دورِ جدید اور مذہب

ظفری

لائبریرین
مذہب کے بارے میں دورِ جدید میں جو تاثر اٹھا ہے اس کی نوعیت کچھ اس طرح وضع ہوتی ہےکہ مذہب موجودہ دور کے علمی اور عملی مسائل کا سامنا کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنے طرز استدلال اور عملی ڈھانچے کے ساتھ، اگر کسی زمانے کی عقلوں کو مطمئن کر سکتا تھا تو اب وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے کہ زمانہ علم اور عمل کے میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے۔

چنانچہ موجودہ زمانے میں مذہب کے لیے یہ بات ایک چیلنج کی صورت میں سامنے آئی۔ بطور خاص یہ بات مذہب کے خلاف بہت شد و مد سے کہی جا رہی تھی کہ مذہب دور جدید کے اجتماعی مسائل اور مشکلات کو حل نہیں کر سکتا۔ مذہب میں اجتماعی نظام کا کوئی قابل عمل تصور نہیں اور یہ فرد کی انفرادی زندگی میں کچھ عقیدے اور عبادات کو رائج کرنے کے سوا کسی اور خدمت کے قابل نہیں۔

ہمارے مذہبی علما کی بڑی تعداد اس صورت حال سے بے خبر رہی۔ اہل مذہب کا بڑا طبقہ دین تصوف کے غلبے کے باعث سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسائل سے ایک زمانے سے غیر متعلق ہو چکا تھا۔ چنانچہ عام آدمی مغربی فکر و فلسفہ اور نظام زندگی کی چکا چوند کے سامنے بالکل بے بس ہو کر رہ گیا تھا اور خواہی نہ خواہی اہل مغرب ہی کی روش کو ہر معاملے میں قابل عمل سمجھا جانے لگا۔

اس چیلنج کی روز افزوں شدت نے مذہب کے بارے میں ایک نئے رحجان کو پروان چڑھایا، کہیں عقائد میں ترمیم کر کے اور کہیں احکامات کی صورت یا اہمیت میں تبدیلی کے ذریعے سے مذہب کو پیش کرنے کے قابل بنایا گیا۔

بعض لوگ اس کوشش میں یہاں تک پہنچے کہ اشتراکیت اور اسلام میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔ انھوں نے قرآن و سنت کی ہر چیز کو قطع و برید کر کے حسب منشا صورت دے دی۔ قرآن کے معنی و مدعا کو بدل دینے کے لیے اگر لغت و تاویل کے نئے قواعد بھی تراشنا پڑے ہیں تو وہ رکے نہیں۔ اگر احادیث سے پیچھا چھڑانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ملا ہے تو انھوں نے حدیث کے حجت ہونے ہی سے انکار کر دیا۔ اتباع سنت کا قلادہ اتارا اور ''نظام قرآنی '' کے فرماں روا کو حتمی اختیار دے کر نئے معیار کے مطابق دین بنانے کا پروانہ دے دیا۔

بعض لوگ اس انتہا تک تو نہیں پہنچے، لیکن ان کے ہاں بھی دین کے ایک نظام زندگی ہونے کا پہلو بہت نمایاں ہو گیا۔ انھوں نے دنیا میں دین کے نصب العین کی حیثیت دین کے سیاسی غلبے کو دی، چنانچہ اس نقطہ نظر کو اپنانے کے بعد انفرادی زندگی سے متعلق دین کی ہدایات، یعنی قلبی اور داخلی پہلو بہت کچھ دب گیا۔ البتہ اس طرز فکر سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ لوگوں کا اپنے دین پر اعتماد بڑھا اور وہ اسے اپنا کر حوصلے کے ساتھ معاشرے میں کھڑے ہونے کے قابل ہوئے۔ ایک جد و جہد کے نتیجے میں، بالآخر، ان لوگوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی جو دین کو قصہ پارینہ بنا دینے کی جسارت کر رہے تھے۔ تاہم، جیسا کہ عرض کیا ہے، اس تصور کے ساتھ دین کے داخلی پہلو کی اہمیت قدرے کم ہو گئی اور دین کے مجموعی ڈھانچے میں بھی ایک نوع کا عدم توازن محسوس ہونے لگا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین صرف انفرادی زندگی میں نہیں، اجتماعی زندگی میں بھی خاص فکری او رعملی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، لیکن اس کا اصل مخاطب فرد ہے، اس کا نصب العین تزکیہ نفس ہے اور اس کی اصل دعوت فلاح اخروی کی دعوت ہے۔ فرد اکیلا ہو، کسی معاشرے کا جز ہو یا کسی ملک کا شہری ہو، اسے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خدا کی فرماں برداری کرنی ہے۔ یہی اقامت دین ہے۔ اسی میں اس کی فلاح ہے اور یہی تصور دین کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ بلکہ صحیح دین ہی یہی ہے ۔
( بشکریہ محترم طالب حسین )
 

