خیمۂ خواب۔۔۔۔ اسعد بدایونی

الف عین

لائبریرین
نذر
توصیف تبسّم، منظور ہاشمی، ایس این شاہ ، بزمی ؔبھارتی






٭
زمین پہ پھول صورتوں کو اے خدا دوام دے
دھنک کے رنگ آسماں پہ بس یونہی کھلے رہیں
٭
 

الف عین

لائبریرین
میں سونچ رہا ہوں اب کے بڑا کمال ہوا
مجھے اس سے بچھڑتے وقت ذرا نہ ملال ہوا
اک محفل کچھ دن گرم رہی ہنگاموں کی
اور اس کے بعد سبھی کچھ خواب وخیال ہوا
اب یاد سفر کا قصّہ ہے بس اتنا سا
مجھے پیاس لگی، مرے ہونٹ جلے میں نڈھال ہوا
مجھے روک دیا پھر دنیا کی زنجیروں نے
پھر خشک ، زباں پر میری حرفِ وصال ہوا
ہاں اپنا قبیلہ یکتا ہے بدبختی میں
کب ہم میں کوئی سردار بلند اقبال ہوا
اک دکھ سے بھرا دن اور کٹا اس بستی میں
اک سورج کا پھر تاریکی میں زوال ہوا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
میں اپنی رات کو تاریک تر بتاتا ہوں
پھر اے چراغ، تجھے معتبر بتاتا ہوں!
گرفت جو نہیں ہوتا وہ کس کا پیکر ہے
یہ نقش کیا ہے جسے رات بھر بناتا ہوں
ہوا کی لوح پہ لکھتا ہوں وہم کے منظر
پسِ خیال کوئی رہگذر بناتا ہوں
رمیدگی کے بیاباں مجھے پکارتے ہیں
میں خود کو حاملِ زنجیرِ در بناتا ہوں
میں ایک شاخ کو تلوار کرکے لڑتا ہوں
میں اک گلاب کو اپنی سپر بناتا ہوں
تمام رات سمندر صدائیں دیتا ہے
تمام رات جزیرے میں گھر بناتا ہوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
زیاں رسیدہ جزیرے بھی میری آنکھیں بھی
بکھر رہے ہیں کنارے بھی میری آنکھیں بھی
یہ دیکھنا ہے کرن کس طرف سے گزرے گی
کھلے ہوئے ہیں دریچے بھی میری آنکھیں بھی
لکھا ہے سب کے مقدر میں تہہ نشیں ہونا
بھنور نصیب، سفینے بھی میری آنکھیں بھی
میں انتشار کا مارا ہوا مسافر ہوں
بھٹک رہے ہیں یہ رستے بھی میری آنکھیں بھی
گداز برف جو خورشید لمس سے پگھلی
تو رو اٹھے کئی چشمے بھی میری آنکھیں بھی
خزاں نے مجھ کو بھی قربت سے ہم کنار کیا
کہ زرد ہوگئے پتّے بھی میری آنکھیں بھی!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
زمیں پہ بکھرے ہوئے تیر کس کماں کے ہیں
بڑے عجیب مناظر دیارِ جاں کے ہیں
مہیب رات ہے جنگل ہے اور ہوائیں ہیں
درخت ، جیسے کسی اور ہی جہاں کے ہیں
یقین اپنی جگہ ، انکشاف اپنی جگہ
طویل سب سے مگر سلسلے گماں کے ہیں
سنا ہے بہنے لگا پھر پہاڑ کا سونا
کرشمے دشت میں کیا آتشِ رواں کے ہیں
اِنھیں سے میرا پتہ دشمنوں کو ملنا ہے
یہ سب چراغ یقینا مرے زیاں کے ہیں
اُجاڑ محلسرائیں ، شکستہ کنگوررے
کمر خمیدہ ، نشانات رفتگاں کے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
موسمِ ہجر تو دائم ہے نہ رخصت ہوگا
ایک ہی لمحے کو ہو وصل ، غنیمت ہوگا
میرا دل آخری تارے کی طرح ہے گویا
ڈوبنا اس کا نئے دن کی بشارت ہوگا
اب کے ہنگامہ نئی طرح ہوا ہے آغاز
شہر بھی اب کے نئے طور سے غارت ہوگا
شاخ سے ٹوٹ کے پتّے نے یہ دل میں سوچا
کون اس طرح بھلا مائلِ ہجرت ہوگا
دل سے دنیا کا جو رشتہ ہے عجب رشتہ ہے
ہم جو ٹوٹے ہیں تو کب شہر سلامت ہوگا
