خود کلامی - من کی باتیں

تلمیذ

لائبریرین
بہت اچھا تخیل۔
علم کی تو انتہا ہی نہیں ہے۔ مہد سے لحد سے اس کا حصول جاری رہتا ہے۔ اس میں تکبر بلا شبہ نا پسندیدہ ہے۔
 
رشوت،
سود،
لوگوں کا حق مار کر
ناجائز منافع خوری سے
کرپشن سے
کم تول کر
حرام کمپنیز میں انوسٹمنٹ سے
سودی بینکوں میں رقم رکھوا کر کمائے جانے والے منافع سے
سرکاری دفاتر میں غیر حاضری کے باوجود تنخواہ لیکر
اور دیگر حرام طریقوں سے کمائے جانے والے مال سے

جب افطاری کا سامان خریدا جاتا ہوگا
افطاری تیار کرکے
جب دسترخوان پر بیٹھ کر کہا جاتا ہوگا:

"اے اللہ تیرے ہی لیئے روزہ رکھا، تجھ ہی پر ایمان لایا اور تیرے ہی دیئے ہوئے رزق سے افطار کیا۔"

تو اللہ عزوجل کیسے اپنے غصے کو قابو کرتے ہونگے۔
بلاشبہ
وہ ذات حلیم ہے
کریم ہے۔

از
قاضی محمد حارث
 
اسلام میں کونسی شاعری کی اجازت نہیں ہے اور اسکی وجہ کیا ہے ؟
سورہ الشعرآء- ٢٤، ٢٥، ٢٦
"اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں- اور کہتے وہ ہیں جو کرتے نہیں- "
........................
شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہو تی ہے کہ وہ مدح و ذم میں، اصول و ضابطے کی بجائے ذاتی پسند و نا پسند کے مطابق اظہارے رائے کرتے ہیں- علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ ارآئی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر... بھٹکتے ہیں، اس لیے فرمایا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں-
.........................
اسی قسم کے اشعار کے لیے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ
"پیٹ کو لہو پیپ سے بھر لینا اشعار سے بھر لینے سے بہتر ہے" صحیح مسلم، کتاب الشعر، باب فی انشاد الاشعار و بیان العشر الکلمتہ وذم العشر ٢٢٥٨
..........................
مطلب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو شاعر ہیں نہ کاہن ہیں، اس لیے کہ یہ دونوں ہی جھوٹے ہیں چنانچہ دوسرے مقامات پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر ہونے کی نفی کی گئی ہے- جیسے فرمان ہے کہ
..........................
"اور ہم نے ان (پیغمبر) کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے۔ یہ تو محض نصیحت اور صاف صاف قرآن (پُرازحکمت) ہے" سورہ یٰسین، ٦٩
.............................
امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید اور ابو داؤد نے ناسخ میں ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن ابی مردویہ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابو حسن سالم سے روایت نقل کی ہے کہ جب پہلی آیات نازل ہوئیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہوئے جبکہ وہ رو رہے تھے- انہوں‌ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا وہ جانتا ہے کہ ہم شعراء ہیں ہم تو ہلاک ہو گئے- تو اللہ تعالیٰ نے آخری آیت کو نازل فرمایا۔ (تفسیر طبری)
"مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد انتقام لیا اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں- سورہ الشعرآء ٢٢٧"
یعنی ایسے مومن شاعر ان کافر شعراء کا جواب دیتے ہیں جس میں انہوں نے مسلمانوں کی ہجو (برائی) کی ہو-
۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا
ان کفار کی ہجو کرو جبرئیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں-
صحیح بخاری ، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکہ صلوات اللہ علیہم ٣٢١٣
۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایسی شاعری جائز ہے جس میں کذب و مبالغہ نہ ہو اور جس کے ذریعہ سے مشرکین و کفار اور اہلِ باطل کو جواب دیا جائے اور توحید و سنّت کا اثبات کیا جائے-
لہذا آپ سب سے گزارش ہے کہ ایسی شاعری سے پرہیز کریں جس کی اجازت اسلام میں نہیں ہے۔ خود بھی عمل کریں اور دوسروں تک بھی قرآن کی تعلیمات پہنچائیں-
جزاک اللہ
 