ابوشامل

محفلین
مذہب کے بارے میں دورِ جدید میں جو تاثر اٹھا ہے اس کی نوعیت کچھ اس طرح وضع ہوتی ہےکہ مذہب موجودہ دور کے علمی اور عملی مسائل کا سامنا کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنے طرز استدلال اور عملی ڈھانچے کے ساتھ، اگر کسی زمانے کی عقلوں کو مطمئن کر سکتا تھا تو اب وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے کہ زمانہ علم اور عمل کے میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے۔

چنانچہ موجودہ زمانے میں مذہب کے لیے یہ بات ایک چیلنج کی صورت میں سامنے آئی۔ بطور خاص یہ بات مذہب کے خلاف بہت شد و مد سے کہی جا رہی تھی کہ مذہب دور جدید کے اجتماعی مسائل اور مشکلات کو حل نہیں کر سکتا۔ مذہب میں اجتماعی نظام کا کوئی قابل عمل تصور نہیں اور یہ فرد کی انفرادی زندگی میں کچھ عقیدے اور عبادات کو رائج کرنے کے سوا کسی اور خدمت کے قابل نہیں۔

ہمارے مذہبی علما کی بڑی تعداد اس صورت حال سے بے خبر رہی۔ اہل مذہب کا بڑا طبقہ دین تصوف کے غلبے کے باعث سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسائل سے ایک زمانے سے غیر متعلق ہو چکا تھا۔ چنانچہ عام آدمی مغربی فکر و فلسفہ اور نظام زندگی کی چکا چوند کے سامنے بالکل بے بس ہو کر رہ گیا تھا اور خواہی نہ خواہی اہل مغرب ہی کی روش کو ہر معاملے میں قابل عمل سمجھا جانے لگا۔

اس چیلنج کی روز افزوں شدت نے مذہب کے بارے میں ایک نئے رحجان کو پروان چڑھایا، کہیں عقائد میں ترمیم کر کے اور کہیں احکامات کی صورت یا اہمیت میں تبدیلی کے ذریعے سے مذہب کو پیش کرنے کے قابل بنایا گیا۔

بعض لوگ اس کوشش میں یہاں تک پہنچے کہ اشتراکیت اور اسلام میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔ انھوں نے قرآن و سنت کی ہر چیز کو قطع و برید کر کے حسب منشا صورت دے دی۔ قرآن کے معنی و مدعا کو بدل دینے کے لیے اگر لغت و تاویل کے نئے قواعد بھی تراشنا پڑے ہیں تو وہ رکے نہیں۔ اگر احادیث سے پیچھا چھڑانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ملا ہے تو انھوں نے حدیث کے حجت ہونے ہی سے انکار کر دیا۔ اتباع سنت کا قلادہ اتارا اور ''نظام قرآنی '' کے فرماں روا کو حتمی اختیار دے کر نئے معیار کے مطابق دین بنانے کا پروانہ دے دیا۔

