دھوتی والی سرکار۔۔۔۔۔جمیل خان

dhoti-wali-sarkar-670.jpg

پیٹی والی سرکار نے ایک مرتبہ ثبوت کے ساتھ دھوتی والی سرکار کو پکڑ لیا اور سلاخوں والی سرکار کے حوالے کردیا۔ جہاں اُن کی برسوں خاطر مدارات جاری رہیں۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

اِن سے ملیے یہ ہیں حضرت دھوتی والی سرکار!

تنبو والی سرکار کے خلیفہ اور پگڑی والی سرکار کے دھوتی بدل بھائی! جن کی آنکھوں میں معلوم ہوتا تھا کہ سرمے کا پورا ٹرک گرگیا ہو۔ پیروں کے تلووں اور ہاتھوں کی ہتھیلوں میں سرخی مائل سیاہ رنگ مہندی لگی رہتی۔ گلے میں درجن بھر مالائیں،اور توند کا حدود اربع اس قدر وسیع وعریض کہ بیٹھنا اُٹھنا دشوار۔ تنبو کے سائز کے سیاہ لبادے میں اعمال کی بہت سی سیاہیاں چُھپی ہوئیں!
حضرت کی جس گھرانے میں ولادت باسعادت ہوئی، وہ اپنی قناعت اور سادگی میں بہت معروف تھا۔ لوگوں کی اُترن پہن کر اور گھروں کے بچے کھچے کھانوں پر گزارا ہوتا تھا۔ مانگتے یا صدا نہیں لگاتے تھے، بس شکلیں ہی قدرت نے ایسی دی تھیں کہ دستِ غیب سے خوب رزق ملتا تھا، خدا کے سوا کسی سے توقع نہیں لگائی، چنانچہ کبھی محنت کی کمائی نہیں کھائی!
حضرت دھوتی والی سرکار کے والد بزرگوار کے وصال کا قصہ سبق آموز ہی نہیں بلکہ اس میں روحانی تعلیمات کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے۔ حضرت کے والد محترم کو سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا، اسی لیے ان کے والد محترم نے ان کی قمیض پر گھر کا مکمل پتہ رنگین دھاگوں سے کڑھوا کر انہیں اللہ کی راہ میں چھوڑ دیا تھا۔ یوں ہفتوں شہروں کی خاک چھانتے پھرتے تھے اور جو کچھ مال و منال حاصل ہوتا، وہ اپنے والد یعنی حضرت دھوتی والی سرکار کے دادا حضور کی خدمت میں پیش کردیتے۔ ایک روز گئے تو واپس لوٹ کر ہی نہ آسکے، بہت ڈھونڈوایا لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ دراصل انہیں ایک دوسرے گدّی نشین نے گود لے لیا تھا۔
حضرت دھوتی والی سرکار کے دادا حضرت کے والد محترم سے خاص لگاؤ رکھتے تھے کہ فقیری میں تمام بھائیوں اور دیگر افرادِ خاندان میں ان کا درجہ کافی بلند تھا۔ گردن میں پیدائشی رعشہ تھا اور منہ سے ہروقت رال بہتی رہتی تھی۔ اسی لیے ان کا درجہ فقیری میں بہت بلند تھا، جسے بہت سے دشمن گداگری کہتے تھے۔
حضرت دھوتی والی سرکار کو ایک مولوی صاحب کے مدرسے میں داخل کروایا گیا کہ ظاہری علوم میں طاق ہوجائیں۔ حضرت دھوتی والی سرکار بچپن سے ہی بہت ذہین تھے۔ والدہ جانتی تھیں کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کے برعکس بہت اعلیٰ مرتبہ و مقام پائیں گے، ظاہر ہے اس کی وجہ بھی وہی جانتی تھیں۔ دھوتی والی سرکار نے ابتدائی اسباق بہت جلد یاد کرلیے تو مولوی صاحب نے مشکل اسباق سکھانے کے لیے انہیں اپنے حجرۂ خاص میں بُلوالیا۔ حضرت کو سمجھانے کی کوشش کی کہ دین کے کاموں میں شروع شروع میں سختی محسوس ہوتی ہے، پھر راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن حضرت دھوتی والی سرکار بِدَک گئے اور والدہ محترمہ سے جاکے صاف صاف کہہ دیا کہ اب وہ اس سے آگے نہیں پڑھیں گے کہ آگے کی پڑھائی بہت سخت ہے۔ ان کی والدہ محترمہ نے بھی سمجھ لیا تھا کہ اس سے آگے پڑھایا گیا تو راہِ طریقت سے بھٹک جائیں گے۔ چنانچہ پگڑی شریف پہنا کے گدّی شریف پر بٹھادیا۔
