خطرناک لاشیں صفحہ 6 تا 15

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فہیم

لائبریرین
محکمہ سراغ رسانی کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب نے مضطربانہ انداز میں سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض کے نمبر ڈائیل کئے اور پھر تھوڑی دیر بعد ماؤتھ پیس میں بولے رحمان اسپیکنگ! فوراً آؤ۔ میں آفس سے بول رہا ہوں۔
سلسلہ منطقع کرکے انہوں نے سامنے پھیلے ہوئے کاغذات سمیٹے اور میز پر رکھی ہوئی گھنٹی بجائی۔ ایک خوش پوش اور وجیہہ آدمی چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔
رحمان صاحب آنکھوں کی جنبش سے کاغذات کی طرف اشارہ کرکے پائپ میں تمباکو بھرنے لگے۔ ان کی آنکھوں میں گہرے تفکر کے آثار ہویدا تھے۔
آنے والے نے کاغذات اکھٹے کرکے چمڑے کے ایک تھیلے میں بند کئے اور دوسری میز پر جاکر تھیلے کو سیلیگ ویکس سے سیل کرنے لگا۔ کمرے کی فضا پر بوجھل سی خاموشی مسلط تھی اور بالکل ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے بیٹھنے والے کبھی بولتے ہی نہ ہوں۔
تھیلا سیل کرکے وہ آدمی اسے پھر رحمان صاحب کی میز پر لایا! رحمان صاحب نے اس پر لگی ہوئی سیلوں کا جائزہ لیا پھر ایک سیل سے منسلکہ کارڈ پر اپنے دستخط کرنے لگے!
اتنے میں چپڑاسی نے آکر ایک وزیٹنگ کارڈ پیش کیا۔ یہ کارڈ غالباً کیپٹن فیاض ہی کا تھا! رحمان صاحب نے سر ہلا کر آنے والے کے داخلے کی اجازت دی! چپڑاسی پھر سے باہر چلاگیا! کیپٹن فیاض کے اندر داخل ہوتے ہی وہ آدمی تھیلا لہرے باہر نکل گیا!
بیٹھ جاؤ! رحمان صاحب نے فیاض کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ پائپ سلگارہے تھے! فیاض کا چہرہ اترا ہوا تھا! ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ یہاں محض ڈانٹ پھنکار سننے کے لئے آیا ہو!
ہاں کیا قصہ ہے؟
کیا عرض کروں جناب! یہ معاملہ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔
میں صرف واقعہ معلوم کرنا چاہتا ہوں!
فیاض نے ایک طویل سانس لے کر ہونٹوں پر زبان پھیری اور پھر بولا! آج روشن آباد میں ایک لاش سڑک پر پائی گئی۔ روشن آباد پولیس اسٹیشن کا انچارج اس کی اطلاع ملتے ہی موقعہ واردات پر پہنچا لیکن لاش پر جھکا ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پھر نہ وہاں لاش کا پتہ تھا اور نہ انچارج کا!
فیاض نے خاموش ہوکر پھر ایک طویل سانس لی اور تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ لیکن تقریباً سوگز کے گھیرے میں لاتعداد گوشت کے تکڑے تکڑے بکھرے ہوئے نظر آرہے تھے!
بم! رحمان صاحب نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہوئے پوچھا!
خدا بہتر جانتا ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا! کیونکہ ابھی تک کوئی ایسی شہادت نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ انچارج پر بم پھینکا گیا تھا! ایسے نشانات بھی نہیں ملے کہ بم کے متعلق سوچا جاسکے۔ ویسے دھماکہ تو دور دور تک سنا گیا تھا۔
پھر آخر اسے کیا کہو گے؟
کیا عرض کیا جائے جناب کچھ سمجھ میں نہیں آتا!
لاش کی شناخت ہوسکی تھی!
نہیں جناب اس کی تو نوبت ہی نہیں آنے پائی!
سنا ہے لاش بالکل برہنہ تھی!
جی ہاں! بالکل برہنہ!
زخم کے نشانات!