بعض لوگ اس انتہا تک تو نہیں پہنچے، لیکن ان کے ہاں بھی دین کے ایک نظام زندگی ہونے کا پہلو بہت نمایاں ہو گیا۔ انھوں نے دنیا میں دین کے نصب العین کی حیثیت دین کے سیاسی غلبے کو دی، چنانچہ اس نقطہ نظر کو اپنانے کے بعد انفرادی زندگی سے متعلق دین کی ہدایات، یعنی قلبی اور داخلی پہلو بہت کچھ دب گیا۔ البتہ اس طرز فکر سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ لوگوں کا اپنے دین پر اعتماد بڑھا اور وہ اسے اپنا کر حوصلے کے ساتھ معاشرے میں کھڑے ہونے کے قابل ہوئے۔ ایک جد و جہد کے نتیجے میں، بالآخر، ان لوگوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی جو دین کو قصہ پارینہ بنا دینے کی جسارت کر رہے تھے۔ تاہم، جیسا کہ عرض کیا ہے، اس تصور کے ساتھ دین کے داخلی پہلو کی اہمیت قدرے کم ہو گئی اور دین کے مجموعی ڈھانچے میں بھی ایک نوع کا عدم توازن محسوس ہونے لگا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین صرف انفرادی زندگی میں نہیں، اجتماعی زندگی میں بھی خاص فکری او رعملی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، لیکن اس کا اصل مخاطب فرد ہے، اس کا نصب العین تزکیہ نفس ہے اور اس کی اصل دعوت فلاح اخروی کی دعوت ہے۔ فرد اکیلا ہو، کسی معاشرے کا جز ہو یا کسی ملک کا شہری ہو، اسے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خدا کی فرماں برداری کرنی ہے۔ یہی اقامت دین ہے۔ اسی میں اس کی فلاح ہے اور یہی تصور دین کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ بلکہ صحیح دین ہی یہی ہے ۔
( بشکریہ محترم طالب حسین )
بہت ہی زبردست اقتباس پیش کیا ہے۔ گو کہ ایک جگہ مجھے اس سے کچھ اختلاف ضرور ہے لیکن اس کے باوجود اس میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ صد فی صد درست ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد اس چیلنج کو نہیں سمجھتے جو مغربی تہذیب کے نتیجے میں اسلامی تہذیب کو درپیش ہے جبکہ حیرتناک بات یہ ہے کہ مغرب اس بات کو سمجھتا ہے کہ اس کا مقابلہ اب اسلامی تہذیب کے علاوہ کوئی تہذیب نہیں کر سکتی اور اسی لیے انہوں نے "تہذیبوں کے تصادم" کی اصطلاح ایجاد کی، اور پھر "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کا پورا اسکرپٹ تیار کیا گیا۔
اتنا خوبصورت اقتباس پیش کرنے کا ایک مرتبہ پھر بہت شکریہ۔
 

ظفری

لائبریرین
جبکہ میرا خیال تھا کہ آپ لوگوں سے رہا نہیں جائے گا کیونکہ صاحب ِ مضمون نے آپ لوگوں کے مکتبِ فکر کی طرف اشارہ فرما دیا تھا ۔ مگر میرا اپنا خیال ہے کہ آپ لوگ بغلیں جھانکیں لگ گئے ہیں ۔ ورنہ کہنے کی حسرت ظاہر نہیں کرتے بلکہ کچھ کہہ ہی دیتے ۔۔۔۔ :)

دوسرے موصوف کی بات کا جواب دینا ۔۔۔ دیوار سے سر ٹکرانے کے متراد ف ہے ۔ ;)

باقی تمام احباب کا شکریہ جنہوں نے اپنے نکتہِ نظر ایک طرف رکھ کر اس مضمون میں بعض مثبت حقیقتوں کا اعتراف کیا ہے ۔
 

سویدا

محفلین
اتنے سنجیدہ ہونے کی ضرورت بھی نہیں‌ہے اب ظفری بھائی
آپ کے جوابوں‌سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ ہر وقت حالت جنگ کے موڈ میں‌ہیں‌
 