دھوتی والی سرکار سے ہم اس وقت متعارف ہوئے جب ان کی ایکسپائری ڈیٹ قریب آرہی تھی۔ اب تک جو کچھ ہم نے بیان کیا وہ دوسروں کی زبانی سنا تھا، اب جو بیان کریں گے وہ آنکھوں دیکھا ہوگا۔ حضرت دھوتی والی سرکار مریدین اور متوسلّین پر بے حد شفقت فرماتے تھے یہی وجہ ہے کہ مہینے کی تیسوں دن کسی نہ کسی کے ہاں کھانے پر مدعو ہوتے۔
ذکر وشغل کے ساتھ ساتھ مرغِ مسلّم سے بھی دو دو ہاتھ ہوجاتے۔ یعنی دنیا کی برکتیں بھی اور آخرت کا ثوابِ دارین بھی۔
جب ہم نے پہلی مرتبہ دھوتی والی سرکار کی زیارت کا شرف حاصل کیا تو ہمیں یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر انہوں نے اتنی بڑی گٹھری اپنے سر پر کیوں لاد رکھی ہے؟ ہمارے دوست نون نے خیال ظاہر کیا کہ ان کی اوپر والی منزل خالی ہوگی، یہ سمجھے ہوں گے کہ عقل کسی چڑیا کا نام ہے، اسی لیے ایک چڑیا چادر میں پکڑی اور اوپر کی منزل میں آباد کردی۔ پھر چادر احتیاطاً ایسے ہی چھوڑ دی کہ چڑیا فرار نہ ہوجائے اور کیا معلوم دوبارہ ہاتھ آئے نہ آئے، اور انہیں بغیر عقل کے ہی ساری زندگی کام چلانا پڑے۔
نون نے کسی کا شعر اپنا کہہ کر دھوتی والی سرکار کے نام یوں معنون کیا۔ شعر یہ تھا؎
آپ دستار اُتاریں تو کوئی فیصلہ ہو
لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں
برسوں سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ نئے چاند کی پہلی جمعرات کو دھوتی والی سرکار مرزا جی کے گھر منعقدہ محفل میں تشریف لاتے۔ ہم بھی ذوق وشوق سے اس محفل میں جایا کرتے۔ ذوق وشوق اس بات کا تھا کہ جب ‘‘اﷲ ہُو’’ کہتے ہوئے دھوتی والی سرکار جھومتے ہوں گے تو یقیناً اُن کی دستار شریف گرجاتی ہوگی!
ہمیں جستجو یہ تھی کہ آخر اُس کے نیچے سے کیا برآمد ہوتا ہوگا.؟
لیکن صد افسوس ہمیں ہمارے سوال کا جواب کبھی نہ مل سکا۔
پھر ایک مرتبہ ہمیں اُن کی محفل سے نہایت ذلیل وخوار ہوکر نکلنا پڑا، حالانکہ ہمارا اتنا بڑا قصور بھی نہ تھا!
ہوا کچھ یوں کہ دھوتی والی سرکار کے ایک معتقد نے موصوف کی تقریر کے دوران، جس میں وہ اپنی کرامتوں کی ڈینگیں مارا کرتے تھے، جوش کی کیفیت میں بلند بانگ نعرہ لگایا:
ہمارے پیر صاحب کو….
حاضرین نے حسبِ دستور جواب دیا:
خدا کا نور کافی ہے!
نون کا کہنا تھا کہ تقطیع کے لحاظ سے نعرہ بے وزن ہے۔ چنانچہ اُس نے وزن پورا کرنے کے خیال سے منہ چھپا کر (دراصل اُسے خودنمائی سے سخت چڑ ہے) تقریباً چلّاتے ہوئے کہا:
فقط اِک حور کافی ہے!
بس اتنی سی بات تھی جس پر حاضرین بے حد خفا ہوگئے۔ شاید فقط اِک حور! والی بات دھوتی والی سرکار کے شایانِ شان نہ تھی، اسی لیے سب کو بُری لگ گئی۔
دھوتی والی سرکار کے معتقدین کا خیال تھا کہ اُن کے پیر صاحب محدودیت سے نکل کر لامحدودیت میں داخل ہوچکے ہیں، اُن کے لامحدود جثّہ شریف سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ والی لامحدودیت اُن کو تنبو والی سرکار کی نسبت سے حاصل ہوئی ہوگی!