یا الله دل کی دنیا بدل دے

یا الله ہم کس قدر غفلت سستی طاری ہے رمضان کا پورا ایک عشرہ گزر گیا اور ہم میں کوئی تڑپ کوئی بے چینی کوئی افسوس بھی نہیں اس قدر مطمئن کے جیسے ہم نےاس *مہینے کا حق ادا کردیا ہو نہ قرآن پاک کی تلاوت ہے نہ ذکر و ازکار نہ راتوں کو اٹھ کر الله سے آہو زاری ہے نہ ہی گناہوں پے ندامت ہے.اس کے بر عکس میرے نبی ﷺ *کا رمضان کیسا !" امی عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہے جس کا مفہوم ہے جب رمضان کا مہینہ تو نبی کریم ﷺ کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز مے اضافہ ہوجاتا تھا اور دعا *میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب ہوجاتا تھا . "

اور ہمارا کیا حال ہے ہم خوب جانتے ہیں میرے بھایوں اور میرے نبی ﷺ کوطائف کے موقع پہ کفّا ر نے پتھر مارے لیکن آپ نے بددعا نی دی، غزوہ احد میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے لیکن بد دعا نہیں دی. فتح مکّہ کے موقع آپ نے سب کو معاف کردیا.. کبھی زندگی میں کسی کو بددعا نی دی اپ نے لیکن اس شخص کے لیے بددعا فرمایی جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور اسکی مغفرت نہیں ہوئی
 
