خطرناک لاشیں (ص 46 - 55)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
"ارے ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے" مارتھا مضحکہ اُڑانے والے انداز میں ہنسی، "جب جوان ہو جاو گے تو کوئی ایسی لڑکی بھی مل جائے گی۔"

"کیا ۔ ۔ ۔ ؟" صادق نے کہا ۔ " ابھی تک میں جوان نہیں ہوں"

"ابھی تو تمہارے منہ سے دودھ کی بُو آتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن میں تمہاری پرورش کا ذمہ لیتی ہوں، بہت جلد جوان ہو جاو گے۔ ۔ ۔ لڑکے"

اس نے ویٹر کو آواز دی اور جب وہ قریب آ گیا تو بولی ۔ "بےبی کے لیے ٹافیاں لاو"

ویٹر شاید اسے نشے میں سمجھ کر مُسکراتا ہوا چلا گیا۔

"ارے ۔ ۔ ۔ تم میرا مضحکہ اُڑا رہی ہو" صادق نے حیرت اور غصے کے ملے جُلے اظہار کے ساتھ کہا ۔

"نہیں ڈئیر ۔ ۔ ۔ یہ مضحکہ نہیں بلکہ تمہاری عزت افزائی ہے۔ اس سے پہلے میں نے کسی کو بےبی نہیں کہا"

"کیا میں اتنا چھوٹا ہوں کہ تم مجھے بےبی کہو؟"

"یقینا تم ننھے سے بچے ہو۔ مجھے تم پر بے ھد پیار آتا ہے۔ ۔ ۔ اور اب میں تمہارے لیے لوریاں سیکھوں گی۔"

"دیکھو ۔ ۔ ۔ میرا مذاق نہ اُڑاو ۔ ۔ ۔ ورنہ میں خود کُشی کر لوں گا۔"

مارتھا ہنسنے لگی اور پھر سنجیدہ ہو کر بولی۔ "میرا خیال ہے کہ میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔"

نوجوان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں اور اس کے ہونٹوں میں اس قسم کی کپکپاہٹ نظر آنے لگی جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔ لیکن نروس ہو جانے کی وجہ سے کہنے کا ڈھنگ نہ سُوجھ رہا ہو۔

صفدر کی دلچسپی بڑھتی رہی۔

"پچھلی رات میں نے تمہیں خواب میں بھی دیکھا تھا۔" مارتھا نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

"مم ۔ ۔ ۔ میں نے بھی" صادق ہکلایا۔

"اوہ ۔ ۔ ۔ تم نے بھی دیکھا تھا۔"

صادق نے کسی شرمیلی لڑکی کی طرح آنکھیں نیچی کر کے سر ہلا دیا۔

"تب تو ۔ ۔ ۔ ہم ہمیشہ دوست رہیں گے۔ ۔ ۔ کیوں؟" وہ ہنس پڑی اور وہ دونوں دیر تک ہنستے رہے۔

اسی رات صفدر نے جولیانا فٹنر کو اطلاع دی تھی کہ مارتھا نے کل جس نوجوان کو پھانسا تھا اُس سے آج اُسے محبت بھی ہو گئی ہے اور وہ دونوں زندگی بھر دوست رہیں گے۔

"میرا خیال تو یہ ہے کہ تم وقت برباد کر رہے ہو۔" جولیا بولی۔

"نہیں میرا خیال ہے کہ میں جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچوں گا۔"

"اس کے علاوہ نہیں کہ دونوں عنقریب شادی کر لیں گے۔" جولیانا نے ہنس کر کہا۔

"دیکھو ، کیا ہوتا ہے؟" صفدر نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔


۞​


کیپٹن فیاض آفس سے اُٹھ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طرف سے انسپکٹر شاہد کی آواز آئی۔ "مم ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ شش ۔ ۔ ۔ شاہد ہوں جناب۔ ایک بہت اہم بات ہے۔ ۔ ۔ گستاخی ضرور ہے۔ ۔ ۔ لیکن آپ خود ہی یہاں آجائیں تو بہتر ہے۔ اگر میں یہاں سے ہٹا تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔"

