حزیں صدیقی خود ہی دیارِ شب کو سجاتی ہے روشنی۔۔۔حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
خود ہی دیارِ شب کو سجاتی ہے روشنی
خود ہی تمام نقش مٹاتی ہے روشنی

ہے سطحِ آب جو پہ رواں عکسِ ماہِ نو
کشتی کی طرح تیرتی جاتی ہے روشنی

مہر و مہ و نجوم سے بالا ہے اک مقام
مجھ تک اسی مقام سے آتی ہے روشنی

ظلمت شکار ایسی کہ حدِّ نگاہ تک
کرنوں کا ایک جال بچھاتی ہے روشنی

دنیا کو خوابناک جزیرے میں چھوڑ کر
چپکے سے میرے دل میں در آتی ہے روشنی

دن بھر یہ کس کی آگ میں جلتا ہے آفتاب
ہر شام کس کے خوں سے نہاتی ہے روشنی

اک مہر بان ماں کی طرح روز رات بھر
خود جاگتی ہے مجھ کو سلاتی ہے روشنی

وہ چاندنی کا شہر ہو یا دھوپ کا نگر
پرچھائیوں کا رنگ جماتی ہے روشنی

یہ کیا مقام ہے کہ جدھر دیکھتا ہوں میں
میرا ہی عکس مجھ کو دکھاتی ہے روشنی

لہروں کی دھڑکنیں ہیں کٹورے حباب کے
پانی میں جلترنگ بجاتی ہے روشنی

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 
Top