خود كو مارا ہے كے مارا ہے كے پھر مار لیا

تازہ غزل . . .
اب كے بے چین وفاؤں سے ملی مجھ كو نجات
میں نے كل رات محبت كا گلہ گھونٹ دیا

میرے نالوں پہ دہائی نہ دلاسے دینا
میں نے بجھتے ہوئے اشكوں كو بہت یاد كیا

طوفِ كعبہ كو بھی دل روند كے جاتے ہیں یہ لوگ
جس نے چاہا تھا بھلا اس كا بھلا ہو ہی گیا

اك روایت ہے كے لڑتے ہی رہے ہیں یہ فقیر
خود كو مارا ہے كے مارا ہے كے پھر مار لیا

ساری خلقت كو مرے ظرف سے كچھ خار رہی
زندگی تجھ سے الگ ہو كے بھی جمشیدؔ جیا
( اسامہ جمشیدؔ )
 
Top