ﺍﯾﮏﺷﺨﺺﻧﮯﺑﮩﺘﺮﮔﮭﺮﺧﺮﯾﺪﻧﮯﮐﯿﻠﺌﮯﺍﭘﻨﺎﭘﮩﻠﮯﻭﺍﻻﮔﮭﺮﺑﯿﭽﻨﺎﭼﺎﮨﺎ۔ﺍﺱﻣﻘﺼﺪﮐﯿﻠﺌﮯﻭﮦﺍﭘﻨﮯﺍﯾﮏﺍﯾﺴﮯﺩﻭﺳﺖﮐﮯﭘﺎﺱﮔﯿﺎﺟﻮﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩﮐﯽﺧﺮﯾﺪﻭﻓﺮﻭﺧﺖﻣﯿﮟﺍﭼﮭﯽﺷﮩﺮﺕﺭﮐﮭﺘﺎﺗﮭﺎ۔ﺍﺱﺷﺨﺺﻧﮯﺍﭘﻨﮯﺩﻭﺳﺖﮐﻮﻣُﺪﻋﺎﺳﻨﺎﻧﮯﮐﮯﺑﻌﺪﮐﮩﺎﮐﮧﻭﮦﺍﺱﮐﮯﻟﺌﮯﮔﮭﺮﺑﺮﺍﺋﮯﻓﺮﻭﺧﺖﮐﺎﺍﯾﮏﺍﺷﺘﮩﺎﺭﻟﮑﮫﺩﮮ۔ﺍﺱﮐﺎﺩﻭﺳﺖﺍِﺱﮔﮭﺮﮐﻮﺑﮩﺖﮨﯽﺍﭼﮭﯽﻃﺮﺡﺳﮯﺟﺎﻧﺘﺎﺗﮭﺎ۔ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﮐﯽﺗﺤﺮﯾﺮﻣﯿﮟﺍُﺱﻧﮯﮔﮭﺮﮐﮯﻣﺤﻞﻭﻗﻮﻉ، ﺭﻗﺒﮯ، ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ،ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺗﯽﻣﻮﺍﺩ، ﺑﺎﻏﯿﭽﮯ، ﺳﻮﺋﻤﻨﮓﭘﻮﻝﺳﻤﯿﺖﮨﺮﺧﻮﺑﯽﮐﺎﺗﻔﺼﯿﻞﮐﮯﺳﺎﺗﮫﺫﮐﺮﮐﯿﺎ۔ﺍﻋﻼﻥﻣﮑﻤﻞﮨﻮﻧﮯﭘﺮﺍُﺱﻧﮯﺍﭘﻨﮯﺩﻭﺳﺖﮐﻮﯾﮧﺍﺷﺘﮩﺎﺭﭘﮍﮪﮐﺮﺳُﻨﺎﯾﺎﺗﺎﮐﮧﺗﺤﺮﯾﺮﭘﺮﺍُﺳﮑﯽﺭﺍﺋﮯﻟﮯﺳﮑﮯ۔ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﮐﯽﺗﺤﺮﯾﺮﺳُﻦﮐﺮﺍُﺱﺷﺨﺺﻧﮯﮐﮩﺎ، ﺑﺮﺍﺋﮯﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽﺍﺱﺍﺷﺘﮩﺎﺭﮐﻮﺫﺭﺍﺩﻭﺑﺎﺭﮦﭘﮍﮬﻨﺎ۔ ﺍﻭﺭﺍُﺱﮐﮯﺩﻭﺳﺖﻧﮯﺍﺷﺘﮩﺎﺭﺩﻭﺑﺎﺭﮦﭘﮍﮪﮐﺮﺳُﻨﺎﺩﯾﺎ۔ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﮐﯽﺗﺤﺮﯾﺮﮐﻮﺩﻭﺑﺎﺭﮦﺳُﻦﮐﻮﯾﮧﺷﺨﺺﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﭼﯿﺦﮨﯽﭘﮍﺍﮐﮧﮐﯿﺎﻣﯿﮟﺍﯾﺴﮯﺷﺎﻧﺪﺍﺭﮔﮭﺮﻣﯿﮟﺭﮨﺘﺎﮨﻮﮞ؟ ﺍﻭﺭﻣﯿﮟﺳﺎﺭﯼﺯﻧﺪﮔﯽﺍﯾﮏﺍﯾﺴﮯﮔﮭﺮﮐﮯﺧﻮﺍﺏﺩﯾﮑﮭﺘﺎﺭﮨﺎﺟﺲﻣﯿﮟﮐﭽﮫﺍﯾﺴﯽﮨﯽﺧﻮﺑﯿﺎﮞﮨﻮﮞ۔ ﻣﮕﺮﯾﮧﮐﺒﮭﯽﺧﯿﺎﻝﮨﯽﻧﮩﯿﮟﺁﯾﺎﮐﮧﻣﯿﮟﺗﻮﺭﮦﮨﯽﺍﯾﺴﮯﮔﮭﺮﻣﯿﮟﺭﮨﺎﮨﻮﮞﺟﺲﮐﯽﺍﯾﺴﯽﺧﻮﺑﯿﺎﮞﺗﻢﺑﯿﺎﻥﮐﺮﺭﮨﮯﮨﻮ۔ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽﮐﺮﮐﮯﺍﺱﺍﺷﺘﮩﺎﺭﮐﻮﺿﺎﺋﻊﮐﺮﺩﻭ، ﻣﯿﺮﺍﮔﮭﺮﺑﮑﺎﺅﮨﯽﻧﮩﯿﮟﮨﮯ۔ﺍﯾﮏﻣﻨﭧﭨﮭﮩﺮﯾﺌﮯ، ﻣﯿﺮﺍﻣﻀﻤﻮﻥﺍﺑﮭﯽﭘﻮﺭﺍﻧﮩﯿﮟﮨﻮﺍ۔