اُن موصوف کے کپڑے تو یقیناً تنبو سینے والے درزی ہی سلتے ہوں گے!
دھوتی والی سرکار کی سواری جب مرزا جی کے دولت کدے پر اُترتی تو بہت سے لوگ برکت کے حصول کے لیے اُن کی دست بوسی کرنے جاتے۔ پہلی مرتبہ ہم یہ سوچ کر لائن میں لگ گئے کہ شاید کچھ بٹ رہا ہے۔باری آئی تو دیکھا کہ دھوتی والی سرکار اپنے سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کی پُشت آسمان کی طرف کرکے آگے بڑھائے بیٹھے ہیں!
ہم سمجھے کہ شاید انہوں نے اپنی انگلیوں میں جو دو دو، تین تین جہازی سائز کی انگوٹھیاں پہن رکھی ہیں، اُن میں سے ایک ہمیں عنایت کر رہے ہیں،جھٹ ایک اُتار لی!
آگے کیا ہوا ہوگا؟ آپ خاصے سمجھدار ہیں۔ تفصیل بیان کرنے کے لیے وقت بھی کمی ہے۔ ہاں البتہ نون نے دیکھ لیا تھا کہ دھوتی والی سرکار اپنا ہاتھ اس طرح دست بوسی کے لیے آگے بڑھاتے ہیں۔ایک تو وہ اُس وقت ڈبل کتھے چونے کا بڑا سا پان کھا رہا تھا، جس کی پیک ہونٹوں کے کناروں سے بہے جارہی تھی۔ دوسرے اُسے شدید نزلہ بھی تھا اور ناک یوں بہہ رہی تھی کہ :
لٹکن در پٹکن!
نون نے اس شدّت سے دست بوسی کی کہ اردگرد کھڑے معتقدین سمجھے کہ دھوتی والی سرکار کا دیوانہ ہے اور اسے بہت فیض مل رہا ہے!
جب دھوتی والی سرکار کو احساس ہوا کہ خود اُنہیں بھی بہت کچھ فیض مل رہا ہے تو بمشکل ہاتھ چھڑا سکے۔ نون کی اس حرکت سے باقی لوگ بے خبر تھے، لیکن آئندہ جب بھی دست بوسی کے لیے نون اُن کے سامنے آتا، تو دھوتی والی سرکار شریف آدمیوں کی طرح اُس سے مصافحہ کیا کرتے۔ اس وجہ سے اُن کے معتقدین نون کو خاص بندہ خیال کرتے تھےاور یہ ایسا کوئی غلط بھی نہ تھا۔
دھوتی والی سرکار دھوتی کی آڑ میں، عوام النّاس کی سہولت کے لیے کچھ ایسی چیزیں بھی فروخت کیا کرتے تھے، جس کے استعمال سے اُن کے خیال میں بندہ کچھ دیر کے لیے یکسو ہوکر دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہے، لیکن سب لوگ اُن کی طرح نہیں سوچتے تھے اور ان چیزوں کی منشیات کا نام دیتے تھے۔
چنانچہ کسی نے مخبری کردی۔ پھر پیٹی والی سرکار نے ثبوت کے ساتھ دھوتی والی سرکار کو پکڑ لیا اور سلاخوں والی سرکار کے حوالے کردیا۔ جہاں اُن کی برسوں خاطر مدارات جاری رہیں۔ پھر جب حکومت تبدیل ہوئی اور ان کے مریدین حکومت میں پہنچے تو رہائی ملی۔
حضرت کے وصال کا قصہ بہت سبق آموز ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پانی پر چل سکتے ہیں۔ دراصل ایک برساتی تالاب جو زیادہ گہرا نہیں تھا، کے اندر بڑے بڑے دیوہیکل پتھر پڑے تھے، جو دور سے نظر نہیں آتے تھے، لیکن دھوتی والی سرکار چونکہ اس کی روحانی مشقیں بچپن سے کرتے رہے تھے، اس لیے اُنہیں اندازہ تھا۔ وہ سال میں ایک دن، جبکہ تنبو والی سرکار کا عرس شریف منایا جاتا، خود پانی پر چلنے کا مظاہرہ کیا کرتے۔ اُس روز نصیب دشمناں برساتی ریلا بہت سے پتھر بہا کر لے گیااور دھوتی والی سرکار اُس تالاب میں ڈوب کر واصل بحق ہوگئے، حالانکہ ان کے ڈوب مرنے کے لیے تو چلّو بھر پانی بھی کافی تھا۔
تحریر:جمیل خان
ربط
 
Top