"کہاں آجاوں؟"
"ایلمرز ہاوز کے عقبی پارک میں مشرق کی جانب جو مالتی کی کنجی ہے اُس میں۔"

"کیا مطلب ؟ تم کہاں ہو؟ اور کہاں سے نہیں ہٹنا چاہیے؟ فون کہاں سے کر رہے ہو؟"

"یہ نہ پوچھیے، میں اس وقت ایک ٹیلی فون کے کھمبے پر بیٹھا ہوں۔"

"کیا بک رہے ہو؟" فیاض غرایا۔

"حضور والا، میں پہلے ہی معافی مانگ چکا ہوں۔ میں بڑی مصیبت ارر ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ میں اس کنج میں چھپا پوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آپ کو اس کی اطلاع کیسے دوں کہ اچانک قریب کے ایک ٹیلی فون کے کھمبے پر نظر پڑی جس پر ایک مکینک چڑھا ہوا تار کی مرمت کر رہا تھآ اس کے پاس میں نے انسٹرومنٹ بھی دیکھا جس کے ذریعہ شاید وہ ہیڈ آفس سے گفتگو کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ میں نے سوچا کہ منہ مانگی مراد ملی ہے بس یہیں سے اسی انسٹرومنٹ پر آپ سے رابطہ قائم کیا جائے ۔ ۔ ۔ بمشکل تمام میں اس مکینک کی ہمدردیاں حاصل کر سکا اور اس نے مجھے انسٹرومنٹ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔"

"تم مجھے وہاں کیوں بلا رہے ہو؟"

"وہ ایک حیرت انگیز سچویشن ہے جناب عالی، میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا۔ وہ پاگل لڑکی ہلدا یہاں ایک درخت کے تنے سے بندھی ہوئی ہے اور ایک آدمی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے منہ پر پانی پھینکتا ہے اور وہ چیخ چیخ کر اُسے گالیاں دینے لگتی ہے۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ دیکھیے ۔ ۔ ۔ اب مجھے اتر جانا چاہیے۔ میرے خدا میں کیا کروں۔ تنہا آئیے گا جناب۔"

اور پھر یک بیک سلسلہ منقطع ہو گیا۔ فیاض نے بھی ریسیور رکھ دیا۔

اس کی کنپٹی کی رگیں اُبھر آئی تھیں اور پھر آنکھیں ایسی ہونے لگیں تھیں جیسے سوچ میں ڈوبا رہنا ہی ان کا مستقل انداز ہو۔

وہ آفس سے باہر آیا ۔ ۔ ۔ شیڈ سے کار نکالی اور ایلمرز ہاوز کی طرف روانہ ہو گیا۔ شاہد اس کا ماتحت تھا اور اس کے سارے ہی ماتحت اس سے بہت زیادہ خائف رہتے تھے ۔ پوری طرح بات کرنا بھی ان کے لیے دشوار ہو جاتا تھا۔ مگر شاہد کی گفتگو بڑی بے تکلفانہ تھی۔ اسی سے فیاض نے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ ذہنی الجھاو کا شکار ہو جانے کی بنا پر الفاظ کے انتخاب کا سلیقہ کھو بیٹھآ ہے۔ ہلدا کے متعلق اس نے جو کچھ بھی بتایا تھا یقینا حیرت انگیز تھا۔

ایلمرز ہاوز شہر سے باہر ایک بہت بڑی عمارت تھی ۔ اس سے ملحق ایک شاندار باغ تھا اور عقبی پارک تو گویا اچھی خآصی پولو گراونڈ تھی لیکن اس کے بعض حصوں میں درخت بھی تھے اور خود رو جھآڑیاں بھی۔ یہ عمارت غیر ملکی تجارتی ادارے کی ملکیت تھی۔

فیاض نے کار عمارت سے کافی فاصلے پر چھوڑی اور پیدل ہی عقبی پارک کی طرف روانہ ہو گیا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور ویرانہ صدہا پرندوں کے شور سے گونجا ہوا تھآ۔ وہ مشرق کی جانب مڑ گیا۔ مالتی کی گنجان جھاڑیوں کا سلسلہ دور ہی سے نظر آ رہا تھآ۔ کچھ دیر بعد وہ جھاڑیوں میں داخل ہوا۔ جھاڑیوں کے درمیان کءی اُونچے اُونچے درخت بھی تھے ۔

