اب جبکہ میڈیکل بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے لیکن عجیب و غریب امراض کے ظہور پذیر ہونے کا سلسلہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ یہ متفقہ امر ہے کہ جب جب انسان قدرت کے عطا کردہ اصولوں سے ہٹ کر مصنوعی اور غیر فطری لائف سٹائل کی طرف پلٹا تو امراض میں ہوش ربا اضافہ ہوا اور ان امراض کے علاج کے لئے نئی سے نئی ادویات ایجاد ہوئیں جن کی بدولت ان امراض پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا لیکن ان ادویات کی تیاری بھی چونکہ مصنوعی طریقہ سے ہوئی تھی لہذا یہ مرض کو صرف دبانے کا کام کر سکیں ختم کرنے میں ناکام رہیں اور جو امراض پہلے کم شدت کے ہوتے ہیں وہ زیادہ شدت سے ابھرنے لگے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ مغربی دنیا میں ایک ایسا طبقہ اپنی آواز بلند کر رہا ہے جو ادویات اور ویکسئینز کی تیاری ، ان میں استعمال ہونے والے اجزاء اور ان کے فوائد کے مقابلے میں زیادہ نقصانات پر کافی متحرک ہے۔
میرے لکھنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ موجودہ طریقہ علاج مکمل طور پر غلط ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس طریقہ علاج اور ادویہ سازی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مختلف اقسام کی ویکسئینز سے انسانوں کو بہت ساری ایسی بیماریاں لاحق ہوئی ہیں جو اپنی نوعیت میں بہت عجیب ہیں اور حال ہی میں امریکہ میں کچھ ویکسئینز کے تجربات انسانی بچوں پر کئے جانے کے حوالے سے خاصی لے سے ہو رہی ہے اور اس حوالے سے بھی اس میں شدت آئی ہے کہ یہ تجربات کالی نسل کے بچوں پر کئے جارہے ہیں۔
ویکسئینز کے اثرات اور ادویہ سازی پر تفصیلی بات پھر کبھی ہو گی۔