ﺍﯾﮏﺑﮩﺖﭘﺮﺍﻧﯽﮐﮩﺎﻭﺕﮨﮯﮐﮧﺍﻟﻠﮧﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯﺟﻮﮐﭽﮫﻧﻌﻤﺘﯿﮟﺗﻤﮩﯿﮟﺩﯼﮨﯿﮟﺍﻥﮐﻮﺍﯾﮏﮐﺎﻏﺬﭘﺮﻟﮑﮭﻨﺎﺷﺮﻭﻉﮐﺮﺩﻭ، ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺍﺱﻟﮑﮭﺎﺋﯽﮐﮯﺑﻌﺪﺗﻤﮩﺎﺭﯼﺯﻧﺪﮔﯽﺍﻭﺭﺯﯾﺎﺩﮦﺧﻮﺵﻭﺧﺮﻡﮨﻮﺟﺎﺋﮯﮔﯽ۔ﺍﺻﻞﻣﯿﮟﮨﻢﺍﻟﻠﮧﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎﺷﮑﺮﮐﺮﻧﺎﮨﯽﺑﮭﻼﺋﮯﺑﯿﭩﮭﮯﮨﯿﮟﮐﯿﻮﮞﮐﮧﺟﻮﮐﭽﮫﺑﺮﮐﺘﯿﮟﺍﻭﺭﻧﻌﻤﺘﯿﮟﮨﻢﭘﺮﺑﺮﺱﺭﮨﯽﮨﯿﮟﮨﻢﺍُﻥﮐﻮﮔﻨﻨﺎﮨﯽﻧﮩﯿﮟﭼﺎﮨﺘﮯ۔ﮨﻢﺗﻮﺻﺮﻑﺍﭘﻨﯽﮔﻨﯽﭼﻨﯽﭼﻨﺪﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﺎﮞﯾﺎﮐﻤﯽﺍﻭﺭﮐﻮﺗﺎﮨﯿﺎﮞﺩﯾﮑﮭﺘﮯﮨﯿﮟﺍﻭﺭﺑﺮﮐﺘﻮﮞﺍﻭﺭﻧﻌﻤﺘﻮﮞﮐﻮﺑﮭﻮﻝﺟﺎﺗﮯﮨﯿﮟ۔ﮐﺴﯽﻧﮯﮐﮩﺎ : ﮨﻢﺷﮑﻮﮦﮐﺮﺗﮯﮨﯿﮟﮐﮧﺍﻟﻠﮧﻧﮯﭘﮭﻮﻟﻮﮞﮐﮯﻧﯿﭽﮯﮐﺎﻧﭩﮯﻟﮕﺎﺩﯾﺌﮯﮨﯿﮟ۔ ﮨﻮﻧﺎﯾﻮﮞﭼﺎﮨﯿﺌﮯﺗﮭﺎﮐﮧﮨﻢﺍﻟﻠﮧﮐﺎﺷﮑﺮﺍﺩﺍﮐﺮﺗﮯﮐﮧﺍُﺱﻧﮯﮐﺎﻧﭩﻮﮞﮐﮯﺍﻭﭘﺮﺑﮭﯽﭘﮭﻮﻝﺍُﮔﺎﺩﯾﺌﮯﮨﯿﮟ۔ﺍﯾﮏﺍﻭﺭﻧﮯﮐﮩﺎ : ﻣﯿﮟﺍﭘﻨﮯﻧﻨﮕﮯﭘﯿﺮﻭﮞﮐﻮﺩﯾﮑﮫﮐﺮﮐُﮍﮬﺘﺎﺭﮨﺎ، ﭘﮭﺮﺍﯾﮏﺍﯾﺴﮯﺷﺨﺺﮐﻮﺩﯾﮑﮭﺎﺟﺲﮐﮯﭘﺎﺅﮞﮨﯽﻧﮩﯿﮟﺗﮭﮯﺗﻮﺷﮑﺮﮐﮯﺳﺎﺗﮫﺍﻟﻠﮧﮐﮯﺳﺎﻣﻨﮯﺳﺠﺪﮮﻣﯿﮟﮔﺮﮔﯿﺎ۔ﺍﺏﺁﭖﺳﮯﺳﻮﺍﻝﮐﺘﻨﮯﺍﯾﺴﮯﻟﻮﮒﮨﯿﮟﺟﻮﺁﭖﺟﯿﺴﺎﮔﮭﺮ، ﮔﺎﮌﯼ، ﭨﯿﻠﯿﻔﻮﻥ، ﺗﻌﻠﯿﻤﯽﺳﻨﺪ، ﻧﻮﮐﺮﯼﻭﻏﯿﺮﮦ، ﻭﻏﯿﺮﮦ، ﻭﻏﯿﺮﮦﮐﯽﺧﻮﺍﮨﺶﮐﺮﺗﮯﮨﯿﮟ؟ﮐﺘﻨﮯﺍﯾﺴﮯﻟﻮﮒﮨﯿﮟﺟﺐﺁﭖﺍﭘﻨﯽﮔﺎﮌﯼﭘﺮﺳﻮﺍﺭﺟﺎﺭﮨﮯﮨﻮﺗﮯﮨﻮﺗﻮﻭﮦﺳﮍﮎﭘﺮﻧﻨﮕﮯﭘﺎﺅﮞﯾﺎﭘﯿﺪﻝﺟﺎﺭﮨﮯﮨﻮﺗﮯﮨﯿﮟ؟ﮐﺘﻨﮯﺍﯾﺴﮯﻟﻮﮒﮨﯿﮟﺟﻦﮐﮯﺳﺮﭘﺮﭼﮭﺖﻧﮩﯿﮟﮨﻮﺗﯽﺟﺐﺁﭖﺍﭘﻨﮯﮔﮭﺮﻣﯿﮟﻣﺤﻔﻮﻅﺁﺭﺍﻡﺳﮯﺳﻮﺭﮨﮯﮨﻮﺗﮯﮨﯿﮟ؟ﮐﺘﻨﮯﺍﯾﺴﮯﻟﻮﮒﮨﯿﮟﺟﻮﻋﻠﻢﺣﺎﺻﻞﮐﺮﻧﺎﭼﺎﮨﺘﮯﺗﮭﮯﺍﻭﺭﻧﺎﮐﺮﺳﮑﮯﺍﻭﺭﺗﻤﮩﺎﺭﮮﭘﺎﺱﺗﻌﻠﯿﻢﮐﯽﺳﻨﺪﻣﻮﺟﻮﺩﮨﮯ؟ﮐﺘﻨﮯﺑﮯﺭﻭﺯﮔﺎﺭﺷﺨﺺﮨﯿﮟﺟﻮﻓﺎﻗﮧﮐﺸﯽﮐﺮﺗﮯﮨﯿﮟﺍﻭﺭﺁﭖﮐﮯﭘﺎﺱﻣﻼﺯﻣﺖﺍﻭﺭﻣﻨﺼﺐﻣﻮﺟﻮﺩﮨﮯ؟ﺍﻭﺭﻭﻏﯿﺮﮦﻭﻏﯿﺮﮦﻭﻏﯿﺮﮦﮨﺰﺍﺭﻭﮞﺑﺎﺗﯿﮟﻟﮑﮭﯽﺍﻭﺭﮐﮩﯽﺟﺎﺳﮑﺘﯽﮨﯿﮟ۔۔۔ﮐﯿﺎﺧﯿﺎﻝﮨﮯﺍﺑﮭﯽﺑﮭﯽﺍﻟﻠﮧﮐﯽﻧﻌﻤﺘﻮﮞﮐﮯﺍﻋﺘﺮﺍﻑﺍﻭﺭﺍُﻧﮑﺎﺷﮑﺮﺍﺩﺍﮐﺮﻧﮯﮐﺎﻭﻗﺖﻧﮩﯿﮟﺁﯾﺎ
 
مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ جب کوئی ایک مظلوم
مسلمان دوسرے کو مدد کے لیے پکارتا ہے تو وہ اُسے
قرآن سے صبر کرنے والی آیات پڑھ کر سُنا دیتا ہے
حضرت واصف علی واصف۔
 
میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘
اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔ میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو؟‘‘ وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘
میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘ اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’ت...مہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘
یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔ آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘
اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میں اس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا
لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘ میں جان گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
-(جاوید چودھری از زیرو پوائنٹ)!!
 

ام اریبہ

محفلین
محترم بہن، اس کی نشاندہی کرنے کےمتعدد جملے ہو سکتے ہیں
( بالکل کو بلکل لکھنا ) اول تو یہ آپ کی غلطی ہے ہی نہیں، یہ تو کی بورڈ کی غلطی ہے
بالکل اس طرح " بلکل " ہی لکھا جا سکتا ہے اگر آپ کو پوسٹ زیادہ پسند ہو:)
بل کل اس طرح " بلکل " ہی لکھا جا سکتا ہے اگر آپ کو جلدی میں ہوں ( پھر آپ بھی جواب میں بل کل کو ٹھیک کرواسکتے ہیں :) )
آپ نیا کی بورڈ کیوں نہیں لے لیتے ہیں،
کیا آپ کے کی بورڈ کی ِA والی کی خراب ہے کہ کبھی تو کام کرتی ہے اور کبھی مس کر جاتی ہے
لیکن خاله جان آپ نے "بلکل" بالکل بھی ٹھیک نهیں کہا:)
آپ نے جلدی میں لکھا ہے شاید، آپ نے بالکل چیک نہیں کیا
وڈی باجی ، تہاڈی املا ٹھیک نی جے ہے، تسی املا چ غلطیاں کردے جے، تسی بالکال نوں بلکل لکھ دتا جے
:)
مینوں با لکل سمجھ نئی آئی
 
