خوفناک عمارت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
عمران سیریز نمبر ۱
خوفناک عمارت
مکمل ناول

۱

سوٹ پہن چکنے کے بعد عمران آئینے کے سامنے لچک لچک کر ٹائی باندھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اونہہ۔۔۔پھر وہی۔۔۔چھوٹی بڑی۔۔۔میں کہتا ہوں ٹائیاں ہی غلط آنے لگی ہیں۔ وہ بڑ بڑاتا رہا۔ اور پھر ٹائی ۔۔۔لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔نہیں باندھتا!۔
یہ کہہ کر اس نے جھٹکا جو مارا تو ریشمی ٹائی کی گرہ پھسلتی ہوئی نہ صرف گردن سے جا لگی بلکہ اتنی تنگ ہو گئی کہ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آنکھیں ابل پڑیں۔
بخ۔۔۔بخ۔۔۔خیں۔۔۔اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلنے لگیں اور وہ پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کرکے چیخا۔ ارے مرا۔۔۔بچاؤ! سلیمان
ایک نوکر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔پہلے تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں کیونکہ عمران سیدھا کھڑا ہوا دونوں ہاتھوں سے اپنی رانیں پیٹ رہا تھا!
کیا ہوا سرکار۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولا!
سرکار کے بچے مر رہا ہوں۔
ارے۔۔۔لیکن۔۔۔مگر۔۔۔؟
لیکن۔۔۔مگر۔۔۔اگر۔۔۔عمران دانت پیس کر ناچتا ہوا بولا۔ ابے ڈھیلی کر۔
کیا ڈھیلی کروں؟ نوکر نے متحیر آمیز لہجے میں کہا۔
اپنے باوا کے کفن کی ڈوری۔۔۔جلدی کر۔۔۔ارے مرا۔
تو ٹھیک سے بتاتے کیوں نہیں؟ نوکر بھی جھنجھلا گیا۔
اچھا بے تو کیا غلط بتا رہا ہوں؟ میں یعنی عمران ایم ایس سی، پی۔ ایچ۔ ڈی کیا غلط بتا رہا ہوں، ابے کم بخت اسے اردو میں استعارہ اور انگریزی میں میٹافر کہتے ہیں۔ اگر میں غلط کہ رہا ہوں تو باقاعدہ بحث کر مرنے سے پہلے یہ ہی سہی۔
نوکر نے غور سے دیکھا تو اس کی نظر ٹائی پر پڑی، جس کی گرہ گردن میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی اور رگیں ابھری ہوئی سی معلوم ہو رہی تھیں اور یہ اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی! دن میں کئی بار اسے اس قسم کی حماقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا!
اس نے عمران کے گلے سے ٹائی کھولی۔
اگر میں غلط کہہ رہا تھا تو یہ بات تیری سمجھ میں کیسے آئی؟ عمران گرج کر بولا۔
غلطی ہوئی صاحب!
پھر وہی کہتا ہے، کس سے غلطی ہوئی؟
مجھ سے!
ثابت کرو کہ تم سے غلطی ہوئی۔ عمران ایک صوفے میں گر کر اسے گھورتا ہوا بولا۔
نوکر سر کھجانے لگا۔
جوئیں ہیں کیا تمہارے سر میں! عمران نے ڈپٹ کر پوچھا۔
نہیں تو۔
تو پھر کیوں کھجا رہے تھے؟
یونہی۔
جاہل۔۔۔گنوار۔۔۔خوامخواہ بے تکی حرکتیں کرکے اپنی انرجی برباد کرتے ہو۔ نوکر خاموش رہا۔ یونگ کی سائکالوجی پڑھی ہے تم نے؟ عمران نے پوچھا۔
نوکر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
یونگ کی ہجے جانتے ہو۔
نہیں صاحب۔ نوکر اکتا کر بولا۔
اچھا یاد کر لو۔۔۔جے-یو-این-جی۔۔۔یونگ! بہت سے جاہل اسے جنگ پڑھتے ہیں اور کچھ جونگ۔۔۔! جنہیں قابلیت کا ہیضہ ہوجاتا ہے وہ ژونگ پڑھنے اور لکھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔فرانسیسی میں جے ژ کی آواز دیتا ہے مگر یونگ فرانسیسی نہیں تھا۔
شام کو مرغ کھائیے گا۔۔۔۔یاتیتر۔ نوکر نے پوچھا۔
آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ عمران جھلا کر بولا۔ ہاں تو میں ابھی کیا کہہ رہا تھا۔۔۔۔وہ خاموش ہو کر سوچنے لگا۔
آپ کہہ رہے تھے کہ مسالہ اتنا بھونا جائے کہ سرخ ہو جائے۔ نوکر نے سنجیدگی سے کہا۔
ہاں اور ہمیشہ نرم آنچ پر بھونو! عمران بولا۔ کفگیر کو اس طرح دیگچی میں نہ ہلاؤ کہ کھنک پیدا ہو اور پڑوسیوں کی رال ٹپک پڑے۔ ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں کہاں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔
آپ! نوکر کچھ سوچتا ہوا بولا۔ آپ میرے لیے ایک شلوار قمیض کا کپڑا خریدنے جا رہے تھے! بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کے لیے بوسکی۔
گڈ۔! تم بہت قابل اور نمک حلال نوکر ہو! اگر تم مجھے یاد نہ دلاتے رہو تو میں سب کچھ بھول جاؤں۔
میں ٹائی باندھ دوں سرکار! نوکر نے بڑے پیار سے کہا۔
باندھ دو۔
نوکر ٹائی باندھتے ہوئے بڑبڑاتا جا رہا تھا۔ بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کے لئے بوسکی۔ کہئے تو لکھ دوں!
بہت اچھا رہے گا۔
ٹائی باندھ چکنے کے بعد نوکر نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پنسل سے گھسیٹ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
یوں نہیں۔ عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے سنجیدگی سے بولا۔ اسے یہاں پن کر دو۔ نوکر نے ایک پن کی مدد سے اس کے سینے پر لگا دیا۔
اب یاد رہے گا۔ عمران نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا!۔۔۔راہداری طے کرکے وہ ڈرائنگ روم میں پہنچا۔۔۔یہاں تین لڑکیاں بیٹھی تھیں۔
واہ عمران بھائی! ان میں سے ایک بولی۔ خوب انتظار کرایا! کپڑے پہننے میں اتنی دیر لگاتے ہیں۔
اوہ تو کیا آپ لوگ میرا انتظار کر رہی تھیں؟
کیوں ؟ کیا آپ نے ایک گھنٹہ قبل پکچر چلنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟
پکچر چلنے کا؟ مجھے تو یاد نہیں۔۔۔میں تو سلیمان کے لیے۔۔۔عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔
یہ کیا؟ وہ لڑکی قریب آکر آگے کی طرف جھکتی ہوئی بولی۔ بیس ہزار کا لٹھا۔۔۔اور بوسکی! یہ کیا ہے۔۔۔اس کا مطلب؟
پھر وہ بےتحاشہ ہنسنے لگی۔۔۔ عمران کی بہن ثریا نے بھی اٹھ کر دیکھا لیکن تیسری بیٹھی رہی۔ وہ شاید ثریا کی کوئی نئی سہیلی تھی!
یہ کیا ہے؟ ثریا نے پوچھا۔
سلیمان کے لیے شلوار قمیض کا کپڑا لینے جا رہا ہوں۔
لیکن ہم سے کیوں وعدہ کیا؟ وہ بگڑ کر بولی۔
بڑی مصیبت ہے! عمران گردن جھٹک کر بولا۔ تمہیں سچا سمجھوں یا سلیمان کو۔
اسی کمینے کو سچا سمجھئے! میں کون ہوتی ہوں۔ ثریا نے کہا۔ پھر اپنی سہیلیوں کی طرف مڑ کر بولی۔ اکیلے ہی چلتے ہیں! آپ ساتھ گئے بھی تو شرمندگی ہی ہوگی۔۔۔کر بیٹھیں گے کوئی حماقت!
ذرا دیکھئے آپ لوگ۔ عمران رونی صورت بنا کر درد بھری آواز میں بولا۔ یہ میری چھوٹی بہن ہے مجھے احمق سمجھتی ہے ثریا میں بہت جلد مر جاؤں گا! کسی وقت! جب بھی ٹائی غلط بندھ گئی! اور بیچارے سلیمان کو کچھ نہ کہو۔ وہ میرا محسن ہے۔ اس نے ابھی ابھی میری جان بچائی ہے!
کیا ہوا تھا۔ ثریا کی سہیلی جمیلہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
ٹائی غلط بندھ گئی تھی! عمران سنجیدگی سے بولا۔
جمیلہ ہنسنے لگی۔ لیکن ثریا جلی کٹی بیٹھی رہی۔ اس کی نئی سہیلی متحیرانہ انداز میں اس سنجیدہ احمق کو گھور رہی تھی۔
تم کہتی ہو تو میں پکچر چلنے کو تیار ہوں۔ عمران نے کہا۔ لیکن واپسی پر مجھے یاد دلانا کہ میرے سینے پر ایک کاغذ پن کیا ہوا ہے۔
تو کیا یہ اسی طرح لگا رہے گا؟ جمیلہ نے کہا۔
جیئو! عمران خوش ہو کر بولا۔میرا دل چاہتا ہے کہ تمہیں ثریا سے بدل لوں! کاش تم میری بہن ہوتیں۔ یہ نک چڑھی ثریا مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی۔
آپ خود نک چڑھے! آپ مجھے کب اچھے لگتے ہیں۔ ثریا بگڑ کر بولی۔
دیکھ رہی ہو، یہ میری چھوٹی بہن ہے!۔
میں بتاؤں! جمیلہ سنجیدگی سے بولی! آپ یہ کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیجئے میں یاد دلا دوں گی۔
اور اگر بھول گئیں تو۔۔۔ویسے تو کوئی راہ گیر ہی اسے دیکھ کر مجھے یاد دلا دے گا۔
میں وعدہ کرتی ہوں!
عمران نے کاغذ جیب سے نکال کر جیب میں رکھ لیا۔۔۔ثریا کچھ کھنچی کھنچی سی نظر آنے لگی۔
وہ جیسے ہی باہر نکلے ایک موٹر سائیکل پورٹیکو میں آکر رکی جس پر ایک باوقار اور بھاری بھرکم آدمی بیٹھا ہوا تھا۔
ہیلو! سوپر فیاض۔ عمران دونوں ہاتھ بڑھا کر چیخا۔
ہیلو! عمران۔۔۔مائی لیڈ۔۔۔تم کہیں جا رہے ہو۔ موٹر سائیکل سوار بولا۔ پھر لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔لیکن یہ کام ضروری ہے! عمران جلدی کرو۔
عمران اچھل کر کیرئیر پر بیٹھ گیا اور موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی پھاٹک سے گذر گئی۔
دیکھا تم نے۔ ثریا اپنا نچلا ہونٹ چبا کر بولی۔
یہ کون تھا۔۔۔! جمیلہ نے پوچھا۔
محکمہ سراغرسانی کا سپرنٹنڈنٹ فیاض۔۔۔مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ اسے بھائی جان جیسے خبطی آدمی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ یہ اکثر انہیں اپنے ساتھ لے جایا کرتا ہے۔
عمران بھائی دلچسپ آدمی ہیں! جمیلہ نے کہا۔ بھئی کم از کم مجھے تو ان کی موجودگی میں بڑا لطف آتا ہے۔
ایک پاگل دوسرے پاگل کو عقل مند ہی سمجھتا ہے۔ ثریا منہ بگاڑ کر بولی۔
مگر مجھے تو پاگل نہیں معلوم ہوتے۔ ثریا کی نئی سہیلی نے کہا۔
اور اس نے قریب قریب ٹھیک ہی بات کہی تھی۔ عمران شکل صورت سے خبطی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ خاصا خوشرو اور دلکش نوجوان تھا عمر ستائیس کے لگ بھگ رہی ہوگی! خوش سلیقہ اور صفائی پسند تھا۔ تندرستی اچھی اور جسم ورزشی تھا۔ مقامی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری لے کر انگلینڈ چلا گیا تھا اور وہاں سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لے کر واپس آیا تھا اس کا باپ رحمان محکمہ سراغرسانی میں ڈائریکٹر جنرل تھا۔ انگلینڈ سے واپسی پر اس کے باپ نے کوشش کی تھی کہ اسے کوئی اچھا سا عہدہ دلا دے لیکن عمران نے پروا نہ کی۔
کبھی وہ کہتا کہ میں سائنسی آلات کی تجارت کروں گا! کبھی کہتا کہ اپنا ذاتی انسٹی ٹیوٹ قائم کرکے سائنس کی خدمت کروں گا۔۔۔بہرحال کبھی کچھ اور کبھی کچھ! گھر بھر اس سے نالاں تھا اور انگلینڈ سے واپسی کے بعد تو وہ اچھا خاصا احمق ہو گیا تھا۔ اتنا احمق کہ گھر کے نوکر تک اسے الو بنایا کرتے تھے۔ اسے اچھی طرح لوٹتے اس کی جیب سے دس دس روپے کے نوٹ غائب کردیتے اور اسے پتہ تک نہ چلتا۔
باپ تو اس کی صورت دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا صرف ماں ایسی تھی جس کی بدولت وہ اس کوٹھی میں مقیم تھا۔ ورنہ کبھی کا نکال دیا گیا ہوتا۔ اکلوتا لڑکا ہونے کے باوجود بھی رحمٰن صاحب اس سے عاجز آگئے تھے!
