ام اویس
محفلین
مسجد نبوی کے اہم مقامات:
محرابِ نبوی صلی الله علیہ وسلم
مسجد کے مسجد ہونے کے لیے کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی، لیکن چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں، ایک ان میں سے مسجد کی محراب ہے، جو قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے تجویز کی گئی ہے۔
حافظ بدرالدین عینی رحمہ اللہ ”عمدۃ القاری“ میں لکھتے ہیں:
ترجمہ:…”اور ابوالبقاء نے ذکر کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کعبہ کی سیدھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محراب بنائی اور کہا گیا ہے کہ یہ معائنہ کے ذریعہ ہوا، یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے پردے ہٹادیے گئے اور صحیح حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگیا، پس آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر اپنی مسجد کا قبلہ رُخ متعین کیا۔“
(عمدة القاري شرح بخاری، الجزء الرابع ص:۱۲۶، طبع دارالفکر، بیروت)
اس سے دو امر واضح ہوتے ہیں۔
اوّل یہ کہ محراب کی ضرورت تعینِ قبلہ کے لیے ہے، تاکہ محراب کو دیکھ کر نمازی اپنا قبلہ رُخ متعین کرسکے۔
دوم یہ کہ جب سے مسجدِ نبوی کی تعمیر ہوئی، اسی وقت سے محراب کا نشان بھی لگادیا گیا، خواہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کی نشان دہی کی ہو، یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذریعہ کشفِ وحی خود ہی تجویز فرمائی ہو۔
سیرت طیبہ اور اسلامی تاریخ میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس کا رخ کرکے نمازیں ادا کرتے رہے تھے۔
احادیث کی معتبر ترین کتابوں بخاری اور مسلم شریف میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس کا رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے تھے۔ اس وقت امام کے کھڑے ہونے کی جگہ مسجد کے آخر میں باب عثمان کے بالمقابل شمال کی جانب تھی۔
سولہ یا سترہ ماہ بعد قبلہ تبدیل ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم پر بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کا رخ کرکے نماز پڑھنا شروع کردیا۔ اس موقع پر امام کی جائے نماز مسجد نبوی کے شمالی حصے سے جنوبی حصے میں منتقل کردی گئی تھی۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے چند روز تک عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا کے نام سے منسوب ستون کے پاس نماز کی امامت کرائی تھی۔
البتہ یہ جوف دار (نصف گنبد یا گنبد نما) محراب جو آج کل مساجد میں ”قبلہ رُخ“ ہوا کرتی ہے، اس کی ابتدا خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس وقت کی تھی جب وہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے۔
(وفاء الوفاء ص:۵۲۵ وما بعد)
یہ صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین وتابعین ؒ کا دور تھا، اور اس وقت سے آج تک مسجد میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
ترجمہ:…”اور قبلہ کا رُخ کسی علامت سے معلوم ہوسکتا ہے، اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بنائیں، پس بنی ہوئی محرابوں میں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔“
یعنی یہ محرابیں، جو مسلمانوں کی مسجدوں میں صحابہ کرام و تابعینؒ کے زمانے سے چلی آتی ہیں، دراصل قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے ہیں، اور اُوپر گزر چکا ہے کہ استقبالِ قبلہ ملتِ اسلامیہ کا شعار ہے، اور محراب جہتِ قبلہ کی علامت کے طور پر مسجد کا شعار ہے، (اور اس سے امام کا وسط میں کھڑا ہونے اور صفوں کا درمیان بھی معلوم ہوتا ہے)۔
محراب لفظ کا استعمال
’’لغت‘‘ کا تعلق سماع سے ہے، یعنی جس لفظ کا معنی اہلِ لغت سے جوسنا گیا ہے وہ اسی معنی میں مستعمل ہوگا، لغت میں قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
لفظ ”حرب“ کے مادہ میں تین حروف ہیں، ”ح، ر، ب“ اس مادہ اشتقاق میں تین معنی پائے جاتے ہیں۔