جنت کے حقدار

مجھ پر کل منکشف ہوا کہ جنت کے اصل حق دار میرے محلے دارحاجی نذیر صاحب ہیں۔ میں چونکہ ایک طے شدہ گنہگار ہوں لہٰذا مجھ پر شائد کبھی یہ عقدہ نہ کھلتا لہذا حاجی صاحب کو مجبوراً خود ہی یہ بات بتانا پڑی۔ حاجی صاحب ایک صاحب کرامت انسان ہیں، اپنے آستانے میں دم درود بھی کرتے ہیں ،چلے بھی کاٹتے ہیں، تعویز دھاگہ بھی کرتے ہیں اور ایزی لوڈ کی سہولت بھی رکھی ہوئی ہے۔آپ پہلے میری طرح ایک شدید گنہگار انسان تھے ، چہرے سے نحوست ٹپکتی تھی، لیکن جب سے خود کو جنت کا حقدار سمجھنا شروع کیا ہے ماشاءاللہ سارا دن نور میں گھرے رہتے ہیں، کبھی نور محمد آرہا ہے، کبھی نوردین جارہا ہے۔۔۔سنا ہے سید نور کو بھی قرب و جوار میں منڈلاتے دیکھا گیا ہے۔حاجی صاحب میرے بارے میں بڑے متفکر رہتے ہیں، کئی دفعہ بتا چکے ہیں کہ خواب میں تمہارے حوالے سے کوئی اچھے اشارے نہیں مل رہے، کافی تپش سی محسوس ہوتی ہے۔میں نے عرض کی کہ یا حاجی! مجھے کیا کرنا چاہیے؟ پیار سے بولے”کسی اللہ والے کے مرید ہوجاو“۔ میں نے ایسے کسی بندے کا ایڈریس پوچھا تو غصہ کرگئے ”ہم کیا ہنومان کے پجاری بیٹھے ہیں، بدبخت انسان ہم ہی تو ہیں اللہ والے“۔ میں نے غور سے ان کی طرف دیکھا، پھر سہم کر کہا”تو کیا آپ مجھے اپنا مرید بنانا چاہتے ہیں؟“۔ ان کی بھنویں تن گئیں”ابے جملہ ٹھیک کر، ہم اللہ والے ہیں، ہم مرید نہیں بناتے، لوگ ہمیں مرشد بناتے ہیں اور یوں خودبخود ہمارے مرید ہوجاتے ہیں۔“ اتنے میں ایک صاحب اندر آئے، جھک کر حاجی صاحب کو سلام کیا ، حاجی صاحب نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا، آنے والے نے حاجی صاحب کے ہاتھ پر ایک بوسہ دیا اور الٹے قدموں واپس پلٹ گیا۔میں نے پوچھا ”یہ کون تھا؟“۔۔۔مسکرا کر بولے”جنت کا مسافر“۔میں ہڑبڑا گیا، آپ کو کیسے پتا چلا؟ گھور کربولے، اللہ والوں کی نظریں بڑی دور تک دیکھ سکتی ہیں ۔میں نے جلدی سے کہا حاجی صاحب آج تاریخ کیا ہے؟ انہوں نے چونک کرغور سے دیوار پر لٹکے کیلنڈر کی طرف دیکھا، پھر بیزاری سے بولے” خود ہی دیکھ لو، یہاں سے صاف نظر نہیں آرہا“۔

جنت کے حقدار....گل نوخیز اختر
 
ایک سپیرا دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل بیاباں، کوہ و صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ سخت سردی کے موسم میں پہاڑوں میں سانپ تلاش کررہا تھا۔ اس نے ایک مُردہ اژدھا دیکھا جو بھاری کم اور قوی الجثہ تھا۔ اسے خیال آیا کہ اگر مُردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جاؤں تو دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا۔ لوگوں کے جمع ہوجانے سے میں خوب مال کمائوں گا۔ اژدھا کیا تھا ستون کا ستون تھا۔ سپیرا اسے بڑی مشکل سے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گھسیٹ کر شہر لے آیا۔ غرض سپیرے کے اس کارنامے سے شہر بغداد میں اودھم مچ گیا۔ تو چل میں چل، جس کے کانوں میں یہ خبر پہنچی کہ سپیرا ایک نادر قسم کا اژدھا پکڑکر لایا ہے، وہ سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ سینکڑوں و ہزاروں لوگ جمع ہوگئے۔بے پناہ سردی اور برف باری کی وجہ سے اژدھے کا جسم سُن ہوچکا تھا۔ برف سے ٹھٹھرنے کے باعث وہ مُردہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہجوم کی گرمی اور سورج کی روشنی سے اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدحواسی اور خوف سے جس کا جدھر منہ اٹھا اُدھر ہی بھاگا۔ جوں جوں آفتاب کی گرم دھوپ اژدھے پر پڑتی تھی توں توں اس کے جوڑ جوڑ اور بند بند میں زندگی نمودار ہوتی تھی۔ مارے دہشت کے سپیرے کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے جی میں کہا: غضب ہوگیا، یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا۔ اپنے ہاتھوں اپنی موت بلالی! ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا غار سا منہ کھول کر اس کو نگل لیا۔ پھر وہ رینگتا ہوا آگے بڑھا اور ایک بلند عمارت کے ستون سے اپنے آپ کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئیں۔درسِ حیات :٭ اے عزیزو! ہمارا نفس بھی اژدھے کی مانند ہے، اسے مُردہ مت سمجھیں۔ ذرائع اور وسائل نہ ہونے کے باعث ٹھٹھرا ہوا نظر آتا ہے … ﷲ تعالیٰ کی عبادت سے غفلت اور دنیا داری کی حرارت سے وہ حرکت میں آجاتا ہے اور تباہی پھیلاتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
جنت کے حقدار