پاگل وہ اسی وقت نہیں معلوم ہوتے جب خاموش ہوں۔ ثریا بولی۔ دو چار گھنٹے بھی اگر ان حضرت کے ساتھ رہنا پڑے تو پتہ چلے۔
کیا کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ جمیلہ نے مسکرا کر کہا۔
اگر ان میں اسی طرح دلچسپی لیتی رہیں تو کسی دن معلوم ہو جائے گا۔ ثریا منہ سکوڑ کر بولی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۲​

کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل فراٹے بھر رہی تھی اور عمران کیرئیر پر بیٹھا بڑبڑاتا چلا جا رہا تھا۔
شلوار کا لٹھا۔ بوسکی کی قمیض۔۔۔شلوار کا بوسکا۔۔۔لٹھی۔۔۔لٹھی۔۔۔کیا تھا لاحول ولا قوۃ
بھول گیا رکو۔ یار۔۔۔رکو۔۔۔شاید۔۔۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔
بھول گیا۔ عمران بولا۔
کیا بھول گئے۔
کچھ غلطی ہو گئی۔
کیا غلطی ہوگئی۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔ یار کم از کم مجھے تو الو نہ بناؤ۔
شاید میں غلط بیٹھا ہوں۔ عمران کیرئیر سے اترتا ہوا بولا۔
جلدی ہے یار۔ فیاض نے گردن جھٹک کر کہا۔
عمران اس کی پیٹھ سے پیٹھ ملائے ہوئے دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔
یہ کیا؟ فیاض نے حیرت سے کہا۔۔۔
بس چلو ٹھیک ہے۔
خدا کی قسم تنگ کر ڈالتے ہو۔ فیاض اکتا کر بولا۔
کون سی مصیبت آگئی! عمران بھی جھنجھلانے لگا۔
مجھے بھی تماشا بناؤ گے۔ سیدھے بیٹھو نا!
تو کیا سر کے بل بیٹھا ہوا ہوں!
مان جاؤ پیارے۔ فیاض خوشامدانہ لہجے میں بولا۔ لوگ ہنسیں گے ہم پر۔
یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔
منہ کے بل گر پڑو گے سڑک پر۔
اگر تقدیر میں یہی ہے! تو بندہ بے بس و ناچار۔ عمران نے درویشانہ انداز میں کہا۔
خدا سمجھے تم سے۔ فیاض نے دانت پیس کر موٹر سائیکل سٹارٹ کردی اس کا منہ پچھم کی طرف تھا اور عمران کا پورب کی طرف اور عمران اس طرح آگے کی طرف جھکا ہوا تھا جیسے وہ خود ہی موٹر سائیکل ڈرائیور کر رہا ہو! راہ گیر انہیں دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
دیکھا یاد آگیا نا! عمران چہک کر بولا شلوار کا لٹھا اور قمیض کی بوسکی۔۔۔میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کوئی غلطی ہو گئی ہے۔
عمران تم مجھے احمق کیوں سمجھتے ہو؟ فیاض نے جھنجھلا کر کہا۔ کم از کم میرے سامنے تو اس خبطی پن سے باز آجایا کرو۔
تم خود ہوگے خبطی! عمران برا مان کر بولا۔
آخر اس ڈھونگ سے کیا فائدہ؟
ڈھونگ؟ ارے کمال کر دیا۔ اف فوہ! اس لفظ ڈھونگ پر مجھے وہ بات یاد آئی ہے جسے اب سے ایک سال پہلے یاد آنا چاہئے تھا۔
فیاض کچھ نہ بولا۔ موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کرتی رہی۔
ہائیں٬ عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔ یہ موٹر سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھاگ رہی ہے۔
ارے اس کا ہینڈل کیا ہوا۔۔۔پھر اس نے بے تحاشہ چیخنا شروع کر دیا۔ ہٹو۔۔۔بچو۔۔۔میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی اور جھینپے ہوئے انداز میں راہ گیروں کو دیکھنے لگا۔
شکر ہے خدا کا کہ خود بخود رک گئی! عمران اترتا ہوا بڑبڑایا۔۔۔پھر جلدی سے بولا۔ لاحول ولا قوۃ اس کا ہینڈل پیچھے ہے! اب موٹر سائیکلیں بھی الٹی بننے لگیں۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیوں تنگ کر رہے ہو؟ فیاض نے بے بسی سے کہا۔
تنگ تم کر رہے ہو یا میں؟۔۔۔الٹی موٹر سائیکل پر لئے پھرتے ہو! اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو؟
چلو بیٹھو۔ فیاض اسے کھینچتا ہوا بولا۔
موٹر سائیکل پھر چل پڑی۔
اب تو ٹھیک چل رہی ہے۔ عمران بڑ بڑایا۔
موٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جا رہی تھی اور عمران نے ابھی تک فیاض سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گواراہ نہیں کی تھی کہ وہ اسے کہاں لے جا رہا ہے۔
آج مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ فیاض بولا۔
لیکن آج کل میں بالکل مفلس ہوں۔ عمران نے کہا۔
اچھا! تو کیا میں تم سے ادھار مانگنے جا رہا تھا؟
پتہ نہیں۔ میں یہی سمجھ رہا تھا! ارے باپ رے پھر بھول گیا۔۔۔۔لٹھ کا۔۔۔پائجامہ۔۔۔۔اور قمیض۔۔۔لاحول ولا قوۃ۔۔۔بوسکا۔۔۔
پلیز شٹ اپ۔۔۔عمران۔۔۔یو فول! فیاض جھنجھلا اٹھا۔
عمران۔۔۔کیپٹن فیاض نے ٹھنڈی سانس لے کر اسے مخاطب کیا۔
اوں۔۔۔ہا۔
تم آخر دوسروں کو بیوقوف کیوں سمجھتے ہو۔
کیونکہ۔۔۔ہا۔۔۔ارے باپ یہ جھٹکے۔۔۔یار ذرا چکنی زمین پر چلاؤ۔
میں کہتا ہوں کہ اب یہ ساری حماقتیں ختم کرکے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔
ڈھنگ۔۔۔لو یار۔۔۔اس ڈھنگ پر بھی کوئی بات یاد آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جہنم میں جاؤ۔ فیاض جھلا کر بولا۔
اچھا۔ عمران نے بڑی سعادت مندی سے گردن ہالئی۔
موٹر سائیکل ایک کافی طویل و عریض عمارت کے سامنے رک گئی! جس کے پھاٹک پر تین چار باوردی کانسٹیبل نظر آرہے تھے۔
اب اترو بھی۔ فیاض نے کہا۔
میں سمجھا شائد اب تم مجھے ہینڈل پر بٹھاؤ گے۔ عمران اترتا ہوا بولا۔
وہ اس وقت ایک دیہی علاقہ میں کھڑے ہوئے تھے جو شہر سے زیادہ دور نہ تھا یہاں بس یہی ایک عمارت اتنی بڑی تھی ورنہ یہ بستی معمولی قسم کے کچے پکے مکانوں پر مشتمل تھی۔ اس عمارت کی بناوٹ طرز قدیم سے تعلق رکھتی تھی! چاروں طرف سرخ رنگ کی لکھنوری اینٹوں کی کافی بلند دیواریں تھیں اور سامنے ایک بہت بڑا پھاٹک تھا جو غالبا صدر دروازے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہوگا۔
کیپٹن فیاض عمران کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت میں داخل ہو گیا۔۔۔اب بھی عمران نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ اسے کہاں اور کس مقصد کے تحت لایا ہے۔
دونوں ایک طویل دالان سے گذرتے ہوئے ایک کمرے میں آئے اچانک عمران نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے اور منہ پھیر کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک لاش دیکھ لی تھی جو فرش پر اوندھی پڑی تھی اور اس کے گرد خون پھیلا ہوا تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ کپکپاتی آواز میں بڑ بڑا رہا تھا۔
خدا اس کے متعلقین کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اسے صبر کی توفیق عطا فرمائے۔
میں تمہیں دعائے خیر کرنے کے لئے نہیں لایا۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
تجہیز و تکفین کے لئے چندہ وہاں بھی مانگ سکتے تھے آخر اتنی دور کیوں گھسیٹ لائے۔
یار عمران خدا کے لئے بور نہ کرو۔ میں تمہیں اپنا ایک بہترین دوست سمجھتا ہوں۔ فیاض نے کہا۔
میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ مگر پیارے پانچ روپے سے زیادہ نہ دے سکوں گا۔ ابھی مجھے۔۔ لٹھی کا بوسکا خریدنا ہے۔۔۔۔ کیا لٹھی۔۔۔لو یار پھر بھول گیا! کیا مصیبت ہے۔
فیاض چند لمحے کھڑا اسے گھورتا رہا پھر بولا۔
یہ عمارت پچھلے پانچ برسوں سے بند رہی ہے۔ کیا ایسی حالت میں یہاں ایک لاش کی موجودگی حیرت انگیز نہیں ہے؟
بالکل نہیں۔ عمران سر ہلا کر بولا۔ اگر یہ لاش کسی امرود کے درخت پر پائی جاتی تو میں اسے عجوبہ تسلیم کر لیتا۔
یار تھوڑی دیر کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔
میں شروع ہی سے رنجیدہ ہوں۔ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
رنجیدہ نہیں سنجیدہ۔ فیاض پھر جھنجھلا گیا۔
عمران خاموشی سے لاش کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ تین زخم۔
فیاض اسے موڈ میں آتے دیکھ کر کچھ مسرور سا نظر آنے لگا۔
پہلے پوری بات سن لو۔ فیاض نے اسے مخاطب کیا۔
ٹھہرو۔ عمران جھکتا ہوا بولا۔ وہ تھوڑی دیر زخموں کو غور سے دیکھتا رہا پھر سر اٹھا کر بولا۔ پوری بات سنانے سے پہلے یہ بتاؤ کہ اس لاش کے متعلق تم کیا بتا سکتے ہو۔
آج بارہ بجے دن کو یہ دیکھی گئی۔ فیاض نے کہا۔
اونہہ۔ میں زیادہ عقل مندانہ جواب نہیں چاہتا۔ عمران ناک سکوڑ کر بولا۔
میں یہ جانتا ہوں کہ کسی نے اس پر تین وار کئے ہیں۔
اور کچھ! عمران اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
اور کیا۔ فیاض بولا۔
مگر۔۔۔شیخ چلی دوئم۔۔۔یعنی علی عمران ایم ایس سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کا خیال کچھ اور ہے۔
کیا؟
سن کر مجھے الو سہی احمق بٹا دو سمجھنے لگو گے۔
ارے یار کچھ بتاؤ بھی سہی۔
اچھا سنو! قاتل نے پہلا وار کیا!۔۔۔پھر پہلے زخم سے پانچ پانچ انچ کا فاصلہ ماپ کر دوسرا اور تیسرا وار کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ زخم بالکل سیدھ میں رہیں۔ نہ ایک سوت ادھر نہ ایک سوت ادھر۔
کیا بکتے ہو۔ فیاض بڑبڑایا۔
ناپ کر دیکھ لو میری جان۔ اگر غلط نکلے تو میرا قلم سر کر دینا۔۔۔آن۔۔۔شائد میں غلط بول گیا۔۔۔۔میرے قلم پہ سر رکھ دینا۔۔۔عمران نے کہا اورادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے ایک طرف پڑا ہوا ایک تنکا اٹھایا اور پھر جھک کر زخمون کے درمیانی فاصلے ناپنے لگا۔ فیاض اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
لو۔ عمران اسے تنکا پکڑاتے ہوئے بولا۔ اگر یہ تنکا پانچ انچ کا نہ نکلے تو کسی کی ڈاڑھی تلاش کرنا۔
مگر اس کا مطلب۔ فیاض کچھ سوچتا ہوا بولا۔
اس کا مطلب یہ کہ قاتل و مقتول دراصل عاشق و معشوق تھے۔
عمران پیارے ذرا سنجیدگی سے۔
یہ تنکا بتاتا ہے کہ یہی بات ہے۔ عمران نے کہا۔ اور اردو کے پرانے شعراٗ کا یہی خیال ہے۔ کسی کا بھی دیوان اٹھا کر دیکھ لو۔ دو جار شعر اس قسم کے ضرور مل جائیں گے جن سے میرے خیال کی تائید ہو جائے گی۔ چلو ایک شعر سن ہی لو۔
موچ آئے نہ کلائی میں کہیں سخت جاں ہم بھی بہت پیارے
مت بکواس کرو۔ اگر میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو صاف صاف کہہ دو۔ فیاض بگڑ کر بولا۔
فاصلہ تم نے ناپ لیا۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔ عمران نے کہا۔
فیاض کچھ نہ بولا۔
ذرا سوچو تو۔ عمران پھر بولا۔ ایک عاشق ہی شاعری کے مطابق اپنے محبوب کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے قتل کرے۔ قیمہ بنا کر رکھ دے یا ناپ ناپ کر سلیقے سے زخم لگائے یہ زخم بدحواسی کا نتیجہ بھی نہیں۔ لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتاتی کہ مرے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدوجہد کرنی پڑی ہو۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہےجیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا جو مزاج یار میں آئے۔۔۔
پرانی شاعری اور حقیقت میں کیا لگاؤ ہے؟ فیاض نے پوچھا۔
پتہ نہیں۔ عمران پرخیال انداز میں سر ہلا کر بولا۔ ویسے اب تم پوری غزل سنا سکتے ہو۔ مقطع میں عرض کر دوں گا۔
فیاض تھوڑی خاموش رہا پھر بولا۔ یہ عمارت تقریبا پانچ سال سے خالی رہی ہے۔۔۔۔ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کے لئے اسے کھولا جاتا ہے۔
کیوں؟
یہاں دراصل ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے چنانچہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھول کر قبر کی جاروب کشی کرتا ہے۔
چڑھاوے وغیرہ چڑھتے ہوں گے۔ عمران نے پوچھا۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ جس لوگوں کا یہ مکان ہے وہ شہر میں رہتے ہیں اور ان سے میرے قریبی تعلقات ہیں انہوں نے ایک آدمی اسی لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کو قبر کی دیکھ بھال کیا کرے!۔۔۔یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہوتی۔ بہرحال آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لاش دیکھی۔
تالا بند تھا؟ عمران نے پوچھا۔
ہاں۔ اور وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں اس قسم کے نشانات نہیں مل سکے جن کی بناٗ پر کہا جاسکتا کہ کوئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو۔
تو پھر یہ لاش آسمان سے ٹپکی ہوگی! عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید کی مدد طلب کرو جس کی قبر۔۔۔۔
پھر بہکنے لگے۔ فیاض بولا۔
اس عمارت کے مالک کون ہیں اور کیسے ہیں؟ عمران نے پوچھا۔
وہی میرے پڑوس والے جج صاحب۔ فیاض بولا۔
ہائے وہی جج صاحب! عمران اپنے سینے پر ہاتھ مار کر ہونٹ چاٹنے لگا۔
ہاں وہی۔۔۔یار سنجیدگی سے۔۔۔خدا کے لیئے۔
تب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔
کیوں؟
تم نے میری مدد نیہں کی؟
میں نے۔ فیاض نے حیرت سے کہا۔ میں سمجھا نہیں۔
خود غرض ہونا۔ بھلا تم میرے کام کیوں آنے لگے۔
ارے تو بتاؤ نا۔ میں واقعی نہیں سمجھا۔
کب سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے پڑوسی جج صاحب کی لڑکی سے میری شادی کرا دو۔
مت بکو۔۔۔ ہر وقت بے تکی باتیں۔
میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ عمران نے کہا۔
اگر سنجیدگی سے کہہ رہے ہو تو شائد تم اندھے ہو۔
کیوں۔
اس لڑکی کی ایک آنکھ نہیں ہے
اس لئے تو میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے اور میرے کتوں کا ایک نظر سے دیکھے گی۔
یار خدا کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔
پہلے تم وعدہ کرو۔ عمران بولا۔
اچھا بابا میں ان سے کہوں گا۔
بہت بہت شکریہ! مجھے سچ مچ اس لڑکی سے کچھ ہو گیا ہے۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔اوہ۔۔۔بھول گیا۔۔۔حالانکہ کچھ دیر پہلے اسی کا تذکرہ تھا۔
چلو چھوڑو کام کی باتیں کرو۔
نہیں اسے یاد ہی آجانے دو۔ ورنہ مجھ پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ جائے گا۔
عشق۔ فیاض منہ بنا کر بولا۔
جیئو! شاباش! عمران نے اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔ خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے۔ اچھا اب یہ بتاؤ کہ لاش کی شناخت ہو گئی یا نہیں۔
نہیں! نہ تو وہ اس علاقہ کا باشندہ ہے اور نہ جج صاحب کے خاندان کے والے اس سے واقف ہیں۔
یعنی کسی نے اسے پہچانا نہیں۔
نہیں۔
اس کے پاس کوئی ایسی چیز ملی یا نہیں جس سے اس کی شخصیت پر روشنی پڑ سکے۔
کوئی نہیں۔۔۔مگر ٹھہرو۔ فیاض ایک میز کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ واپسی پر اس کے ہاتھوں میں چمڑے کا تھیلا تھا۔
یہ تھیلا ہمیں لاش کے قریب پڑا ملا تھا۔ فیاض نے کہا۔
عمران تھیلا اس کے ہاتھ سے لے کر اندر کی چیزوں کا جائزہ لینے لگا۔
کسی بڑھئی کے اوزار۔ اس نےکہا۔ اگر یہ مقتول ہی کے ہیں تو۔۔۔ویسے اس شخص کی ظاہر حالت اچھی نہیں۔۔۔لیکن پھر بھی بڑھئی نہیں معلوم ہوتا۔۔۔!
