دامن ِ دل نگاہ سے تر ہے

دامن ِ دل نگاہ سے تر ہے
شبنم آلودہ گل کا پیکر ہے

جو بناتا ہے خاک کو سونا
وہ زمانے کا کیمیا گر ہے

قافلے میں جو باد پا تھا کبھی
اب وہی راستے کا پتھر ہے

یار کو دل میں کیوں تلاش کروں
وہ مرے چار سو سمندر ہے

سُر کے شعلے سے جو بھڑکتی ہے آگ
بے خبر اس سے خود نواگر ہے

موسم ِ درد ڈھونڈتا ہوں سعید
رت گلابوں کی غم کا مصدر ہے

سعید الرحمن سعید
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ سعید صاحب بہت اچھی غزل ہے ۔ایک مصرع بحر کے مطابق نہیں لگا۔شعلے والا ۔
اس کی بحر بدل گئی ہے۔یہاں جائز حد میں نہیں۔واللہ اعلم۔ بہرحال غزل اچھی لگی۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ سعید صاحب بہت اچھی غزل ہے ۔ایک مصرع بحر کے مطابق نہیں لگا۔شعلے والا ۔
اس کی بحر بدل گئی ہے۔یہاں جائز حد میں نہیں۔واللہ اعلم۔ بہرحال غزل اچھی لگی۔
شاید ٹائپو کے باعث جلا اور بھی کا مقام بدل گیا ہو۔
سُر کے شعلے بھی جلا دیتے ہیں
سر کے شعلے جلا بھی دیتے ہیں
 
واہ سعید صاحب بہت اچھی غزل ہے ۔ایک مصرع بحر کے مطابق نہیں لگا۔شعلے والا ۔
اس کی بحر بدل گئی ہے۔یہاں جائز حد میں نہیں۔واللہ اعلم۔ بہرحال غزل اچھی لگی۔
عاطف بھائی اس غلطی کی نشاندھی کیلے بہت شکریہ۔ میں دوسری پوسٹ پر کومنٹس میں مصروف ہونے کی وجہ سے دھیان نہیں دے سکا ، واقعی بحر سے بھٹک گیا تھا ۔
 
شاید ٹائپو کے باعث جلا اور بھی کا مقام بدل گیا ہو۔
سُر کے شعلے بھی جلا دیتے ہیں
سر کے شعلے جلا بھی دیتے ہیں
شکریہ فاتح بھائی۔ یہ عارف بھائی کی پوسٹ کے پے در پے کومنٹس کا اثر ہے، الفاظ گھوم گئے اور بحر سے بھٹک گیا تھا۔ خوش رہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی غزل ہے!! محفل میں خوش آمدید! اگر مناسب سمجھیں تو اپنا باقاعدہ تعارف عطا فرمائیں تاکہ سب لوگ خیرمقدم کرسکیں۔
 
بہت خوب! اچھی غزل ہے!! محفل میں خوش آمدید! اگر مناسب سمجھیں تو اپنا باقاعدہ تعارف عطا فرمائیں تاکہ سب لوگ خیرمقدم کرسکیں۔
ظہیر بھائی اس بندہ پروری اور حوصلہ افزائی کیلئے شکریہ۔ باقاعدہ تعارف کا ضمرہ تلاش کرنے میں مدد چاہتاہوں
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ شعلے والا شعر بلکہ مصرع بھی بحر میں ہی تھا۔ بس روانی متاثر ہو رہی تھی کہ پے بہ پے ’بھڑکتی‘ کی ی اور ُہے‘ کی ے کا اسقاط ہو رہا تھا۔
سر کے شعلے۔ فاعلاتن
س جو بھڑک۔ مفاعلن
ت ہ آگ۔ فعلان

البتہ دو مصرعوں کی وجہ سے ابلاغ نہیں پو رہا
دامن ِ دل نگاہ سے تر ہے
اور
قافلے میں جو باد پا تھا کبھی
 
اچھی غزل ہے۔ شعلے والا شعر بلکہ مصرع بھی بحر میں ہی تھا۔ بس روانی متاثر ہو رہی تھی کہ پے بہ پے ’بھڑکتی‘ کی ی اور ُہے‘ کی ے کا اسقاط ہو رہا تھا۔
سر کے شعلے۔ فاعلاتن
س جو بھڑک۔ مفاعلن
ت ہ آگ۔ فعلان

