دوران چائے ایک سوال ذہن میں امڈ آیا ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔

دوران چائے ایک سوال ذہن میں امڈ آیا ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔ چائے کی پیالی میں برپا ہونے والے طوفانوں سے سوال ہی امڈ سکتے ہیں صاحب!
 
کیا اُردو شاعری کی طرح پنجابی میں بھی عروض اور بحور وغیرہ ہیں ؟

جی، ہاں! بالکل ہے!
پنجابی کا اپنا ایک پورا نظام ہے؛ اس کو "چھندا بندی" کہتے ہیں۔ اس پر کتابیں بھی دستیاب ہیں، کچھ خلاصے جیسی میری تحریریں بھی ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں۔
 
ایک بات ضرور ہے کہ پنجابی کی ذیلی بولیاں کہہ لیجئے یا لہجے کہہ لیجئے بہت ہیں؛ (پشاور سے دہلی تک اور کشمیر سے بہاول نگر تک؛ سارا "تخت لاہور") سو، اس مناسبت سے لفظیات میں ادائیگی کی حد تک فرق بھی ہے؛ بنیادی طور پر "چھندا بندی" کا ڈھانچہ مشترک ہے۔
 
مختصراً عرض کئے دیتا ہوں۔ چھندا بندی میں چھند کے دو گروہ ہیں؛ ایک کو وَرَنِک چھند کہتے ہیں، دوسرے کو ماترِک چھند۔ دونوں موسیقی اور گائیکی سے پھوٹتے ہیں۔

وَرَنِک چھند کا میرا اپنا کوئی مطالعہ نہیں۔ ماترک چھند کے بنیادی خدوخال کچھ اس طرح ہیں:
لگھو، لگھ: ماترا وقت کی وہ اکائی ہے جس میں ایک حرف ادا ہوتا ہے؛ سر، تال، لے کے تیز یا مدھم ہونے سے ماتراؤں میں فرق آ سکتا ہے۔ تفہیم کے لئے (یا موٹے حساب میں) یوں سمجھ لیجئے کہ ایک ماترا عروض کے ایک ہجائے کوتاہ کے برابر ہوتی ہے (ماترا: مختلف علاقائی لہجوں میں تذکیر و تانیث کا فرق بھی ہے)۔ اس کو موسیقی میں ماترا اور چھند میں لگھو یا لگھ جان لیجئے۔
گُر، گَر، گورو: عروض کے ہجائے بلند کے تقریباً برابر ہے۔
ایک بنیادی فرق عروض اور چھند کا یہ ہے کہ: عروض میں حرکات و سکنات کا پورا حساب رکھا جاتا ہے، چھند میں ماترائیں پوری ہونی چاہئیں؛ متحرک اور ساکن کی ترتیب سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ فرق ڈالنے والی چیز وسرام ہے جس کا عروض میں کوئی تصور نہیں۔
وسرام (وقفہ): ایک مصرعے میں اس کے متن کی ضخامت کے مطابق کہیں ایک، کہیں دو، اور کہیں تین وسرام آتے ہیں۔ کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی ضخامت کے مصرعے میں وسرام کی جگہ بدل جاتی ہے۔
چرن: وسرام پر صوتیات ایسی ہونی چاہئے کہ مصرعے کا ایک حصہ ادا کرنے میں دوسرے سے الگ کیا جا سکے۔ ایسے ہر حصے کو چَرَن کہتے ہیں۔ معنویت کا تعلق چرنوں کی تقسیم سے نہیں، مصرعے کی تکمیل سے ہے۔
نوٹ: وسرام میں ایک یا دو لگھو یا ایک گورو کی گنجائش ہوتی ہے، شاعر (یا پھر گلوکار) اس کو خالی بھی رکھ سکتا ہے بھر بھی سکتا ہے۔ یہاں آ کر عروض کا عادی شخص الجھ جاتا ہے۔
چال: ایک مصرعے میں ماتراؤں کی کل تعداد اور اس میں واقع ہونے والے وسرام کی مجموعی ترتیب کو چال کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
تفصیلی مطالعے اور اطلاقی مثالوں کے لئے پڑھنے کو بہت کچھ موجود ہے۔
میرا جو تھوڑا بہت کام یہاں یا ادھر ادھر پڑا ہے، اس میں ایک تو "بحرِ زمزمہ" کو دیکھ لیجئے۔ دوسرے دو آرٹیکل تھے: "اردو ماہئے کا اصل مسئلہ" اور "آسان عروض کے دس سبق"؛ ان میں چھندابندی پر مختصر مختصر کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے تاہم اس کہے کا رُخ چھند اور عروض میں مطابقت کو سمجھنے کے لئے ہے۔
 
آخری تدوین:
Top