کیوں!
اس کے ہاتھ بڑے ملائم ہیں اور۔۔۔ہتھیلیوں میں کھردرا پن نہیں ہے۔ یہ ہاتھ تو کسی مصور یا رنگساز ہی کے ہو سکتے ہیں۔ عمران بولا۔
ابھی تک تم نے کوئی کام کی بات نہیں بتائی۔ فیاض نے کہا۔
ایک احمق آدمی سے اس سے زیادہ کی توقع رکھنا عقلمندی نہیں۔ عمران ہنس کر بولا۔
اس کے زخموں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے۔ فیاض نے کہا۔
اگر تم نے میرے زخموں پر مرہم رکھا۔۔۔تو میں ان زخموں کو بھی دیکھ لوں گا۔
کیا مطلب۔
“جج صاحب کی لڑکی!“ عمران اس طرح بولا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو! “اس مکان کی ایک کنجی جج صاحب کے پاس ضرور رہتی ہوگی۔“
ہاں ایک ان کے پاس بھی ہے۔
ہی یا تھی۔
یہ تو میں نے نہیں پوچھا۔
خیر پھر پوچھ لینا۔ اب لاش اٹھواؤ۔۔۔پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں زخموں کی گہرائیوں کا خاص خیال رکھا جائے۔
کیوں؟
اگر زخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسری کے برابر ہوئیں تو سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حرکت ہے۔
کیوں فضول بکواس کررہے ہو۔
جو کہہ رہا ہوں۔۔۔اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہو تو علی عمران ایم۔ ایس۔ سی، پی۔ ایچ۔ ڈی کی خدمات حاصل کرنا ہے۔ ورنہ کوئی۔۔۔کیا نہیں۔۔۔ذرا بتاؤ تو میں کون سا لفظ بھول رہا ہوں۔
ضرورت! فیاض برا سا منہ بنا کر بولا۔
جیتے رہو۔۔۔ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔
تمہاری ہدایت پر پورا عمل کیا جائے گا!۔۔۔ اور کچھ!
اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چاہتا ہوں۔ عمران نے کہا۔
پوری عمارت کا چکر لگالینے کے بعد وہ پھر اسی کمرے میں لوٹ آئے۔
ہاں بھئی جج صاحب سے ذرا یہ پوچھ لینا کہ انہوں نے صرف اسی کمرے کی ہیئت بدلنے کی کوشش کیوں کر ڈالی جبکہ پوری عمارت اسی پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے۔۔۔ کہیں بھی دیوار پر پلاسٹر نہیں دکھائی دیا۔۔۔لیکن یہاں ہے۔۔۔
پوچھ لوں گا۔۔۔
اور کنجی کے متعلق بھی پوچھ لینا۔۔۔اور۔۔۔اگر وہ محبوبہ یک چشم مل جائے تو اس سے کہنا کہ تیر نیم کش کو کوئی میرے دل سے پوچھے۔۔۔شائد غالب کی محبوبہ بھی ایک آنکھ رکھتی تھی۔۔۔کیونکہ تیر نیم کش اکلوتی آنکھ کا بھی ہو سکتا ہے۔
تو اس وقت اور کچھ نہیں بتاؤ گے۔ فیاض نے کہا۔
یار بڑے احسان فروش ہو۔۔۔فروش۔۔۔شائد میں پھر بھول گیا کہ کون سا لفظ ہے۔
فراموش!
جیئو۔ ہاں تو بڑے احسان فراموش ہو۔ اتنی دیر سے بکواس کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتایا ہی نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۳​

دوسرے دن کیپٹن فیاض نے عمران کو اپنے گھر میں مدعو کیا۔ حالانکہ کئی بار کے تجربات نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ عمران وہ نہیں ہے جو ظاہر کرتا ہے نہ وہ احمق ہے اور نہ خبطی! لیکن پھر بھی فیاض نے اسے موڈ میں لانے کے لئے جج صاحب کی کانی لڑکی کو بھی مدعو کر لیا تھا۔ حالانکہ وہ عمران کی اس افتاد طبع کو بھی مذاق ہی سمجھا تھا لیکن پھر بھی اس نے سوچا کہ تھوڑی سی تفریح ہی رہے گی۔ فیاض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیاض نے اسے اس کے ٬عشق٬ کی داستان سنائی تو ہنستے ہنستے اس کا برا حال ہو گیا۔
فیاض اس وقت اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اور جج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی موجود تھیں۔
ابھی تک نہیں آئے، عمران صاحب۔ فیاض کی بیوی نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کیا وقت ہے۔ فیاض نے پوچھا۔
ساڑھے سات۔
بس دو منٹ بعد وہ اسی کمرے میں ہوگا۔ فیاض مسکرا کر بولا۔
کیوں۔ یہ کیسے؟
بس اس کی ہر بات عجیب ہوتی ہے۔ وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کرتا ہے۔ اس نے سات بج کر بتس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ہمارے بنگلے کے قریب ہی کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہوگا۔
عجیب آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ رابعہ نے کہا۔
عجیب ترین کہئے! انگلینڈ سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لےکر آیا ہے۔ لیکن اس کی حرکات۔۔۔ وہ ابھی دیکھ لیں گی۔ اس صدی کا سب سے عجیب آدمی۔۔۔لیجئے شائد وہی ہے۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
فیاض اٹھ کر آگے بڑھا۔۔۔دوسرے لمحے عمران ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہا تھا۔
عورتوں کو دیکھ کر وہ قدرے جھکا اور پھر فیاض سے مصافحہ کرنے لگا۔
غالبا مجھے سب سے پہلے یہ کہنا چاہیئے کہ آج موسم بڑا خوشگوار رہا۔ عمران بیٹھتا ہوا بولا۔
فیاض کی بیوی ہنسنے لگی اور رابعہ نے جلدی سے تاریک شیشوں والی عینک لگا لی۔
آپ سے ملئے، آپ مس رابعہ سلیم ہیں۔ ہمارے پڑوسی جج صاحب کی صاحبزادی اور آپ مسٹر علی عمران میرے محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب کے صاحبزادے۔
بڑی خوشی ہوئی۔ عمران مسکرا کر بولا پھر فیاض سے کہنے لگا۔ تم ہمیشہ گفتگو میں غیر ضروری الفاظ ٹھونستے رہتے ہو۔ جو بہت گراں گذرتے ہیں۔۔۔رحمان صاحب کے صاحبزادے! دونوں صاحبوں کا ٹکراؤ برا لگتا ہے۔ اس کی بجائے رحمان صاحب کے زادے۔۔۔یا صرف رحمان زادے کہہ سکتے ہیں۔
میں لٹریری آدمی نہیں ہوں۔ فیاض مسکرا کر بولا۔
دونوں خواتین بھی مسکرارہی تھیں۔ پھر رابعہ نے جھک کر فیاض کی بیوی سے کچھ کہا اور وہ دونوں اٹھ کر ڈرائنگ روم سے چلی گئیں۔
بہت برا ہوا۔ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔
کیا؟ شائد وہ باورچی خانے کی طرف گئی ہیں۔ فیاض نے کہا۔ باورچی کی مدد کے لئے آج کوئی نہیں ہے۔
تو کیا تم نے اسے بھی مدعو کیا ہے۔
ہاں بھئی کیوں نہ کرتا میں نے سوچا کہ اس بہانے سے تمہاری ملاقات بھی ہو جائے۔
مگر مجھے بڑی کوفت ہو رہی ہے۔ عمران نے کہا۔
کیوں؟
آخر اس نے دھوپ کا چشمہ کیوں لگایا ہے۔
اپنا نقص چھپانے کے لئے۔
سنو میاں! دو آنکھوں والی مجھے بہتیری مل جائیں گی۔ یہاں تو معاملہ صرف اس آنکھ کا ہے۔ ہائے کیا چیز ہے۔۔۔ کسی طرح اس کا چشمہ اترواؤ۔ ورنہ میں کھانا کھائے بغیر واپس چلا جاؤں گا۔
مت بکو۔
میں چلا۔عمران اٹھتا ہوا بولا۔
عجیب آدمی ہو۔۔۔بیٹھو۔ فیاض نے اسے دوبارہ بٹھا دیا۔
چشمہ اترواؤ، میں اس کا قائل نہیں کہ محبوب سامنے ہو اور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو۔
ذرا آہستہ بولو۔ فیاض نے کہا۔
میں تو ابھی اس سے کہوں گا۔
کیا کہو گے۔ فیاض بوکھلا کر بولا۔
یہی جو تم سے کہہ رہا ہوں۔
یار خدا کے لئے۔۔۔
کیا برائی ہے۔۔۔ اس میں۔
میں نے سخت غلطی کی۔ فیاض بڑبڑایا۔
واہ۔۔۔غلطی تم کرو اور بھگتوں میں۔ نہیں فیاض صاحب۔ میں اس سے کہوں گا براہ کرم اپنا چشمہ اتار دیجئے۔ مجھے آپ سے مرمت ہو گئی ہے۔۔۔مرمت۔۔مرمت۔۔۔شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔ بولو بھئی۔۔۔کیا ہونا چاہئے۔
محبت۔۔۔فیاض برا سا منہ بنا کر بولا۔
جیئو! محبت ہو گئی ہے۔۔۔تو وہ اس پر کیا کہے گی۔
چانٹا مار دے گی۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
فکر نہ کرو میں چانٹے کو چانٹے پر روک دینے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہوں طریقہ وہی ہوتا ہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا۔
یار خدا کے لئے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا۔
عقل مندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی توہین ہے اب بلاؤ نا۔۔دل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کر سکتا۔۔۔وہ کیا ہوتا ہے جدائی میں۔۔۔بولو نا یار کون سا لفظ ہے۔
میں نہیں جانتا۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
خیر ہوتا ہوگا کچھ۔۔۔ڈکشنری میں دیکھ لوں گا۔۔۔ ویسے میرا دل دھڑک رہا ہے ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔
چند لمحے خاموشی رہی۔ عمران میز پر رکھے گلدان کو اس طرح گھور رہا تھا جیسے اس نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہو۔
آج کچھ نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں۔ فیاض نے کہا۔
ضرور معلوم ہوئی ہوں گی۔ عمران احمقوں کی طرح سر ہلا کر بولا۔
مگر نہیں! پہلے میں تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں۔ تمہارا خیال درست نکلا۔ زخموں کی گہرائیاں بالکل برابر ہیں۔
کیا تم خواب دیکھ رہے ہو۔ عمران نے کہا۔
کیوں؟
کن زخموں کی بات کر رہے ہو؟
دیکھو عمران میں احمق نہیں ہوں۔
پتہ نہیں جب تک تین گواہ نہ پیش کرو یقین نہیں آسکتا۔
کیا تم کل والی لاش بھول گئے۔
لاش۔ ار۔۔۔ہاں یاد آیا۔ اور وہ تین زخم برابر نکلے۔۔۔ہا۔۔۔
اب کیا کہتے ہو۔ فیاض نے پوچھا۔
سنگ و آہن بے نیاز غم نہیں۔۔۔ دیکھو ہر دیوار سے سر نہ مار۔ عمران نے گنگنا کر تان ماری اور میز پر طبلہ بجانے لگا۔
تم سنجیدہ نہیں ہوسکتے۔ فیاض اکتا کر بے دلی سے بولا۔
اس کا چشمہ اتروا دینے کا وعدہ کرو تو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں۔
کوشش کروں گا بابا۔ میں نے اسے ناحق مدعو کیا۔
دوسری بات یہ کہ کھانے میں کتنی دیر ہے۔
شائد آدھا گھنٹہ۔۔۔وہ ایک نوکر بیمار ہو گیا ہے۔
خیر۔۔۔ہاں جج صاحب سے کیا باتیں ہوئیں؟
وہی بتانے جا رہا تھا! کنجی اس کے پاس موجود ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عمارت انہیں اپنے خاندانی ترکے میں نہیں ملی تھی۔
پھر۔ عمران توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔
وہ دراصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اس دوست نے ہی اسے خریدا تھا۔ ان کی دوستی بہت پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ آج سے پانچ سال قبل اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملا جو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا اس نے لکھا تھا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد وہ زندہ نہ رہ سکے۔ لہٰذا وہ مرنے سے پہلے ان سے بہت اہم بات کرنا چاہتا ہے۔ تقریبا پندرہ سال بعد جج صاحب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا۔ ان کا وہاں پہنچنا ضروری تھا بہر حال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے ان کے دوست کا انتقال ہو چکا تھا! معلوم ہوا کہ وہاں تنہا ہی رہتا تھا۔۔۔ہاں تو جج صاحب کو بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مرنے والے نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کی طرف منتقل کر دی تھی۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان سے کیا کہنا چاہتا تھا۔۔۔
عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
ہاں! ۔۔۔اور اس کمرے کے پلاسٹر کے متعلق پوچھا تھا۔
جج صاحب نے اس سے لاعلمی ظاہر کی۔ البتہ انہوں نے یہ بتایا کہ ان کے دوست کی موت اسی کمرے میں واقعی ہوئی تھی۔
قتل۔ عمران نے پوچھا۔
نہیں قدرتی موت، گاؤں والوں کے بیان کے مطابق وہ عرصہ سے بیمار تھا۔
اس نے اس عمارت کو کس سے خریدا تھا۔ عمران نے پوچھا۔
آخر اس سے کیا بحث۔ تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟
محبوبہ یک چشم کے والد بزرگوار سے یہ بھی پوچھو۔
ذرا آہستہ۔ عجیب آدمی ہو اگر اس نے سن لیا تو۔
سننے دو!۔۔! ابھی میں اس سے اپنے دل کی حالت بیان کروں گا۔
یار عمران خدا کے لئے۔۔۔کیسے آدمی ہو تم۔
فضول باتیں مت کرو۔ عمران بولا۔ ذرا جج صاحب سے وہ کنجی مانگ لاؤ۔
اوہ کیا ابھی۔۔۔!
