درد کی نیلی رگیں - فرزانہ نیناں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
زلف کو صندلی جھونکا

زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولے گا
جسم ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح ڈولے گا
بادشاہوں کی طرح دل پہ حکومت کرکے
وہ مجھے تاش کے پتوں کی طرح رولے گا
جنبش لب سے بھی ہوتا ہے عیاں سب مطلب
وہ مری بات ترازو میں مگر تولے گا
کسی برگد کی گھنی شاخ سے دل کا پنچھی
میری تنہا ئی کو دیکھے گا تو کچھ بولے گا
چاند پونم کا سرکتی ہوئی ناگن کی طرح
نیلگوں زہر مرے خون میں آ گھو لے گا
اڑ گیا سوچ کا پنچھی بھی وہاں سے نیناں
کوئی سنسان بنیرے پہ نہیں بولے گا
 

قیصرانی

لائبریرین
سب اختیار اس کا ہے

سب اختیار اس کا ہے کم اختیار میں
شاید اسی لئے ہوئی بے اعتبار میں
پھرتی ہےمرے گھر میں اماوس کی سرد رات
دالان میں کھڑی ہوں بہت بےقرار میں
تھل سےکسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
راہِ وفا میں رہ گئی مثل غبار میں
انگلی میں رہ گئی ہے انگوٹھی گِھسی ہوئی
لاؤں کہاں سے اب وہی نقش و نگار میں
جی چاہتا ہے رات کے بھرپور جسم سے
وحشت سمیٹ لوں تری دیوانہ وار میں
پارس نے دفعتاَ مجھے سونا بنا دیا
قسمت سے آج ہوگئی سرمایہ دار میں
نیلے سمندروں کا نشہ بڑھ نہ جائےگا
موتی نکال لاؤں اگر بے شمار میں
میں ضبط غم کی آخری حد تک گئی مگر
ہر شخص کی نگاہ میں ہوں سوگوار میں
نیناں مجھے بھی دیکھ رتیں اوڑھ اوڑھ کر
قو س قزح کبھی ہوں کبھی اشک بار میں
 

قیصرانی

لائبریرین
اُس نے نرم کلیوں کو

اُس نےنرم کلیوں کو روند روند پاؤں سے
تازگی بہاروں کی چھین لی اداؤں سے
بھیج اپنے لہجے کی نرم گر م کچھ تپش
برف کب پگھلتی ہے چاند کی شعاؤں سے
پاؤں میں خیالوں کے راستے بچھائے ہیں
آج ہی چرانے ہیں پھول اس کے گاؤں سے
دور دور رہتی ہے ایک غمزدہ لڑکی
ہجر توں کی راہوں سے وصل کی سراؤں سے
تیرے جسم کی خوشبو شام کی اداسی میں
موتیئے کے پھولوں نے چھین لی ہواؤں سے
پیار کی کہانی میں سچ اگر ملے نیناں
عمر باندھ لیتی ہیں لڑکیاں وفاؤں سے
 

قیصرانی

لائبریرین
نرم گرم شاموں کو

نرم گرم شاموں کو بھول بھول جاتی ہوں
دل پہ لکھے نامو ں کو بھول بھول جاتی ہوں
بھیجنےکسی کو ہو ں پھول ، کا رڈ، تصویریں
میں ضروری کاموں کو بھول بھول جاتی ہوں
روشنی ہو ، رعنائی، رنگ ہو کہ خوشبو ہو
سب حسیں مقاموں کو بھول بھول جاتی ہوں
صاف استعاروں کو مستند اشاروں کو
پیار کے سلاموں کو بھول بھول جاتی ہوں
سیب اور چیری تو روز لے کے آتی ہوں
اپنے سندھڑی آموں کو بھول بھول جاتی ہوں
دل کے راستے آکر بس گئے ہیں نیناں میں
اَن گِنت پیاموں کو بھول بھول جاتی ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
چھلکا چھلکا رہتا ہے