نہیں جناب! جن لوگوں نے لاش دیکھ کر تھانے میں اطلاع پہنچائی تھی ان کا بیان ہے کہ نہ تو انہوں نے لاش کے آس پاس کہیں خون کے دھبے دیکھے تھے اور نہ مرنے الے ہی کے جسم پر کہیں کوئی زخم تھا!
فیاض!
جناب والا!
کیا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ لاش الٹ پلٹ کر دیکھی گئی تھی!
جی نہیں!
پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ لاش پر زخم نہیں تھے۔
میں عرض کیا نا کہ یہ ان لوگوں کا بیان ہے جس کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی! انچارج کچھ بتانے کے لئے زندہ ہی نہیں بچا!
مرنے والا کوئی غیر ملکی تو نہیں تھا!
میری دانست میں تو وہ ایشیاء ہی کے کسی ملک سے تعلق رکھتا تھا ورنہ اس کے کپڑےکیوں اتار لیے جاتے!
میں نہیں سمجھا!
غالباً اس کی قومیت ہی چھپانے کے لئے اس کا لباس اتار لیا گیا تھا!
ہاں یہ چیز کسی حد تک ممکن ہے! رحمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا! لیکن کیا آس پاس کے کسی آدمی نے مرنے والے کو پہچانا نہیں تھا!
جی نہیں! ابھی تک ایسی کوئی اطلاع نہیں مل سکی!
پھر اب تم کیا کرو گے!
جب تک معاملات کی نوعیت سمجھنے نہ آئے!
معاملات کی نوعیت سمجھنے کیلئے تم اسی نالائق کے پاس دوڑو گے! غالباً اشارہ عمران کی طرف تھا۔
ضروری نہیں جناب! پھر اگر دوڑنا ہی پڑا تو ظاہر ہے کام نکلنے سے مطلب!
بکواس ہے! اسی طرح سارے کیس سیکرٹ سروس والوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں! اگر یہی حال رہا تو پھر اپنے محکمے کا وجود ہی عضو معطل ہوکر رہ جائے گا! میں نہیں سمجھ سکتا کہ محکمہ خارجہ نے داخلی امور میں کیوں دخل اندازی شروع کردی ہے!
میں نہیں سمجھا!
کچھ نہیں! رحمان صاحب ٹال گئے! وہ اس نئے محکمے کے متعلق تفصیل میں نہیں جانا چاہتے تھے جس کا چیف آفیسر ایکسٹو تھا!
فیاض صرف اتنا ہی جانتا تھا کہ محکمہ خارجہ کی سیکرٹ سروس کے کچھ ممبر دارالحکومت میں بھی رہتے ہیں! اسے نہ تو ان کے اختیارات کا علم تھا اور نہ ہی معلوم تھا کہ ان کا طریق کار کیا ہے!
اور یہ بات بھی پہلی بار اس کے علم میں آئی تھی کہ عمران کو درمیان میں لانے سے کیس سیکرٹ سروس والوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں! اسے اس اطلاع پر حیرت ہوئی تھی۔ لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ رحمان صاحب اس مسئلے پر وضاحت کے ساتھ گفتگو کرنے پر تیار نہیں تو وہ بھی خاموش ہوگیا۔
ہوسکتا ہے کہ مقتول روشن آباد کا باشندہ ہو اگر کوشش کی جائے تو معلوم ہوسکتا ہے!
جی ہاں، میں کوشش کررہا ہوں! لیکن ابھی تک کوئی امید افزا صورت نہیں نظر آتی!
اس واقعہ کے کس پہلو پر تم زیادہ زور دے رہے ہو!
دھماکے پر جناب! یہ ایک غیر معمولی چیز تھی! ایسے واقعات تو کبھی افواہاً بھی سننے میں نہیں آئے! پھر اس دھماکے کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ لاش کی شناخت نہ ہوسکے!
لیکن وہ دھماکہ پہلے بھی تو ہوسکتا تھا! رحمان صاحب نے کہا!
کیا یہ ضروری تھا کہ لاش اسی وقت ناقابلِ شناخت بنائی جاتی جب پولیس وہاں پہنچ جاتی!