"کھٹاک۔ ۔ ۔ " دفعتا فیاض کے سر پر کوئی وزنی چیز گری اور وہ ارے کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں میں مزید تارے ناچ گئے۔ کیونکہ دوسری چوٹ پہلی چوٹ سے بھی زیادہ حواس باختہ کر دینے والی تھی۔ وہ کسی بے جان لاش کی طرح زمین پر ڈھیر ہو گیا۔

پھر اسے نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کتنی دیر تک بےہوش رہا تھا اور اس پر کیا گذری تھی۔

ہوش میں آنے کے بعد بھی اسے یقین نہیں تھا کہ وہ ہوش میں ہے۔ اس کے چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔ اس نے سر پر ہاتھ پھیرا جو تکلیف کی وجہ سے پھوڑا بنا ہوا تھا ۔ پھر آہستہ آہستہ ایک طرف کھسکنے لگا تاکہ جھاڑیوں سے نکل کر کھلے میں آجائے تاریکی کی وجہ سے اس کا دم گھنٹنے لگا تھا۔

لیکن پھر یک بیک وہ رک گیا۔ کیونکہ کوئی ٹھوس چیز اس کی راہ میں حائل ہو گئی تھی۔ اس نے بے خیالی میں اسے ہاتھوں سے دھکیلنے کی کوشش کی اور پھر اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ تو دیوار تھی۔

فیاض بوکھلائے ہوئے انداز میں دیوار ٹٹولتا ہوا کمرے میں دوڑنے لگا۔ ۔ ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کسی سازش کا شکار ہو گیا ہے۔ مگر فون پر اس نے شاہد کی آواز پہچان لی تھی۔ تو کیا شاہد بھی اس کے خلاف کسی سازش میں شریک ہو سکتا ہے ؟

وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ سر کی تکلیف نا قابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔

اچانک کمرہ روشن ہو گیا۔ ساتھ ہی فیاض بھی اچھل پڑا۔ اور اب وہ بڑی تیزی سے اپنی جیبیں ٹٹول رہا تھا مگر ریوالور اسے نہ مل سکا۔

دروازہ کھلا اور ایک آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا اور ریوالور کا رخ فیاض ہی کی طرف تھا۔

"چلو۔ ۔ ۔ " اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔

"تم کون ہو اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟" اس نے گرج کر پوچھا۔

"میں کچھ نہیں جانتا۔" وہ آدمی بھی غرایا۔ "تم سے جو کہا جا رہا ہے اس پر عمل کرو ورنہ کتے کی موت مار ڈالے جاو گے۔"

"تم جانتے ہو، میں کون ہوں؟" فیاض غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔

"مجھے ضرورت ہی کیا ہے کہ جانوں۔ چلو ورنہ میں بے دریغ فائر کر دوں گا۔"

فیاض اسے چند لمحے گھورتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھا۔ سر کی تکلیف کی وجہ سے وہ بڑی نقاہت محسوس کر رہا تھا ورنہ شاید وہ اس آدمی سے لپٹ جانے کی کوشش ضرور کرتا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ریوالور والا آدمی اسے ایک بڑے کمرے میں لایا ۔ ۔ ۔ اور پھر فیاض کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انسپکٹر شاہد ایک صوفے پر بندھا پوا پڑا تھآ۔

اس نے فیاض کو دیکھتے ہی چیخ کر کہا، "کپتان صاحب، میں بالکل مجبور تھا۔ انھوں نے میری گردن پر رکھ کر مجھ سے فون کروایا تھا۔"

"مگر تم یہاں پہنچے کیسے؟" فیاض نے ماحول سے لاپرواہی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔

"پچھلی رات میں فلم دیکھ کر گھر واپس جا رہا تھا۔ اچانک ان لوگوں نے ایک ویران گلی میں گھیر لیا اور زبردستی یہاں لے آئے۔"

