خطرناک لاشیں ۔صفحہ 56 سے 65 ۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حجاب

محفلین
خطرناک لاشیں۔
صفحہ 56 سے 65 ۔

کیا مصیبت ہے ۔رحمان صاحب بولے ۔
مصیبت ہی ہے ڈیڈی ، دنیا کی کوئی نرس اس کی پرورش کرنے پر آمادہ نہ ہوسکے گی۔خدا کے لیئے جلد ایک لنگوٹی کا انتظام کیجئے۔
عمران گدھے خاموش رہو۔
خاموشی کا وقت گزر گیا ڈیڈی ، کیا کہا تھا فیاض نے کہ ایک لاوارث مردے پر شاہد کا میک اپ کیا گیا ہے۔
ہاں ، یہی کہتا تھا۔
اگر یہ شاہد نہ ہو تو میں قسم کھاتا ہوں کہ آج ہی گرداس پور چلا جاؤں گا۔لیکن خدارا جلد ہی اس بالغ نوزائیدہ کے لیئے کپڑوں کا انتظام کرائیے ۔۔۔۔ اور کیپٹن فیاض سے بھی ہاتھ دھو لیجئے ۔
کیا مطلب !!!!!!!
اگر یہ شاہد نہیں ہے تب تو ٹھیک ہی ہے ورنہ کل فیاض بھی دوبارہ پیدا ہوکر دکھا دے گا۔پتہ نہیں تم کیا بک رہے ہو ۔رحمان صاحب نے پریشان لہجے میں کہا اور شاہد کی طرف بڑھ گئے ۔لوگوں میں ہراس پھیل رہا تھا ۔جلد ہی ایک چادر کا انتظام کرکے شاہد کو اُٹھایا گیا ۔لیکن وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ نوزائیدہ بچّے کی طرح بدستور روئے جا رہا تھا۔
رحمان صاحب نے وہ تمام طریقے اختیار کئے جن سے ہر قسم کا میک اپ ختم ہوسکتا تھا لیکن شاہد کی شکل میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی ۔
پھر اسے ایک اسٹریچر پر ڈال کر پولیس ہسپتال روانہ کردیا گیا۔
رحمان صاحب نے عمران سے کہا۔چلو میرے ساتھ چلو۔
مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے ڈیڈی۔
چلو بکواس نہ کرو ، ورنہ بری طرح پیش آؤں گا۔
وہ اسے اپنے آفس میں لائے اور کرسی کی طرف دیکھ کر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے ۔
اب بتاؤ کہ تم اس کیس کے بارے میں کیا جانتے ہو۔
ابھی تک لاشیں دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتی تھیں لیکن آج ایک لاش ۔۔۔۔!“
یہ میں بھی جانتا ہوں ۔۔۔۔۔سارا شہر جانتا ہے ! تم فیاض کے بارے میں کیا کہہ رہے تھے ۔
یہی کہ اس کا موجودہ عہدہ اُس کے لیئے ایک بہت بڑا بار ہے۔
میں تمہیں یہاں اس لیئے نہیں لایا کہ تم یہاں بیٹھ کر عہدوں میں ردّوبدل کرو۔
عمران کچھ نہ بولا ۔
بولو ! تم اس کیس کے بارے میں کیا جانتے ہو۔
جب آپ کا اتنا بڑا محکمہ بے بس ہوکر رہ گیا ہے تو میں بے چارہ ایک بے وسیلہ آدمی کیا جان سکوں گا۔
فیاض نے مجھے بتایا تھا کہ تم پاگل لڑکی کے لیئے چھان بین کر رہے تھے ۔
پاگل ہونے سے پہلے کی بات ہے ڈیڈی ۔عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔میں تو ان عورتوں سے بھی دور بھاگتا ہوں جو پاگل نہیں ہیں۔۔۔۔۔ چہ جائے کہ پاگل عورتیں۔۔۔۔ارے باپ رے ۔
بہتر ہے کہ تم حوالات میں آرام کرو۔رحمان صاحب نے ہاتھ گھنٹی کی طرف بڑھایا۔
ٹٹ ، ٹھہریئے ۔۔۔۔ عمران ہاتھ اُٹھا کر بولا۔ جلدی نہ کیجئے ۔
کیا فیاض نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں سے بول رہا ہے ۔
نہیں ۔
اور نہ ہی اپنی اسکیم کے متعلق بتایا تھا ۔