اس سے پہلے ایسا کیوں نہ ہوا! اگر مقصد یہ تھا کہ اس طرح پولیس کو دھشت زدہ کیا جائے تو پھر اس کا مقصد بھی تلاش کرنا پڑے گا!
دھماکے کے متعلق دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ وہ لاش کے پھٹنے ہی کی پناہ پر ہوا تھا!
قریب وجوار سے اگر بم پھینکا گیا ہوتا تو کچھ اور لوگوں کا بھی زخمی ہونا ضروری تھا! کیونکہ لاش کے گرد کافی بھیڑ تھی! مگر صرف انچارج ہی کے چیتھڑے اڑگئے جو لاش پر جھکا ہوا تھا، بقیہ لوگوں کے جسموں سے گوشت کے لوتھڑے ہی ٹکرائے تھے!
پہلی بات تو یہ کہ لاش برہنہ تھی! رحمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا!
تمہارا کیا خیال ہے کہ مرنے والے کی قومیت اور وطنیت چھپنانے کے لئے اسے برہنہ کردیا گیا تھا! پھر تمہاری دانست میں وہ دھماکہ اس لئے تھا کہ لاش ہی قابل شناخت نہ رہ جائے! یہ دونوں نظریات یک جا نہیں ہوسکتے ان میں سے ایک کو لامحالہ رد کرنا پڑے گا!
لاش بھی اسی وقت ناقابلِ شناخت بنائی جاسکتی تھی جب مرنے والے کی قومیت چھپانے کے لئے اسے برہنہ کیا گیا تھا! یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ کچھ دیر لاش کی نمائش کرنے کے بعد اسے ناقابلِ شناخت کیوں بناگیا!
جی ہاں یہ ایک بہت الجھاؤ ہے! حقیقت یہ ہے جناب کہ ابھی میں کوئی نظریہ قائم ہی نہیں کرسکا ہوں!
فون کی گھنٹی بجی رحمان صاحب نے ریسیور اٹھالیا! پھر فیاض سے بولے تمہاری کال ہے!
فیاض نے ریسیور ان سے لیا چند لحمے دوسری طرف سے بولنے والے کی طرف کان لگائے رہا پھر ریسیور رکھتا ہوا بولا۔ ایک آدمی میرے آفس میں لایا گیا ہے جس نے مقتول کو پھچلی شام دیکھا تھا!
رحمان صاحب سر کو خفیف سی جنبش دے کر بولے! مجھے حالات سے باخبر رکھنا!
بہت بہتر جناب!
جاسکتے ہو! رحمان صاحب نے کہا اور پائپ دانتوں میں دبائے کاغذات کی طرف متوجہ ہوگئے۔ فیاض اٹھ گیا۔
 

فہیم

لائبریرین
جولیا نے ایکسٹو کے نمبر ڈائل کئے! دوسری طرف سے فوراً ہی جواب ملا!
کیا خبر ہے! ایکسٹو کی آواز آئی!
کیپٹن فیاض کو ایک ایسا آدمی مل گیا ہے جس نے مرنے والے کو پچھلی شام کو ایک لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا۔
کہاں دیکھا تھا؟
کوئینس روڈ کے تیسرے چوراہے پر! وہ بہت زیادہ نشے میں تھا اور لڑکی سے کہہ رہا تھا کہ وہ پہاڑی ٹٹو ہے اس لئے کار میں نہیں بیٹھے گا! دونوں پیدل ہی چل رہے تھے لیکن وہ نشے کی زیادتی کی وجہ سے لڑکھڑارہا تھا! لڑکی نے ٹیکسی پر چلنے کی تجویز پیش کی تھی! اس پر اس نے کہا تھا کہ وہ اسی کی پیٹھ پر سوار ہوجائے پھر جہاں کہے گی سرپٹ دوڑتا ہوا لے جائے گا۔ وہ خود ہی پہاڑی ٹٹو ہے کار میں نہیں بیٹھے گا!
پھر!
گواہ ان کا تماشہ دیکھنے کے لئے کچھ دیر وہاں رکا تھا! پھر لڑکی نے ایک ٹیکسی رکوائی لی اور وہ وہاں سے چلے گئے تھے! اتفاق سے گواہ نے آج لاش بھی دیکھی تھی اور اس پر نظر پڑتے ہی اسے پچھلی رات کا واقعہ یاد آگیا تھا۔
مرنے والے کے متعلق اس نے کیا بتایا ہے؟ کیا وہ کوئی مقامی تھا!