فیاض نے چاروں طرف اُچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔ یہاں دو متنفس اور بھی تھے ، ایک انگریز مرد اور ایک یوریشین لڑکی جو اندھی معلوم ہوتی تھی۔

فیاض انگریز کو گھورنے لگا۔ یہ ایک طویل القامت اور قوی الجثہ آدمی تھا۔ چہرے پر بھوری فرنچ کٹ داڑھی تھی اور اس کی آنکھیں سبز تھیں ۔

فیاض کو اس طرح گھورتے دیکھ کر وہ مسکرایا اور ریوالور والے کو کچھ اشارہ کیا۔

"چلو بائیں جانب" ریوالور والا فیاض سے بولا۔

فیاض چپ چاپ بائیں جانب والے دروازے کی طرف مڑ گیا۔ وہ اپنے پیچھے دو آدمیوں کے قدموں کی آوازیں سن رہا تھا۔

"رُک جاو" ریوالور والے نے کہا۔

وہ دوسرے کمرے میں پہنچ چکے تھے۔ فیاض رک گیا۔

"اپنے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل کو رنگ کرو" اس سے کہا گیا۔

"کیوں؟ کیا انہیں بھی یہاں لانے کا ارادہ ہے؟" فیاض نے تلخ لہجے میں پوچھا ۔

"نہیں ۔ ۔ ۔ جو کچھ کہا جا رہا ہے کرو"

"جب تک مقصد نہ معلوم ہو جائے میں رنگ نہیں کروں گا۔"

"اس سے کہو کہ تم مجرموں کی راہ پر لگ گئے ہو اور تم نے انھیں پھانسنے کے لیے ایک جال بچھایا ہے۔ لہذا کل اگر شہر کے کسی حصے میں شاہد کی برہنہ لاش پائی جائے تو اسے اس وقت تک نہ اٹھوایا جائے جب تک کہ تم اس کے لیے اطلاع نہ دے دو۔ اور اس سے یہ بھی کہو کہ کوئی لاش کے قریب نہ جائے کم از کم لاش سے دو گز کے گھیرے میں پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔ اگر لاش کسی سڑک پر پائی جائے تو ٹریفک کے رکنے کی پرواہ کیے بغیر اس کے گرد گھیرا ڈال دیا جائے مگر یہ گھیرا لاش سے کم از کم دو سو گز کے فاصلے پر ہو۔ جب یہ اطلاع دے دوں تو لاش اٹھوا کر مردہ خانے بھجوا دی جائے۔"

"اوہ ۔ ۔ ۔ تو تم شاہد کو مارڈالنا چاہتے ہو؟"

"ہاں" بڑی لاپرواہی سے کہا گیا۔

"آخر کیوں؟"

"سوال نہ کرو ہماری بات سنو۔ جب تم ڈائریکٹر جنرل سے یہ سب کچھ کہو گےتو وہ یقینی طور پر لاش کے متعلق سوال کرے گا۔ اس کے لیے تم کہہ دینا کہ وہ ایک لاوارث مردہ ہے تم نے وہ لاش خیراتی ہسپتال سے حاصل کی ہے اور اس کے چہرے پر انسپکٹر شاہد کا میک اپ کر دیا ہے۔"

"آخر تم لوگ کیا چاہتے ہو؟" فیاض پھر بگڑ گیا۔

"فی الحال اتنا ہی چاہتے ہیں جتنا تم سے کہا جا رہا ہے۔" انگریز بولا۔

"یہ ناممکن ہے۔ میں فون نہیں کروں گا۔"

"تب پھر ہو سکتا ہے کہ کل ایک کی بجائے دو لاشیں دیکھی جائیں۔"

فیاض ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔

"تمہیں اسی طرح فون کرنا ہے جیسے شاہد نے تمہیں کیا تھا۔"

"کیا تم اسے مار ڈالو گے؟"

"ہاں ۔ ۔ ۔ "

"آخر کیوں ۔ ۔ ۔ تم ایسا کر رہے ہو؟"

"انسانیت کی فلاح کے لیے۔"

"کیا بکواس ہے؟"