ابھی اور اسی وقت!
فیاض اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔
کہاں گئے۔ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
شراب پینے۔ عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
کیا؟ فیاض کی بیوی منہ پھاڑ کر بولی۔ پھر ہنسنے لگی۔
کھانا کھانے سے پہلے ہمیشہ تھوڑی سی پیتے ہیں۔ عمران نے کہا۔
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔وہ ایک ٹانک تھا۔
ٹانک کی خالی بوتل میں شراب رکھنا مشکل نہیں۔
لڑانا چاہتے ہیں آپ۔ فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔
کیا آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے۔ عمران نے رابعہ کو مخاطب کیا۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ جی نہیں۔ رابعہ نروس نظر آنے لگی۔
کچھ نہیں۔ فیاض کی بیوی جلدی سے بولی۔ عادت ہے تیز روشنی برداشت نہیں ہوتی اسی لئے یہ چشمہ۔۔۔
اوہ اچھا۔ عمران بڑبڑایا۔ میں ابھی کیا سوچ رہا تھا۔
آپ غالبا یہ سوچ رہے تھے کہ فیاض کی بیوی بڑی پھوہڑ ہے۔ ابھی تک کھانا بھی تیار نہیں ہو سکا۔
نہیں یہ بات نہیں ہے۔ میرے ساتھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی بھول جاتا ہوں۔ سوچتے سوچتے بھول جاتا ہوں کہ کیا سوچ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ میں ابھی یہ بھول جاؤں کہ آپ کون ہیں اور میں کہاں ہوں؟ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے۔ فیاض کی بیوی مسکرائی۔
مطلب یہ کہ اگر مجھ سے کوئی حماقت سرزد ہو تو بلا تکلف ٹوک دیجئے۔
ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ فیاض واپس آگیا۔
کھانے میں کتنی دیر ہے۔ اس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
بس ذرا سی۔
فیاض نے کنجی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور عمران کے انداز سے بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہو کہ اس نے فیاض کو کہاں بھیجا ہے۔
تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے دوران میں عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سب نے دیکھا لیکن کسی نے پوھچا نہیں خود فیاض جو عمران کی رگ رگ سے واقف ہونے کا دعوٰی رکھتا تھا، کچھ نہ سمجھ سکا۔ فیاض کی بیوی اور رابعہ تو بار بار کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ آنسو کسی طرح رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ خود عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے بھی ان آنسوؤں کا علم نہ ہو۔ آخر فیاض کی بیوی سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ پوچھ بیٹھی۔
کیا کسی چیز میں مرچیں زیادہ ہیں؟
جی نہیں۔۔۔ نہیں تو۔
تو پھر یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں۔
آنسو۔۔۔کہاں۔ عمران اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ لل۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔ شائد وہی بات ہے۔۔۔ مجھے قطعی احسا س نہیں ہوا۔
کیا بات؟ فیاض نے پوچھا۔
دراصل مرغ مسلم دیکھ کر مجھے اپنے ایک عزیز کی موت یاد آگئی۔
کیا؟ مرغ مسلم دیکھ کر۔ فیاض کی بیوی حیرت سے بولی۔
جی ہاں۔۔۔
بھلا مرغ مسلم دیکھ کر کیوں؟
دراصل ذہن میں دوزخ کا تصور تھا۔ مرغ مسلم کو دیکھ کر آدمی مسلم کا خیال آگیا۔ میرے ان عزیز کا نام اسلم ہے مسلم پر اسلم آگیا۔۔۔پھر ان کی موت کا خیال آیا۔ پھ رسوچا کہ اگر وہ دوزخ میں پھینکے گئے تو اسلم مسلم۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔
عجیب آدمی ہو۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
جج صاحب کی بیٹی بے تحاشہ ہنس رہی تھی۔
کب انتقال ہوا ان کا۔ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
ابھی تو نہیں ہوا۔ عمران نے سادگی سے کہا اور کھانے میں مشغول ہو گیا۔
یار مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم سچ مچ پاگل نہ ہو جاؤ۔
نہیں جب تک کوکا کولا بازار میں موجود ہے پاگل نہیں ہو سکتا۔
کیوں؟ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
پتہ نہیں۔۔۔ بہرحال یہی محسوس کرتا ہوں۔
کھانا ختم ہوجانے کے بعد بھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہاں بیٹھنا چاہتی تھی۔ لیکن فیاض کی بیوی اسے کسی بہانے سے اٹھا کر لے گئی شائد فیاض نے اسے کوئی اشارہ کر دیا تھا۔ ان کے جاتے ہی فیاض نے عمران کو کنجی پکڑا دی اور عمران تھوڑی دیر تک اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعد بولا۔
ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے۔ اس کے سوراخ کے اندر موم کے ذرات ہیں۔ موم کا سانچہ۔۔۔ سمجھتے ہو نا!۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۴​

رات تاریک تھی۔۔۔ اور آسمان میں سیاہ بادلوں کے مرغولے چکراتے پھر رہے تھے۔
کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی چکنی سڑک پر پھسلتی جا رہی تھی۔ کیریئر پر عمران الوؤں کی طرح دیدے پھرا رہا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔ دفعتا وہ فیاض کا شانہ تھپتھپا کر بولا۔
یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کسی نے والد یک چشم کی کنجی کی نقل تیار کروائی ہے۔
ہوں۔ لیکن آخر کیوں؟
پوچھ کر بتاؤں گا۔
کس سے؟
بیکراں نیلے آسماں سے تاروں بھری رات سے، ہولے ہولے چلنے والی ٹھنڈی اداؤں سے۔۔۔لاحول ولا۔۔۔ہواؤں سے۔۔۔!
فیاض کچھ نہ بولا۔ عمران بڑبڑاتا رہا۔ لیکن شہید میاں کی قبر کی جاروب کشی کرنے والے کی کنجی۔۔۔۔ اس کا حاصل کرنا نسبتا آسان رہا ہوگا۔۔۔بہر حال ہمیں اس عمارت کی تاریخ معلوم کرنی ہے۔ شائد ہم اس کے نواح میں پہنچ گئے ہیں۔ موٹر سائیکل روک دو۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔
انجن بند کردو۔
فیاض نے انجن بند کر دیا۔ عمران نے اس کے ہاتھ سے موٹرسائیکل لے کر ایک جگہ جھاڑی میں چھپا دی۔
آخر کرنا کیا چاہتے ہو۔ فیاض نے پوچھا۔
میں پوچھتا ہوں کہ تم مجھے کیوں ساتھ لئے پھرتے ہو۔ عمران بولا۔
وہ قتل۔۔۔ جو اس عمارت میں ہوا تھا۔
قتل نہیں حادثہ کہو۔
حادثہ!۔۔۔ کیا مطلب؟ فیاض حیرت سے بولا۔
مطلب کے لئے دیکھو غیاث اللغات صفحہ ایک سو بارہ۔۔۔ ویسے ایک سو بارہ پر بیگم پارہ یاد آرہی ہے۔ بیگم پارہ کے ساتھ امرت دھارا ضروری ہے ورنہ ڈیوڈ کی طرح چندیا صاف۔
فیاض جھنجھلا کر خاموش ہو گیا۔
دونوں آہستہ آہستہ اس عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پہلے پوری عمارت کا چکر لگایا پھر صدر دروازے کے قریب پہنچ کر رک گئے۔
اوہ۔ عمران آہستہ سے بڑبڑایا۔ تالا بند نہیں ہے۔
کیسے دیکھ لیا تم نے۔۔۔ مجھے تو سجھائی نہیں دیتا۔ فیاض نے کہا۔
تم الو نہیں ہو۔ عمران بولا۔ چلو ادھر سے ہٹ جاؤ۔
دونوں وہاں سے ہٹ کر پھر مکان کی پشت پر آئے۔ عمران اوپر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار کافی اونچی تھی۔۔۔ اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور دیوار پر روشنی ڈالنے لگا۔
میرا بوجھ سنبھال سکو گے۔ اس نے فیاض سے پوچھا۔
میں سمجھا نہیں۔
تمہیں سمجھانے کے لئے تو باقاعدہ بلیک بورڈ اور چاک اسٹک چاہئے۔ مطلب یہ کہ میں اوپر جانا چاہتا ہوں۔
“کیوں؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اندر موجود ہے۔“ فیاض نے کہا
نہیں یوں ہی جھک مارنے کا ارادہ ہے۔ چلو بیٹھ جاؤ۔ میں تمہارے کاندھوں پر کھڑا ہو کر۔۔۔
پھر بھی دیوار بہت اونچی ہے۔
یار فضول بحث نہ کرو۔ عمران اکتا کر بولا۔ ورنہ میں واپس جا رہا ہوں۔
طوعا و کرہا فیاض دیوار کی جڑ میں بیٹھ گیا۔ اماں جوتےتو اتار لو۔ فیاض نے کہا۔
لے کر بھاگنا مت۔ عمران نے کہا اور جوتے اتار کر اس کے کاندھوں پر کھڑا ہو گیا۔
چلو اب اٹھو۔
فیاض آہستہ آہستہ اٹھ رہا تھا۔۔۔ عمران کا ہاتھ روشندان تک پہنچ گیا۔۔۔۔اور دوسرے ہی لمحے وہ بندروں کی طرح دیوار پر چڑھ رہا تھا۔۔۔ فیاض منہ پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران آدمی ہے یا شیطان۔ کیا یہ وہی احمق ہے جو بعض اوقات کسی کیچوے کی طرح بالکل بے ضرر معلوم ہوتا ہے۔
جن روشندانوں کی مدد سے عمران اوپر پہنچا تھا انہیں کے ذریعہ دوسری طرف اتر گیا۔ چند لمحے وہ دیوار سے لگا کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اس طرف بڑھنے لگا جدھر سے کئی قدموں کی آہٹیں مل رہی تھیں۔
اور پھر اسے یہ معلوم کر لینے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ وہ نامعلوم آدمی اسی کمرے میں تھے جس میں اس نے لاش دیکھی تھی۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھالیکن دروازوں سے موم بتی کی ہلکی زرد روشنی چھن رہی تھی۔ اس کے علاوہ دالان بالکل تاریک تھا۔
عمران دیوار سے چپکا ہوا آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے لگا لیکن اچانک اس کی نظر شہید مرد کی قبر کی طرف اٹھ گئی۔ جس کا تعویذ اوپر اٹھ رہا تھا۔ تعویذ اور فرش کےدرمیان خلا میں ہلکی سی روشنی تھی اور اس خلا سے دو خوفناک آنکھیں اندھیرےمیں گھور رہی تھیں۔
عمران سہم کر رک گیا وہ آنکھیں پھاڑے قبر کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ اچانک قبر سے ایک چیخ بلند ہوئی۔ چیخ تھی یا کسی ایسی بندریا کی آواز جس کی گردن کسی کتے نے دبوچ لی ہو۔
عمران جھپٹ کر برابر والے کمرے میں گھس گیا۔ وہ جانتاتھا کہ اس چیخ کا ردعمل دوسرے کمرے والوں پر کیا ہوگا۔ وہ دروازے پر کھڑا قبر کی طرف دیکھ رہا تھا تعویذابھی تک اٹھا ہوا تھا اور دو خوفناک آنکھیں اب بھی چنگاریاں برسا رہی تھیں۔ دوسری چیخ کے ساتھ ہی برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا ایک چیخ پھر سنائی دی جو پہلی سے مختلف تھی۔ غالبا یہ انہیں نامعلوم آدمیوں میں سے کسی کی چیخ تھی۔
