دل کے موضوع پر اشعار!

تیشہ

محفلین
رفتگاں یاد بہت آتے ہیں
اب ٹہر جا کہیں دور ِ ایام
آنکھ کا نور ہے جان ِ دل ہے
اک تیرا نام ،فقط تیرا نام ،
 

پاکستانی

محفلین
گر مجھے اس کا یقین ھو مرے ھمدم ، مرے دوست
گر مجھے اس کا یقین ھو کہ ِترے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی ، ترے سینے کی جلن
میری دل جوئی ، مرے پیار سے مٹ جائے گی
گر مرا حرفِ تسلّی وہ دوا ھو جس سے
جی اٹھے پھر ترا اجڑا ھوا بے نور دماغ
تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ھو جائے
گر مجھے اس کا یقین ھو مرے ھمدم ، مرے دوست
روز و شب ، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رھوں
میں تجھے گیت سناتا رھوں ھلکے ، شیریں
آبشاروں کے بہاروں کے ، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صبح کے ، مہتاب کے ، سیّاروں کے گیت
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم
گرم ھاتھوں کی حرارت میں پگھل جاتے ھیں
کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ھوئے مانوس نقوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ھیں
کس طرح عارضِ محبوب کا شفّاف بلور
یک بیک بادہِ احمر سے دہک جاتا ھے
کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ھے خود شاخِ گلاب
کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ھے
یونہی گاتا رھوں ، گاتا رھوں تیری خاطر
گیت ُبنتا رھوں، بیٹھا رھوں تیری خاطر
پر مرے گیت ترے دکھ کا ُمداوا ھی نہیں
نغمہ جرّاح نہیں، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں ، مرھم ِ آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں، نشتر کے سوا
اور یہ سفّاک مسیحا مرے قضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ھاں مگر تیرے سوا ، تیرے سوا ، تیرے سوا
 

پاکستانی

محفلین
کبھی دن کی دھوپ میں جھوم کے کبھی شب کے پھول کو چوم کے
یونہی ساتھ ساتھ چلیں سدا ختم کبھی اپنا سفر نہ ہو
میرے ساتھ میرے حبیب آ ذرا اور دل کے قریب آ
تجھے ڈھرکنوں میں اتار لوں کہ بچھڑنے کا کوئی ڈر نا ہو
 

عمر سیف

محفلین
سخن آرائی باقی رہ گئی ہے
یہی سچائی باقی رہ گئی ہے
سجانا چاہتے تھے محفل ِ دل
مگر تنہائی باقی رہ گئی ہے
 

عمر سیف

محفلین
منظروں سرابوں کی
شدتوں سے گھبرا کے
راہ تو بدل لی ہے
پر یہ دل سودائی
روک روک لیتا ہے
ڈوب ڈوب جاتا ہے
 
Top