اور آج بھی اس نے ابھی تک وعدے کے مطابق دوبارہ فون نہیں کیا تھا۔
قطعی نہیں۔
تب آپ یقین کریں کہ وہ انہیں لوگوں کے ہاتھ میں پڑ گیا ہے جن کا تعلق لاشوں سے ہے۔
یہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔
اس طرح کہ وہ کسی لاوارث مردے کی لاش نہیں تھی ، شاہد ہی تھا ۔
رحمان صاحب کسی سوچ میں پڑ گئے ۔پھر بولے ۔مگر مصیبت تو یہ ہے کہ وہ بھی پاگل ہو گیا ہے۔
خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ پاگل ہوگیا ہے یا دوبارہ پیدا ہوا ہے۔
تم اپنی بکواس بند نہیں کرو گے ۔
اگر حوالات کا آرام پسند آیا تو یقیناً کردوں گا ڈیڈی ۔
رحمان صاحب چند لمحے عمران کو گھورتے رہے پھر بولے ۔
میں بہت پریشان ہوں ، میں بہت پریشان ہوں یہ میرے محکمے کی پرسٹیج کا سوال ہے۔
خواہ میری گردن کٹ جائے لیکن آپ کے محکمے کی شان برقرار رہے گی۔
تم کیا کرو گے ؟
جو ہمیشہ کرتا رہا ہوں اگر آپ کی یادداشت میں میرا کوئی ناکام کیس بھی ہو تو ضرور بتائیے ۔
تم مجھے اس کیس کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے ۔
میں ابھی کیا بتاؤں ڈیڈی جب کے بہتیری باتیں اب بھی میرے ذہن میں صاف نہیں ہوئیں ، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کیس فیاض ہی کا بگاڑا ہوا ہے ، اور وہ اپنی عقلمندیوں کی بدولت کسی مصیبت میں گرفتار ہوگیا ہے۔
کیوں اس نے کیا کیا تھا ؟
ہلدا کی شناخت ہوجانے پر اسے احتیاط سے کام لینا چاہیئے تھا ۔کیا ضرورت تھی کہ شاہد اُس سے مل بیٹھتا۔
مل بیٹھتا کیا مطلب ؟؟
اوہ ۔۔۔۔ تو آپ کو پوری طرح باخبر بھی نہیں رکھا گیا۔
نہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
عمران نے شاہد اور ہلدا کی داستان دہراتے ہوئے کہا ۔ میں نے فیاض کو اس سے باز رکھنے کی بھی کوشش کی تھی ! لیکن ۔۔۔۔۔ کون سنتا ہے ۔۔۔۔۔ اور ہلدا تک اس کے فرشتے بھی نہ پہنچ سکتے تھے یہ تدبیر میں نے ہی بتائی تھی کہ غیر ملکیوں کے شناختی فارم نکلوائے جائیں ۔
یقیناً ان لوگوں سے بڑی حماقت سرزد ہوئی ۔
اب نہیں کہا جا سکتا کہ کل کیا ہو ، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ فیاض بھی شاہد ہی کی تقلید کرتا ہوا نظر آئے ۔
کیوں ؟؟؟؟
مجھے یقین ہے کہ فیاض انہیں لوگوں کے پاس ہے ، اور کل اسے مجبور کیا گیا تھا کہ وہ آپ کو فون کرے ۔اس طرح وہ لوگ دراصل یہ چاہتے تھے کہ لاش کچھ دیر تک یونہی پڑی رہے اسے چھیڑا نہ جائے اگر چھیڑی جاتی تو ممکن تھا کہ وہ بھی انہیں دو لاشوں کی طرح برسٹ ہوجاتی ۔
یہ کیس میری سمجھ سے باہر ہے ! رحمان صاحب اُکتا کر بولے ۔
دیکھیئے نا لاش کو صرف پولیس ہی ہاتھ لگا سکتی ہے ، وہ چاہتے تھے کہ آفیسر کو اس سلسلے میں استعمال کیا جائے ، فیاض سے وہ سب کچھ زبردستی کہلوایا گیا ہوگا جو اس نے کہا تھا ۔پھر آپ نے بھی تو وہی کیا جو اس نے کہا تھا ۔دور رہ کر لاش کی نگرانی کی جاتی رہی اور پھر وہ لاش پھٹ جانے کی بجائے اپنا انگوٹھا چوسنے لگی ۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو ، رحمان صاحب مضطربانہ انداز میں بولے ، مگر اب کیا کیا جائے ؟
یہ بتانا مشکل ہے کہ اب کیا کیا جائے مجھے تو جو کچھ کرنا ہوتا ہے صرف موقع پر ہی کر گزرتا ہوں ۔رحمان صاحب خاموش ہوگئے ۔اور عمران کچھ دیر بعد ان سے اجازت طلب کر کے اُٹھ گیا ۔

جولیانافٹنر واٹر کے فون کی گھنٹی بجی اور اس نے ریسیور اُٹھا لیا ، دوسری طرف ایکس ٹو تھا ۔
رپورٹ !!!!! اس کی آواز میں غراہٹ تھی۔
شاہد کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، وہ بالکل نوزائیدہ بچّوں ہی کی طرح رو رہا ہے۔اگر اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تب بھی اس کا رویہ سمجھ دار آدمیوں کا سا نہیں ہوتا ، یہ کیا قصّہ ہے جناب۔
صفدر کی رپورٹ ۔
ابھی تک اس کی طرف سے کوئی رپورٹ نہیں ملی ۔
تم قصّہ پوچھتی ہو ۔
جی ہاں ۔۔۔ ایسی حیرت انگیز باتیں آج تک ۔۔۔۔۔
میری نظروں سے بھی نہیں گذریں ۔لیکن اگر گذریں بھی تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔
آخر یہ لاش بھی اسی طرح دھماکے سے پھٹ کیوں نہیں گئی ۔
یہی تو دیکھنا ہے۔
کیا اس کیس کا بھی اپنے ہی محکمے سے تعلق ہوسکتا ہے۔
ہو یا نہ ہو ۔مگر میں اس میں دلچسپی لے رہا ہوں۔
کیا میں اس سلسلے میں کچھ کرسکتی ہوں؟
نہیں ! ایکس ٹو نے خشک لہجے میں کہا ۔تمہاری لاش شہر کے لیئے وبالِ جان بن جائے گی۔
جولیا کو اس بات پر شرمندگی بھی ہوئی اور غصّہ بھی آیا۔
سنو ! آج مجھے پل پل کی خبریں سناؤ ! دوسری طرف سے آواز آئی۔
بہت بہتر جناب۔
اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔


عمران نے بلیک زیرو کے نمبر ڈائل کیئے۔
کیا خبر ہے۔
میں صفدر کا تعاقب کرتا رہا ہوں، لیکن اُس کی دوڑ صرف مارتھا کے گھر تک رہتی ہے۔
آج تم بہت زیادہ ہوشیار ہو گے بلیک زیرو۔
میں ہمیشہ ہی ہوشیار رہتا ہوں جناب۔
صفدر پر نظر رکھو ۔۔۔۔۔ جہاں بھی جائے برابر اس کا تعاقب کرتے رہو۔
بہت بہتر جناب۔
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
اب وہ کچھ دیر سکون سے بیٹھ کر صرف سوچنا چاہتا تھا۔لیکن اسے اس کا موقع نہ ملا پرائیویٹ فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔
اس نے ریسیور اُٹھایا ، دوسری طرف سے جولیا بول رہی تھی۔
صدیقی کی رپورٹ ہے جناب۔
خاموش مت ہوا کرو ، میں بہت عدیم الفرصت میں رہتا ہوں۔
اس نے ڈاکٹر گلبرٹ کو دیکھ لیا ہے۔یہ ایک لمبا تڑنگا انگریز ہے اور چہرے پر بھوری داڑھی رکھتا ہے۔
پیشہ !“
ڈاکٹر ہے ! وہیں سول لائینز میں مطب کرتا ہے۔
اس کے متعلق کوئی اہم اطلاع ۔
جی نہیں کوئی اہم اطلاع نہیں ہے ! صدیقی نے اتنا ہی بتایا ہے۔
اس دوران میں داور تو اس کے ساتھ نہیں دیکھا گیا ۔
جی نہیں ۔
داور کے متعلق کیا رپورٹ ہے۔
ابھی تک کوئی خاص رپورٹ نہیں ملی ، وہ یا تو ہوٹلوں میں نظر آتا ہے یا پھر اپنی کوٹھی میں ہی نظر آتا ہے۔
پاگل لڑکی کی نگرانی اب کون کر رہا ہے۔
نعمانی ! اور اس نے بھی کوئی خاص رپورٹ نہیں دی، سوائے اس کے کہ وہ زیرِ علاج ہے۔
اور باہر سے دیکھنے کے لیئے کوئی بھی نہیں آیا۔
اور کچھ !!