بادبانوں سے ہوا لگ کے گلے روتی ہے
یہ سفینہ بھی کسی موج کی قسمت ہوگا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا
میں اس کے جملہ محاسن پہ خاک ڈال آیا
یہ عشق خوب رہا باوجود ملنے کے
نہ درمیان کبھی لمحۂ وصال آیا
اشارہ کرنے لگے ہیں بھنور کے ہاتھ ہمیں
خوشا کہ پھر دلِ دریا میں اشتعال آیا
مروتوں کے ثمر داغدار ہونے لگے
محبتوں کے شجر تجھ پہ کیا زوال آیا
حسین شکل کو دیکھا خدا کو یاد کیا
کسی گناہ کا دل میں کہاں خیال آیا
خدا بچائے تصوف گزیدہ لوگوں سے
کوئی جو شعر بھلا سن لیا تو حال آیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی زمین کو سودا بہت سروں کا ہے
جماؤ دونوں محاذوں پہ لشکروں کا ہے
کسی خیال کسی خواب کے سوا کیا ہے
وہ بستیاں کہ جہاں سلسلہ گھروں کا ہے
اُفق پہ جانے یہ کیا شئے طلوع ہوتی ہے
سماں عجیب پر اسرار پیکروں کا ہے
یہ شہر چھوڑ کے جانا بھی معرکہ ہوگا
عجیب ربط عمارت سے پتھروں کا ہے
وہ ایک پھول جو بہتا ہے سطحِ دریا پر
اسے خبر ہے کہ کیا دکھ شناوروں کا ہے
اتر گیا ہے وہ دریا جو تھا چڑھاؤ پر
بس اب جماؤ کناروں پہ پتھروں کا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
بستیوں میں آہ وزاری ہورہی ہے شام سے
کچھ نہ کچھ نازل تو ہوگا چرخِ نیلی فام سے
دشتِ غربت میں ہوا ساری طنابیں لے اُڑی
میرا خیمہ رہ سکا کب ایک پل آرام سے
اب تو آوازوں کے جمگھٹ ہیں مرے چاروں طرف
رابطہ پہلے تھا میرا بس سُکوتِ شام سے
کارِ دنیا میں کہاں تک عاشقی کوئی کرے
وہ بھی اپنے کام سے ہے میں بھی اپنے کام سے
میری آنکھوں کو اسی منظر کی اب تک جستجو
میرا دل اب تک دھڑکتا ہے اسی کے نام سے
میں بھی سارے مسئلوں سے سرسری گزروں اگر
سوچتا ہوں عمر گزرے گی بڑے آرام سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
سایہ گھروں پہ خوف کے منظر کا ہوگیا
عادی تمام شہر کسی ڈر کا ہوگیا
اب چاہتے ہیں اور نیا کوئی حادثہ
لکھا ہوا تمام ، مقدر کا ہوگیا
بے بادباں جو ناؤ ہماری ہوئی تو کیا
کچھ اشتعال کم تو سمندر کا ہوگیا
یا اس کماں کے تیر ہی کچھ موم ہوگئے
یا پھر مرا وجود ہی پتھر کا ہوگیا
یا اب وہ کشتگانِ تمنا نہیں رہے
یا خاتمہ ہر ایک ستمگر کا ہوگیا
فکرِ معاش کھاگئی شعر و ادب کا شوق
جو گھر سے بھاگتا تھا وہی گھر کا ہوگیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
آہوئے رم خوردہ پابندِ مکاں ہوتا ہوا
ایک منظر ہجرتوں کا ، بیکراں ہوتا ہوا
ساعتیں آہستہ آہستہ جواں ہوتی ہوئی
مہرِ عالم تاب کوئی ضوفشاں ہوتا ہوا
وحشتِ شامِ الم گویا فنا ہوتی ہوئی
دل میں اک بے نام سا جذبہ جواں ہوتا ہوا
پھول سے بچوں کے لب پر بارشوں کی آیتیں
ابرِ رحمت کھیتیوں پر مہرباں ہوتا ہوا
درپئے آزار ہر موسم ہمارے ہی لئے
سب محاذوں پر ہمارا ہی زیاں ہوتا ہوا
حسرتِ اظہار سینے میں فنا ہوتی ہوئی
اک ہنر میری رگوں میں رائیگاں ہوتا ہوا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
سمندر کی موجوں کو اک روز اپنا نگہبان دیکھوں
