دل کی آواز برائے اصلاح

توفیق دے خدایا تیرے ہی در پہ آئیں
یا رب معاف کرنا میری سبھی خطائیں
-------------------
ایسا نہ وقت ہم پر آئے کبھی خدایا
غیروں کے در پہ جا کے اپنے یہ سر جھکائیں
--------------------
مشکل پڑی ہے ہم پر دشمن بنا زمانہ
نُصرت ہمیں عطا کر ہوں دور سب بلائیں
-------------------
تیرے سِوا ہمارا کوئی نہیں سہارا
تُو ہی بتا ہمیں کچھ کِس کو یہ دکھ سُنائیں
----------------
دشمن تو تھے ہی دشمن اپنے بھی غیر ہیں اب
دشمن بنی ہیں اپنی چارون طرف ہوائیں
----------------
تیرے سِوا جہاں میں کوئی ہمارا
چھوڑیں جو در تمارا ہم پھر کہاں پہ جائیں
---------------
ارشد کا سر جُھکے تو تیرے ہی سامنے بس
اپنا اُسے بنا لو کرتا ہے یہ دعائیں
 

الف عین

لائبریرین
توفیق دے خدایا تیرے ہی در پہ آئیں
یا رب معاف کرنا میری سبھی خطائیں
------------------- شتر گربہ

ایسا نہ وقت ہم پر آئے کبھی خدایا
غیروں کے در پہ جا کے اپنے یہ سر جھکائیں
-------------------- یہ سر ؟ 'ہہ' بھرتی کا ہے

مشکل پڑی ہے ہم پر دشمن بنا زمانہ
نُصرت ہمیں عطا کر ہوں دور سب بلائیں
------------------- دور بلائیں غیر متعلق ہے

تیرے سِوا ہمارا کوئی نہیں سہارا
تُو ہی بتا ہمیں کچھ کِس کو یہ دکھ سُنائیں
---------------- پھر 'یہ' ۔ کون سا دکھ؟ اپنا دکھ کہیں الفاظ بدل کر

دشمن تو تھے ہی دشمن اپنے بھی غیر ہیں اب
دشمن بنی ہیں اپنی چارون طرف ہوائیں
---------------- ٹھیک

تیرے سِوا جہاں میں کوئی ہمارا
چھوڑیں جو در تمارا ہم پھر کہاں پہ جائیں
--------------- پہلے مصرع میں 'نہیں' چھوٹ گیا ہے شاید
کہاں پہ جائیں؟ پہ کی ضرورت نہیں

ارشد کا سر جُھکے تو تیرے ہی سامنے بس
اپنا اُسے بنا لو کرتا ہے یہ دعائیں
.. اپنا بنا لو؟ یہ فقرہ غیر متعلق ہے شرک سے بچنے کا مفہوم درکار ہے
پہلا مصرع بھی
ارشد کا سر جھکے تو بس تیرے سامنے ہی بہتر ہے
 
استادِ محترم ایک بار پھر الف عین
-------------------
تیرے ہی در پہ آ کے کرتے ہیں ہم دعائیں
یا رب معاف کر دے سب کی سبھی خطائیں
------------------
توفیق دے خدایا تیرے رہیں ہمیشہ
تیری ہی یاد سے ہم اپنی یہ دل سجائیں
(یا) اپنے دلوں کو تیری یاد سے سجائیں
----------------------
مشکل پڑی ہے ہم پر دشمن بنا زمانہ
دشمن ہی دے رہے ہیں چاروں طرف صدائیں
------------------
گرداب میں ہوں جیسے رستہ نظر نہ آئے
تیرے سوا کسے ہم اپنا یہ دکھ سنائیں
----------------------
دشمن تو تھے ہی دشمن اپنے بھی غیر ہیں اب
دشمن بنی ہیں اپنی چاروں طرف ہوائیں
--------------------
تیرے سوا تو کوئی معبود ہی نہیں ہے
غیروں کے در پہ جا کے کیسے یہ جھکائیں
------------
ارشد کا سر جھکے بس تیرے سامنے ہی
تیرے سوا کسی کے در پر کبھی نہ جائیں
------------------------
 

الف عین

لائبریرین
بھائی ارشد تم سے یہ شکایت ہے کہ میں ایک چھوٹی سی غلطی بتاتا ہوں اور تم اسے ہی سدھارنے کی جگہ مصرع ہی بدل کر نئی اغلاط پیدا کر دیتے ہو۔ آج کل تو میں اپنی پچھلی تجاویز دیکھنے لگا ہوں تو دیکھ لیا کہ یہاں صرف 'یہ سر' پسند نہیں آیا تھا
ایسا نہ وقت ہم پر آئے کبھی خدایا
غیروں کے در پہ جا کے اپنے یہ سر جھکائیں
اور یہ چاہتا تھا کہ تم خود ہی 'اپنے یہ' کو ' ہم اپنے' سے بدل دو۔ سر جھکانا خدا کے ساتھ مخصوص ہے بجائے 'دل سجانا' کے مجہول فعل سے!
مطلع میں درست سمجھ کر 'میری' کو 'سب کی' سے تبدیل کیا ہے لیکن 'سب کی سبھی' اچھا لگتا ہے یا 'اپنی سبھی'؟
تیرے ہی در پہ آ کے کرتے ہیں ہم دعائیں
یا رب معاف کر دے سب کی سبھی خطائیں
------------------ اپنی سبھی....