(1) سلب، (2) رینگنے والے کیڑے (3) بعض مجالس، بیٹھک۔
پھر ان تینوں اصول سے مختلف معنوں کے لیے یہ مادہ استعمال ہوتا ہے، جنگ، لڑائی اور بہادری کے لیے ”حرب“ استعمال ہوتا ہے، اور یہ پہلے اشتقاق سے ہے یعنی سلب والے معنی سے، اور کیڑے اور رینگنے والے جانوروں وغیرہ کے لیے اسی مادہ سے ”حرباء“ استعمال ہوتا ہے، اور اس مادہ سے تیسرا لفظ ”محراب“ استعمال ہوتا جو مجالس اور بیٹھک کے معنی میں ہے۔
پھر محراب کے مختلف معنی ہیں، لیکن ان سب میں بیٹھک اور مجلس والا معنی اس کے اندر موجود ہوگا:
محراب کے چند معانی یہ ہیں:
(1)کمرہ (2) بالا خانہ (3) گھر کی اچھی اور معزز جگہ (4) گھر کا صدر مقام یا ابتدائی حصہ جہاں معزز لوگ بیٹھتے ہیں (5) محل ، (6) مسجد یا مکان کی بلند جگہ (7)بادشاہ کی بیٹھک، جہاں وہ تنہا بیٹھتا ہے۔
انہی معنی کے پیشِ نظر امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو ”محراب‘‘ کہتے ہیں، اس لیے کہ وہ مسجد میں سب سے معزز جگہ ہوتی ہے، اور جس طرح بادشاہ جہاں تنہا بیٹھتا ہے اس کو محراب کہتے ہیں، اسی طرح چوں کہ امام وہاں تنہا اور اکیلا ہوتا ہے؛ اس لیے اس کو محراب کہتے ہیں۔
اور اگر اس کو حرب یعنی جنگ کے معنی سے لیں تو بھی بعض علماء نے اس کی یہ توجیہہ ذکر کی ہے کہ محراب میں امام کی شیطان سے جنگ ہوتی ہے، اس لیے اس کو محراب کہتے ہیں۔
مسجدِ نبوی میں مختلف ادوار میں بہت سی محرابیں تعمیر کی گئیں، جن میں سے چند یہ ہیں۔
مسجد نبوی میں ایک محراب 888 سن عیسوی میں سلطان قايتبای کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔
خادم الحرمین الشریفین شاہ فھد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور 1404ه۔ میں بڑے پیمانے پر اس محراب کی تعمیر ومرمت کا کام سرانجام دیا گیا کیونکہ اس کا سنگ مرمر اور موزیک بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔
محراب تہجد رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم
محراب تہجد رسول اللہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے جائے نماز کے باہر شمالی کھڑکی کے قریب واقع ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ محراب تہجد 643 ھ کو وفات ابن النجار کے عہد میں موجود تھی۔
اس محراب میں قايتباي اور پھر المجیدیہ طرز تعمیر کے اندر تجدید کی گئی۔ انھوں نے سرخ پتھر کے ایک ٹکڑے پر آیات تہجد لکھوا کر اس پر سونے کا پانی چڑھوایا۔ یہ محراب آج بھی موجود ہے، تاہم یہ مصحف کے لیے مخصوص ریک کے پیچھے چھپ گئی ہے۔
محراب ’’فاطمہ‘‘
محراب ’’فاطمہ‘‘ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی جائے نماز کے اندر واقع ہے۔ یہ محراب ایک خالی ستون پر مملوکی دور میں تعمیر کی گئی اور اس کی شکل محراب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی ہے۔
محراب عثمانی
محراب عثمانی مسجد نبوی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی قبلہ سمت دیوار میں بنائی گئی۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں مسلمانوں کی امامت کا فریضہ انجام دیتے تھے۔
مسجد نبوی کی توسیع کے بعد الولید بن عبدالملک نے (91ھ) میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جائے نماز پر ایک محراب تعمیر کر دی کیونکہ حضرت عثمان رضي الله کے دور میں محرابیں نہیں تھیں، پھر سلطان قايتباي نے (888ھ) کو اس میں موجودہ حد تک وسعت دی۔
محراب سلیمانی
مسجد نبوی میں محراب سلیمانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ منبر رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے ستون کے پاس محراب نبی کی دائیں جانب واقع ہے۔ نویں صدی ہجری کے اواخر میں اسے طوغان شیخ نے 860ھ میں تعمیر کروایا اور اس میں محمد بن ابراہیم بن احمد الحنفی نامی حنفی امام مقرر کیا، اس نسبت سے اسے الحنفی محراب کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں (948ه۔) میں اسے سلطان سلیمان خان المعروف القانونی نے از سر نو بنوایا۔ اس میں سفید اور سیاہ سنگ مرمر لگوائے، جس کے بعد اس کا نام محراب سلیمانی مشہور ہو گیا۔