جی نہیں ۔
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

صفدر مارتھا کے فلیٹ والی عمارت سے تھوڑے فاصلے پر تھا دن ختم ہوچکا تھا تاریکی پھیل رہی تھی سڑکیں جگمگا اُٹھی تھیں ۔
مارتھا تقریباً سات بجے فلیٹ سے برآمد ہوئی وہ نیلے اسکرٹ میں تھی اور کافی دلکش نظر آرہی تھی۔
حسبِ دستور تعاقب شروع ہوگیا ۔صفدر اس تعاقب سے کچھ اکتا سا گیا تھا۔کیونکہ ابھی تک کوئی ایسی بات ظہور پذیر نہیں ہوئی تھی جس کی بناء پر وہ اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ کرسکتا۔بس ہوٹلوں کے پھیرے ہوتے رہتے اور وہ محسوس کرتا کہ مارتھا صادق کے گِرد اپنا جال مضبوط کر رہی ہے۔صرف اسی اتنی سی بات کی بناء پر وہ کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ہوسکتا تھا کہ وہ مارتھا محض ایک پیشہ ور لڑکی ہی ثابت ہوتی۔ایکس ٹو کا یہ خیال غلط ہوتا کہ وہ بھی اس قسم کی لڑکی ہے جیسی ہلدا تھی۔گرینڈ میں داخل ہوتے وقت صفدر نے بہت برا سا منہ بنایا کیونکہ کئی دنوں کی ہوٹل گردی سے وہ تنگ آگیا تھا اور یہ تفریح گاہیں اسے بے حد بورنگ معلوم ہونے لگی تھیں۔
یہاں مارتھا کا نیا شکار صادق موجود تھا۔
اُف فوہ ! میں کتنی خوش ہوئی ہوں تمہیں دیکھ کر !“ مارتھا اس کی میز کے قریب پہنچتی ہوئی بولی ۔ڈر رہی تھی کہ کہیں تمہارا انتظار نہ کرنا پڑے ۔
ڈرنے کی کیا بات تھی۔صادق بے ڈھنگے انداز میں جھکا ! بیٹھو بیٹھو !“
صفدر نے سوچا کہ وہ عورتوں کے معاملے میں بلکل ہی ڈیوٹ معلوم ہوتا ہے ! وہ بالکل ایسے انداز میں بانچھیں پھاڑے ہوئے تھا جیسے کسی پجاری کو بھگوان نے درشن دے دیئے ہوں اور اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ وہ آرتی اتارے یا قدموں پر سر رکھ دے۔
تم کیا جانو ، وہ ٹھنڈی سانس لے کر مغموم لہجے میں بولی !“ تم نہیں سمجھ سکتے کہ میں تم سے کتنی محبت کرنے لگی ہوں۔
ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔! وہ بے ڈھنگے پن سے ہنس دیا۔

میں جانتی ہوں کہ اگر میرے ڈیڈی کو اس کا علم ہو جائے تو مجھے قتل کردیں !“
کیوں ؟ صادق کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔
انہیں کالوں سے بڑی نفرت ہے۔
میں کالا ہوں ۔۔۔۔صادق نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔ارے جاؤ ۔۔۔۔ذرا میری رنگت دیکھو، میری رشتہ دار لڑکیاں مجھے مکھن کہتی ہیں ۔
سنو تو سہی ! تم بہت اچھے ہو، بہت پیارے ہو دور سے کوئی قدیم یونانی دیوتا معلوم ہوتے ہو۔۔۔۔۔مگر ہو تو آخر دیسی ہی !“
پھر اس سے کیا ہوتا ہے ؟
ڈیڈی دیسی آدمیوں کو پسند نہیں کرتے۔
مگر مجھے تمہارے ڈیڈی سے بڑی محبت ہے۔
تم نے انہیں کب دیکھا ہے۔
نہیں دیکھا تو کیا ہوا ۔۔۔۔ ان کے متعلق سوچا تو ہے ۔۔۔۔۔ آہا ۔۔۔۔ مارتھا کے ڈیڈی ۔۔۔۔ڈارلنگ آف مائی ہارٹ ہنی آف مائی مون۔
یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔۔۔ ہنی آف مائی مون۔۔۔
ہنی مون یاد آگیا تھا ! میں دراصل ہنی آف مائی ڈریمس کہنا چاہتا تھا۔
آج ڈیڈی گھر پر نہیں ہیں اس لیئے تمہیں اپنے گھر لے چلوں گی۔
صفدر کے کان کھڑے ہوگئے ، تذکرہ مارتھا کے ڈیڈی کا تھا ۔۔۔۔ وہ مارتھا جو ایک چھوٹے سے فلیٹ میں تنہا رہتی تھی اس وقت ایک ڈیڈی بھی پیدا کر بیٹھی تھی۔
صادق اس تجویز سے بے حد خوش ہوا اور پھر دونوں رات کا کھانا کھانے لگے۔
کھانے کے دوران میں مارتھا نے کہا تھا ۔میں ایلمر ہاؤز میں رہتی ہوں ۔
ایلمر ہاؤز ۔۔۔صادق نے متحیرانہ انداز میں دہرایا۔ وہ تو بڑی شاندار عمارت ہے ۔
ہاں میں وہیں رہتی ہوں ! مگر تمہیں اس پر حیرت کیوں ہے ؟؟؟؟
کچھ نہیں ! میں نے سوچا تھا کہ میں تو اتنا مالدار نہیں ہوں کہ کوئی اتنی بڑی اور شاندار عمارت بنوا سکوں۔
تمہاری عمارت میرا ننھا سا دل ہے ، جہاں تم ہر وقت رہتے ہو۔
وہ پھر بے ڈھنگے پن سے ہنسا ۔
صفدر کو دونوں ہی پر غصّہ آرہا تھا۔
کھانا ختم ہوگیا اور صفدر سوچنے لگا کہ اٹھو بھی جلدی سے مردود ۔۔۔۔ میں کئی راتوں سے ڈھنگ کی نیند کو ترس رہا ہوں۔۔۔۔ ہوسکتا ہے تم میں سے کوئی اس وقت گہری نیند سو جائے ۔اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس لڑکی کے معاملے میں بھی ایکس ٹو سے غلطی نہیں ہوئی۔
کیپٹن فیاض نے ایک طویل سسکاری لی اور نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا ۔اسے چار آدمیوں نے جکڑ رکھا تھا اور پانچواں اس کے انٹراوینس انجکشن دے رہا تھا ۔۔۔ داڑھی والے انگریز کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی ۔
وہ قریب ہی کھڑا تھا۔
تمہاری صحت بہت گِر گئی ہے کیپٹن ! اس لیئے مجبور ہوں ، میں نہیں چاہتا کہ دبلے ہوکر یہاں سے واپس جاؤ ۔
فیاض کچھ نہ بولا ۔۔۔۔ جیسے ہی سرنج کی سوئی باہر آئی وہ لوگ اسے چھوڑ کر ہٹ گئے ، لیکن وہ بے حس و حرکت کرسی پر پڑا رہا ۔۔۔ وہ سچ مچ کافی نقاہت زدہ نظر آنے لگا تھا۔آنکھوں کے گِرد سیاہ حلقے نمایاں ہو گئے تھے اور شیو بڑھا ہوا تھا۔
انجکشن کے بعد جب وہ لوگ اسے چھوڑ کر ہٹ گئے تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ اب ان سے ٹکرا ہی جائے حشر جو کچھ بھی ہو ۔۔۔۔وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ، لیکن دوسرے ہی لمحہ میں اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہ ہوسکے گا ، سارا جسم سنسناتا رہا اور پیروں میں تو بالکل ہی قوت نہیں رہ گئی تھی۔ویسے حواس خمسہ پر یہ کیفیت اثر انداز نہیں ہوئی تھی، وہ سوچ سکتا تھا ، اسے غصّہ بھی آسکتا تھا ۔۔۔۔ وہ قہقہے بھی لگا سکتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن نہ جانے کیوں وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ محسوس کرنے لگا تھا البتہ پہلے اس نے داڑھی والے انگریز کو برا بھلا کہا تھا اور اسے چیلنج کیا تھا لیکن اب اس میں اتنی ہمت نہیں رہ گئی تھی کہ وہ اس سے آنکھیں ملا سکتا ۔
