جوش دعوتِ ناؤ نوش - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
اُٹھ کہ اے ساقی بدل دیں راہ و رسمِ کفر و دیں
یہ گھٹائیں، اور پھر تقویٰ! نہیں، ہرگز نہیں
آ، کہ پھر لرزاں ہے کوئل کی صدا سے آسماں
اٹھ، کہ پھر رقصاں ہے ابر و باد سے صحنِ زمیں
آ، کہ پھر دریا میں مچلے پرتوِ روئے صبیح
اٹھ، کہ پھر ساغر میں کھیلے عکسِ زلفِ عنبریں
کُوکتا ہے پھر پپیہا، جھومتی ہے پھر گھٹا
توڑ دے مہرِ خموشی، کھول دے چینِ جبیں
محوِ عشرت ہو بہ فرمانِ شبابِ عشوہ کار
گرمِ جلوت ہو بہ رغمِ زاہدِ خلوت نشیں
آ پلا اپنے گدا کو آج ساقی! یوں شراب
آسماں ہو جائے قابو میں، زمیں زیرِ نگیں
اُس جنوں سے کر مجھے سرشار جس کے روبرو
لرزہ بر اندام ہو جاتی ہے عقلِ اولیں
مطربِ رنگیں! بتا دے راہِ صوتِ سرمدی
قلقلِ مینا! سنا دے نغمۂ روح الامیں
توبہ توبہ فصلِ گُل میں، اورمیں توبہ کروں!
میں کوئی کافر نہیں، الحمدُ ربِ العالمیں
اِس بھری برسات میں طوفان بن کر مے پلا
کھول دے پُرپیچ وخم زلفیں، اُلٹ لے آستیں
تند جھونکے، تیز بارش، مست بادل، سرخ جام
آج اے ساقی! زمانہ ہوش میں گویا نہیں
فرصتِ عشرت غنیمت ہے، خدارا ہوشیار
زندگی ہے تیغ بر دست و کفن در آستیں
ناز کر اے یار! اپنی دلبری پر ناز کر
جوش سا مغرور ہے تیرا غلامِ کمتریں
(جوش ملیح آبادی)
 
Top