بھوت بھوت۔ کوئی کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا اور پھر ایسا معلوم ہوا جیسے کئی آدمی صدر دروازے کی طرف بھاگ رہے ہوں۔
تھوڑی دیر بعد سناٹا چھاہوگیا۔ قبر کا تعویذ برابر ہو گیا تھا۔
عمران زمین پر لیٹ کر سینے کے بل رینگتا ہوا صدر دروازے کی طرف بڑھا کبھی کبھی وہ پلٹ کر قبر کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا لیکن پھر تعویذ نہیں اٹھا۔
صدر دروازہ باہر سے بند ہو چکا تھا۔ عمران اچھی طرح اطمینان کرلینے کے بعد پھر لوٹ پڑا۔
لاش والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لیکن اب وہاں اندھیرے کی حکومت تھی۔ عمران نے آہستہ سے دروازہ بند کرکے ٹارچ نکالی۔ لیکن روشنی ہوتے ہی۔۔۔
انا للہ و انا علیہ راجعون۔ وہ آہستہ سےبڑبڑایا۔ خدا تمہاری بھی مغفرت کرے۔
ٹھیک اسی جگہ جہاں وہ اس سے قبل بھی ایک لاش دیکھ چکا تھا۔ دوسری پڑی ہوئی دکھائی دی۔۔۔ اس کی پشت پر بھی تین زخم تھے جن سے خون بہہ بہہ کر فرش پر پھیل رہا تھا۔ عمران نے جھک کر اسے دیکھا یہ ایک خوش وضع اور کافی خوبصورت نوجوان تھا۔ اور لباس سے کسی اونچی سوسائٹی کا فرد معلوم ہوتا تھا۔
آج ان کی کل اپنی باری ہے۔ عمران درویشیانہ انداز میں بڑبڑاتا ہوا سیدھا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا جو اس نے مرنے والے کی مٹھی سے بدقت تمام نکالا تھا۔
وہ چند لمحے اسے ٹارچ کی روشنی میں دیکھتا رہا۔ پھر معنی خیز انداز میں سر ہلا کر کوٹ کی اندورنی جیب میں رکھ لیا کمرے کے بقیہ حصوں کی حالت بعینہ وہی رہی تھی۔ جو اس نے پچھلی مرتبہ دیکھی تھی۔ کوئی خاص فرق نہیں نظر آرہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ پھر پچھلی دیوار سے نیچے اتر رہا تھا۔ آخری روشندان پر پیر رکھ کر اس نے چھلانگ لگا دی۔
تمہاری یہ خصوصیت بھی آج ہی معلوم ہوئی۔ فیاض آہستہ سے بولا۔
کیا اندر کسی بندریا سے ملاقات ہوگئی تھی۔
آواز پہنچی تھی یہاں تک۔ عمران نے پوچھا۔
ہاں۔ لیکن میں نے ان اطراف میں بندر نہیں دیکھے۔
ان کے علاوہ کوئی دوسری آواز؟
ہاں۔۔۔شائد تم ڈر کر چیخے تھے۔ فیاض بولا۔
لاش اس وقت چاہئے یا صبح؟ عمران نے پوچھا۔
لاش؟ فیاض اچھل پڑا۔ کیا کہتے ہو۔ کیسی لاش؟
کسی شاعر نے دوغزلہ عرض کر دیا ہے۔
اے دنیا کے عقلمند ترین احمق صاف صاف کہو۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
ایک دوسری لاش۔۔۔ تین زخم۔۔۔ زخموں کا فاصلہ پانچ انچ۔۔۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ان کی گہرائی بھی یکساں نکلے گی۔
یار بیوقوف مت بناؤ۔ فیاض عاجزی سے بولا۔
جج صاحب والی کنجی موجود ہے۔ عقل مند بن جاؤ۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔
لیکن یہ ہوا کس طرح؟
اسی طرح جیسے شعر ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ شعر مجھے بھرتی کا معلوم ہوتا ہے جیسے میر کا یہ شعر
میر کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو اب اس نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
بھلا بتاؤ دیر میں کیوں بیٹھا جلدی کیوں نہیں بیٹھ گیا۔
دیر نہیں دیر ہے۔ یعنی بت خانہ۔ فیاض نے کہا پھر بڑبڑا کر بولا۔ لاحول ولا قوۃ میں بھی اسی لغویت میں پڑ گیا۔ وہ لاش عمارت کے کس حصے میں ہے۔
اسی کمرے میں اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلی لاش ملی تھی۔
لیکن وہ آوازیں کیسی تھیں۔ فیاض نے پوچھا۔
اوہ نہ پوچھو تو بہتر ہے۔ میں نے اتنا مضحکہ خیر منظر آج نہیں دیکھا۔
یعنی۔
پہلے ایک گدھا دکھائی دیا۔ جس پر ایک بندریا سوار تھی۔۔۔ پھر ایک دوسرا سایہ نظر آیا جو یقینا کسی آدمی کا تھا۔ اندھیرے میں بھی گدھے اور آدمی میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ کیوں تمہارا کیا خیال ہے؟
مجھے افسوس ہے کہ تم ہر وقت غیر سنجیدہ رہتے ہو۔
یار فیاض سچ کہنا۔ اگر تم ایک آدمی کو کسی بندریا کا منہ چومتے دیکھو تو تمہیں غصہ آئے گا یا نہیں؟
فضول۔۔۔ وقت برباد کر رہے ہو تم۔
اچھا چلو۔۔۔ عمران اس کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔
وہ دونوں صدر دروازے کی طرف آئے۔
کیوں خوامخواہ پریشان کر رہے ہو۔ فیاض نے کہا۔
کنجی نکالو۔
دروازہ کھول کر دونوں لاش کے کمرے میں آئے۔ عمران نے ٹارچ روشن کی۔ لیکن وہ دوسرے ہی لمحے اس طرح سر سہلا رہا تھا جیسے دماغ پر دفعتا گرمی چڑھ گئی ہو۔
لاش غائب تھی۔
یہ کیا مذاق؟ فیاض بھنا کر پلٹ پڑا۔
ہوں۔ بعض عقلمند شاعر بھرتی کے شعر اپنی غزلوں سے نکال بھی دیا کرتے ہیں۔
یار عمران میں باز آیا تمہاری مدد سے۔
مگر مری جان یہ لو دیکھو۔۔۔ نقش فریادی ہے کسی کی شوخی تحریر کا۔۔۔ لاش غائب کرنے والے نے ابھی خون کے تازہ دھبوں کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ مرزا افتخار رفیع سودا یا کوئی صاحب فرماتے ہیں
قاتل ہماری لاش کو تشہیر دے ضرور
آئندہ تاکہ کوئی نہ کسی سے وفا کرے
فیاض جھک کر فرش پر پھیلے ہوئے خون کو دیکھنے لگا۔
لیکن لاش کیا ہوئی۔ وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
فرشتے اٹھا لےگئے۔ مرنے والا بہشتی تھا۔۔۔ مگر لاحول ولا۔۔۔ بہشتی۔۔۔ سقے کو بھی کہتے ہیں۔۔۔ اوہو فردوسی تھا۔۔۔ لیکن فردوسی۔۔۔ تو محمود غزنوی کی زندگی میں ہی مر گیا تھا۔۔۔ پھر کیا کہیں گے۔۔۔ بھئی بولو نا۔
یار بھیجا مت چاٹو۔
الجھن۔ بتاؤ جلدی۔۔۔ کیا کہیں گے۔۔۔ سر چکرا رہا ہے دورہ پڑ جائے گا۔
جنتی کہیں گے۔۔۔ عمران تم سے خدا سمجھے۔
جیئو!۔۔۔ ہاں تو مرنے والا جنتی تھا۔۔۔ اور کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔
تم یہیں رکے کیوں نہیں رہے۔ فیاض بگڑ کر بولا۔ مجھے آواز دے لی ہوتی۔
سنو یار! بندریا تو کیا میں نے آج تک کسی مکھی کا بھی بوسہ نہیں لیا۔ عمران مایوسی سے بولا۔
کیا معاملہ ہے۔ تم کئی بار بندریا کا حوالہ دے چکے ہو۔
جو کچھ ابھی تک بتایا ہے بالکل صحیح تھا۔۔۔ اس آدمی نے گدھے پر سے بندریا اتاری اسے کمرے میں لے گیا۔۔۔ پھر بندریا دو بار چیخی اور وہ آدمی ایک بار۔۔۔ اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔۔۔ پھر لاش دکھائی دی۔ گدھا اور بندریا غائب تھے۔
سچ کہہ رہے ہو۔ فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
مجھے جھوٹا سمجھنے والے پر قہر خداوندی کیوں نہیں ٹوٹتا۔
فیاض تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر تھوک نگل کر بولا۔
تت۔۔۔ تو۔۔۔ پھر صبح پر رکھو۔
عمران کی نظریں پھر قبر کی طرف اٹھ گئیں۔ قبر کا تعویذ اٹھا ہوا تھا اور وہی خوفناک آنکھیں اندھیرے میں گھور رہی تھیں۔ عمران نے ٹارچ بجھا دی اور فیاض کو دیوار کی اوٹ میں دھکیل لے گیا نہ جانے کیوں وہ چاہتا تھا کہ فیاض کی نظر اس پر نہ پڑنے پائے۔
کک کیا؟ فیاض کانپ کر بولا۔
بندریا۔ عمران نے کہا۔
وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا کہ وہی چیخ ایک بار پھر سناٹے میں لہرا گئی۔
ارے باپ۔۔۔ فیاض کسی خوفزدہ بچے کی طرح بولا۔
آنکھیں بند کرلو۔ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ ایسی چیزوں پر نظر پڑھنے سے ہارٹ فیل بھی ہو جایا کرتا ہے۔ ریوالور لائے ہو۔
نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ تم نے بتایا کب تھا۔
خیر کوئی بات نہیں!۔۔۔ اچھا ٹھہرو! عمران آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ قبر کا تعویذ برابر ہو چکا تھا اور سناٹا پہلے سے بھی کچھ زیادہ گہرا معلوم ہونے لگا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۵​

ایک بج گیا تھا۔۔۔ فیاض عمران کو اس کی کوٹھی کے قریب اتار کر چلا گیا پائیں باغ کا دروازہ بند ہو کچا تھا۔ عمران پھاٹک ہلانے لگا۔۔۔ اونگھتے ہوئے چوکیدار نے ہانک لگائی۔
پیارے چوکیدار۔۔۔ میں ہوں تمہارا خادم علی عمران ایم۔ ایس۔ سی، پی۔ ایچ۔ ڈی لندن۔
کون چھوٹے سرکار۔ چوکیدار پھاٹک کے قریب آکر بولا۔ حضور مشکل ہے۔
دنیا کا ہر بڑا آدمی کہہ گیا ہے کہ وہ مشکل ہی نہیں جو آسان ہو جائے۔
بڑے سرکار کا حکم ہے کہ پھاٹک نہ کھولا جائے۔۔۔ اب بتائیے۔
بڑے سرکار تک کنفیوشس کا پیغام پہنچا دو۔
جی سرکار۔ چوکیدار بوکھلا کر بولا۔
ان سے کہہ دو کنفیوشس نے کہا ہے کہ تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے لئے اپنے دروازے کھول دو۔
مگر بڑے سرکار نے کہا ہے۔۔۔
ہا۔۔۔ بڑے سرکار۔۔۔ انہیں چین میں پیدا ہونا تھا۔ خیر تم ان تک کنفیوشس کا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا۔
میں کیا بتاؤں۔ چوکیدار کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا۔ اب آپ کہاں جائیں گے۔
فقیر یہ سہانی رات کسی قبرستان میں بسر کرے گا۔
میں آپ کے لئے کیا کروں؟
دعائے مغفرت۔۔۔ اچھا ٹاٹا۔ عمران چل پڑا۔
اور پھر آدھے گھنٹے بعد وہ ٹپ ٹاپ کلب میں داخل ہو رہا تھا لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہی محکمہ سراغرسانی کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے مڈبھیڑ ہوگئی جو اس کے باپ کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا۔
اوہو۔ صاحبزادے تو تم اب ادھر بھی دکھائی دینے لگے ہو؟
جی ہاں۔ اکثر فلیش کھیلنے کے لئے چلا آتا ہوں۔ عمران نے سر جھکا کر بڑی سعادت مندی سے کہا۔
فلیش۔ توکیا اب فلیش بھی۔۔۔؟
جی ہاں۔ کبھی کبھی نشے میں دل چاہتا ہے۔
اوہ۔۔۔ تو شراب بھی پینے لگے ہو۔
وہ کیا عرض کروں۔۔۔ قسم لے لیجئے جو کبھی تنہا پی ہو۔ اکثر شرابی طوائفیں بھی مل جاتی جو پلائے بغیر مانتی ہی نہیں۔۔۔!