"تم دیکھ ہی لو گے۔ اور یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ تم کتنے بے بس ہو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تم بالکل محفوظ رہو گے۔"

فیاض برابر انکار کرتا رہا۔ لیکن پھر اچانک ان کا رویہ سخت ہو گیا۔ چار آدمیوں نے اسے بےبس کر کے بڑی اذیتیں دیں، اور پھر مجبورا اسے وہ سب کچھ فون پر ہی کہنا پڑا جو انھوں نے کہا تھا۔ رحمان صاحب نے اس سلسلے میں مزید استفسار کرنا چاہا لیکن فیاض کو مجبور کیا گیا کہ وہ اس سے زیادہ نہ کہے جو کچھ اسے پہلے سے سمجھا دیا گیا ہے۔

پھر اسے اس کمرے میں لایا گیا جہاں شاہد بندھا ہوا پڑا تھا۔ اندھی لڑکی بھی موجود تھی۔ شاہد چیخ رہا تھا۔ "ارے میں بیمار نہیں ہوں۔ پھر مجھے انجکشن کیوں دیا گیا ہے۔ چھوڑو مجھے چھوڑو۔"

"ہاں چھوڑ دیں گے۔ ۔ ۔" انگریز بولا۔ "ابھی ایک انجکشن اور دیا جائے گا ورنہ تم صبح تک مر جاو گے۔"

"چھوڑ دو ، مجھے چھوڑ دو۔"

وی چیختا رہا۔ لیکن انگریز کے اشارے پر ایک بھری ہوئی سرنج لائی گئی اور شاہد کے بائیں بازو میں کوئی سیاہ رنگ کا سیال مادہ انجیکٹ کر دیا گیا۔

فیاض دم بخود کھڑآ دیکھتا رہا۔ ریوالور کی نال اب بھی اس کی گردن سے لگی ہوئی تھی اور اسے اس کا احساس بھی تھا کہ یہ لوگ اسے بڑی بے رحمی سے قتل بھی کر سکتے ہیں۔

"کپتان صاحب،" شاہد حلق پھاڑ کر چیخا۔ "خدا کے لیے مجھے بچائیے۔"

دفعتا انگریز ہاتھ اٹھا کر بولا۔ "تم لوگوں نے خود ہی اپنے لیے مصیبت کھڑی کی ہے۔ اور میں تم لوگوں سے کینہ رکھتا ہوں کیونکہ تمہاری وجہ سے میری ایک بہترین ساتھی پاگل ہو گئی ہے اگر تم اس کے پیچھے نہ لگتے تو مجھے اس کا دماغ نہ ماوف کرنا پڑتا۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے پاگل ہو گئی۔"

فیاض کچھ نہ بولا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے اور کیا کرت۔

اچانک انگریز غرایا۔ "اندھی لڑکی رقص شروع کرو۔ ۔ ۔ اگر تم نے اس مریض کے دل کا نشانہ نہ لیا تو میں تمہیں کبھی معاف نہین کروں گا۔"

لڑکی کے ہونٹوں پر ایک بڑی بھیانک قسم کی مسکراہٹ نظر آئی۔ شاہد بھی اسی کی طرف دیکھنے لگا تھا ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اچانک ایک آدمی نے لڑکی کے ہاتھ میں چمچماتا ہوا خنجر پکڑا دیا۔ پھر ایک جانب رکھے ہوئے گراموفون پر رقص کی موسیقی کا ریکارڈ گردش کرنے لگا۔

موسیقی کی لہریں دیوار سے ٹکرا کر جھنکاریں پیدا کرنے لگیں اور اندھی لڑکی نے ایک طوفانی رقص شروع کر دیا۔ تیز قسم کی روشنی میں چمکتا ہوا خنجر خلاء میں تیرتا پھر رہا تھا اور اندھی لڑکی حیرت انگیز رفتار سے ناچ رہی تھی۔

دفعتا انگریز چیخنے لگا، "یہ موت کا کھیل ہے کیپٹن فیاض۔ ۔ ۔ اندھی رقاصہ کا کمال دیکھو، حیرت انگیز۔ ۔ ۔ حیرت انگیز۔ ۔ ۔ یہ شاہد کے دل کا نشانہ لے گی اور خنجر دستے تک اس کے سینے میں پیوست ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ہاہا"

"ناچو۔ ۔ ۔ اندھی رقاصہ۔ ۔ ۔ ناچو۔ ۔ ۔ کیپٹن فیاض تمہارا کمال دیکھنا چاہتا ہے۔"

"نہیں۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔" شاہد دیوانوں کی طرح چیخا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا اور آنکھیں حلقوں سے اُبلی پڑ رہی تھیں۔

لڑکی نے ناچتے ناچتے ایک خالی صوفے پر کچھاک سے خنجر مارا۔ ۔ ۔ اور پھر سیدھی ہو کر ناچنے لگی۔

جب بھی وہ ناچتی ہوئی شاہد کے صوفے کے قریب سے گزرتی فیاض آنکھیں بند کر لیتا۔۔۔ اس نے کئی بار اس آدمی کو دھوکا دینے کی کوشش کی مگر وہ گردن سے ریوالور لگائے ہوئے تھا ، کامیابی نہ ہوئی کیونکہ وہ بھی غافل نہیں تھا۔

دفعتا اس نے چیخ کر کہا۔ "شاہد تم خاموش ہی رہنا۔۔۔ ورنہ یہ تمہاری آواز پر آئے گی۔" شاہد کچھ نہ بولا۔ اس کی آنکھوں میں خوف اور بے بسی کے علاوہ اور کسی قسم کے آثار نہیں نظر آ رہے تھے۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا اور دیوانوں کی طرح ادھر ادھر گردن جھٹکنے لگتا۔

لڑکی ناچ رہی تھی اچانک فیاض کے حلق سے چیخ نکلی۔ اس بار اس نے شاہد پر وار کیا تھا، ساتھ ہی شاہد کی چیخ بھی بلند ہوئی۔

مگر خنجر شاہد کے جسم پر پڑنے کی بجائے شانے کے قریب رکھے صوفے پر پیوست ہو گیا۔

"لڑکی تمہارا نشانہ خطا کر رہا ہے۔۔۔" انگریز نے غصیلے لہجے میں کہا اور لڑکی کے چہرے پر غصے کے آثار نظر آنے لگے۔ خنجر کھینچ کر اس نے پھر ناچنا شروع کر دیا۔

ریکارڈ ختم ہونے پر صرف ایک پل کے لیے سکوت طاری ہوگیا تھا۔ لیکن ساونڈ باکس پھر ریکارڈ کے سرے تک کھینچ کر رکھ دیا گیا۔۔۔ اور لڑکی کا رقص جاری رہا۔

"خدا کے لیے۔۔۔ اس پر رحم کرو۔" فیاض چیخا۔ "اسے کیوں قتل کر رہے ہو۔۔۔ تم دیوانے ہو۔۔۔ پاگل ہو۔"

"میں اس صدی کا سب سے بڑا اور عقل مند ترین آدمی ہوں کیپٹن۔" انگریز چیخ کر بولا۔ موسیقی کی تیز آواز کی بناء پر ایک دوسرے تک اپنی آوازیں پہنچانے کے لیے انہیں حلق پھاڑنا پڑتا تھا۔

شاہد پھر چیخا۔۔۔ اور فیاض کا سر چکرا گیا۔ لڑکی اس پر جُھکی ہوئی تھی اور اس کا ہاتھ۔۔۔

"لڑکی، انگریز دھاڑا۔۔۔ اب میں تمہیں قتل کر دوں گا۔۔۔ تیسرا وار خطا نہ کرے۔۔۔ چلو۔۔۔"

لڑکی نے صوفے سے خنجر کھینچا اور ناچنے لگی۔

اب شاہد اس طرح گڑگڑا رہا تھا جیسے ولیوں اور پیروں سے مدد مانگ رہا ہو۔

وہ ناچ رہی تھی اس کے ہاتھ میں خنجر چمک رہا تھا۔ تیسرا وار۔۔۔ اسے یقینی طور پر موت کے منہ میں لے جائے گا۔ کیپٹن فیاض سوچ رہا تھا۔

"تم کیا کر رہے ہو سور کے بچے؟" وہ ہذیانی انداز میں چیخا۔

"اسے لے جاو یہاں سے دفع کرو۔" انگریز نے گرج کر کہا اور فیاض کو داہنی جانب والے دروازے میں دھکیل دیا گیا۔ وہ فرش پر گر کر کسی چوٹ کھائے ہوئے مینڈک کی طرح کانپنے لگا۔ اس کی کنپٹیاں سنسنا رہی تھیں اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بے ہوش ہو جائے گا۔


۞​



مل ایریا میں یہ تیسری برہنہ لاش۔۔۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سارے شہر کی پولیس یہیں آ گئی ہو۔ خود محکمہ سراغ رسانی کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب بھی وہاں موجود تھے۔۔۔ لاش کے گرد خاکی وردی والوں کا ایک بہت بڑا دائرہ تھا جس کا قطر چار سو گز سے کسی طرح کم نہ رہا ہو گا۔ وہاں سے پبلک کو ہٹانے کے لیے پولیس کو کئی بار لاٹھی چارج بھی کرنا پڑا تھا۔

رحمان صاحب نے عمران کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر وہ وہاں سے چلا نہ گیا تو زبردستی ہٹا دیا جائے گا۔ لیکن عمران اب بھی ان کے قریب ہی کھڑا ادھر اُدھر کی بے تُکی ہانک رہا تھا۔

لاش پر دُھوپ پھیل گئی تھی اور مل کی چمنی سے نکلنے والے گنجان دھوئیں کا عکس اُن پر پڑ رہا تھا۔

"مجھے بڑی حیرت ہے ڈیڈی" عمران رحمان صاحب سے کہہ رہا تھا ، "فیاض کا طریق کار نہیں معلوم ہوتا۔ اس میں اتنی سمجھ بُوجھ نہیں رہی کہ کوئی پیچیدہ راہ اختیار کر سکے اور پھر یہ ویسے ہی بالکل بے تُکی بات معلوم ہوتی ہے۔"

"میں کہتا ہوں تم جاو یہاں سے۔"

"نہیں ڈیڈی ، فی الحال مجھے یہیں رہنے دیجیے۔ اس میں آپ کے محکمے کا فائدہ ہے۔"

"بکواس مت کرو۔"

"اچھا اب میں بالکل خاموش رہوں گا۔ لیکن مجھے یہاں کچھ دیر اور رکنے دیجیے مگر آپ تک فیاض کا دوسرا پیغام کیسے پہنچے گا؟"

"اس کا انتظام کیا جا چکا ہے۔ آفس میں کال ریسیو کر لی جائے گی۔"

"ٹھیک ہے۔۔۔ اچھا اب میں بالکل خاموش ہوں، لیکن اس گدھے نے وہی حرکت کی ہے کم از کم لاش کو لنگوٹ ہی بندھوا دی ہوتی ۔"

"شٹ اپ۔۔۔"

"اب نہیں بولوں گا۔" عمران نے سختی سے ہونٹ بند کر لیے۔

دھوپ میں گرمی بڑھتی جا رہی تھی اور لاش کے گرد گھیرا ڈالنے والے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے تھے کہ اچانک لاش متحرک نظر آنے لگی۔۔۔ مردہ شاہد۔۔۔ ہاتھ پیر پھیکن رہا تھا اور پھر سننے والوں نے ایسی آوازیں سنیں کہ انہیں اپنے کانوں پر یقین کرنا دشوار معلوم ہونے لگا۔۔۔ شاہد کسی نوزائیدہ بچے کی طرح حلق پھاڑ رہا تھا۔ "اُو آو۔۔۔ اُو آ۔۔۔ اُوآ۔۔۔"

اور بالکل اسی طرح ہاتھ پیر پھینک رہا تھا جیسے ابھی ابھی پیدا ہوا ہو۔

"اس عمر کے بچوں کو تو کپڑے پہن کر ہی پیدا ہونا چاہیے۔" عمران تشویش کُن لہجے میں بڑبڑایا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top