افغانیوں بیچاروں کے نصیب میں تو ہمیشہ ہی سے لڑائی جھگڑ ہی ہے۔

خالد صاحب پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر وہاں امن و امان کی خراب صورتحال در اصل ان طاقتوں کا کھیل ہے جو ہر دور میں وہاں اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش میں لگی رہیں۔ مگر افغانوں کی غیرت دیں کا علاج ملاوں کے خاتمے کے بعد ہی ممکن ہے جو کہ فی الحال نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ افغان باقی کہسار باقی۔۔۔ نہ افغان ختم ہو سکتے ہیں نہ غیر ملکی طاقتیں وہاں اپنا قبضہ بر قرار رکھ سکتی ہیں۔ اور مستحکم افغانستان مستحکم پاکستان کے لیے ایک دوسرے کے لیے لازم اور ضروری ہے۔ جب تک افغان باقی ہیں عالمی طاقتیں پاکستان کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے
 

Fawad -

محفلین
ً

۔ آپ بھی تو ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے تھے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


سال 1971کی پاک بھارت جنگ اور امريکہ کی جانب سے ايک بحری جہاز کا مبينہ وعدہ


امريکہ اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے اس "واقعے" کا ہميشہ ذکر کيا جاتا ہے اور 1971 کی جنگ ميں امريکہ کی جانب سے فوجی امداد نہ ملنے کو اس دليل کے طور پر پيش کيا جاتا ہے کہ امريکہ نے وعدے کے باوجود مشکل وقت ميں پاکستان کی مدد نہيں کی۔ اس حوالے سے اہم بات يہ ہے کہ کبھی کسی فوجی معاہدے، کسی امريکی اہلکار کے سرکاری بيان يا کسی ايسی مصدقہ دستاويز يا شخصيت کا ذکر نہيں کيا جاتا جس کی بنياد پر حقائق کی تحقيق کی جا سکے۔


ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے 1971 کی پاک بھارت جنگ اور اس حوالے سے امريکہ کے کردار کی حقيقت جاننے کے ليے بہت سی دستاويز حاصل کی ہيں جن ميں کچھ متعلقہ مواد يہاں پيش ہے۔


اگست 16 1971 کی يہ دستاويزايک رپورٹ پر مبنی ہے جو ہنری کسنجر نے اس وقت کے امريکی صدر کو ارسال کی تھی جس ميں 16 دسمبر 1971 کے واقعے سے چند ماہ قبل امريکی حکومت کی برصغير ميں بڑھتی ہوئ کشيدگی کے پس منظرميں خارجہ پاليسی کی وضاحت ہوتی ہے۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689724&da=y


اس پورٹ کے صفحہ نمبر 2 پر ہنری کسنجر لکھتے ہيں کہ


"ميں نے برصغير کے حوالے سے اپنی پاليسی ميں واضح کيا ہے کہ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ معيشت اوربنگالی مہاجرين کے مسائل کو سياسی معاملات خاص طور پر مشرقی بنگال کے معاملے سے الگ رکھا جائے کيونکہ يہ وہ معاملات ہيں جہاں ہم مدد کرنا چاہتے ہيں۔ مشکل ترين اندرونی مشکلات کے باوجود ہم نہ ہی پاکستان کی سبکی چاہتے ہيں اور نہ ہی دوسروں کو ايسا موقع دينے کے حق ميں ہيں۔ بنگالی مہاجرين کے حوالے سے بھارت کی مشکلات سے آگاہ ہيں ليکن اس صورت حال کی آڑ ميں بھارت کو پاکستان سے پرانے حساب پورے کرنے ميں اس کا ساتھ نہيں ديں گے۔ ہم نے بھارت پر واضح کر ديا ہے کہ کسی فوجی کاروائ کی صورت ميں اس کی معاشی امداد بند کر دی جائے گی"۔


اسی دستاويز کے صفحہ نمبر 7 ميں فرانس ميں چين کے سفير ہوانگ چين اور ہنری کسنجر کی گفتگو کا يہ حصہ امريکی پاليسی کی وضاحت کرتا ہے۔ ہنری کسنجر کے مطابق