اچھا مضمون ہے۔ مضمون میں چار قسم کے طبقوں کا ذکر ہے:
1-آرتھڈوکس علماء۔ ۔ ۔ جنہوں نے زمانے کے بدلتے تقاضوں کی طرف اتنی زیادہ توجہ نہیں دی جتنی دینی چاہئے تھی۔ لیکن مصنف کا یہ کہنا کہ مذہب موجودہ دور کے مسائل کا ادراک کرنے اور پھر انکا حل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے تو یہ ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر مصنف ان مسائل کی کوئی ایک آدھ مثال پیش کر دیتا جس سے ہمیں بھی سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ کس طرح مذہب(بات اسلام کی ہو رہی ہے) ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ بھی تو عین ممکن ہے کہ یہ مسائل مذہب پر کماحقہ عمل نہ کرنے سے پیدا ہوئے ہوں۔
2- اہلِ تصوف۔ جو مصنف کے خیال میں دنیا کے مسائل سے منہ موڑ کر گوشہءِ خلوت میں بیٹھنے کا درس دیتے ہیں۔
3- جدّت پسند۔ جنکے شوقِ جدت پسندی نے اسلام کو موم کی ناک کی طرح جدھر جی چاہا ادھر موڑ لیا کبھی اشتراکیت تو کبھی کچھ اور۔ حتی کہ انکار حدیث بھی کربیٹھے۔
4- سیاسی اسلام کے داعی جو کبھی اخوان المسلموں، کبھی جماعتِ اسلامی، کبھی طالبان، کبھی حزبِ تحریر، کبھی الشباب اور کبھی القاعدہ کی صورت میں ابھرے۔
آخر میں مصنف نے کہا ہے کہ اسلام فرد کو مخاطب کرتا ہے لہذا مذہب کا مخاطب فرد ہے انفرادی سطح پر۔ ۔ یعنی مذہب اسلام کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ ۔ ۔
میرا خیال ہے کہ یہ بات بھی مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ بات یہی ہے کہ ایک بیلنسڈ مسلمان بیک وقت ایک خاص حد تک جدت پسند بھی ہوتا ہے اور ٹریڈیشنل آرتھوڈوکس بھی۔ ایک صوفی بھی اور عالمِ اسلام کے سیاسی غلبے کا داعی بھی۔۔ ۔ ۔ ۔ہر معاملے میں اعتدال ہی اسلام کا مزاج ہے۔:)
 

ظفری

لائبریرین
اچھا مضمون ہے۔ مضمون میں چار قسم کے طبقوں کا ذکر ہے:
1-آرتھڈوکس علماء۔ ۔ ۔ جنہوں نے زمانے کے بدلتے تقاضوں کی طرف اتنی زیادہ توجہ نہیں دی جتنی دینی چاہئے تھی۔ لیکن مصنف کا یہ کہنا کہ مذہب موجودہ دور کے مسائل کا ادراک کرنے اور پھر انکا حل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے یہ ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر مصنف ان مسائل کی کوئی ایک آدھ مثال پیش کر دیتا جس سے ہمیں بھی سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ کس طرح مذہب(بات اسلام کی ہو رہی ہے) ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔یہ بھی تو عین ممکن ہے کہ یہ مسائل مذہب پر کماحقہ عمل نہ کرنے سے پیدا ہوئے ہوں۔
2- اہلِ تصوف۔ جو مصنف کے خیال میں دنیا کے مسائل سے منہ موڑ کر گوشہءِ خلوت میں بیٹھنے کا درس دیتے ہیں۔
3- جدّت پسند۔ جنکے شوقِ جدت پسندی نے اسلام کو موم کی ناک کی طرح جدھر جی چاہا ادھر موڑ لیا کبھی اشتراکیت تو کبھی کچھ اور۔ حتی کہ انکار حدیث بھی کربیٹھے۔
4- سیاسی اسلام کے داعی جو کبھی اخوان المسلموں، کبھی جماعتِ اسلامی، کبھی طالبان، کبھی حزبِ تحریر، کبھی الشباب اور کبھی القاعدہ کی صورت میں ابھرے۔
آخر میں مصنف نے کہا ہے کہ اسلام فرد کو مخاطب کرتا ہے لہذا مذہب کا مخاطب فرد ہے انفرادی سطح پر۔ ۔ یعنی مذہب اسلام کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ ۔ ۔
میرا خیال ہے کہ یہ بات بھی مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ بات یہی ہے کہ ایک بیلنسڈ مسلمان بیک وقت ایک خاص حد تک جدت پسند بھی ہوتا ہے اور ٹریڈیشنل آرتھوڈوکس بھی۔ ایک صوفی بھی اور عالمِ اسلام کے سیاسی غلبے کا داعی بھی۔۔ ۔ ۔ ۔ہر معاملے میں اعتدال ہی اسلام کا مزاج ہے۔:)

