خدمت کا سامراج دشمن ایجنڈا

یوسف-2

محفلین
بیان نہیں کر سکتا، مجھے اس وقت کتنی خوشی ہوئی۔ میں نے انہیں ایک طویل عرصے بعد سنا تھا۔ علالت کے باوجود انہوں نے دو گھنٹے تک علم و حکمت کے جوموتی پروئے اس نے اچھے دنوں کی یاد تازہ کر دی۔
پروفیسر خورشید احمد ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ سید مودودیؒ کی فکر کو آگے لے جانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ان کی معاشیات میں تعلیم، ایک طویل عرصے تک لندن میں قیام، بین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت، لگتا تھا فطرت ان کی تربیت ہی اس مقصد کے لئے کر رہی ہے۔ انہوں نے جو ادارے قائم کئے وہ اپنی مثال آپ تھے۔ کراچی کی اسلامی ریسرچ اکیڈیمی، اسلام آباد کی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اور برطانیہ میں لیسٹر کے مقام پر اسلامک فاؤنڈیشن۔ اس سے پہلے چراغ راہ کے مدیر کے طور پر انہوں نے اہل دانش کو حیران کر دیا تھا۔ اب شاید اسلامی ذہن رکھنے والوں پر پاکستان میں مایوسیوں کے ایسے تاریک بادل چھا گئے ہیں کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ پروفیسر صاحب بھی علیل چلے آئے تھے، مگر اس دن یوں لگا کہ مایوسیوں کے ان بادلوں کا پردہ چاک کرکے سورج کی کرنیں سلام پیش کر رہی ہیں۔
ہمارے علامہ اقبال، ملت اسلامیہ کے عظیم محسن جمال الدین افغانی کے بے پناہ قائل تھے، انہیں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا اصل موسس سمجھتے تھے، تاہم ان کا خیال تھا کہ اگر افغانی کی صلاحیتیں ملتِ اسلامیہ کے اتحاد کی جدوجہد کی وجہ سے دوسری جہتوں میں صرف ہونے کے بجائے صرف اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات ثابت کرنے میں لگ جاتیں، تو شاید وہ اس میدان میں غیر معمولی کام کر جاتے۔ کیا کیا جائے ہم ایک لمبے عرصے سے ایسے کام میں لگے ہوئے ہیں جہاں فکری طور پر ہماری نابغہ شخصیات کو عمل کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔ پروفیسر خورشید کو بھی یہ فرض ادا کرنا پڑا۔
وفور شوق میں یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ ذہن کے دریچے کھولنے والی یہ تقریر کہاں سنی ہے۔ اسلام آباد میں یہ ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی جس میں عالم اسلام کے دس ممالک کی این جی اوز اکٹھی تھیں۔ الخدمت اس کی میزبان تھی۔ اب میں الخدمت کا تعارف کرانے بیٹھا تو بات دور نکل جائے گی۔ کئی بار اس کا تذکرہ کر چکا ہوں۔ یہ وہی ادارہ ہے جس کے سربراہ کراچی کے نعمت اللہ خاں تھے، اب یہ قیادت نوجوان نسل کو منتقل ہو چکی ہے۔ میاں عبدالشکور یونیورسٹی کے زمانے سے ہمارے ساتھی ہیں۔ وہ اس کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ ان کے محبت بھرے حکم نامے سے مجبور ہو کر میں یہاں حاضر تھا۔ پتا چلا کہ پاکستان میں سیلاب زدگان اور زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے جب مختلف ملک کی این جی اوز آئیں تو ایک خیال نے جنم لیا، آخر کیوں نہ مسلمان این جی اوز کو متحدہ کیا جائے، خیال نے تقویت پکڑی۔ پہلی کانفرنس ملائیشیا میں ہوئی، دوسری ترکی میں اور اب تیسری پاکستان میں ہو رہی تھی۔
الخدمت کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے بڑے حیران کن اعداد و شمار پیش کئے۔ ان کا کہنا تھا دنیا میں ایک ارب40 کروڑ افراد اس وقت انتہائی حد غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چھ میں سے ایک شخص ایسا ہے جو بہت ہی غریب ہے۔ حقیقت میں غریب ہے، غربت کے اس مقام پر ہے کہ زندگی اس پر بوجھ ہے۔ اسے ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر تین سیکنڈ میں ایک بچہ بھوک کے ہاتھوں مر جاتا ہے۔ جی ہاں، ہر تین سیکنڈ میں ایک بچہ۔ اور اتنی ہی تعداد میں علاج کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے بچوں کی ہلاکت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کروڑوں لوگ اپنے ہی وطن میں بے گھر ہیں۔ یہ جنہیں آئی ڈی پی کہتے ہیں، انٹرنلی ڈس پلیسڈ پرسنز۔ ہم نے تو یہ اصطلاح سوات آپریشن کے بعد سنی تھی۔ یہ وہ مہاجر تھے جو کہیں دوسرے ملک سے نہیں آئے تھے، اپنے ہی وطن میں بے گھر ہوئے تھے، اس جنگ کے نتیجے میں جسے ہم اب اپنی ہی جنگ سمجھ رہے ہیں۔ اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ اب یہ بنتی بھی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر ان لاکھوں کروڑوں مہاجروں کی تعداد کا تین چوتھائی حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، عالمی استعمار ہم پر کیا قیامتیں ڈھا رہا ہے۔ دنیا بھر میں ہر جگہ مسلمان بے گھر ہیں اور طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ کیا یہ ان کا مقدر ہے؟
ہمارے ان دوستوں کو خیال آیا کہ کیا وجہ ہے کہ دنیا میں غیر مسلمان این جی اوز کی تعداد بھی زیادہ ہے اور ان کے درمیان اتحاد بھی حالانکہ مسلمانوں میں دوسروں کی مدد کا جذبہ دینی طور پر زیادہ ہو نا چاہئے۔ اس کی وجہ انہوں نے تو نہیں بتائی میں عرض کئے دیتا ہوں۔ پروفیسر خورشید نے ٹھیک کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سامراج کے کام کرنے کے تین ذریعے ہیں۔ ریاست، کارپوریشن اور این جی اوز۔ میرا تو شروع ہی سے خیال ہے کہ سرمایہ داری نظام اپنے دفاع کے لئے چند ریاستوں کی فوجی قوت استعمال کرتا ہے اور اس نے اپنے کارپوریٹ سیکٹر کو اس کام پر لگا رکھا ہے کہ وہ تیسری دنیا میں این جی او کے ذریعے کام کرکے ان کے منہ بند رکھیں، یا ان کی تسلی کراتے رہیں۔ یہ جو سول سوسائٹی کا این جی او والا تصور ہے، میں اس کے خلاف بولتا بھی رہتا ہوں اور لکھتا بھی رہتا ہوں۔ اس سے کچلے ہوئے اور پسے ہوئے مقہورد مجبور لوگوں کی عارضی تسلی تو ہو جاتی ہے۔ ان کی قسمت نہیں بدلتی ۔ زلزلے، سیلاب اور طوفان میں دنیا بھر کی این جی اوز نے ہمارے لوگوں کی مدد کی۔ یہ تو مشکل میں گھرے ہوئے لوگوں کی مدد ہے۔ اس سے ان کا مقدر تو مستقل طور پر نہیں بدلا۔ اکثر حوالہ دیتا ہوں کہ پاکستان کے نامور سماجی کارکن اختر حمید خاں نے اورنگی میں کام کرنے سے پہلے مشرقی پاکستان میں کومیلا میں یو این او کے پیسے سے اتنے ڈالر لٹائے کہ بقول کسے ویسے ہی پھینک دیئے جاتے تو کھیتوں سے ہُن اگنے لگتا۔ مگر ایک ہی باغیانہ لہرنے بنگلہ دیش بننے سے پہلے ہی سب کچھ ملیا میٹ کر دیا۔ کاش کوئی خدمت کا ایسا تصور پیش کرے جس سے ہماری مسلمان تنظیمیں فائدہ اٹھا سکیں۔
پروفیسر خورشید احمد نے اس پر سیر حاصل بحث کی۔ انہوں نے پہلے تو اسلام میں وقف یا اوقاف کے تصور اور تاریخ پر تفصیل سے گفتگو کی۔ یہ تصور عالم اسلام میں کتنا پرانا اور مضبوط ہے، یہ سب کچھ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں۔ مسلمانوں میں خیرات کا تصور ویسے بھی اتنا راسخ ہے کہ پروفیسر صاحب نے آغا خاں یونیورسٹی کے ایک سروے کا حوالہ دیا جو چند برس پہلے کیا گیا تھا جس کے مطابق صرف پاکستانی ہر سال100ارب روپے سے زیادہ راہ خدا میں دیتے ہیں۔ انہوں نے غزہ کی مثال دی جنہیں غنیم نے چار طرف سے برسوں تک محاصرے میں لے رکھا ہے اور جہاں اسرائیلی راکٹ اور بمبار طیارے گاہے بمباری کرکے گھروں کے گھر تباہ کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ کیسے جیتے ہیں۔ پورا محلہ یا علاقہ خاندان کی طرح اکٹھاہے۔ وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کوئی بھو کا نہ رہے۔ جس کے پاس جو ہوتا ہے، وہ لے آتا ہے سب مل کر کھا پی لیتے ہیں اور زندگی کا سامان کرتے ہیں۔ باقی معاملات بھی ایسے ہی طے کرتے ہیں، جی ہاں، خدمت بھی ان کی شخصیت کا ایک بہت بڑا جزو تھا۔