" اگر بھارت نے ہميں مشرقی پاکستان کے سياسی مسلئے ميں ملوث کرنے کی کوشش کی تو ہمارا موقف يہ ہو گا کہ اس کا انحصار پاکستان پرہے نا کہ امريکہ پر۔ ہم چاہتے ہيں کہ پاکستان بنگالی مہاجرين کی واپسی اور ان کی آبادکاری اور بہبود کا ايسا مربوط پروگرام تيار کرے کہ بھارت کو مداخلت کا موقع نہ مل سکے"


اسی صفحے پر گفتگو کا يہ حصہ خاصہ اہم ہے۔۔۔


"ميں آپ کو ذاتی حيثيت ميں يہ بات بتا رہا ہوں کہ ہمارا تاثر يہ ہے کہ حکومت پاکستان قابل احترام ليکن سياسی تدبر سے عاری ہے۔ پاکستان کے جتنے بھی دوست ہيں انھيں چاہيے کہ وہ اس امر ميں پاکستان کی حوصلہ افزائ کريں تاکہ مہاجرين کی واپسی کو يقينی بنايا جا سکے۔ صرف اسی صورت ميں ہماری حکمت عملی کو کاميابی مل سکتی ہے جس کے مطابق ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کو فوجی مداخلت کا کوئ موقع نہ ملے۔"


پاکستان کو کسی بھی قسم کی فوجی امداد کی فراہمی کے حوالے سے امريکی پاليسی کی وضاحت اسی رپورٹ کے صفحہ 8 پر موجود ہے


"کانگريس کے فیصلے کے مطابق ہم کسی بھی قسم کی فوجی امداد نہيں دے سکتے۔ ليکن اگر پاکستان کے دوسرے دوست فوجی سازوسامان فراہم کرنا چاہيں تو ہم يہ بات سمجھ سکتے ہيں۔ تاہم مشرقی پاکستان ميں انارکی روکنے کے ليے ہم ہر قسم کی معاشی امداد اور خوراک کی فراہمی کے پروگرام کو يقينی بنائيں گے۔"


پندرہ نومبر1971 کی اس دستاويز ميں "ٹاسک گروپ" بيجھنے کا ذکر موجود ہے ليکن اس کا مقصد کسی ايک فريق کی مدد نہيں بلکہ حالات بگڑنے کی صورت ميں کسی تيسرے فريق کو اس تنازے ميں شامل ہونے سے روکنا تھا۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689725&da=y

سات دسمبر 1971 کی اس دستاويز کے مطابق امريکہ نے پاکستان اور بھارت پر يہ واضح کر ديا تھا کہ جنگ کی صورت ميں دونوں ممالک کو امريکہ کی جانب سے کسی بھی قسم کے فوجی سازوسامان کی ترسيل نہيں کی جائے گی۔ اسی دستاويز سے يہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کے صدرجرنل يحيی اس حقيقت سے پوری طرح آگاہ تھے اور انھوں نے اس ضمن ميں جارڈن کے شاہ حسين سے ايف – 104 طياروں کی فراہمی کی درخواست بھی کی تھی۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689726&da=y


اسی رپورٹ کے صفحہ 5 کا آخری پيراگراف انتہاہی اہم ہے جس کے مطابق


امريکہ نے 1965 سے جاری پاک بھارت کشيدگی کے بعد سے دونوں ممالک کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی روک دی ہے۔ اس قانون ميں صرف ايک بار نرمی اکتوبر 1970 ميں کی گئ تھی جب پاکستان کو20 ايف – 5 طياروں کی فراہمی کا وعدہ کيا گيا تھا ليکن اس معاہدے پر حکومت پاکستان نے دستخط نہيں کيے تھے۔


ان دستاويزی ثبوتوں کی موجودگی ميں يہ دعوے کرنا کہ امريکہ نے 1971 کی جنگ ميں پاکستان کی فوجی امداد کے وعدے کيے تھے بالکل بے بنياد ثابت ہوجاتے ہيں۔