چھلکا چھلکا رہتا ہے درد سے بھرا ساون
پیار کے لئے لمحہ بھول جانے کو جیون
خوش جمال نے کیسی آگ میں جلا یا ہے
میں تو جیسے بھٹی میں تپ کے ہوگئی کندن
جو چھپا ہے زلفوں کی کالی کالی بدلی میں
ڈس نہ لے کہیں اس کو پاس جاکے یہ ناگن
دھل گئی دھنک ساری بارشوں کی جھڑیوں میں
جھلملا گیا تیرے روپ انوپ کا آنگن
رات دن سویروں سا خواب جلتا رہتا ہے
شام رنگ جنگل میں، میں ہوں اور مرا ساجن
آ بھی جاکہ پانی پر پھر شکارے بہتے ہیں
مانجھی گیت گاتے ہیں سوگوار ہے برہن
آئینے میں اک چہرہ با ت کر نے آتا ہے
دیکھنے کو بیٹھی ہوں بن سنور کے جب درپن
ہوچکے ہیں بوسیدہ نرم سانس کے ڈورے
اب بکھرنے والی ہے جو پروئی تھی دھڑکن
رات بھیگتی ہے جب آرزو کے ڈیرے پر
کیسی کھنکھناتی ہے تیر ی یاد کی جھانجھن
روح کے دریچوں میں ہجر بس گیا جب سے
آکے لے گیا پیتم مجھ سے میرا تن من دھن
درد کی حویلی میں چاندنی کہاں نیناں
اب یہاں اندھیرا ہے بند ہیں سبھی روزن
 

قیصرانی

لائبریرین
مرےگھر میں محبت

مرےگھر میں محبت خوبصورت شام آنے دے
سنہری ریت کے صحراؤں کا پیغام آنے دے
طواف اس پر بھی تو واجب ہے نیناں کعبہء دل کا
ٹہر جا تو اسے بھی اس طرف دو گام آنے دے
 

قیصرانی

لائبریرین
وہ مور پنکھ سے

وہ مور پنکھ سے ہر زخم جھلنے جائے گا
سلگتی آگ سے ز ندہ نکلنے جائے گا
رکی رکی ہے پتنگوں کی سانس آج کی رات
تھرکتی شمع پہ اب کون جلنے جائے گا
دلوں کےسب در و دیوار توڑ کر یہ وقت
محل کو اور کھنڈر میں بدلنے جائے گا
خزاں جب آئے گی تو پھول پھول کا جوبن
کہاں بہار کے سانچے میں ڈھلنے جائے گا
ہمیں کو آگ لگا کے چلا گیا ہے کہیں
کہا تھا جس نے مرے ساتھ جلنے جائےگا
تمام چاند ستاروں کے دن معین ہیں
اندھیرا ان کو بھی آخر نگلنے جائے گا
بہت دنوں سے یہ آنسو رکے تھے نیناں میں
سمندر آج نگینے اگلنے جائے گا
 

قیصرانی

لائبریرین
ابر بھی جھیل پر برستا ہے

ابر بھی جھیل پر برستا ہے
کھیت اک بو ند کو ترستا ہے
درد سہہ کر بھی ملتی ہے تسکین
وہ شکنجہ کچھ ایسے کستا ہے
اس کی مرضی پہ ہے عروج و زوال
بخت ساز آسماں پہ بستا ہے
احتیاطاً ذر ا سا دور رہیں
اب تو ہر ایک شخص ڈستا ہے
ہم بھی جوہر شناس ہیں جاناں
دل کا سودا بھی کوئی سستا ہے
ریت بن کر بکھر گئے نیناں
میری آہوں سے تھل جھلستا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
پاس منزل کےپہنچ کر

پاس منزل کے پہنچ کر کوئی موڑا نہ کرے
آدھے رستے میں ہمیشہ مجھے چھوڑا نہ کرے
بھیک کی طرح وہ دیتا ہے رفاقت مجھ کو
اتنا احسان میری جان پہ تھوڑا نہ کرے
ٹوٹ کر چور اگر ہوگئی جڑنے کی نہیں
کوئی طعنوں سے انا کو مری پھوڑا نہ کرے
وہ حفاظت نہیں کرتا نہ کرے رہنے دو
زخم سے میرے مرا درد نچوڑا نہ کرے
برف لمحات میں تنہائی سے ڈر لگتا ہے
سرد لمحوں کو مری ذات میں جوڑا نہ کرے
چوڑیاں کر نہیں سکتی ہیں تشدد برداشت
جاتے جاتے وہ کلائی کو مروڑا نہ کرے
میں تیاگ آئی ہوں جس کے لیئے سب کو نیناں
کم سے کم وہ تو مرے مان کو توڑا نہ کرے
 

قیصرانی

لائبریرین
اپنی صدا سے اپنی شناسائی

اپنی صدا سے اپنی شناسائی کھو گئی
تنہائیوں کے شور میں تنہائی کھو گئی
سینے میں گھٹ رہی ہے محبت کی سانس سانس
چلتی تھی میرے گھر میں جو پروائی کھو گئی
بارات دیکھ کر کسی گھبر و کی رات کو
سسکاریوں کےشور میں شہنائی کھو گئی
دریافت آسمان کی بھائی نہیں ہمیں
سیارے دیکھتے ہوئے بینائی کھو گئی
افسانہ بن گئے مری تاریخ کے ورق
اسلاف کے ہنر کی پذیرائی کھو گئی
چھائی ہوئی ہے دھند نگاہوں کے سامنے
نیناں ان آئینوں کی بھی زیبائی کھو گئی
 