لاحول ولا قوۃ۔۔۔ تو تم آج کل رحمٰن صاحب کا نام اچھال رہے ہو۔
اب آپ ہی فرمائیے۔ عمران مایوسی سے بولا۔ جب کوئی شریف لڑکی نہ ملے تو کیا کیا جائے۔۔۔ ویسے قسم لے لیجئے۔ جب کوئی مل جاتی ہے تو میں طوائفوں پر لعنت بھیج کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
شائد رحمٰن صاحب کو اس کی اطلاع نہیں۔۔۔ خیر۔۔۔
اگر ان سے ملاقات ہو تو کنفیوشس کا یہ قول دہرا دیجئے کہ جب کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتوں سے ساز باز کر لیتا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر اسے گھورتا ہوا باہر چلا گیا۔
عمران نے سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر ہال کا جائزہ لیا۔۔۔ اس کی نظریں ایک میز پر رک گئیں۔ جہاں ایک خوبصورت عورت اپنے سامنے پورٹ کی بوتل رکھے بیٹھی سیگرٹ پی رہی تھی۔ گلاس آدھے سے زیادہ خالی تھا۔
عمران اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں لیڈی جہانگیر۔ وہ قدرے جھک کر پولا۔
اوہ تم۔ لیڈی جہانگیر اپنی داہنی بھوں اٹھا کر بولی۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔
کوئی بات نہیں۔ عمران معصومیت سے مسکرا کر بولا۔ کنفیوشس نے کہا تھا۔۔۔
مجھے کنفیوشس سے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ وہ جھنجھلا کر بولی۔
تو ڈی۔ ایچ۔ لارنس کا ہی ایک جملہ سن لیجئے۔
میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔۔۔ تم یہاں سے ہٹ جاؤ۔ لیڈی جہانگیر گلاس اٹھاتی ہوئی بولی۔
اوہ اس کا خیال کیجئے کہ آپ میری منگیتر بھی رہ چکی ہیں۔۔۔
شٹ اپ۔
آپ کی مرضی۔ میں تو صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ آج صبح ہی سے موسم بہت خوشگوار ہے۔
وہ مسکرا پڑی۔
بیٹھ جاؤ۔ اس نے کہا اور ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر گئی۔
وہ تھوڑی دیر اپنی نشیلی آنکھیں عمران کے چہرے پر جمائے رہی اور پھر سیگرٹ کا ایک طویل کش لے کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی۔
میں اب بھی تمہاری ہوں۔
مگر۔۔۔ سر جہانگیر۔ عمران مایوسی سے بولا۔
دفن کرو اسے۔
ہائیں۔۔۔ تو کیا مر گئے؟ عمران گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
لیڈی جہانگیر ہنس پڑی۔
تمہاری حماقتیں بڑی پیاری ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بائیں آنکھ دبا کر بولی اور عمران نے شرما کر سر جھکا لیا۔
کیا پیو گے۔ لیڈی جہانگیر نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
دہی کی لسی۔
دہی کی لسی۔۔۔ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ شائد تم نشے میں ہو۔
ٹھہریئے۔ عمران بوکھلا کر بولا۔ میں ایک بجے کے بعد صرف کافی پیتا ہوں۔۔۔ چھ بجے شام سے بارہ بجے رات تک رم پیتا ہوں۔
رم۔ لیڈی جہانگیر منہ سکوڑ کر بولی۔ تم اپنے ٹیسٹ کے آدمی نہیں معلوم ہوتے۔ رم صرف گنوار پیتے ہیں۔
نشے میں یہ بھول جاتا ہوں کہ گنوار نہیں ہوں۔
تم آج کل کیا کر رہے ہو۔
صبر۔ عمران نے طویل سانس لے کر کہا۔
تم زندگی کے کسی حصے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔ لیڈی جہانگیر مسکرا کر بولی۔
اوہ آپ بھی یہی سمجھتی ہیں۔ عمران کی آواز حد درجہ دردناک ہو گئی۔
آخر مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ تم نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
میں نے کب انکار کیا تھا۔ عمران رونی صورت بنا کر بولا۔ میں نے تو آپ کے والد صاحب کو صرف دو تین شعر سنائے تھے۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ انہیں شعر و شاعری سے دلچسپی نہیں۔ ورنہ میں نثر میں گفتگو کرتا۔
والد صاحب کی رائے ہے کہ تم پرلے سرے کے احمق اور بدتمیز ہو۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
اور چونکہ سر جہانگیر ان کے ہم عمر ہیں۔۔۔ لہٰذا۔۔۔
شپ اپ۔ لیڈی جہانگیر بھنا کر بولی۔
بہرحال یونہی تڑپ تڑپ کر مر جاؤں گا۔ عمران کی آواز پھر دردناک ہو گئی۔
لیڈی جہانگیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
کیا واقعی تمہیں افسوس ہے؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
یہ تم پوچھ رہی ہو؟۔۔۔ اور وہ بھی اس طرح جیسے تمہیں میرے بیان پر شبہ ہو۔ عمران کی آنکھوں سے نہ صرف آنسو چھلک آئے بلکہ بہنے بھی لگے۔
ارر۔۔۔ نو مائی ڈیئر۔۔۔ عمران ڈارلنگ کیا کر رہے ہو تم! لیڈی جہانگیر نے اس کی طرف اپنا رومال بڑھایا۔
میں اس غم میں مر جاؤں گا۔ وہ آنسو خشک کرتا ہوا بولا۔
نہیں۔ تمہیں شادی کر لینی چاہئے۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔ اور میں۔۔۔ میں تو ہمیشہ تمہاری ہی رہوں گی۔ وہ دوسرا گلاس لبریز کر رہی تھی۔
سب یہی کہتے ہیں۔۔۔ کئی جگہ سے رشتے بھی آچکے ہیں۔۔۔ کئی دن ہوئے جسٹس فاروق کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا۔۔۔ گھر والوں نے انکار کر دیا۔ لیکن مجھے وہ رشتہ کچھ کچھ پسند ہے۔
پسند ہے؟ لیڈی جہانگیر حیرت سے بولی۔ تم نے ان کی لڑکی کو دیکھا ہے۔
ہاں۔۔۔ وہی نا۔ جو ریٹا ہیورتھ اسٹائل کے بال بناتی ہے اور عموما تاریک چشمہ لگائے رہتی ہے۔
جانتے ہو وہ تاریک چشمہ کیوں لگاتی ہے؟ لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
نہیں۔ ۔۔۔ لیکن اچھی لگتی ہے۔
لیڈی جہانگیر نے قہقہہ لگایا۔
وہ اس لئے تاریک چشمہ لگاتی ہے کہ اس کی ایک آنکھ غائب ہے۔
ہائیں۔۔۔ عمران اچھل پڑا۔
اور غالبا اسی بناٗ پر تمھارے گھر والوں نے یہ رشتہ منظور نہیں کیا۔
تم اسے جانتی ہو۔عمران نے پوچھا۔
اچھی طرح سے۔ اور آج کل میں اسے بہت خوبصورت آدمی کے ساتھ دیکھتی ہوں۔ غالبا وہ بھی تمہاری ہی طرح احمق ہی ہوگا۔
کون ہے وہ میں اس کی گردن توڑ دوں گا۔ عمران بپھر کر بولا۔ پھر اچانک چونک کر خود ہی بڑبڑانے لگا۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ بھلا مجھ سے کیا مطلب۔
بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ انتہائی خوبصورت نوجوان ایک کانی لڑکی سے کورٹ کر لے۔
واقعی وہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہوگا۔ عمران نے کہا۔ کیا میں اسے جانتا ہوں؟
پتہ نہیں۔ کم از کم میں تو نہیں جانتی۔ اور جسے میں نہ جانتی ہوں وہ اس شہر کے کسی اعلٰی خاندان کا فرد نہیں ہو سکتا۔
کب سے دیکھ رہی ہو اسے۔
یہی کوئی پندرہ بیس دن دے۔
کیا وہ یہاں بھی آتے ہیں؟
نہیں۔۔۔ میں نے انہیں کیفے کامینو میں اکثر دیکھا ہے۔
مرزا غالب نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
نالہ سرمایہ یک عالم و عالم کف خاک
آسمان بیضہ قمری نظر آتا ہے مجھے
مطلب کیاہوا۔ لیڈی جہانگیر نے کہا۔
پتہ نہیں۔ عمران نے بڑی معصومیت سے کہا اور پر خیال انداز میں میز پر طبلہ بجانے لگا۔
صبح تک بارش ضرور ہوگی۔ لیڈی جہانگیر انگڑائی لے کر بولی۔
سر جہانگیر آج کل نظر نہیں آتے۔ عمران نے کہا۔
ایک ماہ کے لئے باہر گئے ہوئے ہیں۔
گڈ۔ عمران مسکرا کر بولا۔
کیوں۔ لیڈی جہانگیر اسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگی۔
کچھ نہیں۔ کنفیوشس نے کہا ہے۔۔۔
مت بور کرو۔ لیڈی جہانگیر چڑ کر بولی۔
ویسے ہی۔۔۔ بائی دی وے۔۔۔ کیا تمہارا رات بھر کا پروگرام ہے۔
نہیں ایسا تو نہیں۔۔۔ کیوں؟
میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر رونا چاہتا ہوں۔
تم بالکل گدھے ہو بلکہ گدھے سے بھی بدتر۔
میں بھی یہی محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کیا تم مجھے اپنی چھت کے نیچے رونے کا موقع دوگی۔ کفیوشس نے کہا ہے۔۔۔
عمران۔۔۔ پلیز۔۔۔ شٹ اپ۔
لیڈی جہانگیر میں ایک لنڈورے مرغ کی طرح اداس ہوں۔
چلو اٹھو۔ لیکن اپنے کنفیوشس کو یہیں چھوڑ چلو۔ بوریت مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔
تقریبا آدھ گھنٹے بعد عمران لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں کھڑا اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ لیڈی جہانگیر کے جسم پر صرف شب خوابی کا لبادہ تھا۔ وہ انگڑائی لے کر مسکرانے لگی۔
کیا سوچ رہے ہو۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ آخر کسی مثلث کے تینوں زاویوں کا مجمودہ دو زاویہ قائمہ کے برابر ہی کیوں ہوتا ہے۔
پھر بکواس شروع کر دی تم نے۔ لیڈی جہانگیر کی نشیلی آنکھوں میں جھلاہٹ جھانکنے لگی۔
مائی ڈیئر لیڈی جہانگیر۔ اگر میں یہ ثابت کردوں کہ زاویہ قائمہ کوئی چیز ہی نہیں ہے تو دنیا کا بہت بڑا آدمی ہوسکتا ہوں۔
جہنم میں جا سکتے ہو۔ لیڈی جہانگیر برا سا منہ بنا کر بڑبڑائی۔
جہنم۔ تو کیا تمہیں جہنم پر یقین ہے۔
عمران میں تمہیں دھکے دے کر نکال دوں گی۔
لیڈی جہانگیر۔ مجھے نیند آرہی ہے۔
سر جہانگیر کی خواب گاہ میں ان کا سلیپنگ سوٹ ہوگا۔۔۔ پہن لو۔
شکریہ۔۔۔ خواب گاہ کدھر ہے؟
سامنے والا کمرہ۔ لیڈی جہانگیر نے کہا اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔
عمران نے سر جہانگیر کی خواب گاہ میں گھس کر دروازہ اندر سے بند کر لیا لیڈی جہانگیر ٹہلتی رہی۔ دس منٹ گزر گئے۔ آخر وہ جھنجھلا کر سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آئی۔ دھکا دیا لیکن اندر سے چٹخنی چڑھا دی گئی تھی۔
کیا کرنے لگے عمران؟ اس نے دروازہ تھپتھپانا شروع کر دیا لیکن جواب ندارد۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے عمران خراٹے بھر رہا ہو اس نے دروازے سے کان لگا دیئے۔ حقیقتا وہ خراٹوں ہی کی آواز تھی۔
پھر دوسرے لمحے وہ ایک کرسی پر کھڑی ہو کر دروازے کے اوپری شیشہ سے کمرے کے اندر جھانک رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ عمران کپڑوں سمیت سر جہانگیر کے پلنگ پر پڑا خراٹے لے رہا ہے اور اس نے بجلی بھی نہیں بجھائی تھی۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دائرہ کی شکل میں سکوڑےعمران کو کسی بھوکی بلی کی طرح گھور رہی تھی۔ پھر اس نے ہاتھ مار کر دروازے کا ایک شیشہ توڑ دیا۔۔۔ نوکر شائد شاگرد پیشے میں سوئے ہوئے تھے۔ ورنہ شیشے کے چھناکے ان میں سے ایک آدھ کو ضرور جگا دیتے ویسے یہ اور بات ہے کہ عمران کی نیند پر ان کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پڑا ہو۔
لیڈی جہانگیر نے اندر ہاتھ ڈال کر چٹخنی گرا دی۔ نشے میں تو تھی ہی۔ جسم کا پورا زور دروازے پر دے رکھا تھا۔ چٹخنی گرتے ہی دونوں پٹ کھل گئے اور وہ کرسی سمیت خواب گاہ میں جا گری۔
عمران نے غنودہ آواز میں کراہ کر کروٹ بدلی اور بڑبڑانے لگا۔۔۔ ہاں ہاں سنتھیلک گیس کی بو کچھ میٹھی میٹھی سی ہوتی ہے۔۔۔