محمود بھائی ۔۔۔۔ آپ کو یہاں سمجھنے میں غلطی لگی ہے ۔ یہاں مصنف نے اپنا استدلال پیش نہیں کیا ۔ بلکہ وہ یہ تاثر عیاں کرنےکی کوشش کررہا ہے کہ دورِ جدید نے یہ کہہ کر کہ مذہب پرانے وقتوں کی چیز ہے اس کو ثانوی حیثیت سے تسلیم کیا ۔ لہذا یہ بات مذہب کے سامنے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئی کہ اسے موجودہ دور کے مسائل اور مشکلات میں کارآمد نہیں سمجھا جا رہا بلکہ مذہب کو چند عقیدوں اور عبادتوں کا نام دیکر اس کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
پھر مصنف نے اس وجہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ چند عوامل ہیں جن کی بناء پر مذہبی علماؤں کو احساس نہیں ہوسکا کہ مذہب کو دورِ جدید میں کس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے ۔
لہذا یہ ایک سوئپنگ اسٹیٹمنٹ نہیں بلکہ ایک حقیقت کا اعتراف ہے جو مذہبی حلقوں کی معاشرے سے بے رغبتی کی وجہ سے وجود میں آئی ۔ اور اس نتیجے میں دورِ جدید نے پھر ایک اسٹیٹمنٹ مذہب کے بارے میں قائم کرلیا ۔ جوکہ سرخ رنگ میں آپ کے اقتباس میں مقید ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
آخر میں مصنف نے کہا ہے کہ اسلام فرد کو مخاطب کرتا ہے لہذا مذہب کا مخاطب فرد ہے انفرادی سطح پر۔ ۔ یعنی مذہب اسلام کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ ۔ ۔
میرا خیال ہے کہ یہ بات بھی مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ بات یہی ہے کہ ایک بیلنسڈ مسلمان بیک وقت ایک خاص حد تک جدت پسند بھی ہوتا ہے اور ٹریڈیشنل آرتھوڈوکس بھی۔ ایک صوفی بھی اور عالمِ اسلام کے سیاسی غلبے کا داعی بھی۔۔ ۔ ۔ ۔ہر معاملے میں اعتدال ہی اسلام کا مزاج ہے۔:)

میرا خیال ہے مصنف کی آخری بات کو بھی آپ کو سمجھنے میں‌غلطی لگی ہے ۔ اس پیراگراف کو ایک پھر پڑھیں اگر آپ کا استدلال وہی ہے تو میں اس پر کچھ توجہات پیش کرسکتا ہوں ۔ آپ دیکھیں کہ اس اقتباس میں اجتماعی اور انفرادی زندگی میں اسلام کا معیارِ اعتدال کہاں کھڑا ہے اور کیا تقاضا کر رہا ہے ۔ :)

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین صرف انفرادی زندگی میں نہیں، اجتماعی زندگی میں بھی خاص فکری او رعملی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، لیکن اس کا اصل مخاطب فرد ہے، اس کا نصب العین تزکیہ نفس ہے اور اس کی اصل دعوت فلاح اخروی کی دعوت ہے۔ فرد اکیلا ہو، کسی معاشرے کا جز ہو یا کسی ملک کا شہری ہو، اسے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خدا کی فرماں برداری کرنی ہے۔ یہی اقامت دین ہے۔ اسی میں اس کی فلاح ہے اور یہی تصور دین کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ بلکہ صحیح دین ہی یہی ہے ۔
 

طالوت

محفلین
خوب تشخیص ہو تصویر کشی کی ہے ظفری ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں عموما بغلیں جھانکنے کا کام شد و مد سے کیا جاتا ہے مگر اس سے بھی ضروری اور اہم چیز فرد مخالف کو خود سے کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔
وسلام
 
Top