دل

شمشاد

لائبریرین
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
(مرزا یاس یگانہ چنگیزی عظیم آبادی)
 

شمشاد

لائبریرین
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دلِ بے مدعا کے بعد
(مولانا محمد علی جوہر)
 

راجہ صاحب

محفلین
دل جیت لے وہ جگرہم بھی رکھتے ہیں
قتل کر دے وہ نظر ہم بھی رکھتے ہیں
سب سے وعدہ ہے ہمارا مسکرانے کا
ورنہ آنکھوں‌میں‌سمندر ہم بھی رکھتے ہیں
 

ہما

محفلین
غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے
تڑپما بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے
 

ہما

محفلین
اے دل تو اُنہیں دیکھ کے کچھ ایسا تڑپنا
آجائے ہنسی اُن کو جو بیٹھے ہیں‌خفا سے
 

شمشاد

لائبریرین
میری آنکھ جھپکی تھی اک پل، میرے دل نے کہا کہ اُٹھ کر چل
دل بے قرار نے اور میاں وہیں چٹکی بجا کے جگا دیا
(بہادر شاہ ظفر)
 

ہما

محفلین
یہ الگ بات کہ تُم کو نہیں معلوم مگر
ہم تو وہ ہیں جو ہر دل میں بسے رہتے ہیں
 

تیشہ

محفلین
دل و نظر کے تمام مسائل تمام جانتا ہے
ہمارا نام بتا دو وہ کام جانتا ہے

یہ ایک حرفِ تسلی بہت ہے دل کے لئے
کہ اس ہجوم میں توُ میرا نام جانتا ہے

جبیں پہ انگلیاں پھیروں تو خوش گماں ہوکر
وہ دردِ سر کو بھی طرز سلام جانتا ہے

غریق تیرہ شبی اس قدر رہا ہے یہ دل
سحر کہو تو اسے وقت ِ شام جانتا ہے

وہ پور پور حنا رنگ ہے فراق کے بعد
خوش آمدید کے سب اہتمام جانتا ہے
 

راجہ صاحب

محفلین
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب
پوچھ مت وجہ سیہ مستئِ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب
جو ہوا غرقۂ مے بختِ رسا رکھتا ہے
سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما موجِ شراب
ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب
چار موج اٹھتی ہے طوفانِ طرب سے ہر سو
موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب
جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکیں بَدَمِ آبِ بقا موجِ شراب
بس کہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہوہوکر
شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب
موجۂ گل سے چراغاں ہے گزرگاہِ خیال
ہے تصوّر میں ز بس جلوہ نما موجِ شراب
نشّے کے پردے میں ہے محوِ تماشائے دماغ
بس کہ رکھتی ہے سرِ نشو و نما موجِ شراب
ایک عالم پہ ہیں طوفانئِ کیفیّتِ فصل
موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا موجِ شراب
شرحِ ہنگامۂ مستی ہے، زہے! موسمِ گل
رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے، خوشا موجِ شراب
ہوش اڑتے ہیں مرے، جلوۂ گل دیکھ،
پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کُشا موجِ شراب



غالب
 

تیشہ

محفلین
کسی دل سے باب ِقبول تک جو مسافتیں ہیں دعاؤں کی
یہ لب و کلام کا عجز ہے کہ رعونتیں ہیں خداؤں کی

تجھے دوسروں سے ملا ہے یہ میری جستجو کا صلہ ہے یہ
تیرے تخت وتاج سے قیمتی ہے یہ گرد میرے کھڑاؤں کی

یہ عجیب قریہ بے اماں میری جان حذر کہ یہاں وہاں
جہاں دوستوں کے ہیں سائباں وہیں ٹولیاں ہیں بلاؤں کی

نہ مزاج ابرِ کرم ہے نہ علاج بارش ِغم کا ہے
تیری دوستی کو میں کیا کروں جو نہ دھوپ کی ہے نہ چھاؤں کی

میرے کجکلاہ کشیدہ سر توُ حریم ِدل میں خرام کر
یہ دیار ہے تیری سلطنت یہ زمین ہے تیرے ناؤں کی

ہے سمندروں کے سفر کی دھن تو فراز سنُ کہ ابھی نہیں
یہ جو چال موجِ بلا کی ہے یہ جو نیتیں ہیں ہواؤں کی ۔
 
Top