پتہ نہیں وہ جاگ رہا تھا یا خواب میں بڑبڑایا تھا۔
لیڈی جہانگیر فرش پر بیٹھی اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیر کر بسور رہی تھی۔ دو تین منٹ بعد وہ اٹھی اور عمران پر ٹوٹ پڑی۔
سور کمینے۔۔۔ یہ تمہاری باپ کا گھر ہے؟۔۔۔ اٹھو۔۔۔ نکلو یہاں سے۔ وہ اسے بری طرح جھنجھوڑ رہی تھی۔ عمران بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔
ہائیں۔ کیا سب بھاگ گئے۔۔۔
دور ہو جاؤ یہاں سے۔ لیڈی جہانگیر نے اس کا کالر پکڑ کر جھٹکا مارا۔
ہاں۔ ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہے۔ عمران اپنا گریبان چھڑا کر پھر لیٹ گیا۔
اس بار لیڈی جہانگیر نے اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا۔
ہائیں۔۔۔ کیا ابھی نہیں گیا۔ عمران جھلا کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے ہی قد آدم آئینہ رکھا ہوا تھا۔
اوہ تو آپ ہیں۔ وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بولا۔۔۔ پھر اس طرح مکا بنا کر اٹھا جیسے اس پر حملے کرے گا۔۔۔ اس طرح آہستہ آہستہ آئینے کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہو۔ پھر اچانک سامنے سے ہٹ کر ایک کنارے پر چلنے لگا۔ آئینے کے سامنے پہنچ کر دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ لیڈی جہانگیر کی طرف دیکھ اس طرح ہونٹوں پر انگلی رکھی جیسے وہ آئینے کے قریب نہیں بلکہ کسی دروازہ سے لگا کھڑا ہو اور اس بات کا منتظر ہو کہ جیسے ہی دشمن دروازے میں قدم رکھے گا وہ اس پر حملہ کربیٹھے گا۔ لیڈی جہانگیر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حرکت دیکھ رہی تھی۔۔۔ لیکن قبل اس کے وہ کچھ کہتی، عمران نے پینترہ بدل کر آئینہ پر ایک گھونسہ رسید ہی کر دیا۔۔۔ ہاتھ میں جو چوٹ لگی تو ایسا معلوم ہوا جیسے وہ یک بیک ہوش میں آگیا ہو۔
لاحول ولا قوۃ۔ وہ آنکھیں مل کر بولا اور کھیسانی ہنسی ہنسنے لگا۔
اور پھر لیڈی جہانگیر کو بھی ہنسی آگئی۔۔۔ لیکن وہ جلد ہی سنجیدہ ہوگئی۔
تم یہاں کیوں آئے تھے؟
اوہ۔ میں شائد بھول گیا۔۔۔ شائد اداس تھا۔۔۔ لیڈی جہانگیر تم بہت اچھی ہو۔ میں رونا چاہتا ہوں۔
اپنے باپ کی قبر پر رونا۔۔۔ نکل جاؤ یہاں سے۔
لیڈی جہانگیر۔۔۔ کنفیوشس۔۔۔
شپ اپ۔ لیڈی جہانگیر اتنے زور سے چیخی کہ اس کی آواز بھرا گئی۔
بہت بہتر۔ عمران سعادت مندانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔ گویا لیڈی جہانگیر نے بہت سنجیدگی اور نرمی سے اسے کوئی نصیحت کی ہو۔
یہاں سے چلے جاؤ۔
بہت اچھا۔ عمران نے کہا اور اس کمرے سے لیڈی جہانگیر کی خواب گاہ میں چلا آیا۔
وہ اس کی مسہری پر بیٹھنے ہی جا رہا تھا کہ لیڈی جہانگیر طوفان کی طرح اس کے سر پر پہنچ گئی۔
اب مجبورا مجھے نوکروں کو جگانا پڑے گا؟ اس نے کہا۔
اوہو تم کہاں تکلیف کروگی۔ میں جگائے دیتا ہوں۔ کوئی خاص کام ہے کیا؟
عمران میں تمہیں مار ڈالوں گی؟ لیڈی جہانگیر دانت پیس کر بولی۔
مگر کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا۔۔۔ ورنہ پولیس۔۔۔ خیر میں مرنے کے لئے تیار ہوں؟ اگر چھری تیز نہ ہو تو تیز کردوں۔ ریوالور سے مارنے کا ارادہ ہے تو میں اس کی رائے نہ دوں گا۔ سناٹے میں آواز دور تک پھیلتی ہے۔ البتہ زہر ٹھیک رہے گا۔
عمران خدا کے لئے۔ لیڈی جہانگیر بے بسی سے بولی۔
خدا کیا میں اس کے ادنٰے غلاموں کے لئےبھی اپنی جان قربان کر سکتا ہوں۔۔۔ جو مزاج یار میں آئے۔
تم چاہتے کیا ہو۔ لیڈی جہانگیر نے پوچھا۔
دو چیزوں میں سے ایک۔۔۔
کیا؟
موت یا صرف دو گھنٹے کی نیند۔
کیا تم گدھے ہو؟
مجھے سے پوچھتیں تو پہلے ہی بتا دیتا کہ بالکل گدھا ہوں۔
جہنم میں جاؤ۔ لیڈی جہانگیر اور نہ جانے کیا بکتی ہوئی سر جہانگیر کی خواب گاہ میں چلی گئی۔ عمران نے اٹھ کر اندر سے دروازہ بند کیا جوتے اتارے اور کپڑوں سمیت بستر میں گھس گیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۶​

یہ سوچنا قطعی غلط ہوگا کہ عمران کے قدم یونہی بلا مقصد ٹپ ٹاپ کلب کی طرف اٹھ گئے تھے۔ اسے پہلے ہی سے اطلاع تھی کہ سر جہانگیر آج کل شہر میں مقیم نہیں ہے اوروہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایسے مواقع پر لیڈی جہانگیر اپنی راتیں کہاں گزارتی ہے۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ لیڈی جہانگیر کسی زمانے میں اس کی منگیتر رہ چکی تھی اور خود عمران کی حماقتوں کے نتیجے میں یہ شادی نہ ہوسکی۔
سر جہانگیر کی عمر تقریبا ساٹھ سال ضرور رہی ہوگی لیکن قوٰی کی مضبوطی کی بناٗ پر بہت زیادہ بوڑھا نہیں معلوم ہوتا تھا۔۔۔
عمران دم سادھے لیٹا رہا۔۔۔ آدھا گھنٹہ گذر گیا۔۔۔ اس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی اور پھر اٹھ کر خواب گاہ کی روشنی بند کردی۔ پنجوں کے بل چلتا ہوا سر جہانگیر کی خواب گاہ کے دروازے پر آیا جو اندر سے بند تھا اندر گہری نیلی روشنی تھی۔ عمران نے دروازے کے شیشے سے اندر جھانکا لیڈی جہانگیر مسہری پر اوندھی پڑی بے خبر سو رہی تھی اور اس کے ماتھے سے فاکس ٹیریئر کا سر اس کی کمر پر رکھا ہوا تھا اور وہ بھی سو رہا تھا۔
عمران پہلے کی طرح احتیاط سے چلتا ہوا سر جہانگیر کی لائبریری میں داخل ہوا۔
یہاں اندھیرا تھا۔ عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کی یہ ایک کافی طویل و عریض کمرہ تھا۔ چاروں طرف بڑی بڑی الماریاں تھیں اور درمیان میں تین لمبی لمبی میزیں۔ بہرحال یہ ایک ذاتی اور نجی لائبریری سے زیادہ ایک پبلک ریڈنگ روم معلوم ہو رہا تھا۔
مشرقی سرے پر ایک لکھنے کی بھی میز تھی۔ عمران سیدھا اسی کی طرف گیا جیب سے پرچہ نکالا جو اسے اس خوفناک عمارت میں پراسرار طور پر مرنے والے کے پاس سے ملا تھا وہ اسے بغور دیکھتا رہا پھر میز پر رکھے ہوئے کاغذات الٹنے پلٹنے لگا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے ایک رائٹنگ پیڈ کے لیٹر ہیڈ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دبے ہوئے کاغذ کے سرنامے اور اس میں کوئی فرق نہ تھا۔ دونوں پر یکساں قسم کے نشانات تھے اور یہ نشانات سر جہانگیر کے آباؤ اجداد کے کارناموں کی یادگار تھے جو انہوں نے مغلیہ دور حکومت میں سرانجام دیے تھے سرجہانگیر ان نشانات کو اب تک استعمال کر رہا تھا۔ اس کے کاغذات پر اس کے نام کی بجائے عموما یہی نشانات چھپے ہوئے تھے۔
عمران نے میز پر رکھے کاغذات کو پہلی سی ترتیب میں رکھ دیا اور چپ چاپ لائبریری سے نکل آیا۔ لیڈی جہانگیر کے بیان کے مطابق سرجہانگیر ایک ماہ سے غائب تھے۔۔۔ تو پھر!
عمران کا ذہن چوکڑیاں بھرنے لگا۔۔۔ آخر ان معاملات سے جہانگیر کا کیا تعلق۔ خواب گاہ میں واپس آنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر اس کمرے میں جھانکا جہاں لیڈی جہانگیر سو رہی تھی۔۔۔ اور مسکراتا ہوا اس کمرے میں چلا آیا جہاں اسے خود سونا تھا۔
صبح نو بجے لیڈی جہانگیر اسے بری طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہی تھی۔
ول ڈن! ول ڈن۔ عمران ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور مسہری پر اکڑوں بیٹھ کر اس طرح تالی بجانے لگا جیسے کسی کھیل کے میدان میں بیٹھا ہوا کھلاڑیوں کو داد دے رہا ہو۔
یہ کیا بے ہودگی! لیڈی جہانگیر جھنجھلا کر بولی۔
اوہ۔ ساری۔ وہ چونک کر لیڈی جہانگیر کو متحیرانہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
ہلو۔ لیڈی۔۔۔ جہانگیر۔ فرمائیے۔ صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی۔
تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟ لیڈی جہانگیر نے تیز لہجے میں کہا۔
ہو سکتا ہے۔ عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا۔ اور اپنے نوکروں کے نام لے لے کر انہیں پکارنے لگا۔
لیڈی جہانگیر اسے چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی۔
براہ کرم اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ۔۔۔
ہائیں تم مجھے میرے گھر سے نکالنے والی کون ہو؟ عمران اچھل کر کھڑا ہوگیا۔
یہ تمہارے باپ کا گھر ہے؟ لیڈی جہانگیر کی آواز بلند ہوگئی۔
عمران چاروں طرف حیرانی سے دیکھنے لگا۔ اس طرح اچھلا جیسے اچانک سر پر کوئی چیز گری ہو۔
ارے میں کہاں ہوں۔ کمرہ تو میرا نہیں معلوم ہوتا۔
اب جاؤ۔ ورنہ مجھے نوکروں کو بلانا پڑے گا۔
نوکروں کو بلا کر کیا کرو گی؟ میرے لائق کوئی خدمت۔ ویسے تم غصے میں بہت حسین لگتی ہو۔
شٹ اپ۔
اچھا کچھ نہیں کہوں گا۔ عمران بسور کر بولا اور پھر مسہری پر بیٹھ گیا۔
لیڈی جہانگیر اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتی رہی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ عمران نے جوتے پہنے۔ کھونٹی سے کوٹ اتارا اور پھر بڑے اطمینان سے لیڈی جہانگیر کی سنگھار میز پر جم گیا اور پھر اپنے بال درست کرتے وقت اس طرح گنگنا رہا تھا جیسے سچ مچ اپنے کمرے میں ہی بیٹھا ہو۔ لیڈی جہانگیر دانت پیس رہی تھی لیکن ساتھ ہی بے بسی کی ساری علامتیں بھی اس کے چہرے پر امنڈ آئی تھیں۔
ٹاٹا۔ عمران دروازے کے قریب پہنچ کر مڑا اور احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس کا ذہن اس وقت بالکل صاف ہو گیا تھا۔ پچھلی رات کی معلومات ہی اس کی تشفی کے لئے کافی تھیں۔ سرجہانگیر کے لیٹر ہیڈ کا پراسرار طور پر مرے ہوئے آدمی کے ہاتھ میں پایا جانا اس پر دلالت کرتا تھا کہ اس معاملہ سے سر جہانگیر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔ اور شائد سر جہانگیر شہر ہی میں موجود تھا۔ ہو سکتا ہے کہ لیڈی جہانگیر اس سے لاعلم رہی ہو۔
اب عمران کو اس خوش رو آدمی کی فکر تھی جسے ان دنوں جج صاحب کی لڑکی کے ساتھ دیکھا جا رہا تھا۔
دیکھ لیا جائے گا۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
اس کا ارادہ تو نہیں تھا کہ گھر کی طرف جائے مگر جانا ہی پڑا۔ گھر گئے بغیر موٹر سائیکل کس طرح ملتی اسے یہ بھی تو معلوم کرنا تھا کہ وہ ؔخوفناک عمارتؔ دراصل تھی کسی کی؟ اگر اس کا مالک گاؤں والوں کے لئے اجنبی تھا تو ظاہر ہے کہ اس نے وہ عمارت خود ہی بنوائی ہوگی۔ کیونکہ طرز تعمیر بہت پرانا تھا۔ لہٰذا ایسی صورت میں یہی سوچا جا سکتا تھا کہ اس نے بھی اسے کسی سے خریدا ہی ہوگا۔
گھر پہنچ کر عمران کی شامت نے اسے پکارا۔ بڑی بی شائد پہلے ہی سے بھری بیٹھی تھیں۔ عمران کی صورت دیکھتے ہیں آگ بگولہ ہو گئیں۔
کہاں تھے رے۔۔۔ کمینے سور!