مجھ پر کل منکشف ہوا کہ جنت کے اصل حق دار میرے محلے دارحاجی نذیر صاحب ہیں۔ میں چونکہ ایک طے شدہ گنہگار ہوں لہٰذا مجھ پر شائد کبھی یہ عقدہ نہ کھلتا لہذا حاجی صاحب کو مجبوراً خود ہی یہ بات بتانا پڑی۔ حاجی صاحب ایک صاحب کرامت انسان ہیں، اپنے آستانے میں دم درود بھی کرتے ہیں ،چلے بھی کاٹتے ہیں، تعویز دھاگہ بھی کرتے ہیں اور ایزی لوڈ کی سہولت بھی رکھی ہوئی ہے۔آپ پہلے میری طرح ایک شدید گنہگار انسان تھے ، چہرے سے نحوست ٹپکتی تھی، لیکن جب سے خود کو جنت کا حقدار سمجھنا شروع کیا ہے ماشاءاللہ سارا دن نور میں گھرے رہتے ہیں، کبھی نور محمد آرہا ہے، کبھی نوردین جارہا ہے۔۔۔سنا ہے سید نور کو بھی قرب و جوار میں منڈلاتے دیکھا گیا ہے۔حاجی صاحب میرے بارے میں بڑے متفکر رہتے ہیں، کئی دفعہ بتا چکے ہیں کہ خواب میں تمہارے حوالے سے کوئی اچھے اشارے نہیں مل رہے، کافی تپش سی محسوس ہوتی ہے۔میں نے عرض کی کہ یا حاجی! مجھے کیا کرنا چاہیے؟ پیار سے بولے”کسی اللہ والے کے مرید ہوجاو“۔ میں نے ایسے کسی بندے کا ایڈریس پوچھا تو غصہ کرگئے ”ہم کیا ہنومان کے پجاری بیٹھے ہیں، بدبخت انسان ہم ہی تو ہیں اللہ والے“۔ میں نے غور سے ان کی طرف دیکھا، پھر سہم کر کہا”تو کیا آپ مجھے اپنا مرید بنانا چاہتے ہیں؟“۔ ان کی بھنویں تن گئیں”ابے جملہ ٹھیک کر، ہم اللہ والے ہیں، ہم مرید نہیں بناتے، لوگ ہمیں مرشد بناتے ہیں اور یوں خودبخود ہمارے مرید ہوجاتے ہیں۔“ اتنے میں ایک صاحب اندر آئے، جھک کر حاجی صاحب کو سلام کیا ، حاجی صاحب نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا، آنے والے نے حاجی صاحب کے ہاتھ پر ایک بوسہ دیا اور الٹے قدموں واپس پلٹ گیا۔میں نے پوچھا ”یہ کون تھا؟“۔۔۔مسکرا کر بولے”جنت کا مسافر“۔میں ہڑبڑا گیا، آپ کو کیسے پتا چلا؟ گھور کربولے، اللہ والوں کی نظریں بڑی دور تک دیکھ سکتی ہیں ۔میں نے جلدی سے کہا حاجی صاحب آج تاریخ کیا ہے؟ انہوں نے چونک کرغور سے دیوار پر لٹکے کیلنڈر کی طرف دیکھا، پھر بیزاری سے بولے” خود ہی دیکھ لو، یہاں سے صاف نظر نہیں آرہا“۔

جنت کے حقدار....گل نوخیز اختر
stock-photo-young-man-with-finger-on-lips-is-gesturing-hush-176820701.jpg
 