ایک بات انہوں نے بہت بنیادی کہی۔ وہ یہ کہ رسالت سے پہلے بھی حضورؐ کی شخصیت کے تین پہلو تھے جن کے عرب معترف تھے۔ امانت، صداقت اور خدمت ۔ اس سے انہوں نے دلوں کو مسخر کر رکھا تھا۔ ہمارے لئے بھی یہی رہنما اصول ہیں۔ اوپر میں نے عرض کیا کہ این جی اوز کا یہ مغربی تصور تو عارضی بندوبست ہے جسے مابعد جدیدیت کے زمانے میں اس لئے پیدا کیا گیا کہ پسے ہوئے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرکے ان کے غصے کو قابو میں رکھا جائے مبادا ان کے دلوں میں انقلابی روح بیدار ہونے لگے۔ پروفیسر صاحب اسلامی بھی ہیں، انقلابی بھی، معیشت دان بھی، انہوں نے مسلمان این جی اوز کے لئے لائحہ عمل کے جو چار نکات پیش کئے وہ گویا اس ایجنڈے کا جواب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلا کام یقیناًریلیف ہے۔ زلزلہ، طوفان، سیلاب، بے گھری اور دربدری ان سب میں فوری مدد کی ضرورت ہے۔ اس میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔ اس کے بعد جو دو شعبے اہم ہیں وہ تعلیم اور صحت کے ہیں، مگر چوتھا شعبہ بھی ہے جو عام طور پر نظر سے اوجھل ہو جاتاہے، وہ ہے ڈویلپمنٹ کا۔ مطلب یہ کہ آپ اپنے لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں بھی مدد دیں، یہ نہیں کہ مشکل وقت میں یا سوشل سیکٹر میں معاونت کردی ، مگر ان کے لئے مستقل روزگار یا کیرئیر بنانے کا بندوبست نہ کیا۔
ہمارے ہاں یہ بات عام طور پر زکوٰۃ کے اس تصور سے آتی ہے کہ اسے کسی اجتماعی ادارے میں سرمایہ کاری کے طور پر لگانے کے بجائے، فرد کی ملکیت میں دیا جائے۔ پاکستان کے ممتاز قانون دان اور دانش ور خالد اسحاق مرحوم فرمایاکرتے تھے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں اس مسئلے پر انہوں نے بہت زور لگایا، مگر ایک طرح کی ذہنی رکاوٹ موجود رہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس بنیادی بات نے ایک ایسا مائینڈ سیٹ بنا دیا۔ جس کی وجہ سے ہماری توجہ ایک خاص سمت نہ جا سکی جسے پروفیسر خورشید صاحب اپنی اصطلاح میں ڈویلپمنٹ کہہ رہے تھے۔ اب انہوں نے جو بات کی تو گویا ایک بنیادی فکر مہیا کی جس کی طرف عالمی این جی اوز تو شاذ ہی توجہ دیتی ہیں۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ غریبوں کومضبوط معاشی بنیادوں پر کھڑا کریں۔ یہ تو بس نیند کی گولی دے کر سلائے رکھنا چاہتی ہیں، یہ عارضی امداد ہی تو ہے۔
بہت سی باتوں کے علاوہ پروفیسر صاحب نے کار خیر میں ڈسپلن اور تنظیم سازی پر بھی زور دیا۔ کس طرح ہماری عبادات میں یہ روح کار فرما ہے۔ نماز کے ارکان گنوا کر کہا کہ یوں سمجھو کہ یہ عبادت کی مینجمنٹ ہے۔ یہ لفظ انہوں نے اس مجمع کو سمجھانے کے لئے استعمال کیا۔ پھر تنظیموں کے باہمی اتحاد یاCollaboration کا تذکرہ چھیڑا اور اس کانفرنس کے مقاصد کو سراہا۔ ارے ، یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ اس تنظیم کا نام افراد یعنی انٹرنیشنل فیڈریشن فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ ہے۔
اس دن احساس ہوا کہ جو نوع انسانی کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، وہ عالمی سامراجی ایجنڈے سے جان چھڑا کر بھی رستہ نکال سکتے ہیں۔ ان کے لئے ایک ایک لائحہ عمل یاParadigmموجود ہے۔ میر اجو اعتراض ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر لگاکر کسی بڑے انقلاب سے توجہ ہٹا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کاروکاری، چائلڈلیبر کے خلاف کام کرنا نیکی ہے، مگر اب یہ کام کرنے والے جاگیرداری نظام کے خلاف بات نہیں کرتے جن کے خاتمے کے بغیر یہ مقاصد بھی حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ اس نئے لائحہ عمل کے تحت خدمت کا جذبہ بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔ اسلام کی روح کے عین مطابق اور ان تنظیموں کے باہمی اتحاد سے سامراجیت کے ایجنڈے کا متبادل بھی مل سکتا ہے، یہ صرف صدقات بانٹنے کا کام نہیں، ایک پوری نسل کو اس شاہراہ پر گامزن کرنا ہے جو مادی اور روحانی ہر دو طرح کی ترقی کی ضامن ہو۔(ساجد میر کا کالم، روزنامہ نئی بات مؤرخہ 28 نومبر 2012 ء)
 
Top