"ارے ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے" مارتھا مضحکہ اُڑانے والے انداز میں ہنسی، "جب جوان ہو جاو گے تو کوئی ایسی لڑکی بھی مل جائے گی۔"
"کیا ۔ ۔ ۔ ؟" صادق نے کہا ۔ " ابھی تک میں جوان نہیں ہوں"
"ابھی تو تمہارے منہ سے دودھ کی بُو آتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن میں تمہاری پرورش کا ذمہ لیتی ہوں، بہت جلد جوان ہو جاو گے۔ ۔ ۔ لڑکے"
اس نے ویٹر کو آواز دی اور جب وہ قریب آ گیا تو بولی ۔ "بےبی کے لیے ٹافیاں لاو"
ویٹر شاید اسے نشے میں سمجھ کر مُسکراتا ہوا چلا گیا۔
"ارے ۔ ۔ ۔ تم میرا مضحکہ اُڑا رہی ہو" صادق نے حیرت اور غصے کے ملے جُلے اظہار کے ساتھ کہا ۔
"نہیں ڈئیر ۔ ۔ ۔ یہ مضحکہ نہیں بلکہ تمہاری عزت افزائی ہے۔ اس سے پہلے میں نے کسی کو بےبی نہیں کہا"
"کیا میں اتنا چھوٹا ہوں کہ تم مجھے بےبی کہو؟"
"یقینا تم ننھے سے بچے ہو۔ مجھے تم پر بے ھد پیار آتا ہے۔ ۔ ۔ اور اب میں تمہارے لیے لوریاں سیکھوں گی۔"
"دیکھو ۔ ۔ ۔ میرا مذاق نہ اُڑاو ۔ ۔ ۔ ورنہ میں خود کُشی کر لوں گا۔"
مارتھا ہنسنے لگی اور پھر سنجیدہ ہو کر بولی۔ "میرا خیال ہے کہ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔"
نوجوان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں اور اس کے ہونٹوں میں اس قسم کی کپکپاہٹ نظر آنے لگی جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔ لیکن نروس ہو جانے کی وجہ سے کہنے کا ڈھنگ نہ سُوجھ رہا ہو۔
صفدر کی دلچسپی بڑھتی رہی۔
"پچھلی رات میں نے تمہیں خواب میں بھی دیکھا تھا۔" مارتھا نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
"مم ۔ ۔ ۔ میں نے بھی" صادق ہکلایا۔
"اوہ ۔ ۔ ۔ تم نے بھی دیکھا تھا۔"
صادق نے کسی شرمیلی لڑکی کی طرح آنکھیں نیچی کر کے سر ہلا دیا۔
"تب تو ۔ ۔ ۔ ہم ہمیشہ دوست رہیں گے۔ ۔ ۔ کیوں؟" وہ ہنس پڑی اور وہ دونوں دیر تک ہنستے رہے۔
اسی رات صفدر نے جولیانا فٹنر کو اطلاع دی تھی کہ مارتھا نے کل جس نوجوان کو پھانسا تھا اُس سے آج اُسے محبت بھی ہو گئی ہے اور وہ دونوں زندگی بھر دوست رہیں گے۔
"میرا خیال تو یہ ہے کہ تم وقت برباد کر رہے ہو۔" جولیا بولی۔
"نہیں میرا خیال ہے کہ میں جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچوں گا۔"
"اس کے علاوہ نہیں کہ دونوں عنقریب شادی کر لیں گے۔" جولیانا نے ہنس کر کہا۔
"دیکھو ، کیا ہوتا ہے؟" صفدر نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔
۞
کیپٹن فیاض آفس سے اُٹھ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے انسپکٹر شاہد کی آواز آئی۔ "مم ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ شش ۔ ۔ ۔ شاہد ہوں جناب۔ ایک بہت اہم بات ہے۔ ۔ ۔ گستاخی ضرور ہے۔ ۔ ۔ لیکن آپ خود ہی یہاں آجائیں تو بہتر ہے۔ اگر میں یہاں سے ہٹا تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔"
"کہاں آجاوں؟"
"ایلمرز ہاوز کے عقبی پارک میں مشرق کی جانب جو مالتی کی کنجی ہے اُس میں۔"
"کیا مطلب ؟ تم کہاں ہو؟ اور کہاں سے نہیں ہٹنا چاہیے؟ فون کہاں سے کر رہے ہو؟"
"یہ نہ پوچھیے، میں اس وقت ایک ٹیلی فون کے کھمبے پر بیٹھا ہوں۔"
"کیا بک رہے ہو؟" فیاض غرایا۔
"حضور والا، میں پہلے ہی معافی مانگ چکا ہوں۔ میں بڑی مصیبت ارر ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ میں اس کنج میں چھپا پوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آپ کو اس کی اطلاع کیسے دوں کہ اچانک قریب کے ایک ٹیلی فون کے کھمبے پر نظر پڑی جس پر ایک مکینک چڑھا ہوا تار کی مرمت کر رہا تھآ اس کے پاس میں نے انسٹرومنٹ بھی دیکھا جس کے ذریعہ شاید وہ ہیڈ آفس سے گفتگو کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ میں نے سوچا کہ منہ مانگی مراد ملی ہے بس یہیں سے اسی انسٹرومنٹ پر آپ سے رابطہ قائم کیا جائے ۔ ۔ ۔ بمشکل تمام میں اس مکینک کی ہمدردیاں حاصل کر سکا اور اس نے مجھے انسٹرومنٹ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔"
"تم مجھے وہاں کیوں بلا رہے ہو؟"
"وہ ایک حیرت انگیز سچویشن ہے جناب عالی، میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا۔ وہ پاگل لڑکی ہلدا یہاں ایک درخت کے تنے سے بندھی ہوئی ہے اور ایک آدمی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے منہ پر پانی پھینکتا ہے اور وہ چیخ چیخ کر اُسے گالیاں دینے لگتی ہے۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ دیکھیے ۔ ۔ ۔ اب مجھے اتر جانا چاہیے۔ میرے خدا میں کیا کروں۔ تنہا آئیے گا جناب۔"
اور پھر یک بیک سلسلہ منقطع ہو گیا۔ فیاض نے بھی ریسیور رکھ دیا۔
اس کی کنپٹی کی رگیں اُبھر آئی تھیں اور پھر آنکھیں ایسی ہونے لگیں تھیں جیسے سوچ میں ڈوبا رہنا ہی ان کا مستقل انداز ہو۔
وہ آفس سے باہر آیا ۔ ۔ ۔ شیڈ سے کار نکالی اور ایلمرز ہاوز کی طرف روانہ ہو گیا۔ شاہد اس کا ماتحت تھا اور اس کے سارے ہی ماتحت اس سے بہت زیادہ خائف رہتے تھے ۔ پوری طرح بات کرنا بھی ان کے لیے دشوار ہو جاتا تھا۔ مگر شاہد کی گفتگو بڑی بے تکلفانہ تھی۔ اسی سے فیاض نے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ ذہنی الجھاو کا شکار ہو جانے کی بنا پر الفاظ کے انتخاب کا سلیقہ کھو بیٹھآ ہے۔ ہلدا کے متعلق اس نے جو کچھ بھی بتایا تھا یقینا حیرت انگیز تھا۔
ایلمرز ہاوز شہر سے باہر ایک بہت بڑی عمارت تھی ۔ اس سے ملحق ایک شاندار باغ تھا اور عقبی پارک تو گویا اچھی خآصی پولو گراونڈ تھی لیکن اس کے بعض حصوں میں درخت بھی تھے اور خود رو جھآڑیاں بھی۔ یہ عمارت غیر ملکی تجارتی ادارے کی ملکیت تھی۔
فیاض نے کار عمارت سے کافی فاصلے پر چھوڑی اور پیدل ہی عقبی پارک کی طرف روانہ ہو گیا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور ویرانہ صدہا پرندوں کے شور سے گونجا ہوا تھآ۔ وہ مشرق کی جانب مڑ گیا۔ مالتی کی گنجان جھاڑیوں کا سلسلہ دور ہی سے نظر آ رہا تھآ۔ کچھ دیر بعد وہ جھاڑیوں میں داخل ہوا۔ جھاڑیوں کے درمیان کءی اُونچے اُونچے درخت بھی تھے ۔
"کھٹاک۔ ۔ ۔ " دفعتا فیاض کے سر پر کوئی وزنی چیز گری اور وہ ارے کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں میں مزید تارے ناچ گئے۔ کیونکہ دوسری چوٹ پہلی چوٹ سے بھی زیادہ حواس باختہ کر دینے والی تھی۔ وہ کسی بے جان لاش کی طرح زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
پھر اسے نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کتنی دیر تک بےہوش رہا تھا اور اس پر کیا گذری تھی۔
ہوش میں آنے کے بعد بھی اسے یقین نہیں تھا کہ وہ ہوش میں ہے۔ اس کے چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔ اس نے سر پر ہاتھ پھیرا جو تکلیف کی وجہ سے پھوڑا بنا ہوا تھا ۔ پھر آہستہ آہستہ ایک طرف کھسکنے لگا تاکہ جھاڑیوں سے نکل کر کھلے میں آجائے تاریکی کی وجہ سے اس کا دم گھنٹنے لگا تھا۔
لیکن پھر یک بیک وہ رک گیا۔ کیونکہ کوئی ٹھوس چیز اس کی راہ میں حائل ہو گئی تھی۔ اس نے بے خیالی میں اسے ہاتھوں سے دھکیلنے کی کوشش کی اور پھر اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ تو دیوار تھی۔
فیاض بوکھلائے ہوئے انداز میں دیوار ٹٹولتا ہوا کمرے میں دوڑنے لگا۔ ۔ ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کسی سازش کا شکار ہو گیا ہے۔ مگر فون پر اس نے شاہد کی آواز پہچان لی تھی۔ تو کیا شاہد بھی اس کے خلاف کسی سازش میں شریک ہو سکتا ہے ؟
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ سر کی تکلیف نا قابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔
اچانک کمرہ روشن ہو گیا۔ ساتھ ہی فیاض بھی اچھل پڑا۔ اور اب وہ بڑی تیزی سے اپنی جیبیں ٹٹول رہا تھا مگر ریوالور اسے نہ مل سکا۔
دروازہ کھلا اور ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا اور ریوالور کا رخ فیاض ہی کی طرف تھا۔
"چلو۔ ۔ ۔ " اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
"تم کون ہو اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟" اس نے گرج کر پوچھا۔
"میں کچھ نہیں جانتا۔" وہ آدمی بھی غرایا۔ "تم سے جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل کرو ورنہ کتے کی موت مار ڈالے جاو گے۔"
"تم جانتے ہو، میں کون ہوں؟" فیاض غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔
"مجھے ضرورت ہی کیا ہے کہ جانوں۔ چلو ورنہ میں بے دریغ فائر کر دوں گا۔"
فیاض اسے چند لمحے گھورتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھا۔ سر کی تکلیف کی وجہ سے وہ بڑی نقاہت محسوس کر رہا تھا ورنہ شاید وہ اس آدمی سے لپٹ جانے کی کوشش ضرور کرتا۔