حسان خان
لائبریرین
جنابِ «محمد فُضولی بغدادی» کی ایک فارسی غزل:
خوب میدانم وفا از خود، جفا از یارِ خود
زان که او در کارِ خود خوب است و من در کارِ خود
بِگْذر از آزارم ای بدخواه بر خود رحم کن
ور نه میسوزم تو را با آهِ آتشبارِ خود
برقِ آهِ آتشینم میگُدازد سنگ را
میدِهد بدخواه در آزارِ من آزارِ خود
من کِیَم تا افکنَد آن سرْو بر من سایهای؟
کاش بِگْذارد مرا در سایهٔ دیوارِ خود
میکند هر لحظه روزم را سیاه از دودِ آه
میکَشم صد آه هر دم از دلِ افگارِ خود
ای که از دستِ دلم هر دم شکایت میکنی
گر نمیخواهی، برافشان طُرّهٔ طرّارِ خود
کردهام اقرارِ جان دادن فضولی در رهش
گر کُشندم برنخواهم گشت از اقرارِ خود
(محمد فضولی بغدادی)
میں اپنی جانب سے وفا، اور اپنے یار کی جانب سے جفا کو خوب و بہتر سمجھتا ہوں۔۔۔ کیونکہ وہ اپنے کار میں خوب ہے، اور میں اپنے کار میں۔ (یعنی شاعر کہہ رہا ہے کہ میری نظر میں مُناسب و بہتر یہی ہے کہ میری جانب سے وفا ہو، اور یار کی جانب سے جفا ہو، کیونکہ میں وفا کرنے میں ماہر ہوں، جبکہ میرا یار جفا کرنا بخوبی جانتا ہے۔)
اے بدخواہ! مجھ کو آزار دینا تَرک کر دو [اور] خود پر رحم کرو۔۔۔ ورنہ مَیں خود کی آہِ آتش بار سے تم کو جلا دوں گا۔۔۔
میری آہِ آتشیں کی برق سنگ کو پِگھلا دیتی ہے۔۔۔ [لہٰذا] بدخواہ مجھ کو آزار دینے میں [در حقیقت] خود [ہی] کو آزار دیتا ہے۔
میں کون ہوں کہ وہ [محبوبِ] سرْو قامت مجھ پر ذرا سایہ ڈالے؟۔۔۔ [یہی کافی ہے کہ] کاش وہ مجھ کو اپنی دیوار کے سائے میں جانے دے دے!
[میرا دل اپنی] آہ کے دُھوئیں سے ہر لمحہ میرے روز کو سیاہ کر دیتا ہے۔۔۔ میں اپنے دلِ مجروح کے باعث ہر دم صد آہیں کھینچتا ہوں!
اے [محبوب] کہ جو ہر دم میرے دل کے سبب شکایت کرتے ہو!۔۔۔ اگر تم [ایسا] نہیں چاہتے تو اپنی زُلفِ طرّار کو بِکھرا دو۔
اے فُضولی! میں نے اُس کی راہ میں جان دینے کا اِقرار [و پَیماں] کیا ہے۔۔۔ اگر مجھ کو قتل کر دیں [تو بھی] میں خود کے اِقرار [و پَیماں] سے نہیں پلٹوں گا۔
خوب میدانم وفا از خود، جفا از یارِ خود
زان که او در کارِ خود خوب است و من در کارِ خود
بِگْذر از آزارم ای بدخواه بر خود رحم کن
ور نه میسوزم تو را با آهِ آتشبارِ خود
برقِ آهِ آتشینم میگُدازد سنگ را
میدِهد بدخواه در آزارِ من آزارِ خود
من کِیَم تا افکنَد آن سرْو بر من سایهای؟
کاش بِگْذارد مرا در سایهٔ دیوارِ خود
میکند هر لحظه روزم را سیاه از دودِ آه
میکَشم صد آه هر دم از دلِ افگارِ خود
ای که از دستِ دلم هر دم شکایت میکنی
گر نمیخواهی، برافشان طُرّهٔ طرّارِ خود
کردهام اقرارِ جان دادن فضولی در رهش
گر کُشندم برنخواهم گشت از اقرارِ خود
(محمد فضولی بغدادی)
میں اپنی جانب سے وفا، اور اپنے یار کی جانب سے جفا کو خوب و بہتر سمجھتا ہوں۔۔۔ کیونکہ وہ اپنے کار میں خوب ہے، اور میں اپنے کار میں۔ (یعنی شاعر کہہ رہا ہے کہ میری نظر میں مُناسب و بہتر یہی ہے کہ میری جانب سے وفا ہو، اور یار کی جانب سے جفا ہو، کیونکہ میں وفا کرنے میں ماہر ہوں، جبکہ میرا یار جفا کرنا بخوبی جانتا ہے۔)
اے بدخواہ! مجھ کو آزار دینا تَرک کر دو [اور] خود پر رحم کرو۔۔۔ ورنہ مَیں خود کی آہِ آتش بار سے تم کو جلا دوں گا۔۔۔
میری آہِ آتشیں کی برق سنگ کو پِگھلا دیتی ہے۔۔۔ [لہٰذا] بدخواہ مجھ کو آزار دینے میں [در حقیقت] خود [ہی] کو آزار دیتا ہے۔
میں کون ہوں کہ وہ [محبوبِ] سرْو قامت مجھ پر ذرا سایہ ڈالے؟۔۔۔ [یہی کافی ہے کہ] کاش وہ مجھ کو اپنی دیوار کے سائے میں جانے دے دے!
[میرا دل اپنی] آہ کے دُھوئیں سے ہر لمحہ میرے روز کو سیاہ کر دیتا ہے۔۔۔ میں اپنے دلِ مجروح کے باعث ہر دم صد آہیں کھینچتا ہوں!
اے [محبوب] کہ جو ہر دم میرے دل کے سبب شکایت کرتے ہو!۔۔۔ اگر تم [ایسا] نہیں چاہتے تو اپنی زُلفِ طرّار کو بِکھرا دو۔
اے فُضولی! میں نے اُس کی راہ میں جان دینے کا اِقرار [و پَیماں] کیا ہے۔۔۔ اگر مجھ کو قتل کر دیں [تو بھی] میں خود کے اِقرار [و پَیماں] سے نہیں پلٹوں گا۔
آخری تدوین: