فارسی شاعری خندان اگر نمی‌کنی، گریان مکن مرا - تاجک شاعر لائق شیرعلی (مع اردو ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
گر قابلِ ملال نیَم، شاد کن مرا
ویران اگر نمی‌کنی، آباد کن مرا

(صائب)
اگر میں آزردگی کے قابل نہیں ہوں، تو مجھے شاد (ہی) کر دو؛ اگر مجھے ویران نہیں کرتے، تو مجھے آباد (ہی) کر دو۔

خندان اگر نمی‌کنی، گریان مکن مرا
آباد اگر نمی‌کنی، ویران مکن مرا

اگر تم مجھے خنداں نہیں کرتے تو مجھے گریاں (بھی) مت کرو؛ اگر تم مجھے آباد نہیں کرتے تو مجھے ویران (بھی) مت کرو۔

خوش‌بخت اگر نمی‌کنی، از بخت دم مزن
شادان اگر نمی‌کنی، نالان مکن مرا

اگر مجھے خوش بخت نہیں کر سکتے تو بخت کی باتیں (بھی) مت کرو؛ اگر تم مجھے شاداں نہیں کرتے تو مجھے نالاں (بھی) مت کرو۔

در چارسوی زندگی تا کوی زندگی
رهبان اگر نمی‌شوی، سرسان مکن مرا

زندگی کے چوراہے پر زندگی کے کوچے تک اگر تم میرے رہبر نہیں بنتے تو مجھے سرگرداں و آوارہ (بھی) مت کرو۔

حیرانِ دل نبوده‌ای یک لحظه خود به خود
با لاف و با گزاف‌ها حیران مکن مرا

تم ایک لمحے بھی خود بخود اور اپنے ارادے سے سرگشتۂ دل نہیں رہے ہو (لہٰذا) اپنی (عاشقی کی) لاف زنیوں سے مجھے حیران مت کرو (یا حیران کرنے کی کوشش مت کرو‌)۔
[لاف زنی = ڈینگیں مارنا]

جانت تهی‌ست از غمِ جان‌سوزِ عاشقی
دستِ تهی تو این همه دستان مکن مرا

تمہاری جان عاشقی کے غمِ جاں سوز سے خالی ہے؛ (لہٰذا) اپنے تہی ہاتھوں کے ساتھ مجھے یہ سب فریب مت دو۔

دنیا ندیده، وعدهٔ دنیا مده به من
دریا ندیده، تشنهٔ طوفان مکن مرا

دنیا دیکھے بغیر مجھ سے وعدۂ دنیا مت کرو؛ دریا دیکھے بغیر مجھے تشنۂ طوفاں مت کرو۔

(لایق شیرعلی)
۴ دسمبر ۱۹۸۲ء
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چند نِکات:
  • یہ غزل فارسی کے ماوراءالنہری لہجے میں گائی گئی ہے۔ چونکہ ماوراءالنہری لہجے میں ایرانی لہجے کے برخلاف یائے مجہول موجود ہے اور وہاں علامتِ اسمترار 'می' بھی یائے مجہول کے ساتھ تلفظ ہوتا ہے، لہٰذا اس غزل میں گلوکارہ نے نمی‌کنی کو namekuni پڑھا ہے جبکہ ایران میں یہی لفظ nemikoni پڑھا جاتا۔ ضمناً، افغان فارسی لہجے میں بھی یائے مجہول کی صوت موجود ہے۔
  • ماوراءالنہری لہجے میں اضافت کی آواز اِ/i ہے، اس لیے 'وعدهٔ دنیا' کا تلفظ وعدہ اِ دنیا اور 'غمِ جانسوزِ عاشقی' کا تلفظ غم اِ جانسوز اِ عاشقی کیا گیا ہے۔
  • سرسان بمعنی 'سرگشتہ، آوارہ، آشفتہ' ماوراءالنہری اور افغان فارسی میں مستعمل لفظ ہے جو ایران میں استعمال نہیں ہوتا۔
  • آخری شعر میں بھی ماوراءالنہری فارسی کا محاورہ استعمال ہوا ہے۔ اس محاورے کی دو مثالیں دیکھیے:
کتاب خواندہ گفتم.
میں نے کتاب پڑھ کر کہا۔
او آرزوهایش را عملی نکرده از دنیا رفت.
وہ اپنی آرزوؤں کو عملی جامہ پہنائے بغیر دنیا سے چلا گیا۔
  • یہ حقیقت یہاں اتنی معروف نہیں ہے کہ جس سرزمین پر ریاستِ ازبکستان واقع ہے وہاں شُورَوی (سوویت) اتحاد کی تشکیل تک فارسی سرکاری و رسمی زبان تھی اور ابھی بھی وہاں کی دس فیصد آبادی فارسی گو ہے۔ بالخصوص ازبکستان کے دو تاریخی شہروں سمرقند اور بخارا کی اکثریتی آبادی تا حال فارسی میں تکلم کرتی ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
چند نکات:
  • یہ غزل فارسی کے ماوراءالنہری لہجے میں گائی گئی ہے۔ چونکہ ماوراءالنہری لہجے میں ایرانی لہجے کے برخلاف یائے مجہول موجود ہے اور وہاں علامتِ اسمترار 'می' بھی یائے مجہول کے ساتھ تلفظ ہوتا ہے، لہٰذا اس غزل میں گلوکارہ نے نمی‌کنی کو namekuni پڑھا ہے جبکہ ایران میں یہی لفظ nemikoni پڑھا جاتا۔ ضمناً، افغان فارسی لہجے میں بھی یائے مجہول کی صوت موجود ہے۔
  • ماوراءالنہری لہجے میں اضافت کی آواز اِ/i ہے، اس لیے 'وعدهٔ دنیا' کا تلفظ وعدہ اِ دنیا اور 'غمِ جانسوزِ عاشقی' کا تلفظ غم اِ جانسوز اِ عاشقی کیا گیا ہے۔
  • سرسان بمعنی 'سرگشتہ، آوارہ، آشفتہ' ماوراءالنہری اور افغان فارسی میں مستعمل لفظ ہے جو ایران میں استعمال نہیں ہوتا۔
  • آخری شعر میں بھی ماوراءالنہری فارسی کا محاورہ استعمال ہوا ہے۔ اس محاورے کی دو مثالیں دیکھیے:
کتاب خواندہ گفتم.
میں نے کتاب پڑھ کر کہا۔
او آرزوهایش را عملی نکرده از دنیا رفت.
وہ اپنی آرزوؤں کو عملی جامہ پہنائے بغیر دنیا سے چلا گیا۔​
  • یہ حقیقت یہاں اتنی معروف نہیں ہے کہ جس سرزمین پر ریاستِ ازبکستان واقع ہے وہاں سوویت اتحاد کی تشکیل تک فارسی سرکاری و رسمی زبان تھی اور ابھی بھی وہاں کی دس فیصد آبادی فارسی گو ہے۔ بالخصوص ازبکستان کے دو تاریخی شہروں سمرقند اور بخارا کی اکثریتی آبادی تا حال فارسی میں تکلم کرتی ہے۔
حسان خان آپ کی فارسی دانی پر رشک آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نظر ِ بد سے محفوظ رکھے ۔ وارث صاحب اور آپ یہ بہت ہی مفید اور معیاری کام کررہے ہیں ۔ علم و ادب کے یہ موتی یونہی بکھیرتے رہئے ۔
 
Top