جی نہیں اس کا بیان ہے کہ وہ اسے نیپالی معلوم ہوا تھا! لڑکی اور وہ دونوں انگریزی میں گفتگو کررہے تھے! لڑکی سفید فام تھی! لیکن گواہ یہ نہیں بتاسکا کہ اس کا تعلق مغرب کے کس ملک سے ہوسکتا ہے۔!
گواہ کے متعلق تفصیل!
وہ جوزف اینڈ جوزف کی فرم میں چیف اکاؤنٹنٹ ہے! نام جعفر سعید تیرہ جاوید اسٹریٹ میں رہتا ہے!
کیا تم نے براہِ راست گفت اسی آدمی جعفر سعید سے معلومات حاصل کی ہیں۔
جی نہیں! یہ اطلاعات صفدر نے سوپر فیاض کے آفس سے فراہم کی ہیں۔
اس آدمی سے براہِ راست گفت و شنید کرو! اس کے لئے تم بذات خود ہی موزوں ہو!
بہت بہتر جناب!
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا! جولیا نے جیسے ہی ریسیور رکھا پھر گھنٹی بجی!
ہیلو! اس نے دوبارہ ریسیور اٹھا ماؤتھ پیس میں کہا!
صفدر اسپیکنگ!
یس صفدر پلیز!
کیپٹن فیاض کے آدمیوں نے جعفر سعید کی نگرانی شروع کردی ہے! تین آدمی مستقل طور پر اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں! یہ تعاقب تقریباً ساڑھے تین گھنٹے سے جاری ہے! اس وقت جعفر سعید اپنے آفس میں ہے لیکن وہ تینوں باہر اس کے منتظر ہیں!
اس تعاقب یا نگرانی کا مقصد کیا ہے!
مقصد نہیں معلوم ہوسکا!
تم نے بروقت اطلاع دی! شکریہ! اور کچھ کہنا ہے!
نہیں دوسری طرف سے آواز آئی اور سلسلہ منقطع ہوگیا۔
جولیا نے ڈس کنکٹ کرکے پھر ایکسٹو کے نمبر ڈائل کیے اور صفدر سے ملی ہوئی اطلاع اس تک پہنچائی۔
اگر فیاض کے آدمی اس کا تعاقب کررہے ہیں تو تم اس سے ہرگز نہ ملنا! دوسری طرف سے آواز آئی۔ دوسرے احکامات کا انتظار کرو۔
ایکسٹو نے سلسلہ منقطع کردیا۔

عمران نے کوئنس روڈ کی تیرھویں عمارت کے سامنے رک کر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر کمپاؤنڈ میں داخل ہوگیا۔ اسے یقین تھا کہ آس پاس کوئی ایسا آدمی موجود نہیں جس پر نگرانی کرنے کا شبہ کیا جاسکے اور مختصر سی روش طے کرکے برآمدے میں آیا! دوسرے ہی لحمے میں اس کی انگلی کال بیل کے بٹن پر تھی!
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک بوڑھے آدمی نے باہر سر نکال کر عمران کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا!
کیا مسٹر جعفر سعید تشریف رکھتے ہیں ہیں! اس نے پوچھا۔
جی فرمائیے!
آپ ہی ہیں!
جی ہاں!
مجھے کیپٹن فیاض نے بھیجا ہے۔
بوڑھے نے ایک طویل سانس لی اور مردہ سی آواز میں بولا۔ تشریف لائیے۔ وہ ایک طرف ہٹ گیا۔
کچھ دیر بعد عمران ایک مختصر نشست کے کمرے میں بیٹھا اس سے گفتگو کررہا تھا۔
آپ کو یقین ہے کہ وہ کوئی نیپالی ہی تھا!
میرا اندازہ ہے! میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا! ویسے اس کے چہرے کی بناوٹ نیپالیوں جیسی ہی تھی!
میں آپ کی یاداشت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا مسٹر سعید آپ نے اسے سرراہے دیکھنے کے باوجود بھی مردہ حالت میں پہچان لیا!
پہچان لینے کی وجہ تھی۔ میں نے اسے اسطرح نہیں دیکھا تھا جیسے دو اجنبی قریب سے گزرتے وقت ایک دوسرے پر یونہی لایعنی سی نظریں ڈالتے ہیں! میں تو اس کے بہکنے کے تماشے دیر تک دیکھتا رہا تھا!
لڑکی دیسی ہی تھی۔
جی نہیں! مجھے یقین ہے کہ وہ یورپین تھی! لیکن پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ اس کی صحیح قومیت کا اندازہ نہیں کرپایا تھا! ویسے وہ دونوں ہی انگریزی میں گفتگو کررہے تھے۔
لڑکی کا لہجہ انگریزوں کا سا نہیں تھا۔ عمران نے پوچھا۔
نہیں مجھے تو نہیں معلوم ہوا تھا۔ سعید نے جواب دیا۔
آپ انہیں اسی چوراہے پر چھوڑ کر آگے بڑھ گئے تھے۔
جی نہیں میں اس وقت آگے بڑھا تھا جب وہ دونوں ایک ٹیکسی میں بیٹھ گئے تھے۔
لڑکی نے ٹیکسی ڈرائیور کو کہاں کا پتہ بتایا تھا۔
میں نہیں سن سکا تھا! اس نے اکتا کر ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
اگر یہ معلوم ہوتا کہ دوسرے دن اسکی برہنہ لاش نظر آئیگی تو ضرور سننے کی کوشش کرتا۔
عمران نے سوچا ممکن ہے یہ آدمی اخبارات میں اپنا نام دیکھنے کا شائق ہو اور جو کچھ بھی اس نے بتایا ہے اس میں سرے سے صداقت ہی نہ ہو! پھر بھی وہ اس سے لڑکی کا حلیہ پوچھ ہی بیٹھا۔
میرا خیال ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر خوبصورت تھی! اس سے زیادہ میں اور کچھ نہ بتا سکونگا۔
یہی بہت ہے کہ وہ غیر معمولی طور پر حسین تھی۔ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
اگر نہ ہوتی تو ہم یا آپ اس کا کیا بگاڑ لیتے۔ اچھا تکلیف دہی کی معافی چاہتا ہوں۔
عمران اٹھ گیا۔
 

فہیم

لائبریرین
تیسرے چوتھے دن پھر ایک برہنہ لاش شہر کے ایک حصے میں پائی گئی۔ لیکن کسی کو ہمت نہیں پڑی کہ لاش کے قریب بھی جاتا! قریبی تھانے میں بھی اس کی اطلاع پہنچی اور پولیس وہاں آگئی جہاں لاش پڑی ہوئی تھی لیکن دور ہی سے اس کا جائزہ لیا جاتا رہا۔
سورج ابھی نہیں طلوع ہوا تھا! سڑکیں پوری طرح نہیں جاگی تھیں پھر بھی اس حصے میں جہاں لاش پڑی ہوئی تھی تل رکھنے کی بھی جگہ نہ رہ گئی تھی!
لاش کے قریب جانے کی ہمت کوئی بھی نہ کرسکا! پھر سورج طلوع ہوا اور اہستہ آہستہ تمازت بڑھتی رہی اس دوران میں پولیس نے اتنا ہی کام کیا کہ لاٹھی چارج کرکے ٹریفک کے لئے سڑکیں صاف کردیں! اس وقت تک سارے آفیسر بھی وہاں پہنچ گئے تھے!
ایک بڑی ایمبولینس گاڑی لاش کے قریب لے جائی گئی! لیکن دوسرے ہی لمحے میں ایک زور دار دھماکے ساتھ لاش کے پرخچے اڑ گئے گوشت کے لوتھڑے اچھل اچھل کر دور تک بکھر گئے تھے! لیکن اس بار کسی زندہ آدمی کی شامت نہیں آئی تھی!
اس بھیڑ میں عمران بھی موجود تھا اور لاش کے اس طرح پھٹ جانے پر اس نے اس انداز میں اپنے سر کو جنبش دی تھی جیسے وہ کسی حد تک اس معاملے کی نوعیت کو سمجھ چکا ہو!