اوہو۔ اماں بی۔ گڈ مارننگ۔۔۔ ڈیئرسٹ۔
مارننگ کے بچے میں پوچھتی ہوں رات کہاں تھا۔
وہ اماں بی کیا بتاؤں۔ وہ حضرت مولانا۔۔۔ بلکہ مرشدی و مولائی سیدنا جگر مراد آبادی ہیں نا۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ مولوی تفضل حسین قبلہ کی خدمت میں رات حاضر تھا۔ اللہ اللہ۔۔۔ کیا بزرگ ہیں۔۔۔ اماں بی۔۔۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ میں آج سے نماز شروع کر دوں گا۔
ارے۔۔۔ کمینے۔۔۔ کتے۔۔۔ تو مجھے بیوقوف بنا رہا ہے۔ بڑی بی جھنجھلائی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔
ارے توبہ اماں بی۔ عمران زور سے اپنا منہ پیٹنے لگا۔ آپ کے قدموں کے نیچے میری جنت ہے۔
اور پھر ثریا کو آتے دیکھ کر عمران نے جلد سے جلد وہاں سے کھسک جانا چاہا۔ بڑی بی برابر بڑبڑائے جا رہی تھیں۔
اماں بی۔ آپ خوامخواہ اپنی طبیعت خراب کر رہی ہیں۔ دماغ میں خشکی بڑھ جائے گی۔ ثریا نے آتے ہی کہا۔ اور یہ بھائی جان۔ ان کو خدا کے حوالے کیجئے۔
عمران کچھ نہ بولا۔ اماں بی کو بڑبڑاتا چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا تھا؟
شرم نہیں آتی۔ باپ کی پگڑی اچھالتے پھر رہے ہیں۔ ثریا نے اماں بی کے کسی مصرعہ پر گرہ لگائی۔
ہائیں تو کیا اباجان نے پگڑی باندھنا شروع کر دی؟ عمران پر مسرت لہجے میں چیخا۔
اماں بھی اختلاج کی مریض تھیں۔ اعصاب بھی کمزور تھے لہٰذا انہیں غصہ آگیا۔ ایسی حالت میں ہمیشہ ان کا ہاتھ جوتی کی طرف جاتا تھا۔ عمران اطمینان سے زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔ اور پھر تڑاتڑ کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہیں سن سکا۔ اماں بی جب اسے جی بھر کے پیٹ چکیں تو انہوں نے رونا شروع کردیا۔۔۔ ثریا انہیں دوسرے کمرے میں گھسیٹ لے گئی۔۔۔ عمران کی چچا زاد بہنوں نے اسے گھیر لیا۔ کوئی اس کے کوٹ سے گرد جھاڑ رہی تھی اور کوئی ٹائی کی گرہ درست کر رہی تھی۔ ایک نے سر پر چمپی شروع کر دی۔
عمران نے جیب سے سیگرٹ نکال کر سلگائی اور اس طرح کھڑا رہا جیسے وہ بالکل تنہا ہو۔ دوچار کش لے کر اس نے اپنے کمرے کی راہ لی اور اسکی چچا زادہ بہنیں زرینہ اور صوفیہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں۔عمران نے کمرے میں آکر فلٹ ہیٹ ایک طرف اچھال دی۔ کوٹ مسہری پر پھینکا اور ایک آرام کرسی پر گر کر اونگھنے لگا۔
رات والا کاغذ اب بھی اس کے ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔ اس پر کچھ ہندسے لکھے ہوئے تے۔ کچھ پیمائشیں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑھئی نے کوئی چیز گھڑنے سے پہلے اس کے مختلف حصوں کے تناسب کا حساب لگایا ہو۔ بظاہر اس کاغذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ لیکن اس کا تعلق ایک نامعلوم لاش سے تھا۔ ایسے آدمی کی لاش سے جس کا قتل بڑے پراسرار حالات میں ہوا تھا۔ ان حالات میں یہ دوسرا قتل تھا۔
عمران کو اس سلسلے میں پولیس یا محکمہ سراغ رسانی کی مشغولیات کا کوئی علم نہیں تھا اس نے فیاض سے یہ بھی معلوم کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کہ پولیس نے ان حادثات کے متعلق کیا رائے قائم کی ہے۔ عمران نے کاغذ کا ٹکڑا اپنے سوٹ کیس میں ڈال دیا اور دوسرا سوٹ پہن کر دوبارہ باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل اسی قصبہ کی طرف جا رہی تھی۔ جہاں وہ ؂خوفناک عمارت؂ واقع تھی قصبے میں پہنچ کر اس بات کا پتہ لگانے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کہ وہ عمارت پہلے کس کی ملکیت تھی۔ عمران اس خاندان کے ایک ذمہ دار آدمی سے ملا جس نے عمارت جج صاحب کے ہاتھ فروخت کی تھی۔
اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔ اس نے بتایا۔ ایاز صاحب نے وہ عمارت ہم سے خود خریدی تھی۔ اس کے بعد مرنے سے پہلے اسے شہر کے کسی جج صاحب کے نام قانونی طور پر منتقل کرگئے۔
ایاز صاحب کون تھے۔ پہلے کہاں رہتے تھے۔ عمران نے سوال کیا۔
ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ عمارت خریدنے کے بعد وہ تین سال تک زندہ رہے لیکن کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکتا کہ وہ کون تھے اور پہلے کہاں رہتے تھے۔ ان کے ساتھ ایک نوکر تھا جو اب بھی عمارت کے سامنے ایک حصے میں مقیم ہے۔
یعنی قبر کا وہ مجاور۔ عمران نے کہا اور بوڑھے آدمی نے اثبات میں سر ہلایا وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
وہ قبر بھی ایاز صاحب ہی نے دریافت کی تھی۔ ہمارے خاندان والوں کو تو اس کا علم نہیں تھا۔ وہاں پہلے کوئی قبر نیہں تھی۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔
اوہ۔ عمران گھورتا ہوا بولا۔ بھلا قبر کس طرح دریافت ہوئی تھی۔
انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اس جگہ کوئی شہید مرد دفن ہیں۔ دوسرے ہی دن قبر بنانی شروع کر دی۔
خود ہی بنانی شروع کر دی؟ عمران نے حیرت سے پوچھا۔
جی ہاں وہ اپنا سارا کام خود ہی کرتے تھے۔ کافی دولت مند بھی تھے۔ لیکن انہیں کنجوس نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ دل کھول کر خیرات کرتے تھے۔
جس کمرے میں لاش ملی تھی اس کی دیواروں پر پلاسٹر ہے۔ لیکن دوسرے کمروں میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔
پلاسٹر بھی ایاز صاحب ہی نے کیا تھا۔
خود ہی؟
جی ہاں۔
اس پر یہاں قصبے میں تو بڑی چہ میگوئیاں ہوئی ہوں گی۔
قطعی نہیں جناب۔۔۔ اب بھی یہاں لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ایاز صاحب کوئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور میرا خیال ہے کہ ان کا نوکر بھی۔۔۔ بزرگی سے خالی نہیں۔
کبھی ایسے لوگ بھی ایاز صاحب سے ملنے کے لئے آئے تھے جو یہاں والوں کے لئے اجنبی رہے ہوں۔
جی نہیں۔۔۔ مجھے تو یاد نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان سے کبھی کوئی ملنے نہیں آیا۔
اچھا بہت بہت شکریہ۔ عمران بوڑھے سے مصافحہ کرکے اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھ گیا۔
اب وہ اسی عمارت کی طرف جا رہا تھا اور اس کے ذہن میں بیک وقت کئی خیال تھے۔ ایاز نے وہ قبر خود ہی بنائی تھی اور کمرے میں پلاسٹر بھی خود ہی کیا تھا۔ کیا وہ ایک اچھا معماربھی تھا؟ قبر بھی وہاں پہلے نہیں تھی۔ وہ ایاز ہی کی دریافت تھی۔ اس کا نوکر آج بھی قبر سے چمٹا ہوا ہے۔ آخر کیوں؟ اسی ایک کمرے میں پلاسٹر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
عمران عمارت کے قریب پہنچ گیا۔ بیرونی بیٹھک جس میں مجاوررہتا تھا کھلی ہوئی تھی اور وہ خود بھی موجود تھا۔ عمران نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہ متوسط عمر کا ایک قوی ہیکل آدمی تھا چہرے پر گھنی داڑھی اور آنکھیں سرخ تھیں۔ شائد وہ ہمیشہ ایسی ہی رہتی تھیں۔
عمران نے دو تین بار جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور پھر اس کے چہرے پر اس پرانے احمق پن کے آثار ابھر آئے۔
کیا بات ہے۔ اسے دیکھتے ہی نوکر نے للکارا۔
مجھے آپ کی دعا سے نوکری مل گئی ہے۔ عمران سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔ سوچاکچھ آپ کی خدمت کرتا چلوں۔
بھاگ جاؤ۔ قبر کا مجاور سرخ سرخ آنکھیں نکالنے لگا۔
اب اتنا نہ تڑپایئے۔ عمران ہاتھ جوڑ کر بولا۔ بس آخری درخواست کروں گا۔
کون ہو تم۔۔۔ کیا چاہتے ہو۔ مجاور یک بیک نرم پڑ گیا۔
لڑکا۔ بس ایک لڑکا بغیر بچے کے گھر سونا لگتا ہے یا حضرت تیس سال سے بچے کی آرزو ہے۔
تیس سال۔ تمہاری عمر کیا ہے؟ مجاور اسے گھورنے لگا۔
پچیس سال۔
بھاگو۔ مجھے لونڈا بناتے ہو۔ ابھی بھسم کر دوں گا۔
آپ غلط سمجھے یا حضرت۔ میں اپنے باپ کے لئے کہہ رہا تھا۔۔۔ دوسری شادی کرنے والے ہیں۔
جاتے ہو یا۔۔۔ مجاور اٹھتے ہوئے بولا۔
سرکار۔۔۔ عمران ہاتھ جوڑ کر سعادت مندانہ لہجے میں بولا۔ پولیس آپ کوبہت پریشان کرنے والی ہے۔
بھاگ جاؤ۔ پولیس والے گدھے ہیں۔ وہ فقیر کا کیا بگاڑ لیں گے۔
فقیر کے زیر سایہ دو خون ہوئے ہیں۔
ہوئے ہوں گے۔ پولیس جج صاحب کی لڑکی سے کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ ایک مسٹنڈے کو لے کر یہاں کیوں آئی تھی۔
یا حضرت پولیس واقعی گدھی ہے۔ آپ ہی کچھ رہنمائی فرمائیے۔
تم خفیہ پولیس میں ہو۔
نہیں سرکار۔ میں ایک اخبار کا نامہ نگار ہوں۔ کوئی نئی خبر مل جائے گی تو پیٹ بھرے گا۔
ہاں اچھا بیٹھ جاؤ۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ مکان جہاں ایک بزرگ کا مزار ہو وہ بدکاری کا اڈہ بنے۔ پولیس کو چاہیئے کہ اسکی روک تھام کرے۔
یاحضرت میں بالکل نہیں سمجھا۔ عمران مایوسی سے بولا۔
میں سمجھتا ہوں۔ مجاور اپنی سرخ سرخ آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ چودہ تاریخ کو جج صاحب کی لونڈیا اپنے ایک یار کو لے کر یہاں آئی تھی۔۔۔ اور گھنٹوں اندر رہی۔
آپ نے اعتراض نہیں کیا۔۔۔ میں ہوتا تو دونوں کے سر پھاڑ دیتا۔ توبہ توبہ اتنے بڑے بزرگ کے مزار پر۔۔۔ عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
بس خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا تھا۔۔۔ کیا کروں۔ میرے مرشد یہ مکان ان لوگوں کو دے گئےہیں ورنہ بتادیتا۔
آپ کے مرشد۔
ہاں۔۔۔ حضرت ایاز رحمتہ اللہ علیہ۔ وہ میرے پیر تھے۔ اس مکان کا یہ کمرہ مجھے دے گئے ہیں تاکہ مزار شریف کی دیکھ بھال کرتا رہوں۔
ایاز صاحب کا مزار شریف کہاں ہے۔ عمران نےپوچھا۔
قبرستان میں۔۔۔ ان کی تو وصیت تھی کہ میری قبر برابر کر دی جائے۔ کوئی نشان نہ رکھا جائے۔
تو جج صاحب کی لڑکی کو پہچانتے ہیں آپ!
ہاں پہچانتا ہوں۔ وہ کانی ہے۔
ہائے۔ عمران نے سینے پر ہاتھ مارا۔۔۔ اور مجاور اسے گھورنے لگا۔
اچھا حضرت چورہ کی رات کو وہ یہاں آئی تھی اور سولہ کی صبح کو لاش پائی گئی۔
ایک نہیں ابھی ہزاروں لاشیں ملیں گی۔ مجاور کو جلال آگیا۔ مزار شریف کی بے حرمتی ہے۔
مگر سرکار۔ ممکن ہے کہ وہ اس کا بھائی رہا ہو۔
ہرگز نہیں۔ جج صاحب کا کوئی لڑکا نہیں ہے۔
تب تو پھر معاملہ۔۔۔ ہپ۔ عمران اپنا داہنا کان کھجانے لگا۔
عمران وہاں سے بھی چل پڑا وہ پھر قصبے کے اندر جا رہا تھا۔ دو تین گھنٹہ تک وہ مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ کرتا رہا اور پھر شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
۷​

کیپٹن فیاض کام میں‌مشغول تھا کہ اس کے پاس عمران کا پیغام پہنچا اس نے اسے اس کے آفس کے قریب ہی ریستوران میں بلا بھیجا تھا۔ فیاض نے وہاں تک پہنچنے میں دیر نہیں‌لگائی عمران ایک خالی میز پر طبلہ بجا رہا تھا۔ فیاض‌کو دیکھ کر احمقوں کی طرح‌مسکرایا۔
کوئی نئی بات؟ فیاض‌ نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
میرتقی میر غالب تخلص کرتے تھے۔
یہ اطلاع تم بذریہ ڈاک بھی دے سکتے تھے۔ فیاض چڑ کر بولا۔
چودہ تاریخ کی رات کو وہ محبوبہ یک چشم کہاں‌تھی؟
تم آخر اس کے پیچھے کیوں‌ پڑ گئے ہو۔
پتہ لگا کر بتاؤ۔۔۔ اگر وہ کہے کہ اس نے اپنی وہ رات اپنی کسی خالہ کے ساتھ بسر کی تو تمہارا فرض ہے کہ اس خالہ سے اس بات کی تحقیق کرنے ہمدرد دواخانہ کو فوراً مطلع کردو، ورنہ تخط و کتابت صیغہ راز میں نہ رکھی جائے گی۔
عمران میں بہت مشغول ہوں۔
میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ کیا آج کل تمہارے آفس میں مکھیوں کی کثرت ہو گئی ہے۔ کثرت سے یہ مراد نہیں‌کہ مکھیاں‌ڈنڈ پیلتی ہیں۔
میں‌جا رہا ہوں۔ فیاض جھنجھلا کر اٹھتا ہوا بولا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top