خُود کُش حملے: دو سوال

نوید

محفلین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میری معلومات کو مطابق خود کش حملوں کا آغاز فلسطین اور اسرائیل میں ہوا ۔۔۔۔۔۔
 

تفسیر

محفلین
زکریا نے جس آرٹیکل کا ذکر کیا ہے۔ اسکا لب لباب یہ ہے۔

خُود کُش حملوں کی حقیقت

مشرق میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ خُود کُش حملوں کی وجہ غربت اور تعلیم کی کمی ہے یعنی“خود کشی کرنے والا“ غربت کا شکار ہے اور خُود کُش حملہ ،اس کی بے انتہا ناامیدی اور مایوسی پر مبنی ہے ۔ لیکن یہ خیال غلط ہے ۔ 2003 میں عالمِ انسانیت، اسکاٹ ایلن کی تحقیقات میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جو اس خیال کو سچ ثابت کردے۔ ہاروڈ یونیورسٹی کے پروفیسر البرٹو ابادی کا کہنا ہے کہ دہشت پسندی اور سیاسی آزادی کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔

پروفیسر البرٹو ابادی کے کہنے کے مطابق ، زیادہ تر خُود کُش حملہ کرنے والے تعلیم یافتہ اور درمیانی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔خُود کُش حملے کرنے والوں میں نفسیاتی مراضات بھی موجود نہیں ہوتے۔ فی الحقیقت ، ان کے رہمنا ایسے خُود کُش حملے کرنے والوں کو چنتے ہیں جن پراس کام کو انجام دینے کا بھروسہ کیا جاسکے۔ دماغی مریض اس معیار پر پورے نہیں اتر تے۔

بعض ماہرین کاخیال ہے کہ خُود کُش حملے کرنے کی وجاہیں سیاسی اور اقتصادی ہیں لیکن دوسرے ماہرین کا کہنا ہےکہ مذاہب اس طریقہ کار کے استعمال کوترغیب دیتے ہیں۔ان ماہرین کے کہنے کے مطابق اسلام خُود کُش حملوں کو “مارٹرڈم “ کا درجہ دیتا ہے۔ اور ' مارٹرز' کو بتایا جاتا ہے کہ انہیں دونوں جہاں میں ایک بلند درجہ حاصل ہوگا۔

ایسے بھی ماہرین ہیں جو اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتے۔ شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ پاپے لکھتے ہیں۔

“ دوسروں کے ملکوں پر قبصہ کرنا اور ان ملکوں کے وسیلوں کو لوٹنا، خُود کُش حملوں کی بنیاد ہے۔ناکہ اسلامی فنڈامینٹل ازم“ ۔

پاپا کی ریسرچ یہ بتاتی ہے۔“دوسروں کے ملکوں پر قبضہ کرنا“ خُود کُش حملوں کا سبب ہے۔

خُود کُش حملوں تاریخ

اپنے مقاصد اور عقائد کے لیے جان قربان کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ Antwerp harbour میں ڈچ لفٹنٹ جان وان سپجیک نے ، انقلابِ بلجیم کے دروان اپنے پانی کے جہاز کو دشمنوں کے ہاتھ سے بچانے کے لیے عملے سمت تباہ کردیا ۔ صلیبی جنگوں کے دوران Knights Templar اپنے ایک جہاز کو جس میں 140 عیسائی ہیں تباہ کردیا تاکہ وہ اس سے دس گنا زیادہ مسلمانوں کو اس جہاز کے ساتھ جان سے مار سکے۔ا س قسم کی مثال پرانی تاریخ میں تقریبا ہر مذہب اور ملک میں ملیں گی۔ خواہ وہ امریکہ ، ریشیا، جرمنی یا جاپان ہو۔

1981 میں “ لبنان کی خانہ جنگی “ میں خُود کُش حملوں کا استعمال ہوا ۔سری لنکا کے تمیل ٹائیگر نے بھی اس کو اپنایا۔ 2005 کے بعد خُود کُش حملے درجنوں ملکوں میں استعمال ہورہے ہیں۔آج ہم اس کا استعمال ، فلسطین، عراق، افغانستان اور پاکستان میں دیکھتے ہیں۔

ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ۔ خُود کُش حملوں کا مقصد ، اپنے ملک اور وسائل کو غیر ملکی قبضہ سے نجات دلانا
ہوتا ہے۔

2۔خود کش حملہ کرنے والے پاگل نہیں ہوتے۔اور ان کا مذہبی فنڈامینٹلیسٹ ہونا بھی ضروری نہیں۔ وہ لوگ عموماً تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور درمیانی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

3۔ تقریبا ً ہر مذہب اور قوم نےاس طریقہ کارکواستعمال کیا ہے۔
.
 

نبیل

تکنیکی معاون
حسن بن صباح کے فدائین نے بھی پوری مسلم دنیا کے اکابرین کو قتل کرنے کے لیے فدائی حملے کیے تھے۔ اور آج لوگ اسی فورم پر فدائی حملوں کی دلیل میں آیات جہاد پیش کرتے ہیں کہ دیکھو کتنی بڑی سعادت ہے بم باندھ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا۔۔
 

تفسیر

محفلین
اوپر میں نے وکی کے ایک آرٹییکل کا لب لباب پیشں کیا ہے۔


میرا ذاتی فلسفہ ۔۔۔۔۔۔
اباجان کے ہاں سے ایک اقتباس ۔۔۔
مصنف سیدتفسیر احمد


شام سہانی تھی۔ اماں جان اور سعدیہ دونوں سوئمنگ پُول کے قریب آرام دہ کرسیوں پر لیٹی ہوئی تھیں۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھاہوا تھا۔اباجان حسب معمول کتب خانہ میں تھے۔ تمام رشتے داراور احباب جاچکے تھے۔
میں نے ماں سے پوچھا۔ ”اچھائی کیا ہوتی ہیں؟
“ تم کیوں پوچھتے ہو؟ کیا ابو کی باتیں کافی نہیں؟ " ماں نے کہا۔
" ہاں ابو نے ہمیں اچھائی کو سمجھنے میں مدد دی۔ مگر میں آپ کا خیال بھی جاننا چاہتا ہوں”۔
“ ماں نے جھک کرسعدیہ کا ماتھا چوما۔ اور کہا”۔میرے خیال میں محبت انسان کی سب سے بڑی اچھائی ہے۔جو تمام اچھائیوں کواپنے اندر سمالیتی ہے۔
“ محبت، اباجان نے تو اس کا ذکر ہم سے نہیں کیا؟ "میں نے حیرت سے کہا۔
ماں نے کہا۔ ” انسانیت کے سینکڑوں اصول ہیں اور تمارے ابو تمہیں باترتیب اور رواجی طریقہ سے بتا رہے ہیں۔اس لیے تم سقرا ط کے اہم سوالات کا جائزہ لے رہے ہو”۔
" لیکن میں نے اور تمھارے ابو نے محبت تم اور سعدیہ کو پہلے دن سے سیکھانا شروع کی تھی”۔
" مگر امی محبت تمام اچھائیوں کو کسے سما سکتی ہے؟ محبت کیا ہے؟" سعدیہ نے ماں سے پوچھا۔
ماں نے کہا “۔ اخلاقی محبت، اللہ کی تمام مخلوقات کیلئے تمارے دل میں ایک گہرا ناقابلِ بیان جذبہ ، رشتہ اورتعلق، شفقت ، بے قراری اور پروا ہ کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک رشتہ ہے جو کہ مقناطیسی لگاؤ اوربنیادی یکجہتی سے پیدا ہوتاہے”۔
" امی ، امی “۔ سعدیہ چلائ”۔ میں نے تو ایک سیدھا سا سوال کیا تھا”۔
ماں مسکرائیں۔” اچھا، اچھا”۔
" میں تم سے محبت کرتی ہوں تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ سچ ہے؟