پاک بھارت 1971 کی جنگ میں امريکہ کا کردار سمجھنے کے ليے 7 دسمبر 1971 کو وائٹ ہاؤس ميں ہنری کسنجر کی يہ پريس کانفرنس نہايت اہم ہے۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس وقت سفارتی سطح پر امريکہ پر اس حوالے سے کڑی تنقيد کی جا رہی تھی کہ امريکہ کا جھکاؤ مکمل طور پر پاکستان کی جانب تھا،جيسا کہ پريس کانفرنس ميں کيے جانے والے مختلف سوالوں سے واضح ہے۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689727&da=y


ويسے يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے ضمن ميں ايک بحری بيڑے کا ذکر اس طرح کيا جاتا ہے جيسے پوری جنگ کے نتيجے کا دارومدار محض اسی بات پر تھا۔ يہ حقيقت ہے کہ 1971 کی جنگ ميں ناکامی پر پاکستانی قائدين کی سياسی ناکامی کو تسليم کرنے کے مقابلے ميں امريکہ کو مورد الزام قرار دينا زيادہ آسان ہے۔ ليکن ايسے سينکڑوں دستاويزی ثبوت موجود ہيں جس ميں امريکی حکومت کا موقف واضح ہے جس کے مطابق دونوں ممالک پر يہ واضح کر ديا گيا تھا کہ جنگ کی صورت ميں دونوں ممالک کو کسی بھی قسم کی فوجی امداد مہيا نہيں کی جائے گی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
اور اگر آپ نے تفصیل سے افغانستان کی تاریخ پڑھی ہو تو میں آپکہ یاد دلاتا چلوں کہ احمدشا مسعود، حکمت یار اور پروفیسر ربانی کے اسلامی اتحاد کو1975 میں داود خان کی حکومت کے خلاف تربیت اور وسائل بھٹو مرحوم نے فراہم کیے تھے۔ بعد میں یہی اتحاد روس کے خلاف لڑا۔ بعد ازاں ان کی آپس کی لڑایئوں اور حکومت کے ظلم کے خلاف طالبان کا میدان میں آئے۔ضیاء مرحوم نے بھٹو مرحوم کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ جیسے افغان جنگ، ایٹمی پروگرام، اسلامی ممالک کا اتحاد یہ ساری شروعات بھٹو صاحب نے کی ضیاء مرحوم نے انکو جاری رکھا۔ مگر سارا نزلہ ضیاء صاحب پر کیوں گرتا ہے۔ یہی وہ منافقانہ رویہ ہے جس کا میں نے اپنی دوسرے اور تیسرے مضمون میں ذکر کیا۔۔
اب خدارا مجھے ضیاء صاحب کا حامی مت سمجھ لیجیے گا میں بس تاریخ کا طالب علم ہوں۔ اور درست تاریخ بیان کرنے پہ مجبور ہوں۔۔

بہت بہت شکریہ محترم - بڑی معذرت کے ساتھ اوپر جو کچھ لکھا ہے شاید اس سے بڑی منافقت نہیں ہوگی۔
 
خالد صاحب پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر وہاں امن و امان کی خراب صورتحال در اصل ان طاقتوں کا کھیل ہے جو ہر دور میں وہاں اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش میں لگی رہیں۔ مگر افغانوں کی غیرت دیں کا علاج ملاوں کے خاتمے کے بعد ہی ممکن ہے جو کہ فی الحال نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ افغان باقی کہسار باقی۔۔۔ نہ افغان ختم ہو سکتے ہیں نہ غیر ملکی طاقتیں وہاں اپنا قبضہ بر قرار رکھ سکتی ہیں۔ اور مستحکم افغانستان مستحکم پاکستان کے لیے ایک دوسرے کے لیے لازم اور ضروری ہے۔ جب تک افغان باقی ہیں عالمی طاقتیں پاکستان کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے
مکافاتِ عمل بھی ایک چیز ہوتی ہے
 
Top