قیصرانی

لائبریرین
ملےگی میری بھی کوئی نشانی

ملےگی میری بھی کوئی نشانی چیزوں میں
پڑی ہوئی ہوں کہیں میں پرانی چیزوں میں
مرے وجود سے قائم ہیں بام و در میری
سمٹ رہی ہے مری لامکانی چیزوں میں
لپک رہا ہے میری سمت نقرئی بازار
مچل رہی ہے کوئی شادما نی چیزوں میں
یہ خوشنما ئی لہو کے عوض خریدی ہے
گھلا ہوا ہے نگاہوں کا پانی چیزوں میں
بہشت سے ہی میں آئی زمین پر لیکن
شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں
یہ جانتےہوئے کوئی وفا شناس نہیں
بسر ہوئی ہے مری زندگانی چیزوں میں
وہ اور ہوتی ہیں جو ٹوٹتی نہیں شاید
لکھا گیا ہے مجھے آنی جانی چیزوں میں
پھر آیا بھولا ہوا خواب رات میں نیناں
لکھی ہوئی تھی پرانی کہانی چیزوں میں
 

قیصرانی

لائبریرین
زخم یادوں کے

زخم یادوں کے نہیں مٹتے ہیں آسانی سے
داغ دھلتے ہیں کہاں بہتے ہوئے پانی سے
دیکھتی جاتی ہوں میلے کا تماشہ چپ چاپ
کیا پتہ بول پڑے آنکھ ہی ویرانی سے
روشنی کا یہ خزانہ مری آنکھیں ہی نہ ہوں
شمع تو میں نے بجھادی ہے پریشانی سے
میرےچہرے میں جھلکتا ہے کسی اور کا عکس
آئنہ دیکھ رہا ہے مجھے حیرانی سے
باندھ لی میں نےدعا رخت سفر میں نیناں
ڈر جو لگتا ہے مجھے بے سرو سامانی سے
 

قیصرانی

لائبریرین
خوشیوں پہ وبالوں کا گماں

خوشیوں پہ وبالوں کا گماں ہونےلگا ہے
جانسوز خیالوں کا گماں ہونے لگا ہے
ڈرتی ہوں کہ آنسو نہ جوابوں میں امڈ آئیں
آنکھوں میں سوالوں کا گماں ہونے لگا ہے
ان اونچی اڑانوں سے معلق ہوں فضا میں
پھر مجھ کو زوالوں کا گماں ہونے لگا ہے
اک روز گزرتا ہے کچھ اس حال میں میرا
اک رات پہ سالوں کا گماں ہونے لگا ہے
پھول اس نے مرے لان پہ جو زرد بچھائے
نیناں کو ملالوں کا گماں ہونے لگا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
تاش کےگھر

تاش کےگھر بنائے بیٹھی ہوں
کانچ کے پر لگائے بیٹھی ہوں
رسمِ یاراں کو توڑنا ہوگا
حوصلے یوں بڑھائے بیٹھی ہوں
ہر طرف ڈھل رہے ہیں اندھیارے
دل کا دیپک جلائے بیٹھی ہوں
گھونسلے وہ پرند چھوڑ گئے
آس جن کی لگائےبیٹھی ہوں
یاد زنجیر بن نہ جائےکہیں
پاؤں اپنے اُٹھائے بیٹھی ہوں
میں ستارہ ہوں اس کی قسمت کا
آس اس کی لگائے بیٹھی ہوں
یہ دیا بھی کہیں نہ بجھ جائے
جو ہوا سے چھپائے بیٹھی ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
مری خامشی میں

مری خامشی میں بھی اعجاز آئے
کسی سمت سے کو ئی آ واز آئے
وہ چہر ہ نہ جانے کہاں کھو گیا ہے
کہیں سے کبھی کوئی دم ساز آئے
کسی نے تر اشا نہ اس دل کا پتھر
مرے شہر میں کتنے بت ساز آئے
وہ اڑ جائے نیلی رگوں سے نکل کر
مرے درد کو اتنی پرواز آئے
سزا بےگناہی کی میں کاٹتی ہوں
کہاں مجھ کو جینےکے انداز آئے
محبت اے بے دید پاگل محبت
ہمیں چھوڑ دے دیکھ ہم باز آئے
دوا تشنہ کامی کی لے کر وہ نیناں
کبھی تو وہ آئے بصد ناز آئے
 