شعور کی ایک سطح وہ ہے جہاں انسان بد کلامی کا جواب بد کلامی سے دیتا ہے، اینٹ کے جواب میں پتھر دے مارتا ہے- شعور کی دوسری سطح وہ ہے جہاں انسان بد کلامی کے جواب میں خاموشی اختیار کرتا ہے اور اور بد کلامی کرنے والے کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے- شعور کی ایک تیسری سطح بھی ہے- اس میں انسان نہ صرف یہ کہ اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے بلکہ برے اخلاق کا جواب بہترین اخلاق سے دیتا ہے- شعور کی یہی تیسری سطح ہے جو بد ترین دشمن کو بہترین دوست میں تبدیل کر دیتی ہے اور جس کی وجہ سے معاشرہ میں اچھا اخلاق پروان چڑھتا ہے"
 
سودا
میں نے آہٹ سنی تو آنکھیں کھول کے دیکھا، سر پر ملک الموت کھڑا تھا۔
میں اُس وقت کمرے میں لیٹا تھا، امّی سو رہی تھیں۔
’’کیوں آئے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’تمھاری امّی کو لے جانا ہے۔‘‘ اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
میرا دل ڈوب گیا، آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’ایسا مت کرو۔‘‘ میں گڑگڑایا’’مجھے امّی سے بہت پیار ہے۔‘‘

’’میں اکیلا واپس نہیں جاسکتا۔‘‘ وہ بولا۔
’’آئو، ایک سودا کرتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا،
’’تم امّی کے بجائے مجھے ساتھ لے چلو۔‘‘
’’میں تمھیں ہی لینے آیا تھا۔‘‘ اُس نے بتایا، ’’لیکن تمھاری ماں نے پہلے سودا کر لیا۔‘‘
بشکریہ : اردو ڈائجسٹ
 
ایک پہاڑ کی چوٹی پر لگےد رخت پر ایک عقاب نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا جس میں اس کے دیئے ہوئے چار انڈے پڑے تھے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے ایک انڈا نیچے گراجہاں ایک مرغی کا ٹھکانہ تھا۔ مرغی نے عقاب کے انڈے کو اپنا انڈا سمجھا اور اپنے نیچے رکھ لیا۔ ایک دن اس انڈے میں سے ایک پیارا سا ننھا منا عقاب پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو مرغی کا چوزہ سمجھتے ہوئے پرورش پائی اور مرغی سمجھ کر بڑا ہوا۔
ایک دن باقی مرغیوں کےساتھ کھیلتے ہوئے اس نے آسمان کی بلندیوں پر کچھ عقاب اڑتے دیکھے۔ اس کا بہت دل چاہا کہ کاش وہ بھی ایسے اڑ سکتا! جب اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار دوسری مرغیوں سے کیا تو انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا تم ایک مرغی ہو اور تمہارا کام عقابوں کی طرح اڑنا نہیں۔ کہتے ہیں اس کے بعد اس عقاب نے اڑنے کی حسرت دل میں دبائے ایک لمبی عمر پائی اور مرغیوں کی طرح جیتا رہا اور مرغیوں کی طرح ہی مرا۔۔

اگر آپ عقاب ہیں اور آپ کے خواب آسمان کی بلندیوں میں اڑنے کے ہیں تو پھر اپنے خوابوں کو عملی جامہ دیجیئے، کسی مرغی کی بات پر دھیان نہ دیجیئے کیونکہ انہوں نے آپکو بھی اپنے ساتھ ہی پستیوں میں ڈالے رکھنا ہے۔
جب معاملات آگے نہ بڑھ رہے ہوں تو اپنی روزمرہ کی عادتوں سے ہٹ کر کچھ کرنا بھی کامیابیوں کو آسان بناتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تحریر: نامعلوم
 

زیک

مسافر
سودا
میں نے آہٹ سنی تو آنکھیں کھول کے دیکھا، سر پر ملک الموت کھڑا تھا۔
میں اُس وقت کمرے میں لیٹا تھا، امّی سو رہی تھیں۔
’’کیوں آئے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’تمھاری امّی کو لے جانا ہے۔‘‘ اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
میرا دل ڈوب گیا، آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’ایسا مت کرو۔‘‘ میں گڑگڑایا’’مجھے امّی سے بہت پیار ہے۔‘‘

’’میں اکیلا واپس نہیں جاسکتا۔‘‘ وہ بولا۔
’’آئو، ایک سودا کرتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا،
’’تم امّی کے بجائے مجھے ساتھ لے چلو۔‘‘
’’میں تمھیں ہی لینے آیا تھا۔‘‘ اُس نے بتایا، ’’لیکن تمھاری ماں نے پہلے سودا کر لیا۔‘‘
بشکریہ : اردو ڈائجسٹ
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ تحریر کس کی یے؟
 
Top