کیپٹن فیاض بھی اس کے قریب ہی موجود تھا! لیکن اسے علم نہیں تھا کہ عمران پہلے ہی اس معاملے میں دلچسپی لے رہا ہے۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں گرانڈ ہوٹل کے ایک کیبن میں بیٹھے گفتگو کررہے تھے! فیاض ہی اُسے یہاں لایا تھا۔
کیا خیال ہے؟ فیاض نے اس سے پوچھا!
میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سال ختم ہونے سے پہلے ہی شادی کرڈالوں! عمران نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا! بات دراصل یہ ہے کہ اب میں اپنی پرسکون زندگی سے تنگ آگیا ہوں! بیوی کی کائیں کائیں اور بچوں کی چیخ دھاڑ کے لیے کان ترس گئے رہے ہیں!
فیاض کچھ نہ بولا! وہ سوچ رہا تھا کہ عمران سے اس مسئلے پر گفتگو ہی نہ کرے! لیکن پھر وہ خود پر قابو نہ پاسکا!
کیا تم اِدھر اتفاقاً ہی نکل آئے تھے؟
ہاں! وہ اِدھر ہی تو ہے! کیا کہتے ہیں اسے! گھیرال! دریال! پتہ نہیں بھول رہاں! ارمال وہ اس گھر کو کیا کہتے ہیں جہاں کسی کی شادی ہوتی ہے! ارے ہاں! ستھرال!
سسرال! فیاض برا سا منہ بنا کر بولا!
ہاں وہ اِدھر ہی ہے جہاں باں چیت چل رہی ہے!
وہ توہ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی سے چل رہی تھی! فیاض جل کر بولا تھا!
نہیں تو! تم نے کسی اور کے متعلق سنا ہوگا! یہ تو ابھی کی بات ہے۔ میں نے خود ہی معاملات طے کئے ہیں!
مگر مجھے تمہاری شادی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے!
دلچسپی لے کر دیکھو کہ کیا حال کرتا ہوں تمہارا! عمران غصیلی آواز میں بولا! میں جانتا ہوں کہ اِدھر اُدھر کرنے والے میری شادی کبھی نہ ہونے دیں گے۔ لیکن میں اتنا گدھا نہیں ہوں کہ سسرال کا پتہ دوں گا! ہرگز نہیں! خود تم سر پٹخ کر مرجاؤ!
میرا دماغ مت چاٹا کرو! صرف اُسے الو بنانے کی کوشش کیا کرو جو تمہیں جانتا نہ ہو!
میں تو یہی سمجھتا تھا کہ تم مجھے نہیں جانتے! عمران نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔
کیا تم اس کیس میں دلچسپی لے رہے ہو!
کیوں نہ لوں سوپر فیاض! یہ کیس ہی ایسا ہے!
کیا خیال ہے ان لاشوں کے متعلق!
بہت اچھا خیال ہے! اگر کبھی کسی لڑکی کی لاش نظر آئی تو اسی سے شادی کرلوں گا۔
سوپر فیاض کیا بتاؤں! اگر میں کوئی ناول نویس ہوتا تو ان لاشوں کے متعلق ایک ناول ضرور لکھتا اور اس کا نام رکھتا لاشوں کے پٹاخے، کیا خیال ہے؟
میں تم سے مدد کا طالب نہیں ہوں!
مجھے معلوم ہے سوپر فیاض کہ تم نے آئے دن نئی اور خوبصورت اسٹینو لڑکیاں رکھ کر کافی ترقی کرلی ہے! اور کسی دن بیوی کے ہاتھوں وکٹوریہ کراس پاکر کرئی دہرمشالہ کھول لو گے! اور!
مجھ سے بے تکی بکواس نہ کرنا سمجھے!
تم مجھے بہت دنوں سے جانتے ہو، سوپر فیاض اور نہ بتانا!
تم سے گفتگو کرنا بھی......!
ہاں اپنی بے عزتی کرانے کے مترادف ہے! عمران نے سر ہلا کر کہا!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top