" امی یہ کیسا سوال ہے؟" سعدیہ نے ماں کی ناک موڑتے ہوے کہا”۔میں تو سارے جہاں سے زیادہ آپ سے محبت کرتی ہوں”۔
“ مجھ سے بھی زیادہ “۔میں نے ہنس کر کہا۔
“ بھول جائیے بھائ جان۔ آپ کا نمبر تیسرا ہے“۔ سعدیہ نے اماں کو آنکھ مار کر کہا۔
“ محبت کرنا ایک گہرا جذبہ ہے”۔ ماں نے کہا۔
" تم مجھ سے کیوں محبت کرتی ؟ "
آپ میری امی ہیں۔” سعدیہ نے ماں کے گال چوم کرکہا”۔
ماں نے کہا۔ ”رشتہ اور تعلق “
" کیا تم کو یاد ہے، تم نے اس ننھی سی بلی کو اپنے کمرے میں، اپنے بستر میں پناہ دی تھی”۔
" امی وہ بچاری تو بھوکی، بارش میں سردی سے مررہی تھی”۔ سعدیہ نے شکایت کی۔
اور جب ہمارے شہر کا میونسپل بورڈ اوکھ کا سو سال پرانا درخت کاٹنا چاہتاتھا ۔ہم سب لوگ درخت کے چاروں طرف گھیرا ڈال کربیٹھے تھے تا کہ درخت کو کٹنے سے بچائیں تم بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ اور جب پولیس نے ہم کو جانے کو کہا اور ہم نہیں گئے ۔تب پولیس نے ہم سب کی آنکھوں میں لال مرچ ڈال دی ۔ تم روئیں مگر تم نے کہا۔ ماں ہم نہیں ہٹیں گے۔ ہم یہاں نہیں تھے۔ یہ درخت ہم سب سے پہلے یہاں تھا یہ ہمارے ایکو سسٹم میں برابر کا شریک ہے۔
جب سعدیہ کو یاد آیا کہ تمام کوششوں باوجوددرخت کاٹاگیا۔ اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
" اس کو ہم عصر کی پروا ہ کرنا کہتے ہیں”۔ اماں جان نے کہا۔
” اللہ کی تمام مخلوق ہماری ہم عصر ہے”۔
" اور جب کبھی تمہارے بھیا کالج سے وقت پر واپس نہیں آتے۔ توکون با ر بار پوچھتا ہے، امی ، بھائ جان نے کال کیا؟" ۔
" وہ تو میں اس لئے پوچھتی ہوں کیوں کہ وہ مجھ سے وعدہ کرکے جاتے ہیں کہ میں وقت پر واپس آؤں گا۔ میں انکی پروا تھوڑی کرتی ہوں”۔ سعدیہ نے شرارت سے کہا۔
ماں نے کہا۔” اس کو بے قراری کہتے ہیں”۔
اور جب ہمارے ملک امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس حملے کے خلاف کون سب لوگوں کے ساتھ ہر بدھ کی شام کو موم بتیاں لے کر شاپنگ مال کے سامنے احتجاج کرنے کھڑا ہوتا ہے۔
سعدیہ مستی سے بولی۔ “بھائ جان”۔
ماں نے کہا۔" یہ دوسرے انسانوں کی پروا ہ کرنا ہے”۔
اللہ نے اس کائنات میں ایک بنیادی یکجہتی بنائی ہے اور ایک مقناطیسی لگاؤ ہر چیز کی بناوٹ میں ملا دیا ہے۔ اس یکجاپن اور مقناطیسی لگاؤ کو ہم اخلاقی محبت کہتے ہیں۔اب یہ انسان کا کام کہ وہ اس اچھائی کو پھیلائے ۔۔۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آپ سب کا شکریہ ۔

تفسیر بھائی آپ کا بھی شکریہ۔۔۔ البتہ آپ کے پیغامات سے مزید سوال ذہن میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں خُود کُش حملوں کے حوالے سے۔۔۔
 
Top