البتہ دو مصرعوں کی وجہ سے ابلاغ نہیں پو رہا
دامن ِ دل نگاہ سے تر ہے
اور
قافلے میں جو باد پا تھا کبھی
قبلہ الف عین صاحب آپکی شفقت، توجہ اور حوصلہ افزائی کیلیے ممنون ہوں
دامن ِ دل نگاہ سے تر ہے
شبنم آلودہ گل کا پیکر ہے
اس شعر میں دل کیلئے نگاہ کی دولت کو گل کیلئے شبنم جیسی تراوٹ سے تشبیہہ کی بات کی ہے
قافلے میں جو باد پا تھا کبھی
اب وہی راستے کا پتھر ہے
یہاں بادپا ( تیز رفتار ) کا کمپیریزن ساکت سنگِ راہ سے کیا ہے۔
امید ہے کہ آپ جیسے اہل سخن اساتذہ کی صحبت اور شفقت سے سیکھنے کے مواقع ملتے رہیں گے
آپکی صحت اور سلامتی کی دعائیں
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب غزل ہے یہ بھی سعید صاحب۔

ع- سُر کے شعلے سے جو بھڑکتی ہے آگ
جیسا کہ اعجاز صاحب نے لکھا، یہ مصرع وزن میں ہے۔ اس بحر میں اس وزن کی اجازت ہے، غالب کے اشعار دیکھیے

نے گُلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تُو اور آرائشِ خمِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
 
خوب غزل ہے یہ بھی سعید صاحب۔

ع- سُر کے شعلے سے جو بھڑکتی ہے آگ
جیسا کہ اعجاز صاحب نے لکھا، یہ مصرع وزن میں ہے۔ اس بحر میں اس وزن کی اجازت ہے، غالب کے اشعار دیکھیے

نے گُلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تُو اور آرائشِ خمِ کاکُل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
بہت شکریہ وارث بھائی۔ جس مصرع کے وزن کے بارے سید عاطف بھائی نے نشاندھی کی تھی، وہ یہ مصرع نہیں تھا ۔ ٹائپنگ مسٹیک کی وجہ لفظ آگے پیچھے ہونے سے بے وزن ہوانے والا وہ مصرع " سُر کے شعلے بھی جلا دیتے ہیں " تھا ۔ لہذا میں نے اسے بدل دیا تھا۔ میں ایک مدت سے آپ کے ہردلعزیز بلاگ صریر خامہء وارث اور فاروق درویش صاحب کے بلاگ مضامین کا قاری ہوں۔ علم العروض اور سخن فہمی کے فروغ کیلیے آپ جیسے اساتذہ ء سخن کا کردار اور خدمات قابلِ ستائش ہیں۔سلامت رہیں
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث بھائی۔ جس مصرع کے وزن کے بارے سید عاطف بھائی نے نشاندھی کی تھی، وہ یہ مصرع نہیں تھا ۔ ٹائپنت مسٹیک کی وجہ لفظ آگت پیچھے ہونے سے بے وزن ہوانے والا وہ مصرع " سُر کے شعلے بھی جلا دیتے ہیں " تھا ۔ لہذا میں نے اسے بدل دیا تھا۔ میں ایک مدت سے آپ کے ہردلعزیز بلاگ صریر خامہء وارث اور فاروق درویش صاحب کے بلاگ مضامین کا قاری ہوں۔ علم العروض اور سخن فہمی کے فروغ کیلیے آپ جیسے اساتذہ ء سخن کا کردار اور خدمات قابلِ ستائش ہیں۔سلامت رہیں

معذرت خواہ ہوں کہ تدوین کا علم نہ ہو سکا :)
 

الف عین

لائبریرین
قبلہ الف عین صاحب آپکی شفقت، توجہ اور حوصلہ افزائی کیلیے ممنون ہوں
دامن ِ دل نگاہ سے تر ہے
شبنم آلودہ گل کا پیکر ہے
اس شعر میں دل کیلئے نگاہ کی دولت کو گل کیلئے شبنم جیسی تراوٹ سے تشبیہہ کی بات کی ہے
قافلے میں جو باد پا تھا کبھی
اب وہی راستے کا پتھر ہے
یہاں بادپا ( تیز رفتار ) کا کمپیریزن ساکت سنگِ راہ سے کیا ہے۔
امید ہے کہ آپ جیسے اہل سخن اساتذہ کی صحبت اور شفقت سے سیکھنے کے مواقع ملتے رہیں گے
آپکی صحت اور سلامتی کی دعائیں
نگاہ میں گیلا پن کیا ہوتا ہے، یہ واضح نہیں۔ چشمِ تر ہو سکتا ہے۔ جس سے دامن کا نم ہونا سمجھ میں آتا ہے لیکن نگاہ سے دل کا دامن تر نہیں ہو سکتا۔
باد پا کی ترکیب غیر مانوس ہے۔ ہر ایک اس کا مطلب تیز رفتار نہیں لے سکتا۔
 
Top