خزانہ

حکایت، مولانا جلال الدین رومیؒ

ایک کسان کو یہ تمنا تھی کہ جس طرح وہ محنت سے کام کرتا ہے اس کے بیٹے بھی کریں۔ جبکہ اس کے بیٹے کچھ کاہل تھے۔ محنت سے جی چراتے تھے۔
اچانک کسان بیمار ہوا۔ علاج کیا مگر کوئی دو کارگر نہ ہوئی۔ کسان مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا۔
دیکھو میں تمہیں اک خزانے کی خبر دیتا ہوں اور وہ خزانہ میرے کھیت میں گڑا ہے۔ جب میرے کفن دفن سے فارغ ہو جاؤ تو اسے ڈھونڈ لینا۔
اور کسان کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ باپ کے کفن دفن سے فارغ ہو کر کھیت کو چلے اور اس میں ہل چلایا۔ کافی گہری زمین کھود ڈالی مگر ان کو خزانہ نہ ملا۔ کسان کے بیٹے پسینے پسینے ہو گئے۔ مایوسی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے آخر کار ہل چلائی زمین میں انہوں نے بیج بو دیا۔ پودے نکلے تو خوب پھلے پھولے۔ جب وہ فصل کاٹ کر لائے تو ان کا گھر غلہ سے بھر گیا یہاں تک کہ بہت سا غلہ انہوں نے فروخت کر دیا پھر بھی ختم ہونے میں نہ آیا تو خوش ہو کر بولے۔
’’اصلی خزانہ تو یہ ہے۔ اگر ہم یونہی محنت کریں تو یہ خزانہ ہمیں ہمیشہ ملتا رہے گا۔‘‘
 
Top