افتخار عارف خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے (افتخار عارف)

عدیل ہاشمی

محفلین
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں تک نہ بتائے
ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ پڑے
ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

وہی پیماں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت
اسی پیماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف
 

فلسفی

محفلین
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

واہ فیض کا ایک قطعہ یاد آ گیا کہ

ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے​
 

عدیل ہاشمی

محفلین
واہ فیض کا ایک قطعہ یاد آ گیا کہ

ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے​


دامن ضبط بھگو دینے کو جی چاہتا ہے
اتنا تنہا ہوں کہ رو دینے کو جی چاہتا ہے
اعتبار ساجد
 
Top