قیصرانی

لائبریرین
چھائی ہوئی ہیں

چھائی ہوئی ہیں یاس کی گہری خموشیاں
کب تک رہیں گی نصب یہ قبروں پہ تختیاں
سوکھے ہوئے درخت پہ بارش کا تھا کرم
نشے سے بھر گئیں مرے گلشن کی ڈالیاں
حالات نے جو بیج مرے دل میں بوئے ہیں
پھوٹا کریں گی ان میں سے شبنم کی بالیاں
احساس تک نہیں تمہیں جھونکا اداس سا
اک بار تم کو چھونے سے ہوتا ہےخوش گماں
ہم سب کو تشنگی نےکیا اس طرح نڈھال
یک لخت سب نے منہ سےلگائیں پیالیاں
پھر بانسری بجی ہےکہیں درد سے بھری
پھر رو پڑی ہیں میرے خیالوں کی شوخیاں
کیا اب کوئی چراغ افق پر رہا نہیں
صدیوں سے آرہی ہیں جو تاریک بدلیاں
خیمے اُکھیڑتے ہوئے سانسیں اُکھڑگئیں
کب تک رہیں گی ساتھ یہ خانہ بدوشیاں
نیناں،وہ کس لگن سے تجھے کر رہا ہے یاد
تجھ کو جو آ رہی ہیں لگا تار ہچکیاں
 

قیصرانی

لائبریرین
ان آنکھوں کو سپنے

ان آنکھوں کو سپنے دکھائے تو ہوتے
کبھی تم نے دیپک جلائے تو ہوتے
قدم روکتا کب سیہ پوش جنگل
امیدوں کے جگنو اڑائے تو ہوتے
پہنچتی اتر کرحسیں وادیوں میں
پہاڑوں پہ رستے بنائے تو ہوتے
سمندر کو صحراؤں میں لے کے آتی
کچھ انداز اپنے سکھائے تو ہوتے
لئے میں بھی کچا گھڑا منتظر تھی
تم اس پار دریا پہ آئے تو ہوتے
سرِ عام دربار میں رقص کرتی
روایت کے نغمے سنائے تو ہوتے
کوئی ہو بھی سکتا تھا نیناں گلی میں
دریچے سے پردے ہٹائے تو ہوتے
 

قیصرانی

لائبریرین
کبھی بدلی سجیلی د ھوپ کو

کبھی بدلی سجیلی د ھوپ کو آ کر بھگوتی ہے
کبھی پروائی یادوں میں حسیں موتی پروتی ہے
انھیں زینوں پہ چڑھتے پہلے کیسی کھنکھناتی تھی
نگوڑی پائل اب جو پاؤں میں کانٹے چبھوتی ہے
بچھڑتے وقت اندازہ نہ تھا اتنی خزاؤں کا
نہ جانے سادہ دل لڑکی ابھی کیا اور کھوتی ہے
اسے چھم چھم برستی رت نےکل کیا بات کہہ دی ہے
سبک ندیا جو اب تک سینہ کوبی کر کے روتی ہے
گزرتی ہے بڑے آرام سے اب جاگتے نیناں
یہ مجھ پر کھل گیا جب سے مری تقدیر سوتی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
گر میں دریا کے پا س

گر میں دریا کے پا س آؤں گی
ڈر بھی لگتا ہے ڈوب جاؤں گی
تیرے اشکوں کے قیمتی موتی
میں گلو بند میں جڑاؤں گی
میرے جگنو سے پر سلامت ہیں
میں تمہیں راستہ دکھاؤں گی
ناریل کی سفید قاشوں سے
روپ کی چاندنی بچھاؤں گی
دشتِ جاں میں فراق کے خیمے
روز لگواؤں گی ، گراؤں گی
اپنے بچوں کے واسطے نیناں
ایک جنت سا گھر بناؤں گی
 

قیصرانی

لائبریرین
خوشبوؤں سے کلام

خوشبوؤں سے کلام مت کرنا
شہر میں دیکھ شام مت کرنا
تتلیاں،پھول،خو اب،خوشبو تم
اب کبھی میرے نام مت کرنا
اپنے آنچل میں رنگ سب بھرنا
رنگ یکسا ں تمام مت کرنا
فون پر تم ملے ہو مشکل سے
گفتگو کو تما م مت کرنا
آنسوؤں کی شفق ہےآنکھوں میں
کہہ کے لوگوں میں عام مت کرنا
میرے اعزاز میں کسی کے گھر
شام کا اہتمام مت کرنا
حرمت دل کا جو نہ ہو قائل
اس کے گھر میں قیام مت کرنا
شیشہء دل پہ جو گریں پتھر
ان کا تم احترام مت کرنا
لڑکھڑا جائے گی زباں نیناں
اس سے ہرگز کلام مت کرنا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top