے 1759ء مطابق 1173 ہجری میں نظم کا شوق کیا اور آفتاب تخلص فرما کر چار دیوان لکھے اور اس زبان کو پہلے سے بہت زیادہ ترقی دے کر چمکایا۔ ان کے بعد مظہر جانجاناں، میر سوز، میر تقی، مرزا رفیع سودا اور خواجہ میر درد کے وقت میں تو یہ فنِ شعر میں عالم شباب پر پہنچ گئی۔
دیباچہ فرہنگِ آصفیہ – صفحہ 22
ان لوگوں کی خوش بیانی اور طلاقتِ لسانی نے اسے چار چاند لگا دیئے۔ چنانہ ان کی خوش بیانی کے آوازہ نے ان کے کلام کا آویزہ بنا کر ہر ایک سخن فہم کے گوشِ فصاحت نیوش میں پہنا دیا۔
مصحفی – سید انشاء جرأت گو ان کے پیرو بنے مگر ان کو نہ پہنچے۔ البتہ ناسخ، آتش، نصیر، مومن، ذوق اور غالب نے اردو کو معراج پر پہنچا دیا۔ اور اب اخیرمیں داغ معاملہ بندی، درد بھری سخن گوئی، سخن سنجی، فصاحتِ کلام میں ابنائے زمانہ پر سبقت لے جا کر ہر ایک اہل زبان کو اپنا داغ دے گیا۔ حضرت معروف حضرت عارف حضرت نیز رخشاں یوسف علی خاں عزیز، میر مجروح، انور پہلے ہی چل بسے تھے۔ ایک حضرت حالی (۱) کا دم رہ گیا۔ خدا تعالےٰ انہیں عمر نوح عطا فرمائے اور ہمارے بقیہ زندگی بھی ان کی حیات میں ملا کر خلق اللہ کو فیض پہنچائے ہر زمانہ میں تغیر و تبدل ہو کر یہ زبان منجتی اور صاف ہوتی چلی گئی۔ شاہجہاں آباد کی زبان کو ہند میں وہی شرف حاصل ہے جو شیراز کی زبان کو ایران میں، عربی کو مکہ میں، فرانسیسی کو پیرس میں۔ انگریزی کو لندن میں۔ اس شہر کی زبان اردو بولنے والوں کے لیے سند اور یہ شہر اس کی اصل ٹکسال اور گھر ہے۔ بعض زبانوں کے غیر مانوس، غیر ضروری الفاظ جو بلا ضرورت اپنی علمیت جتانے کی غرض سے اس زبان میں زبردستی ٹھونسے جاتے ہیں وہ زبان کے لطف کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اس میں سنسکرت کے الفاظ ہوں خواہ عربی کے، فارسی کے لغت ہوں خواہ انگریزی کے بعض نہایت بے جوڑ اور بے تُکے معلوم ہوتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں اردو کی تصنیف و تالیف کثرت اخبار اور ترجموں کی افراط نے اسے علمی زبان بنا دیا اور یہ ہمارے ملک کی ایک مستند زبان ہو گئی مگر بے میل پیوند کسی طرح خوشنما اور موزوں نہیں ہوا کرتا۔ غیر مانوس اور خشونت انگیز الفاظ کمخاب میں ٹاٹ کا پیوند معلوم ہوتے ہیں۔ اس زبان کی تکمیل میں اگر کسر تھی تو فن لغات مصطلحات کی تدوین کی کسر تھی۔ سو خدا تعالٰی نے اس عشق ہمارے دل میں دالا۔ اور ہم نے باوجود تنگدستی اسے پورا کر کے دکھا دیا۔ گویا اب ہمارے زبان کو آئندہ نسلوں کے واسطے موجودہ و سابقہ الفاظ کا ایک عمدہ ذخیرہ اور لُغات کی ترقی کا ایک معتدبہ سامان بہم پہنچ گیا۔ ہمارے زمانہ کی تہذیبی اور شریفانہ زبان یہی قرار پائی۔ گو آپ کے جھگڑے اور خود غرضانہ پالیسی اسے نقصان پہنچانے میں کمی نہ کرے مگر یہ زبان اب مٹنے والی نہیں۔ ریل نے اسے عام بلکہ عالمبیر بنا دیا۔ تویا اردو زبان ہند کی ملکی زبان ہو گئم۔ نہ یہ مسلمانوں کی خاص زبان ہے نہ ہندوؤں کی نہ کسی اور کی یہ تو اپنے دیس کی سہل المخارج، سریع الفہم، ہمہ گیر، ہمہ صفت موصوف۔ عام پسند وہاں ہے جس کے لئے مدراس کی تعلیمی کانفرنس نے بھی سرکار سے یہ درخواست کی ہے کہ وہاں کی دیسی زبانوں میں اردو بھی تسلیم کی جائے۔ ہماری زبان کوئی اکل کھری زبان نہیں ہے۔ اس میں سب زبانوں کی کھپت اور سمائی ہے۔ یہ اسی زبان نے صلاحیت اور ملنساری پائی ہے کہ ہر ایک زبان کے الفاظ خواہ کسی لہجہ اور کیسے ہی مشکل مخرج سے تعلق کیوں نہ رکھیں، اس میں بآسانی جزو بدن ہو جاتے ہیں۔ تُرکی کا غ، عربی کا ع، فارسی کی ژ، اٹلی کی ث، سنسکرت کا ش، ہندی کا ڈھ، انگریزی کی ٹ۔ غرض جس زبان کا سخت سے سخت اور نرم سے نرم لفظ چاہو اس میں کھپا لو اور اردو زبان بولنے والے سے اسکے اصلی تلفظ کے موافق نکلوا لو۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ ہمارے ملم میں دیس دیس کی آب و ہوا کا لطف، ہر ایک موسم کا سماں موجود ہے۔ ہمارے ملک والے جس غیر زبان کو چاہتے ہیں، اس عمدگی اور خوبی سے بولنے لگتے ہیں کہ اس کے اہل زبان بھی تمیز نہیں کر سکتے کہ یہ کسی غیر دیس کا آدمی ہمارے بولی بول رہا ہے یا ہمارا ہی ہموطن اور ہمزبان ہے۔ اور تو اور یہاں کے بعض پرندوں کو بھی یہ ملکہ حاصل ہے کہ انہیں جونسی زبان چاہو سکھا لو۔ بلوا لو۔ بنگالہ کا مینا اور ہندوستن کے طوطے کی بولی پر صاف انسان کا گمان ہوتا ہے بلکہ اور پرندوں کی بولی بھی یہ جانور ایسی اُڑا لیتے ہیں کہ سننے والے کو تمیز نہیں ہونے دیتے کہ یہ بلبل ہزار داستاں ہے یا طُوطیٔ شکرستاں، اس سے بڑھ کر اور بات سنئے کہ یہاں کے بعض لوگ جانوروں کی بولی بول کر ادھر آدمیوں کو اُدھر جانوروں کو خاصا دھوکہ دے دیتے ہیں۔ جس وقت، جس موسم، جس موقع پر چاہو، جس پرند، جس جانور کی ان کے منہ سے بولی بلوا کر سن لو۔
اسی زبان کو زبان ریختہ بھی کہتے ہیں جسکی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دوامی قیام کے واسطے گویا ریختہ کی مضبوط بنیاد ڈالی ہے، بلکہ زیادہ تراردو اشعار کو ریختہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ غالب علٰی کلِ غالب فرماتے ہیں جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکہ ہو رشکِ فارسی – گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یوں۔ علیٰ ہذا حضرت عارف کا ارشاد ہے یہ ریختہ وہ ہے کہ کوئی ڈھا نہیں سکتا – عارفؔ نہیں دیکھی یہ تعمیر کسی نے۔ عارف یہ ریختہ بھی نہیں فارسی سے کم – دیوان سیکڑوں مرے ایراں تلک گئی۔ میر تقی کس کس طرح سے میرؔ نے کاٹا ہے عمر کو – اب آخر آخر آن کے یہ ریختہ کہا۔ مگر اب ریختہ کی بجائے اردو یا فقط اردو لکھنے اور بولنے میں سے سے زیادہ زباں زدِ خاص و عام ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اردو کی وہ نظم جو آورو سے بچا کر بیساختہ ازرُوئے آمد کہی جائے ریختہ ہے۔
اردو زبان کی بالترتیب تصنیفی ترقی
بظاہر اردو زبان میں تصنیف کا سلسلہ 1732ء مطابق 1145ھ عہد محمد شاہ بادشاہ دہلی سے شروع ہوا۔ اور میاں فضلی دہلوی نے سب سے پہلے وہ مجلس اس زمانہ کی زردو کے موافق لکھی۔ یہ کتاب بار بار طبع ہو چکی ہے۔ آپ سے چالیس پچاس برس پہلے محرم کی مجلسوںمیں عزاداروں کے گھروں میں شہادت ناموں کی بجائے یہی کتاب پڑھی جاتی تھی۔ مگر اب اسے کوئی نہیں پڑھتا۔ کیونکہ بلحاظ زبان و بیان اس سے بدرجہا بہتر اس بیان کے متعلق بہت سے کتابیں بن گئی ہیں۔ حضراب میر اُنیس اور مرزا دبیر کے مرثئے رُلانے اور چار آنسو ٹپکانے کے واسطے وافی و کافی ہیں۔ گو بلحاظ تعصب بعض لوگ ان کے کلام کی داد نہ دیں۔ اور ان مرثیوں کو عقیدتمندانہ نظر سے نہ دیکھیں۔ مگر درحقیقت حضرات موصوف نے مرثیہ گوئی کو ایک خاص علم بنا دیا ہے۔ ہر ایک کا حصہ نہیں ہے کہ اس میں سبقت لے جائے۔ 1705ء مطابق 1164ھ میں شری للوجی لال کوی نے پریمؔ ساگر اردو آمیز زبان میں لکھی۔ 1771ء مطابق 1185ح میں رفیع سودا نے میر تقی کی مثنوی شعلہ عشق کو نثر میں کیا لیکن اس نثر سے اپنے زبردست کلام کی سے