سوالوں کے مشکل جوابوں کی جانب مرا ذہن پہنچے
کتابوں میں لکھی عبارت کا مفہوم آسان دیکھوں
مقدر میں میرے گھنے جنگلوں کی شبیں لکھ گئی ہیں
ہواؤں کی سرگوشیوں سے درختوں کو حیران دیکھوں
مکانوں کے آنگن اُجالوں سے خالی میں ہر صبح پاؤں
چراغوں کی لمبی قطاریں سرِ شام بے جان دیکھوں
سفر کس لیے مجھ کو بخشا ہے ساکت سمندر کا یا رب!
مری اصل خواہش تو یہ تھی کہ میں کوئی طوفان دیکھوں
کبھی تو کنول دوستوں کی نگاہوں سے خوشیوں کے جھانکیں
منافق زمانے کا چہرہ کبھی تو پریشان دیکھوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
سمندر کی موجوں کو اک روز اپنا نگہبان دیکھوں
سوالوں کے مشکل جوابوں کی جانب مرا ذہن پہنچے
کتابوں میں لکھی عبارت کا مفہوم آسان دیکھوں
مقدر میں میرے گھنے جنگلوں کی شبیں لکھ گئی ہیں
ہواؤں کی سرگوشیوں سے درختوں کو حیران دیکھوں
مکانوں کے آنگن اُجالوں سے خالی میں ہر صبح پاؤں
چراغوں کی لمبی قطاریں سرِ شام بے جان دیکھوں
سفر کس لیے مجھ کو بخشا ہے ساکت سمندر کا یا رب!
مری اصل خواہش تو یہ تھی کہ میں کوئی طوفان دیکھوں
کبھی تو کنول دوستوں کی نگاہوں سے خوشیوں کے جھانکیں
منافق زمانے کا چہرہ کبھی تو پریشان دیکھوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
سارے خیمے خاک سے اٹ گئے ہوگئی رن میں شام
ایک کہانی ، ایک حقیقت، صدیوں سے ہے عام
ہر سنّاٹا ، ہر محرومی ، میرے گھر کا رزق
سبز مناظر ، روشن لمحے ، سب یاروں کے نام
اب کے سفر سے ہم لوٹے تو ، یوں محسوس ہوا
ایک تھکن ہے جس کے بیاں سے قاصر لفظ تمام
قریۂ وحشت اب کے برس ہے کیوں اتنا خاموش
کیا افتاد پڑی لوگوں پر سوگئے سب سرِ شام
اپنے یقیں کے خون سے اس کو ہم سیراب کریں
ایک مدّت سے سوکھ رہی ہے جو فصلِ اوہام
میں لفظوں کی کوزہ گری میں کب مشّاق ہوا
کاش ودیعت ہوتا مجھ کو اور ہی کوئی کام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
لمسِ گم گشتہ کی لذّت ڈھونڈنا
قریہ قریہ ایک صورت ڈھونڈنا
اب نہ ان آنکھوں میں دریا دیکھنا
اب نہ اس چہرے پہ حیرت ڈھونڈنا
چشمۂ وصل اور کتنی دور ہے
اب تو لگتا ہے قیامت ڈھونڈنا
چاک پر مٹّی کو رکھنا اور پھر
گردشوں میں کوئی صورت ڈھونڈنا
دیکھنا آنکھوں سے کچّی کاوشیں
بیکراں شہروں میں حیرت ڈھونڈنا
ہوں ابھی تک جاں کے زنداں میں اسیر
بعد مردن میری حسرت ڈھونڈنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
بغیر بات کے مصروفِ گفتگوو ہونا
ہر ایک شام یہی جشنِ ہاد ہو ہونا
وہ کون ہے جو گھنی بارشوں سے خائف ہے
کسے عزیز ہے مٹّی کا بے نمو ہونا
شمار ہونا بھی مشکل ہے کشتگاں میں یہاں
بہت کٹھن ہے قبیلے کی آبرو ہونا
جو دیدبانِ مظاہر ہیں ان کی سوچ الگ
مری نظر میں شفق، شام کا لہو ہونا
سوائے سر کی قطاروں کے اور کیا دیگا
کسی محاذ پہ فوجوں کا روبرو ہونا
ستارے ڈوبتے جاتے ہیں میری آنکھوں میں
تمام کارِ زیاں ہے ستارہ جو ہونا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top