توفیق دے خدایا تیرے رہیں ہمیشہ
تیری ہی یاد سے ہم اپنی یہ دل سجائیں
(یا) اپنے دلوں کو تیری یاد سے سجائیں
---------------------- بات ہو چکی

مشکل پڑی ہے ہم پر دشمن بنا زمانہ
دشمن ہی دے رہے ہیں چاروں طرف صدائیں
------------------ یہ شعر تو ٹھیک کہا تھا میں نے، مطلب درست لیکن خاص پسند نہیں آیا تھا لیکن اب تو غلط ہی ہو گیا! چاروں طرف 'سے' صدا دی جاتی ہے ۔ دونوں مصرعوں میں 'دشمن' کا استعمال پسند نہیں

گرداب میں ہوں جیسے رستہ نظر نہ آئے
تیرے سوا کسے ہم اپنا یہ دکھ سنائیں
---------------------- نیا شعر... شتر گربہ
گرداب میں پھنسے ہیں
کیا جا سکتا ہے

دشمن تو تھے ہی دشمن اپنے بھی غیر ہیں اب
دشمن بنی ہیں اپنی چاروں طرف ہوائیں
-------------------- اوہو، ابھی دیکھا کہ یہ دو اشعار تھے صدائیں اور ہوائیں والے۔ میرے خیال میں ایک ہی رکھیں دوسرے کی ضرورت نہیں

تیرے سوا تو کوئی معبود ہی نہیں ہے
غیروں کے در پہ جا کے کیسے یہ جھکائیں
------------ 'سر' چھوٹ گیا ہے
غیروں کے در پہ جا کر ہم کیسے /کس طرح سر جھکائیں

ارشد کا سر جھکے بس تیرے سامنے ہی
تیرے سوا کسی کے در پر کبھی نہ جائیں
-------------- یہی مضمون اوپر آ چکا ہے مقطع دوسرا کہیں
 
الف عین محترم آئندہ کوشش کروں گا شعر بدلنے کی بجائے اسی کی اصلاح کی جائے
------------------
تیرے ہی در پہ آ کر کرتے ہپیں یہ دعائیں
یا رب معاف کر دے میری سبھی خطائیں
------------------
ایسا نہ وقت ہم پرآئے کبھی خدایا
غیروں کے در پہ جا ہم اپنے سر جھکائیں
------------------
مشکل پڑی ہے ہم پر دشمن بنا زمانہ
ٹوٹے ہیں دل ہمارے یا رب کسے بتائیں
------------------
گرداب میں پھنسے ہیں رستہ نظر نہ آئے
تیرے سوا کسے ہم اپنا یہ دکھ سُنائیں
-------------------
دشمن تو تھے ہی دشمن اپنے بھی غیر ہیں اب
دشمن بنی ہیں اپنی چاروں طرف ہوائیں
-------------------
تیرے سوا تو کائی معبود ہی نہیں ہے
غیروں کے در پہ جا کر ہم کیسے سر جھکائیں
---------------------
ارشد تجھے ہی اپنا معبود مانتا ہے
بس شرک سے بچانا کرتا ہوں یہ دعائیں
-----------------
 

الف عین

لائبریرین
یرے ہی در پہ آ کر کرتے ہپیں یہ دعائیں
یا رب معاف کر دے میری سبھی خطائیں
------------------ 'میری' کے صیغہ سے پھر شتر گربہ پیدا کر دیا!.. اپنی سبھی خطائیں

ایسا نہ وقت ہم پرآئے کبھی خدایا
غیروں کے در پہ جا ہم اپنے سر جھکائیں
------------------ اب 'کر' چھوڑ دیا!

مشکل پڑی ہے ہم پر دشمن بنا زمانہ
ٹوٹے ہیں دل ہمارے یا رب کسے بتائیں
------------------ ٹھیک

گرداب میں پھنسے ہیں رستہ نظر نہ آئے
تیرے سوا کسے ہم اپنا یہ دکھ سُنائیں
------------------- اس شعر کو نکال ہی دیں. گرداب پانی میں ہوتا ہے، رستہ زمین پر۔ البتہ طوفان دونوں صورتوں میں ممکن ہے۔ اس مصرع میں تو طوفان کیا جا سکتا ہے لیکن دوسرے مصرعے میں کچھ ربط نہیں بنتا طوفان/گرداب سے

دشمن تو تھے ہی دشمن اپنے بھی غیر ہیں اب
دشمن بنی ہیں اپنی چاروں طرف ہوائیں
-------------------درست

تیرے سوا تو کائی معبود ہی نہیں ہے
غیروں کے در پہ جا کر ہم کیسے سر جھکائیں
--------------------- درست

ارشد تجھے ہی اپنا معبود مانتا ہے
بس شرک سے بچانا کرتا ہوں یہ دعائیں
----------- شتر گربہ۔ کرتا ہے یہ دعائیں
 
Top