تم اس وقت بالکل شیر کے بچّے معلوم ہو رہے ہو، انگریز نے قہقہہ لگایا۔
میرا مذاق مت اڑاؤ ۔۔۔۔۔ تمہیں اس کے لیئے پچھتانا پڑے گا۔فیاض نے بدقت کہا۔
اٹھاؤ ۔۔۔ اسے ، انگریز غرّایا ۔ فیاض نے خود اٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
چار آدمیوں نے اسے اٹھایا اور پھر ایک آدمی نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دیئے ، وہ اسے وہاں سے لے جا رہے تھے۔فیاض کی روح لرز گئی یہ تو وہی کمرہ تھا جہاں اس نے پچھلی رات اندھی لڑکی کا خوفناک رقص دیکھا تھا۔

اس نے اس صوفے کی طرف دیکھا جس پر پچھلی رات اس نے شاہد کی چیخیں سنی تھیں ، صوفے پر اس وقت بھی وہ رسّی نظر آئی جس سے شاہد کو باندھا گیا تھا۔اندھی لڑکی بھی اس کمرے میں موجود تھی، فیاض کو وہ کمرہ گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔۔۔ اس کا سر چکرا گیا تھا۔
اس سے پہلے وہ کبھی اتنا خوفزدہ نہیں ہوا تھا۔ جتنا اس وقت ہوگیا تھا۔
صوفے پر گِرا کے باندھ دو۔ انگریز نے غرّا کر کہا۔
نہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ فیاض چیخا ، تم مجھے نہیں مار سکتے ، ہرگز نہیں مار سکتے ۔۔۔۔ نہیں ۔“
وہ چیختا ہی رہ گیا ، لیکن اس کے جسم میں اتنی سکت نہیں رہ گئی تھی کہ وہ ان نے اس کام میں دشواریاں ہی پیدا کر سکتا۔
اسے کسی بے بس بکری کی طرح صوفے پر گِرا دیا گیا۔
اچانک اسی وقت مارتھا اور صادق کمرے میں داخل ہوئے۔
اوہ ۔۔۔ ڈیڈی ! “ مارتھا خوفزدہ آواز میں بولی۔
یہ کون ہے تیرے ساتھ ؟؟ انگریز دہاڑا ۔ فیاض کو گِرا کر باندھنے والے ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے۔فیاض بے حِس و حرکت پڑا ہوا آنے والوں کو گھور رہا تھا۔
اوہ ۔۔۔۔۔ ڈیڈی ۔۔۔۔ یہ ہیں میرے دوست ۔۔۔۔ مارتھا ہکلائی ۔
خاموش رہو ۔ انگریز نے گرج کر کہا ، کتنی بار تم کو منع کیا گیا ہے۔
یہ ۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔ اچھا آدمی ہے ۔
مجھے دیسی کتوں سے نفرت ہے۔
میں آدمی ہوں مسٹر ۔۔۔۔ ذرا زبان سنبھال کے ، صادق نے غصیلے لہجے میں کہا۔
پکڑ لو ۔۔۔۔ اسے بھی ۔۔۔، انگریز نے اپنے آدمیوں کو للکارا۔صادق نے بڑی پھرتی دکھائی لیکن اندازے کی غلطی کی بناء پر چھلانگ لگاتے وقت اس کا پیر ایک کرسی کے پائے سے الجھ گیا۔
بس اس کا گرا تھا کہ وہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑے ۔ صادق چاروں طرف سے جکڑ لیا گیا۔۔۔مارتھا ہنس رہی تھی۔
ارے تم ہنستی ہو ، صادق دانت پیس کر بولا۔
پھر کیا کروں ۔۔۔۔! تم تو کہہ رہے تھے کہ مجھے کوہ قاف پر لے جاؤ گے ۔۔۔۔ وہاں مجھ سے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top