جمع و ترتیب : نزہت وسیم
محرابِ نبوی صلی الله علیہ وسلم
مسجد کے مسجد ہونے کے لیے کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی، لیکن چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں، ایک ان میں سے مسجد کی محراب ہے، جو قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے تجویز کی گئی ہے۔
حافظ بدرالدین عینی رحمہ اللہ ”عمدۃ القاری“ میں لکھتے ہیں:
ترجمہ:…”اور ابوالبقاء نے ذکر کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کعبہ کی سیدھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محراب بنائی اور کہا گیا ہے کہ یہ معائنہ کے ذریعہ ہوا، یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے پردے ہٹادیے گئے اور صحیح حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگیا، پس آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر اپنی مسجد کا قبلہ رُخ متعین کیا۔“
(عمدة القاري شرح بخاری، الجزء الرابع ص:۱۲۶، طبع دارالفکر، بیروت)
اس سے دو امر واضح ہوتے ہیں۔
اوّل یہ کہ محراب کی ضرورت تعینِ قبلہ کے لیے ہے، تاکہ محراب کو دیکھ کر نمازی اپنا قبلہ رُخ متعین کرسکے۔
دوم یہ کہ جب سے مسجدِ نبوی کی تعمیر ہوئی، اسی وقت سے محراب کا نشان بھی لگادیا گیا، خواہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کی نشان دہی کی ہو، یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذریعہ کشفِ وحی خود ہی تجویز فرمائی ہو۔
سیرت طیبہ اور اسلامی تاریخ میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس کا رخ کرکے نمازیں ادا کرتے رہے تھے۔
احادیث کی معتبر ترین کتابوں بخاری اور مسلم شریف میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس کا رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے تھے۔ اس وقت امام کے کھڑے ہونے کی جگہ مسجد کے آخر میں باب عثمان کے بالمقابل شمال کی جانب تھی۔
سولہ یا سترہ ماہ بعد قبلہ تبدیل ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم پر بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کا رخ کرکے نماز پڑھنا شروع کردیا۔ اس موقع پر امام کی جائے نماز مسجد نبوی کے شمالی حصے سے جنوبی حصے میں منتقل کردی گئی تھی۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے چند روز تک عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا کے نام سے منسوب ستون کے پاس نماز کی امامت کرائی تھی۔
البتہ یہ جوف دار (نصف گنبد یا گنبد نما) محراب جو آج کل مساجد میں ”قبلہ رُخ“ ہوا کرتی ہے، اس کی ابتدا خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس وقت کی تھی جب وہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے۔
(وفاء الوفاء ص:۵۲۵ وما بعد)
یہ صحابہ رضوان الله علیھم اجمعین وتابعین ؒ کا دور تھا، اور اس وقت سے آج تک مسجد میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
ترجمہ:…”اور قبلہ کا رُخ کسی علامت سے معلوم ہوسکتا ہے، اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بنائیں، پس بنی ہوئی محرابوں میں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔“
یعنی یہ محرابیں، جو مسلمانوں کی مسجدوں میں صحابہ کرام و تابعینؒ کے زمانے سے چلی آتی ہیں، دراصل قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے ہیں، اور اُوپر گزر چکا ہے کہ استقبالِ قبلہ ملتِ اسلامیہ کا شعار ہے، اور محراب جہتِ قبلہ کی علامت کے طور پر مسجد کا شعار ہے، (اور اس سے امام کا وسط میں کھڑا ہونے اور صفوں کا درمیان بھی معلوم ہوتا ہے)۔
محراب لفظ کا استعمال
’’لغت‘‘ کا تعلق سماع سے ہے، یعنی جس لفظ کا معنی اہلِ لغت سے جوسنا گیا ہے وہ اسی معنی میں مستعمل ہوگا، لغت میں قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
لفظ ”حرب“ کے مادہ میں تین حروف ہیں، ”ح، ر، ب“ اس مادہ اشتقاق میں تین معنی پائے جاتے ہیں۔
(1) سلب، (2) رینگنے والے کیڑے (3) بعض مجالس، بیٹھک۔
