داغ دل مجھ سے ترا ہائے ستمگر نہیں ملتا

صائمہ شاہ

محفلین
دل مجھ سے ترا ہائے ستمگر نہیں ملتا
مر جاؤں گلا کاٹ کے خنجر نہیں ملتا

دو دن بھی کسی سے وہ برابر نہیں ملتا
یہ اور قیامت ہے کہ مل کر نہیں ملتا

یا ترکِ ملاقات کی خُو ہو گئی ان کو
یا یہ ہے کہ مجھ سے کوئی بہتر نہیں ملتا

اے کاش ہم اب ٹھوکریں کھا کر ہی سنبھلتے
سر ملتے ہیں اس کوچے میں پتھر نہیں ملتا

زاہد نے اڑائے تو صفات ملَکوتی
حضرت کا فرشتوں سے ابھی پر نہیں ملتا

انکار سے امید ہے، اقرار سے ہے یاس
جب وعدہ کیا پھر وہ مقرر نہیں ملتا

کیا پوچھتے ہو بزم میں کیا ڈھونڈ رہے ہو
لو صاف بتا دوں دل مضطر نہیں ملتا

تصویر تو پیدا ہے مصور نہیں پیدا
آئینہ تو ملتا ہے سکندر نہیں ملتا

ہر آبلے میں خار ہے ہر زخم میں پیکاں
ملنے سے مری جاں کوئی کیوں کر نہیں ملتا

کیوں کر نہ مریں موت پہ بیمار محبت
ایسا یہ مزا ہے کہ مکرر نہیں ملتا

کیا عید کے دن بھی رمضاں ہے کہ جو ساقی
مجھ کو نہیں ملتا کوئی ساغر نہیں ملتا

محفل میں تری عید کے دن میرے گلے سے
وہ کون سا فتنہ ہے جو اٹھ کر نہیں ملتا

پروانے کا بھی وقت ہے بلبل کا بھی موسم
مرتا ہوں جو معشوق گھڑی بھر نہیں ملتا

یا رب مرے اشکوں سے نہ تاثیر جدا ہو
اس قافلے سے کوئی بچھڑ کر نہیں ملتا

ہر وقت پڑھے جاتے ہیں کیوں داغؔ کے اشعار
کیا تم کو کوئی اور سخن ور نہیں ملتا
 

طارق شاہ

محفلین
کیا عید کے دن بھی رمضاں ہے، کہ جو ساقی
مجھ کو نہیں ملتا، کوئی ساغر نہیں ملتا

ہر وقت پڑھے جاتے ہیں کیوں داغ کے اشعار
کیا تم کو کوئی اور سخن ور نہیں ملتا
کیا کہنے، بہت ہی اچھا ہے !
۔۔۔۔

بہت اچھی غزل عنایت کی آپ نے، جس کے تمام اشعار ہی بہت خوب ہیں
بہت سی داد قبول کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔
"زاہد نے اڑائے تو صفات ملَکوتی"
اِس مصرع کو دوبارہ دیکھ لیں، شاید ٹائپو ہے
 

باباجی

محفلین
کیوں کر نہ مریں موت پہ بیمار محبت
ایسا یہ مزا ہے کہ مکرر نہیں ملتا


واہ واہ واہ بہت خوب ۔
بہت شکریہ جناب عمدہ کلام ارسال کرنے کا
 
Top