پھر ان تینوں اصول سے مختلف معنوں کے لیے یہ مادہ استعمال ہوتا ہے، جنگ، لڑائی اور بہادری کے لیے ”حرب“ استعمال ہوتا ہے، اور یہ پہلے اشتقاق سے ہے یعنی سلب والے معنی سے، اور کیڑے اور رینگنے والے جانوروں وغیرہ کے لیے اسی مادہ سے ”حرباء“ استعمال ہوتا ہے، اور اس مادہ سے تیسرا لفظ ”محراب“ استعمال ہوتا جو مجالس اور بیٹھک کے معنی میں ہے۔
پھر محراب کے مختلف معنی ہیں، لیکن ان سب میں بیٹھک اور مجلس والا معنی اس کے اندر موجود ہوگا:
محراب کے چند معانی یہ ہیں:
(1)کمرہ (2) بالا خانہ (3) گھر کی اچھی اور معزز جگہ (4) گھر کا صدر مقام یا ابتدائی حصہ جہاں معزز لوگ بیٹھتے ہیں (5) محل ، (6) مسجد یا مکان کی بلند جگہ (7)بادشاہ کی بیٹھک، جہاں وہ تنہا بیٹھتا ہے۔
انہی معنی کے پیشِ نظر امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو ”محراب‘‘ کہتے ہیں، اس لیے کہ وہ مسجد میں سب سے معزز جگہ ہوتی ہے، اور جس طرح بادشاہ جہاں تنہا بیٹھتا ہے اس کو محراب کہتے ہیں، اسی طرح چوں کہ امام وہاں تنہا اور اکیلا ہوتا ہے؛ اس لیے اس کو محراب کہتے ہیں۔
اور اگر اس کو حرب یعنی جنگ کے معنی سے لیں تو بھی بعض علماء نے اس کی یہ توجیہہ ذکر کی ہے کہ محراب میں امام کی شیطان سے جنگ ہوتی ہے، اس لیے اس کو محراب کہتے ہیں۔
مسجدِ نبوی میں مختلف ادوار میں بہت سی محرابیں تعمیر کی گئیں، جن میں سے چند یہ ہیں۔
مسجد نبوی میں ایک محراب 888 سن عیسوی میں سلطان قايتبای کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔
خادم الحرمین الشریفین شاہ فھد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور 1404ه۔ میں بڑے پیمانے پر اس محراب کی تعمیر ومرمت کا کام سرانجام دیا گیا کیونکہ اس کا سنگ مرمر اور موزیک بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔
محراب تہجد رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم
محراب تہجد رسول اللہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے جائے نماز کے باہر شمالی کھڑکی کے قریب واقع ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ محراب تہجد 643 ھ کو وفات ابن النجار کے عہد میں موجود تھی۔
اس محراب میں قايتباي اور پھر المجیدیہ طرز تعمیر کے اندر تجدید کی گئی۔ انھوں نے سرخ پتھر کے ایک ٹکڑے پر آیات تہجد لکھوا کر اس پر سونے کا پانی چڑھوایا۔ یہ محراب آج بھی موجود ہے، تاہم یہ مصحف کے لیے مخصوص ریک کے پیچھے چھپ گئی ہے۔
محراب ’’فاطمہ‘‘
محراب ’’فاطمہ‘‘ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی جائے نماز کے اندر واقع ہے۔ یہ محراب ایک خالی ستون پر مملوکی دور میں تعمیر کی گئی اور اس کی شکل محراب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی ہے۔
محراب عثمانی
محراب عثمانی مسجد نبوی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی قبلہ سمت دیوار میں بنائی گئی۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں مسلمانوں کی امامت کا فریضہ انجام دیتے تھے۔
مسجد نبوی کی توسیع کے بعد الولید بن عبدالملک نے (91ھ) میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جائے نماز پر ایک محراب تعمیر کر دی کیونکہ حضرت عثمان رضي الله کے دور میں محرابیں نہیں تھیں، پھر سلطان قايتباي نے (888ھ) کو اس میں موجودہ حد تک وسعت دی۔
محراب سلیمانی
مسجد نبوی میں محراب سلیمانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ منبر رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے ستون کے پاس محراب نبی کی دائیں جانب واقع ہے۔ نویں صدی ہجری کے اواخر میں اسے طوغان شیخ نے 860ھ میں تعمیر کروایا اور اس میں محمد بن ابراہیم بن احمد الحنفی نامی حنفی امام مقرر کیا، اس نسبت سے اسے الحنفی محراب کہا جاتا ہے۔
بعد ازاں (948ه۔) میں اسے سلطان سلیمان خان المعروف القانونی نے از سر نو بنوایا۔ اس میں سفید اور سیاہ سنگ مرمر لگوائے، جس کے بعد اس کا نام محراب سلیمانی مشہور ہو گیا۔
جمع و ترتیب : نزہت وسیم